سید شہزاد ناصر
محفلین
مندر کی عمارت میں رہائشی لوگ بہت ساری طلسماتی اور ماورائی کہانیوں کے اسیر ہیں۔ فوٹو: فائل
قدیم لاہور کے مقام کے بارے میں مؤرخین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس وقت کے پرانے لاہور سے کچھ فاصلے پر واقع اچھرے کو قدیم لاہور کہا جا سکتا ہے۔ہندوستان میں کئی قدیم شہروں کے گرد فصیلوں میں موجود دروازوں کے نام نسبتی ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں کے رخ کی جانب ہونے کے باعث ان شہروں کے ناموں پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح پرانے لاہور میں دہلی اور کشمیری دروازوں کے رخ ان شہروں اور مقامات کی جانب ہیں۔ اسی طرح اگر لاہوری دروازے کی سیدھ میں دیکھا جائے تو اچھرہ کا علاقہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ قرین قیاس ہے کہ قدیم لاہور کا مقام اچھرہ ہی ہو۔ اچھرہ میں ہمیں دو قدیم مندروں کے حوالہ جات بھی تاریخ کی کتب میں ملتے ہیں۔ ایک مندر ’’چاند رات مندر‘‘ تھا جس کا رقبہ کئی کنال پر محیط تھا۔ لیکن اب اس مندر کے آثار ڈھونڈنے سے مل نہ پائیں گے۔ دوسرا مندر ’’بھیرو کا استھان‘‘ تھا۔ تاریخ کی کچھ کتب میں اسے ’’بھیرو استھان‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
’’استھان‘‘ ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مقام‘ جگہ‘ حالت‘ رہائش گاہ‘ مندر‘ مزار کے ہیں۔ ’’تھان‘‘ بھی ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مقام اور جگہ کے ہیں۔ چونکہ یہ مندر بھیرو سے منسوب ہے تو یہ مندر بھیرو کا مندر‘ یا بھیرو کی رہائش گاہ کے معنی میں لیا جاسکتا ہے ۔ اب ایک نگاہ بھیرو پر بھی ڈال لی جائے۔
ہندو اساطیر کی روشنی میں بھیرو نامی ایک دیوی کا تذکرہ ملتا ہے جو ہندوئوں کے لیے اپنے تقدس کے باعث مشہور ہے۔ اس کے بھگت کامیابی کے لئے اس کی پوجا کرتے ہیں۔ سید لطیف نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ میں اس مندر کے حوالے سے دیوی ہی کا ذکر کیا ہے۔
دیوی کے ساتھ ساتھ بھیرو نامی دیوتا بھی دیو مالائی کہانیوں کا ایک مشہور اور خاص کردار ہے۔ ہندوستان میں کئی مقامات پر اسی دیوتا کے نام سے بڑے بڑے مندر اور پوجا گھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہندو روایات میں یہ دیوتا اپنے غیض و غضب کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے بھگت عموماً اس کی پوجا اپنے دشمنوں پر کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ لاہور کی تاریخ کے حوالے سے کئی کتب میں یہ مندر اسی دیوتا سے منسوب ہے۔ یہ دیوتا شیوا جی اور دیوی ستی کا اوتار ہے۔
دیوی ستی کا باپ دکھشا نامی دیوتا تھا۔ دکھشا نے ایک بار بہت عظیم الشان یوجنا کا اہتمام کیا جس میں تمام دیوتاؤں کو مدعو کیا گیا لیکن شیوا کو نہ بلایا گیا۔ ستی دیوی کو اپنے شوہر کی بے عزتی کا گہرا رنج ہوا اور وہ اسی یوجنا کی آگ میں جل کر مر گئی۔ شیوا نے ستی دیوی کی موت کے باعث اس کے باپ دکھشا کو مار ڈالا اور یوجنا کی آگ سے اس کا جسم اٹھا لیا تاکہ وہ تاندوا کی رسم پوری کر سکے۔ اس کتھا کے آخر میں دھرتی کا پالن کرنے کے لئے وشنو دیوتا نے ستی کے جسم کے ٹکڑے پرتھوی (زمین) پر گرا دیئے جو کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گرے۔
جہاں جہاں وہ ٹکڑے گرے وہیں وہیں پر بھگتی کے مندر تعمیر ہوتے گئے۔ شیوا ان مندروں کی حفاظت کے لئے بھیرو کی شکل میں آتا ہے اور بھیرو کوتوال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کوتوال کے علاوہ بھیرو راہو اور یوگیوں کے دیوتا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یوگی اور تانترک بھگت شدھی حاصل کرنے کے لئے خاص منتروں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کئی طرح کی جسمانی مشقتیں بھی کرتے ہیں۔ یوگا اور تانترک یہ مشقیں نروان حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ان مشقوں کا ذکر بارہا گرو رجنیش المعروف اوشو نے بھی کیا ہے۔
لاہور میں موجود اس مندر کے ساتھ بھی ایک داستان جڑی ہوئی ہے۔ اس داستان کا مفصل ذکر مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ’’تحقیقات چشتی ص608 ) پر یوں کیا ہے۔
’’ایک شخص مسمی بدری ناتھ قوم بانیا لاہور میں دال تلنے کی دکان اندرون شاہ عالمی متصل پری محل رہا کرتا تھا۔ اس کا اظہار ہے کہ مبینہ ہمارے بزرگان کا ہے۔ جب حال مفصل اس سے دریافت کیا تو اس نے بیان کیا کہ میرا پڑدادا مسمی گودرشاہ بنارس میں ملازم دارا شکوہ بصد شاہجہانی تھا۔ کبھی معاملہ میں اس کے ذمہ مبلغات شاہی برآمد ہوئے۔ دارا شکوہ نے بہ نسبت اس کے حکم پھانسی دیا۔ اتفاقاً وہ پجاری بھیرو جی کا تھا۔
جس روز کہ صبح کو اس نے پھانسی پانی تھی، اس رات بھیرو شکل انسان ایک اونٹنی لے کر اس کے پاس آ پہنچا،اس کا محبس سے نکال کر اور تمام اسباب اس کا اونٹنی پر لاد کر اس کو اپنے ہم ردیف اونٹنی پر بٹھا کر باہر لے نکلی اور کہا: اپنی آنکھیں بند کر، اس نے بند کر لیں۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے کہا: کہ اب آنکھیں کھول ۔ اس دن اتوار کا دن تھا جب اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ اونٹنی والا کہتا ہے کہ میں بھیرو ہوں۔ پھر وہ اس جگہ میں کہ جہاں اب استھان ہے چھپ گئے۔
وہ یہ معاملہ دیکھ کر حیران ہوا اور یاد داشت کے واسطے اس جگہ مڑھی خام بطور نشان بنا دی۔ پھر وہ لاہور میں آ کر رہنے لگا۔ بعد چندے موضع اچھرا کے مراثیوں کو بلا کر کہا: کہ یہ استھان بھیرو جی کا ہے۔ اس پر تم ہمیشہ چراغ بتی کیا کرو میں تمہاری خدمت کیا کروں گا۔ پھر اس کا معمول رہا کہ بروز اتوار وہاں جاتا کیونکہ اول روز یہاں پہنچنے کا اتوار تھا۔ اسی واسطے اب تک معمول ہے کہ اتوار کو وہاں لوگ جاتے ہیں۔
بعد اس کے سن ایک ہزار اٹھانوے میں بتاریخ اٹھارویں اسوج وہ گودرشاہ مر گیا۔ بعد اس کے اس کا بیٹا وستی رام رہا۔ اس نے یہاں چبوترہ خشتی بنوایا اور شمال رویہ گنبد کے ایک چاہ نو تیار بھی جاری کرایا۔ اب وہ چاہ مسدود ہے۔ من بعد 1150میں وہ مر گیا۔ بعد اس کے بیٹے جو الا ناتھ نے وہاں چند کوٹھہ خام بنوا دیئے۔ اس اثنا میں موراں طوائف معشوقہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی والدہ کو سایہ جن ہوا۔ اس وقت جوالا ناتھ بن وستی رام لاہور میں جادوگر مشہور تھا۔
عہد خالصہ میں صرف ان کی دکان پر دال تلی جاتی تھی۔ اگر اور کوئی ارادہ تلنے دال کا کرتا تھا تو مشہور ہے کہ بزور جادو اس کی دکان جلا دیتے تھے۔ غرض موراں نے دستی رام (جوالا ناتھ) کو بلایا اور کہا کہ: میری والدہ کا سایہ دور کر دے۔ اس نے کہا: کہ ابھی دور ہو جائے گا مگر مجھ سے یہ اقرار کر کہ جب والدہ تیری اچھی ہو جائے تو تو اپنے مواضعات سے، جو کل ایک سو تھے‘ ایک سو گاڑی اینٹوں کی منگوا دے اور کچھ نقد بھی دیا۔
اس نے خشتوں سے یہاں عمارت بنوا دی اور پھر ایک ہزار چار سو روپیہ لگا کر ایک بارہ دری بنوائی۔ اور برابر قبضہ جوالا ناتھ کا رہا اور اس کا آدمی کاہنا مصر وہاں بیٹھا رہا۔ بعد اس کے رام چند برادر زادہ ساون مل نے وہ عمارت گرا کر مندر موجودہ بنوایا۔ اس تعمیر کو اب عرصہ بیس سال کا ہوا ہے۔ بعد اس کے راجہ لال سنگھ نے بعہد مہاراجہ دلیپ سنگھ اور عمارات جو اب موجود ہیں‘ بنوا دیں۔‘‘
مندر کی عمارت مختلف ادوار میں اضافہ کے ساتھ ایک وسیع وعریض احاطے پر مشتمل تھی۔ تعمیرات اور مرمتوں میں تبدیل و تفیر کا سلسلہ تقسیم تک جاری رہا۔ مندر کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص 239) پر یوں تحریر کیا۔
’’دروازہ چوکیوں دار کلاں اس مکان کا جنوبی دیوار میں متصل غربی گوشے کے ہے اور ڈیوڑھی اتنی بڑی ہے کہ ہاتھی مع عماری اس میں سے گزر سکتا ہے۔ پھر اس کے اندر اور بلند دیوار نئی تعمیر کی ہے۔ اس میں دروازہ مندر کے اندر جانے کے لئے بنا ہوا ہے۔ اس کے اندر بہت سے مکانات بنائے گئے ہیں۔ ایک پختہ مکان لانگریوں والا کہلاتا ہے یعنی اس جگہ میلے کے روز لنگر پکایا جاتا ہے۔ دوسرا مکان دو منزلہ دھونی والا مشہور ہے اس میں دن رات چراغ روشن رہتا ہے۔ کبھی گل نہیں ہوتا۔
تیسرا مکان خاص مندر کا ہے۔ یہ بڑا عالی شان مندر ہے۔ پہلے ایک منمن چبوترہ پختہ بنا ہوا ہے۔ اس کے گوشۂ ککنی پر چاہ کلاں ہے جس پر دو چرخیاں جاری ہیں اور ایک درخت کلاں جامن کا سایہ افگن ہے۔ یہ چاہ باوا لہر ناتھ مہنت نے تعمیر کیا تھا۔ اس کے جنوب کی سمت پختہ مندر عالی شان بھیرو جی کا ہے۔ مندر کے نیچے ایک اور چبوترہ پختہ بنایا گیا ہے جس کے بارہ پہل ہیں اور سینے تک بلند ہے۔
شرق کی سمت خشتی زینہ ہے۔ مندر کی صورت ہشت پہلو صنوبری ہے۔ اس کے آٹھوں پہلوؤں میں بارہ کی طرف آٹھ محرابیں ہیں جس کے سر پر تین تین گنبدیاں اور پنجرے لگے ہیں۔ ان پر گردنہ نہایت خوبصورت بنایا گیا ہے اور سر پر کلس ہے۔ دروازہ آمدورفت شرق کی سمت ہے۔ مندر کے اندر فرش پختہ ‘ چونہ گچ اوردیواریں پختہ‘ بیع میں ایک روئیں گھنٹہ کلاں آویزاں ہے۔ میانے میں تابہ سینہ بلند ایک چبوترہ مشکل بہ مشکل مینار ہشت پہلو‘ اس میں چراغ روئیں دن رات روشن رہتا ہے۔
باہر شرق کی سمت ایک پختہ دالان ہے جس کے پنج دہن ہیں۔ اس میں ایک چبوترہ دو گز مربع چونہ گچ‘ اس پر شب جی کا استھا پن ہے۔ یہاں جاتری لوگ آ کر پوجا کرتے ہیں۔ ان مکانات کے بغیر اور مکانات سمادھ و فراس و مکان دالان کلاں جس کو گدی کا دالان کہتے ہیں‘ پختہ تعمیر ہوئے ہیں اور شمال کی سمت ایک اور احاطہ ہے۔ اس میں درخت ہر قسم کے لگائے گئے ہیں اور بھی کوٹھڑیاں مندر کے خدام و پجاریوں کے رہنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔
بڑا میلہ تو اس مندر پر ہر سال ماہ بھادوں کے نو چندی اتوار کو ہوتا ہے۔ اس میں ہزاروں لوگ یہاں حاضر ہو کر تمام رات جاگتے اور بھجن سنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر اتوار کے روز سینکڑوں لوگ شہر لاہور سے یہاں آکر ماتھا ٹیکتے ہیں۔ سالانہ میلے کا چڑھاوہ بہت ہوتا ہے۔ آٹھویں روز کا چڑھاوہ بھی پجاری لیتے ہیں جس سے ان کا گزارہ بخوبی ہوتا ہے اور ایک چاہ مع زمین بارہ گھماؤں کے‘ جو اس کے پاس ہے‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت سے معاف ہے۔
میلے کے روز جو فقرا جوگی جمع ہوتے ہیں ان کا کھانا مندر کا مہنت دیتا ہے اور جو دنیادار جاتے ہیں وہ اپنا کھانا آپ پکا کر کھاتے ہیں۔ باہر مندر کے شرق کی سمت ایک پختہ خوبصورت مربع تالاب دیوان مول راج ناظم ملتان کا بنوایا ہوا موجود ہے۔ چاروں طرف تالاب کے نو نو سیڑھیاں بنی ہیں اور ایک پختہ شوالہ کسیر شاہ ساکن اچھرہ کا بنا ہوا ہے۔ اس کی بہت پرستش ہوئی ہے۔‘‘
کنہیا لال ہندی کی یہ کتاب 1882ء میں شائع ہوئی۔ اس میں درج مندر کی عمارات کی تفصیل سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ کتنا عظیم الشان مندر تھا۔ بھیرو جی کے نام سے منسوب ایک اور مندر کا ذکر سید لطیف نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں کیا ہے۔ اس میں اس مندر کا مقام لوہاری دروازے کے اندر وچھووالی میں بیان کیا گیا ہے۔
شہر لاہور میں عمارتوں اور جگہوں پر قبضے کی روایت خاصی پرانی ہے اور یہ ہر مذہب، فرقہ ا ور دور کے لوگوں میں بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہے اور خصوصاً وہ مقامات جو مالی منفعت کے حوالے سے زیادہ زرخیر ہوں، وہاں پر قبضہ گیروں کی نگاہیں جمی رہیں۔ اس مندر کے ساتھ بھی کچھ اس طرح ہی کا معاملہ ہوا۔ جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ماتھا ٹیکنا شروع کیا تو نذرانے کافی بڑی تعداد میں آنے شروع ہو گئے۔ اس قبضے کی روداد کا کچھ حصہ ہمیں کنہیا لال ہندی کی کتاب تاریخ لاہور (ص239) پر یوں ملتا ہے۔
’’جوالا ناتھ نے موراں طوائف ( معشوقہ مہاراجہ رنجیت سنگھ) کی والدہ کا آسیب دور کیا تو موراں نے ایک سو گاڑی اینٹوں کی اس کو دی اور زر نقد بھی دیا۔ اس نے بہت سے مکانات اس جگہ بنائے‘ من بعد لالہ رام چند برادر زادہ سانون مل ناظم ملتان نے پختہ مندر موجود بھیرو جی کا بنوایا اور ڈیوڑھی کلاں راجہ لعل سنگھ نے مع اور عمارات موجودہ کی تعمیر کی۔ اب مکان پر قدیمی قابضان کا قبضہ نہیں ہے۔ فقراء جو گی کا قبضہ ہے۔ اور سب سے پہلے دھنی ناتھ جوگی کا قبضہ ہوا جو اب تک ہے اور اس دھنی ناتھ جوگی کو سمت 1880بکرمی میں جوالا ناتھ نے اس جگہ مقرر کیا۔
دھنی ناتھ آدمی خوش خلق اور خوش مزاج تھا۔ اس نے لاہور کے سکھی امرا سے اختلاط پیدا کر لیا اور قدیم قابضان کو پنجاہ دوپٹہ سال دینا کر دیا اور خود قابض مکان بنا۔ باوا دھنی ناتھ کے بعد رام ناتھ گدی نشین ہوا۔ اس نے چند سال وہ پنجاہ دوپٹہ سالانہ دیا‘ پھر بند کر دیا۔ اب بھی قابضان حال کی اولاد لاہور میں موجود ہے۔ سرکار انگریزی کے عہد میں بھی بندوبست کے محکمے میں اس بات کا دعویٰ قابضان قدیم کی طرف سے دائر ہوا اور بدری داس مدعی نے چند ماہ مقدمہ کیا اور پنڈت من پھول حاکم بندوبست برسر موقع گیا۔ لیکن جوگیوں کے قبضے کی شکست عمل میں نہ آئی اور دعویٰ ڈسمس ہوا۔‘‘مندر کی عمارت میں قبضہ کی روایت تقسیم کے وقت اپنے معراج پر دکھائی دی۔ پھر حاضر میں فیروز پور روڈ پر شمع سینما کے مقام پر ایک سڑک نیچے کو بجانب اچھرہ دکھائی دیتی ہے۔ اسی سڑک پر لب سڑک ایک چھوٹی سی دومنزلہ مسجد فاروق اعظم تھی جو کہ میٹرو بس کے منصوبے کے باعث شہید کر دی گئی اسی مسجد کے نیچے پان کی ایک دکان تھی۔ وہ بھی مسجد کے شہید ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ مسجد کے ساتھ ہی آگے بائیں جانب صابر پلازہ کی عمارت ہے جس میں تہہ خانے بھی ہیں علاقے کے بڑے بزرگوں کا یہ کہنا ہے اس پلازے کی عمارت کی جگہ پر مندر کا عظیم الشان تالاب ہوا کرتا تھا۔
اسی طرح کے عظیم الشان تالاب کا تذکرہ شاہ عالمی مندر کی عمارت کے ساتھ بھی ملتا تھا۔ آج یہ دونوں عظیم تالاب اپنی تمام تر شان اور قدامت کے نشان لئے ناپید ہو چکے ہیں۔ اس پلازے سے آگے شمع سینما کی عمارت ہے جو کہ کبھی لاہور تھیٹر بھی بنی اور اب یہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ فلم انڈسٹری کے خاتمے کے بعد سینما انڈسٹری بھی دم توڑ چکی ہے۔ نیچے کو جاتی سڑک کے بائیں جانب سڑک ’’پیر غازی روڈ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس سڑک پر کچھ قدم کے فاصلے پر بائیں جانب لب سڑک کچھ دوکانیں دکھائی دیتی ہیں۔ ان دوکانوں کے ساتھ ایک گلی بائیں جانب ہے جس میں اس مندر کی عظیم الشان چار دیواری اور پرانے عظیم دروازے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر کسی قلعے کی فصیل کا گمان ہوتا ہے۔ داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک مسجد کی تعمیر جاری ہے۔ یہ مسجد ’’مدینہ مسجد‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے کیونکہ مندر کے اندر جو رہائشی آبادی ہے یہ ’’مدینہ کالونی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مندر کی عمارت کو دیکھنا کسی بھی طور پر آسان کام نہ تھا۔ مندر کی عمارت میں رہائشیوں کے علاوہ کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ شہر لاہور میں موجود دیگر عمارات کی مانند مجھے یہاں پر بھی داخلے کے لئے تعلق ڈھونڈنا پڑا۔ میرے ایک دوست خرم سندھو جو کہ ایک فوٹو گرافر ہیں۔ ان کے ایک ملنے والے فاروق اشرف اسی مندر کے رہائشی تھے اور فاروق اشرف کے باپ دادا تقسیم کے وقت ہجرت کر کے ادھر آن بسے تھے۔ ہم ان ہی کے توسط سے مندر میں جب داخل ہوئے تو یہ گمان ہوا کہ ہم پرانے شہر لاہور کے کسی محلے میں آ گئے ہیں۔
مندر کی عظیم الشان چار دیواری کے اندر خستہ حال پرانے گھروں کے ساتھ ساتھ پکے گھر بھی دیکھنے کو ملے۔ سانحہ بابری مسجد کے رد عمل میں جو کچھ لاہور کے مندروں کے ساتھ ہوا اس کے اثرات یہاں پر بھی دیکھنے کو ملے۔ مندر کا وسطی اور سب سے بڑا گنبد کئی جگہوں سے توڑ ڈالا گیا اور اس بربادی کے پیچھے تقدیس کی بجائے سونے اور چاندی کے خزانے کی تلاش زیادہ تھی۔ تقسیم تک مندر میں باقاعدہ پوجا پاٹھ ہوا کرتی تھی جس کا تذکرہ ہم اوپر کر بھی چکے ہیں۔ اب وہ سب تو محض کتب ہی کا حصہ ہے۔ تقسیم کے فسادات کے بعد یہاں پر رہائشی لوگ زیادہ تر انبالہ سے تعلق رکھتے تھے۔
گھروں کے احاطوں کے بارے میں بڑی دلچسپ بات سامنے آئی۔ جولوگ تقسیم کے وقت بکریوں کے ساتھ آئے۔ انہیں بکریوں کے حساب سے جگہ ملی اور جو لوگ گائے، بھینس ساتھ لے کر آئے۔ ان کو زیادہ جگہ مل گئی۔ مندر میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک پرانے کنوئیں کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ مندر کے ایک رہائشی بزرگ معراج دین جو کہ پاماجھے کے نام سے معروف ہیں ان کاکہنا ہے کہ اس کنوئیں کے اوپر ایک انتہائی خوبصورت چھتری بھی تعمیر کی گئی تھی۔1970ء کی دہائیوں تک یہاں کے رہائشی اسی کنوئیں کا پانی استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دو اور کنوؤں کے آثار بھی مندر کے نچلے حصلے میں مخدوش حالت کے اندر دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مندر کے ایک گنبد کلاں کے ساتھ ساتھ دو خرد گنبد بھی تھے۔ جن میں سفید پتھروں سے بنی تین ، تین فٹ اونچی مورتیاں تھیں۔ ان مورتیوں میں سے ایک مورتی کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو کہ انتہائی خوبصورت تھی اور اس کے گلے میں موتیوں کا ہار کندہ تھا۔
مندر جو کہ مکمل طور پر ایک وسیع و عریض عمارت کی شکل میں ہے، اس میں رہائشی لوگ بہت ساری طلسماتی اور ماورائی کہانیوں کے اسیر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہاں پر ان دیکھی قوتوں کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ 1990ء کی دہائی تک مندرکے وسط صحن میں ایک گوندی کا قدیم درخت بھی موجود تھا جو کہ اب کاٹ دیا گیا ہے۔ سانپوں سے جڑی کئی کہانیاں بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ساون بھادوں میں یہاں پر اکثر ناگ دیکھے جاتے تھے جبکہ میلے کے دن بھی سانپ آیا کرتے تھے۔
1980ء کی دہائی تک یہاں پر سانپوں کا ایک جوڑا بہت مشہور جو ہر سال یہاں دکھائی دیتا تھا لیکن اب سالہاسال گزرے وہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سائیں دیونی کی المناک موت کی کہانی بھی وہاں عام ہے۔ یہاں پر ایک انتہائی مزیدار کردار سائیں جمی کا بھی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ بابا ماجھا کی ٹوٹی پڑھائی اس پر الٹا اثر کر گئی تھی۔ مندر میں تائی جی کے نام سے مشہور ایک بزرگ خاتون بھی بتلائی جاتی ہیں جن کی عمر اسی برس سے زائد ہے۔ وہ ایک طویل عرصے سے بچوں کو ان کی مادری زبان پنجابی کی تعلیم دے رہی ہیں۔
مندر کے گنبد کلاں کے قریب ایک مڑھی کے آثار بھی ملتے ہیں ۔ عین ممکن ہے یہ کسی مہنت کی ہو۔ داخلی دروازے کی شمالی سیدھ میں شیولنگ کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو کہ اب سرے سے ناپید ہے۔ اس کے قریب پانی کی ایک نالی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جو کہ شاید چندایام ہی کی مہمان جان پڑتی ہے۔ مندر کی عمارت میں آج بھی کئی جگہوں پر چندہ دینے والوں کے نام سے منسوب تختیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جن پر ہندی ، فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی تحریریں ملتی ہیں۔ بدقسمتی سے خستہ حالی کے باعث انہیں پڑھا نہیں جا سکتا۔ ایک تختی جس پر انگریزی کی تحریر موجود تھی وہ کافی حد تک پڑھی جا سکتی تھی وہ کچھ یوں تھی۔
of this Floor Had
one by kishore chan Tal
in the memory of his Beloved mother
s- shirimati
L- ram das talwar caste kh
Da rai wala Dabbi Bazar Lahore
مندروں میں رہائش گاہیں‘ یہ لاہور میں رواج بکثرت ہے۔ سیتلا مندر میں بھی کئی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ لیکن ان میں زیادہ تر افراد غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس بھیرو کے استھان میں کچھ گھرانے بہت اچھے حالات میں ہیں اور کچھ انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں استعمال ہونے والے فلیکس اور بینر کو بھی لوگوں نے گھروں کے پردے بنا کر لٹکایا ہوا ہے۔ مندرکی عمارت پر عدالت کی جانب سے دیئے گئے سٹیے کے باعث رہائشی لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ خستہ حال دیواروں اور چھتوں کو کہیں سے بھی مرمت لگانے کی اجازت نہیں۔ ا یک پرانی چھت پر دھریک کا درخت دیکھنے کو ملتا ہے۔
مندروں کی عمارت میں موجود سیڑھیاں انتہائی سحر انگیز ہیں جن میں سے اکثریت کے اندر آج بھی لوگ دیئے روشن کرتے ہیں۔ جب تک پتنگ بازی پر پابندی نہیں تھی۔ بسنت کے موقع پر مندر کی چھت پر اکثریت بیرون ملک سے آئے مہمانوں کی ہوا کرتی تھی۔ کئی برس گزرے یہاں پر ہندوستان سے آئے زائرین مندر کے مختلف حصوں پر ماتھا ٹیک کر جاتے تھے۔ اب وہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ عدالتی احکامات کے باعث یہاں کے رہائشیوں کی موجودگی میں مندر کی تصویر اتارنا بھی انتہائی مشکل تھا۔
اسلامی تعلیمات کی رو اور نبی ﷺ کے طرز عمل کے مطابق اسلامی ریاست میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ ریاست اسلامیہ کی ذمہ داری ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ مسلمان فاتحین نے ہمیشہ دیگر مذاہب کی عمارت کا بھرپور تحفظ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے جب ہم ان اسلامی عمارات کی تقدیس وحرمت کی بات کرتے ہیں جہاں پر اسلامی حکومتیں نہیں تو لاہور میں موجود یہ عظیم الشان عمارت جو کہ ہندو برادری کی عبادت گاہیں ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں رہائشی مکانات بن چکے ہیں یہ ریاست اسلامیہ پاکستان کے لئے بہرکیف ایک تلخ سوال ضرور ہے۔
http://www.express.pk/story/287758/