صرف علی
محفلین
بھگت سنگھ نامنظور!
عبدالمجید عابد
’ہمیں آزادی نہیں چاہیے، ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لیں۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں استحصال اور غلامی کا یہ ذلت آمیز نظام قائم رہے۔ ہم ایسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سارے نظام کو انقلابی تبدیلی کے ذریعے بدل کر رکھ دے‘۔
یہ زریں الفاظ مارچ 1940 میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے کسی مقرر کے نہیں، نہ ہی ان الفاظ کو مارچ 2013 کے ’سونامی‘ میں شامل کسی راہنما نے ادا کیا۔ ان الفاظ کو ادا کرنے والا شخص، برصغیر کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والا ایک سپاہی تھا، جس نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی جان نچھاور کر دی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس وقت مینار پاکستان کے سائے تلے تبدیلی کے علم بردار فن تقریر کے جوہر دکھا رہے تھے، عین اسی وقت لاہور کے ایک دوسرے حصے میں چند افراد ’سرفروشی کی تمنا‘ رکھنے والوں کی یاد تازہ کر رہے تھے اور ان کو نہ صرف گالیوں سے نوازا گیا بلکہ ہاتھا پائی کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔
طوفان بد تمیزی برپا کرنے والے، ’اسلامی تشخص‘ کے ان ٹھیکے داروں نے بینر اٹھا رکھے تھے جن میں سے ایک کے مطابق ’شادمان فوارہ چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کی جسارت پر ہم بھرپور احتجاج کرتے ہیں‘۔
جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پرامن احتجاج کی آزادی شہریوں کو حاصل ہے، لیکن مخالفین پر تشدد کی اجازت کوئی قانون نہیں دیتا۔ اسی روز اخبار میں خبر چھپی کہ؛
’بھگت سنگھ کے چاہنے والے فوارہ چوک کا رخ نہ کریں، ہم کسی صورت بھگت سنگھ کو اہل اسلام اور اہل پاکستان کا ہیرو بننے کی اجازت نہیں دیں گے — منجانب بھگت سنگھ نامنظور ایکشن کمیٹی‘
ان جاہلوں نے کبھی تاریخ کا سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہوتا تو انہیں چند بنیادی حقائق کا اندازہ ہو جاتا۔ پہلی عرض تو یہ کہ ہیرو بننے کے لیے کسی بھی انسان کو شادمان کی تاجر برادری کا سرٹیفیکٹ نہیں چاہیے بلکہ تاریخ خود اس چیز کا تعین کرتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ بھگت سنگھ نے کبھی کسی مذہب کی حمایت کا دعوی نہیں کیا بلکہ وہ تو مذہب کی بنیاد پر تفریق کا سخت مخالف تھا۔
بھگت سنگھ نے برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، کسی مخصوص فرقے یا مذہب کی آزادی کے لیے نہیں۔ اگر بھگت سنگھ شادمان کے شاہینوں کی طرح تنگ نظر ہوتا تو کبھی ایک ہندو راہنما لالہ لاجپت رائے کے قتل کا انتقام نہ لیتا، نہ ہی گاندھی کی مخالفت کرتا۔ اور یاد رہے کہ یہ لالہ لاجپت رائے وہی صاحب تھے جن کا ایک خط جناح صاحب نے 23 مارچ 1940 کی اپنی تقریر میں پڑھا۔ اس خط میں لالہ جی نے لکھا تھا کہ میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے اور ہمیں اب کوئی راہ نجات نکالنی چاہیے۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہماری نصابی کتابوں سے محض سطحی اختلافات کی بنا پر بر صغیر کی تاریخ کے اہم کرداروں جیسے بھگت سنگھ، لالہ لاجپت رائے اور سبھاش چندر بوس کو نکال باہر کیا گیا۔ ابن خلدون نے کہا تھا کہ تاریخ کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوا کرتا، لیکن اس بات کا خیال ہمارے ارباب بست و کشاد کو کبھی نہیں آیا۔
تاریخ کا جنازہ صرف شادمان چوک تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ مینار پاکستان کے سائے تلے بھی تاریخ کی آرتی جلائی گئی۔ کے کے عزیز صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہمیں قرارداد لاہور سے متعلق تاریخ غلط پڑھائی جاتی ہے کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 24 مارچ تک جاری رہا اور طریق یہ ہے کہ کوئی بھی قرارداد اجلاس کے آخری روز پیش کی جاتی ہے۔
23 مارچ 1940 کو جناح صاحب نے تقریر تو ضرور کی لیکن قرارداد لاہور 24 مارچ کو پیش کی گئی۔
سونامی پارٹی نے اپنے ’تاریخ ساز‘ جلسے کے میدان کو پانی پت سے تشبیہ دی تھی۔ تاریخ کے طالب علم واقف ہیں کہ پانی پت کے میدان میں تین بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ سب سے پہلے وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تیموری النسل بادشاہ بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی سے جنگ کی۔
پانی پت کے مقام پر دوسری بڑی جنگ 1556 میں بابر کے پوتے، شہنشاہ اکبر نے راجا ہیمو کے خلاف لڑی۔ اس مقام پر تیسری بڑی جنگ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے مرہٹہ سرداروں کے خلاف لڑی۔
ہمیں کوشش کے باوجود اس دن کسی اخبار یا نشریاتی ادارے کی خبروں میں جلسے کے دوران کسی طرز کی لڑائی کا تذکرہ نہیں ملا۔ چند خواتین نے البتہ یہ شکایت ضرور کی کہ بارش کے باعث بھگدڑ مچنے کا چند من چلوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس طرز کے ’معرکوں‘ کو پانی پت سے مشابہت دینا ناانصافی ہوگی۔ البتہ خان صاحب کو بابر سے ضرور تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ بابر کا بہت مشہور قول ہے؛
’بابر بہ عیش کوش، عالم دوبارہ نیست‘ اور خان صاحب نے اپنی کافی ساری عمر اس قول کے عملی نمونے کے طور پر گزاری۔
اگر سونامی پارٹی والوں کی مراد پانی پت کی آخری جنگ تھی تو ان کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے صرف مرہٹوں کو شکست نہیں دی تھی بلکہ دہلی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، یعنی وہاں بھی ایک طرح کا سونامی آ گیا تھا۔
اس سونامی کے نتیجے میں دہلی کا کیا حشر ہوا، اس کی تفصیلات پھر کبھی سہی۔ خان صاحب اور انکا ٹولہ کس کے ایما پر کس کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں، علماء اس معاملے پر ابھی تک خاموش ہیں۔
ابھی یار لوگ جلسے کے حاضرین کی تعداد پر ہی بحث کر رہے تھے کہ خبر آئی کہ سونامی پارٹی نے جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی الحاق کا اعلان کیا ہے، گویا کہ ‘پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا’۔ اس عمل سے صاف ظاہر ہو گیا کہ شادمان کے تاجروں اور سونامی کے دعوے داروں کی سوچ میں کوئی خاص فرق نہیں اور جیالے لاکھ نعرے لگالیں، لیکن بھٹو مر چکا ہے اور مودودی ابھی تک زندہ ہے۔
http://urdu.dawn.com/2013/03/27/bhagat-singh-namanzoor-abdul-majeed-aq/
عبدالمجید عابد
’ہمیں آزادی نہیں چاہیے، ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لیں۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں استحصال اور غلامی کا یہ ذلت آمیز نظام قائم رہے۔ ہم ایسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سارے نظام کو انقلابی تبدیلی کے ذریعے بدل کر رکھ دے‘۔
یہ زریں الفاظ مارچ 1940 میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے کسی مقرر کے نہیں، نہ ہی ان الفاظ کو مارچ 2013 کے ’سونامی‘ میں شامل کسی راہنما نے ادا کیا۔ ان الفاظ کو ادا کرنے والا شخص، برصغیر کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والا ایک سپاہی تھا، جس نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی جان نچھاور کر دی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس وقت مینار پاکستان کے سائے تلے تبدیلی کے علم بردار فن تقریر کے جوہر دکھا رہے تھے، عین اسی وقت لاہور کے ایک دوسرے حصے میں چند افراد ’سرفروشی کی تمنا‘ رکھنے والوں کی یاد تازہ کر رہے تھے اور ان کو نہ صرف گالیوں سے نوازا گیا بلکہ ہاتھا پائی کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔
طوفان بد تمیزی برپا کرنے والے، ’اسلامی تشخص‘ کے ان ٹھیکے داروں نے بینر اٹھا رکھے تھے جن میں سے ایک کے مطابق ’شادمان فوارہ چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کی جسارت پر ہم بھرپور احتجاج کرتے ہیں‘۔
جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پرامن احتجاج کی آزادی شہریوں کو حاصل ہے، لیکن مخالفین پر تشدد کی اجازت کوئی قانون نہیں دیتا۔ اسی روز اخبار میں خبر چھپی کہ؛
’بھگت سنگھ کے چاہنے والے فوارہ چوک کا رخ نہ کریں، ہم کسی صورت بھگت سنگھ کو اہل اسلام اور اہل پاکستان کا ہیرو بننے کی اجازت نہیں دیں گے — منجانب بھگت سنگھ نامنظور ایکشن کمیٹی‘
ان جاہلوں نے کبھی تاریخ کا سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہوتا تو انہیں چند بنیادی حقائق کا اندازہ ہو جاتا۔ پہلی عرض تو یہ کہ ہیرو بننے کے لیے کسی بھی انسان کو شادمان کی تاجر برادری کا سرٹیفیکٹ نہیں چاہیے بلکہ تاریخ خود اس چیز کا تعین کرتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ بھگت سنگھ نے کبھی کسی مذہب کی حمایت کا دعوی نہیں کیا بلکہ وہ تو مذہب کی بنیاد پر تفریق کا سخت مخالف تھا۔
بھگت سنگھ نے برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، کسی مخصوص فرقے یا مذہب کی آزادی کے لیے نہیں۔ اگر بھگت سنگھ شادمان کے شاہینوں کی طرح تنگ نظر ہوتا تو کبھی ایک ہندو راہنما لالہ لاجپت رائے کے قتل کا انتقام نہ لیتا، نہ ہی گاندھی کی مخالفت کرتا۔ اور یاد رہے کہ یہ لالہ لاجپت رائے وہی صاحب تھے جن کا ایک خط جناح صاحب نے 23 مارچ 1940 کی اپنی تقریر میں پڑھا۔ اس خط میں لالہ جی نے لکھا تھا کہ میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے اور ہمیں اب کوئی راہ نجات نکالنی چاہیے۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہماری نصابی کتابوں سے محض سطحی اختلافات کی بنا پر بر صغیر کی تاریخ کے اہم کرداروں جیسے بھگت سنگھ، لالہ لاجپت رائے اور سبھاش چندر بوس کو نکال باہر کیا گیا۔ ابن خلدون نے کہا تھا کہ تاریخ کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوا کرتا، لیکن اس بات کا خیال ہمارے ارباب بست و کشاد کو کبھی نہیں آیا۔
تاریخ کا جنازہ صرف شادمان چوک تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ مینار پاکستان کے سائے تلے بھی تاریخ کی آرتی جلائی گئی۔ کے کے عزیز صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہمیں قرارداد لاہور سے متعلق تاریخ غلط پڑھائی جاتی ہے کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 24 مارچ تک جاری رہا اور طریق یہ ہے کہ کوئی بھی قرارداد اجلاس کے آخری روز پیش کی جاتی ہے۔
23 مارچ 1940 کو جناح صاحب نے تقریر تو ضرور کی لیکن قرارداد لاہور 24 مارچ کو پیش کی گئی۔
سونامی پارٹی نے اپنے ’تاریخ ساز‘ جلسے کے میدان کو پانی پت سے تشبیہ دی تھی۔ تاریخ کے طالب علم واقف ہیں کہ پانی پت کے میدان میں تین بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ سب سے پہلے وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تیموری النسل بادشاہ بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی سے جنگ کی۔
پانی پت کے مقام پر دوسری بڑی جنگ 1556 میں بابر کے پوتے، شہنشاہ اکبر نے راجا ہیمو کے خلاف لڑی۔ اس مقام پر تیسری بڑی جنگ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے مرہٹہ سرداروں کے خلاف لڑی۔
ہمیں کوشش کے باوجود اس دن کسی اخبار یا نشریاتی ادارے کی خبروں میں جلسے کے دوران کسی طرز کی لڑائی کا تذکرہ نہیں ملا۔ چند خواتین نے البتہ یہ شکایت ضرور کی کہ بارش کے باعث بھگدڑ مچنے کا چند من چلوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس طرز کے ’معرکوں‘ کو پانی پت سے مشابہت دینا ناانصافی ہوگی۔ البتہ خان صاحب کو بابر سے ضرور تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ بابر کا بہت مشہور قول ہے؛
’بابر بہ عیش کوش، عالم دوبارہ نیست‘ اور خان صاحب نے اپنی کافی ساری عمر اس قول کے عملی نمونے کے طور پر گزاری۔
اگر سونامی پارٹی والوں کی مراد پانی پت کی آخری جنگ تھی تو ان کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے صرف مرہٹوں کو شکست نہیں دی تھی بلکہ دہلی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، یعنی وہاں بھی ایک طرح کا سونامی آ گیا تھا۔
اس سونامی کے نتیجے میں دہلی کا کیا حشر ہوا، اس کی تفصیلات پھر کبھی سہی۔ خان صاحب اور انکا ٹولہ کس کے ایما پر کس کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں، علماء اس معاملے پر ابھی تک خاموش ہیں۔
ابھی یار لوگ جلسے کے حاضرین کی تعداد پر ہی بحث کر رہے تھے کہ خبر آئی کہ سونامی پارٹی نے جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی الحاق کا اعلان کیا ہے، گویا کہ ‘پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا’۔ اس عمل سے صاف ظاہر ہو گیا کہ شادمان کے تاجروں اور سونامی کے دعوے داروں کی سوچ میں کوئی خاص فرق نہیں اور جیالے لاکھ نعرے لگالیں، لیکن بھٹو مر چکا ہے اور مودودی ابھی تک زندہ ہے۔
http://urdu.dawn.com/2013/03/27/bhagat-singh-namanzoor-abdul-majeed-aq/