سید شہزاد ناصر
محفلین
اسلام مخالف تحریکوں کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ’’فری میسن ‘‘کو پڑھنا از حد ضروری ہے اور صہیو نی طریق کار پر نظر رکھے بغیر ہم درست تجربے کی پٹری پر نہیں چڑھ سکتے ۔انیسویں صدی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام دشمن علانیہ اور خفیہ تحریکوں اور تنظیموں نے خوب اپنے رنگ دکھائے ۔سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اور ممتاز محقق ومصنف ڈاکٹر محمود احمد غازی، جناب بشیر احمد کی کتاب ’’بہائیت ‘‘کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں کہ ’’یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جن دنوں ہند وستان میں قادیانیت کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی ٹھیک انہی دنوں میں ایران میں بہائیت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا چونکہ دونوں کے مقاصد ایک تھے اس لیے طریقۂ کار میں بھی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے ۔چونکہ ایران اور برصغیر پاک وہند کے دو مختلف پس منظر رکھنے والے علاقوں میں ان دو تحریکوں کو کام کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا ۔اس لئے تفصیلات میں قدرے اختلاف اور فرق بھی معلوم ہوتاہے ‘‘ ۔
’’بہائیت ‘‘ کے حوالے سے پہلی مستند اردو کتاب ’’بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم ‘‘ کے مصنف جناب بشیر احمد لکھتے ہیں کہ ’’ بہائی اکابر نے دنیا کے نقشے پر ابھر نے والی نئی اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کو دلچسپ تجربہ قرار دیا ۔ اس مملکت کے عرب ممالک سے ابھرتے ہوئے روابط ایران سے قربت اور جغرافیائی اہمیت کے باعث یہاں نئے مشن قائم کرنے کی فوری ضرورت محسوس کی گئی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے قیام کی سخت مخالفت کی ۔پاکستان کے اسلامی تشخص اور اس کی عرب نواز پالیسی کے نتیجے میں سامراجی طاقتوں کی یہ خواہش تھی کہ یہاں ان کی وفادار تنظیمیں اور ادارے پھلیں پھولیں ۔قادیانی خلیفہ مرزا محمود احمد بھی اپنا بو ریا بستر سمیٹ کر قادیان سے لاہور آگئے تھے تاکہ برطانوی مہرے کے طور پر کام کر سکیں ‘‘۔
بہائیت اور قادیانیت میں کس حد تک مماثلت ہے ؟ اور 1953ء تحریک ختمِ نبوت کے بعد شوتی آفندی نے اسفند یار بختیاری کو اسرائیل کن مقاصد کے لیے طلب کیا ؟ 1954ء میں بختیاری ،محفوظ الحق علمی کی تحریک ختمِ نبوت کے واقعات کے حوالے سے کیا رپورٹ لے کر پاکستان سے اسرائیل گیا؟ ۔ملکی و بین الاقوامی سطح پر بہائیوں نے مسلمانوں کے عقائد اور مفادات کو کیسے ذبح کیا اور پاکستان کے اہم ترین مقامات اور بعض غیر معروف جگہوں پر کس طرح اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ؟یہ موضوع تفصیلطلب ہے اور اس پر ان شاء اللہ تعالیٰ کسی مناسبت سے پھر کسی وقت کچھ لکھا جاسکے گا مذکورہ پس منظر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مصر میں دولت ،میڈیا اور پراپیگنڈے کے ذریعے تفریق پیدا کرنے کے لیے ’’قادیانی اور بہائی ‘‘کس طرح سازش کررہے ہیں بیروت کے ایک بڑے ہوٹل میں پاکستان ،ایران اور مصر کے قادیانیوں اور بہائیوں کی ایک میٹنگ کی رپورٹ روزنامہ ’’المصریون ‘‘میں اِس طرح شائع ہوئی ہے ۔مصری اخبار’’ المصریون ‘‘نے دعوی کیاہے کہ ’’پاکستان ،ایران اور مصر کے قادیانی اور بہائی رہنماؤں نے بیروت میں ایک میٹنگ کی ،جس کا مقصد حالیہ مصری انقلاب کے بعد مصر میں قادیانی اور بہائی مذہب کی تخم ریزی تھا ۔یہ میٹنگ بیروت کے علاقے فیردان کے بڑے ہوٹل میں ہوئی ،جس میں مصر سے فائز عبدالقوی ( بہائی)،سلامہ صالح صالح ( بہائی )،عادل شریف تہامی ( بہائی )اور ربیع علی ربیع ( قادیانی)،ایران سے باکتر کرامی ( قادیانی ) ،جمشید فرزند (قادیانی ) ،شبیر قد جھدانی ( قادیانی)،پاکستان سے حنیف نورالدین ( قادیانی ) ،لبنان سے وسیم دحدوح( بہائی )،لوئی شہاب الدین ( قادیانی ) شامل تھے ۔میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سپریم کورٹ میں دعوی دائر کرکے مصری حکومت کو قادیانی وبہائی مذہب کو سرکاری مذہب تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے۔اسی طرح مصری سٹیلائیٹ نیل 7 کے ذریعے دو سٹیلائیٹ چینل بنائے جائیں ،جن کے لیے فنڈ نگ قادیانی فراہم کریں گے اور ان کا نظم ونسق بہائیوں کے ہاتھوں میں ہو گا تاکہ مصر اور دیگر عرب ممالک میں اپنی سر گرمیوں کو بڑے پیمانے پر پھیلا یا جائے نیز میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وزارتِ عدل اور کابینہ سے نوٹس جاری کر وایا جائے جس میں قادیانیوں کے لیے مساجد کی تعمیر کی اجازت ہو۔ اجتماع میں فیصلہ ہوا کہ اخوان المسلمین اور دیگر اسلامی جماعتوں میں اختلافات پیدا کیے جائیں اور مصری فوج اور عوام کے بیچ دوری پیدا کرکے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا یا جائے ۔میٹنگ میں کہا گیا کہ مصرکے فقراء و مساکین کومال ودولت اور ماہانہ وظائف کے ذریعے اپنی طرف راغب کیا جائے اور قادیانی وبہائی تعارفی لٹریچر زیادہ سے زیادہ چھپوا کر تقسیم کیا جائے نیز ویب سائٹس ،آن لائن جرائد اورسوشل نیٹ ورکس جیسے فیس بک مثلاََ الیکٹرونک ذرائع سے بھر پور استفادہ کیا جائے ۔ اس سے پہلے بھی اخبار نے قادیانیوں کی مذموم سرگرمیوں سے پردہ اٹھایا تھا،جب انہوں نے قاہرہ کے وسط میں واقع طلعت حرب روڈ پر راہگیروں میں اپنے کفریہ لٹریچر کی تقسیم شروع کر رکھی تھی۔قادیانی گروہ نے انیسویں صدی کے اواخر میں برصغیر میں جنم لیا اس کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی بھارتی پنجاب کے شہر قادیان کا رہنے والا تھا۔ اس نے 1889ء میں اس فرقے( گروہ)کی بنیاد رکھی اور مہدی منتظر ہونے کا دعوی کیا۔قادیانی گروہ افریقہ ،یورپ امریکہ او ر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل چکا ہے اور اس کے پیروکاروں کی زیادہ تعداد انڈیا اور پاکستان میں ہے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ پہلے بھی قادیانی گروہ نے مجمع البحوث الاسلامیہ کو درخواست کی تھی کہ انہیں مصرمیں کام کرنے کی اجازت دی جائے اور اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ ظاہر کرکے کچھ لٹریچر بھی مجمع کو پیش کیا تھا ۔لیکن مجمع نے یہ کہہ کر ان کو اپنی تبلیغی سر گرمیاں بحیثیت مسلمان شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کہ ان کا عقیدہ اسلام مخالف اور یہ مرتد ہیں ان کے لیے مسلمانوں کی مساجد میں داخلے کی بالکل اجازت نہیں ۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ قادیانیفرقہ بر طانوی وفرانسیسی استعمار کی پیدا وار ہے اور انہیں بہائیوں کی جانب سے بھر پور امداد حاصل رہی ہے کیو نکہ دونوں کا مقصد مسلمانوں کو راہ ہدایت سے گمراہ کرنا ہے ۔ماضی میں جب قادیانی عرب ممالک میں اپنی مذموم سر گر میوں کے فروغ میں ناکام رہے تو اسرائیل نے ان کے لیے اپنے دروازے وا کر دئیے اور بر طانیہ کے بعد قادیانیوں کا سب سے بڑا مرکز اسرائیل کے شہر حیفہ میں ہے ۔1934ء میں قادیانیوں نے حیفہ میں اپنا عبادت خانہ بنایا جس کا نام مسجد سیدنا محمود رکھا ۔اسی طرح وہاں سے انہوں نے ایک ٹی ۔وی چینل ایم ۔ٹی ۔ سی کا بھی آغاز کیا ۔ نیز اخبار آخر میں لکھتا ہے کہ قادیانی پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی کے ایجنٹ کے طور پرکام کرے رہے ہیں جس کے عوض ان کولاکھوں ڈالر امداد ملتی ہے ‘‘۔
ہم اس رپورٹ پرمزید تبصرے کی بجائے صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں 1974ء کی قومی اسمبلی میں لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے اور بعد ازاں 1984 ء میں امتناع قادیانیت ایکٹ کے اجراء ونفاذ کے بعد قادیانی مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اس پر کام کی ضرورت نہیں وہ اِس ایک رپورٹ کے تناظر میں پوری دنیا میں قادیانی سر گرمیوں کا جائزہ لیں، امریکہ و یورپ ،افریقہ ومشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ ان کے دجل ودھوکہ کو قریب سے دیکھ کر ان پر کام کی ضرورت واہمیت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کتنی بڑھ گئی ہے؟ حج جیسی عبادت کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قادیانی امریکہ ویورپ اور برصغیر سے کس طرح پہنچ جاتے ہیں کس کس ملک سے کون کون سی ٹر یول ایجنسیاں قادیانیوں کو وہاں پہنچا تی ہیں، جدہ میں ان کا خفیہ مرکز کس طرح کام کر رہا ہے اور وہاں حجاج و زائرین کو پھنسانے کے لیے قادیانی کیا حربے استعمال کرتے ہیں صرف اِس حوالے سے کس طرح کے کام کی ضرورت ہے اور سفا رتی ذرائع استعمال کرنے کے لئے کس ڈھب کی محنت کی ضرورت ہے ؟ یہ سب کچھ اہل فکر ونظر کے لئے ایک سوال ہے سو چنے کا ! اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی تو فیق سے نوازیں اور کفار و مشرکین اور مرتدین سے ارض مقدس کو پاک فرمادیں ،آمین
رپورٹ بشکریہ
ماہنامہ نقیبِ ختمِ نبوت
دسمبر 2011
’’بہائیت ‘‘ کے حوالے سے پہلی مستند اردو کتاب ’’بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم ‘‘ کے مصنف جناب بشیر احمد لکھتے ہیں کہ ’’ بہائی اکابر نے دنیا کے نقشے پر ابھر نے والی نئی اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کو دلچسپ تجربہ قرار دیا ۔ اس مملکت کے عرب ممالک سے ابھرتے ہوئے روابط ایران سے قربت اور جغرافیائی اہمیت کے باعث یہاں نئے مشن قائم کرنے کی فوری ضرورت محسوس کی گئی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے قیام کی سخت مخالفت کی ۔پاکستان کے اسلامی تشخص اور اس کی عرب نواز پالیسی کے نتیجے میں سامراجی طاقتوں کی یہ خواہش تھی کہ یہاں ان کی وفادار تنظیمیں اور ادارے پھلیں پھولیں ۔قادیانی خلیفہ مرزا محمود احمد بھی اپنا بو ریا بستر سمیٹ کر قادیان سے لاہور آگئے تھے تاکہ برطانوی مہرے کے طور پر کام کر سکیں ‘‘۔
بہائیت اور قادیانیت میں کس حد تک مماثلت ہے ؟ اور 1953ء تحریک ختمِ نبوت کے بعد شوتی آفندی نے اسفند یار بختیاری کو اسرائیل کن مقاصد کے لیے طلب کیا ؟ 1954ء میں بختیاری ،محفوظ الحق علمی کی تحریک ختمِ نبوت کے واقعات کے حوالے سے کیا رپورٹ لے کر پاکستان سے اسرائیل گیا؟ ۔ملکی و بین الاقوامی سطح پر بہائیوں نے مسلمانوں کے عقائد اور مفادات کو کیسے ذبح کیا اور پاکستان کے اہم ترین مقامات اور بعض غیر معروف جگہوں پر کس طرح اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ؟یہ موضوع تفصیلطلب ہے اور اس پر ان شاء اللہ تعالیٰ کسی مناسبت سے پھر کسی وقت کچھ لکھا جاسکے گا مذکورہ پس منظر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مصر میں دولت ،میڈیا اور پراپیگنڈے کے ذریعے تفریق پیدا کرنے کے لیے ’’قادیانی اور بہائی ‘‘کس طرح سازش کررہے ہیں بیروت کے ایک بڑے ہوٹل میں پاکستان ،ایران اور مصر کے قادیانیوں اور بہائیوں کی ایک میٹنگ کی رپورٹ روزنامہ ’’المصریون ‘‘میں اِس طرح شائع ہوئی ہے ۔مصری اخبار’’ المصریون ‘‘نے دعوی کیاہے کہ ’’پاکستان ،ایران اور مصر کے قادیانی اور بہائی رہنماؤں نے بیروت میں ایک میٹنگ کی ،جس کا مقصد حالیہ مصری انقلاب کے بعد مصر میں قادیانی اور بہائی مذہب کی تخم ریزی تھا ۔یہ میٹنگ بیروت کے علاقے فیردان کے بڑے ہوٹل میں ہوئی ،جس میں مصر سے فائز عبدالقوی ( بہائی)،سلامہ صالح صالح ( بہائی )،عادل شریف تہامی ( بہائی )اور ربیع علی ربیع ( قادیانی)،ایران سے باکتر کرامی ( قادیانی ) ،جمشید فرزند (قادیانی ) ،شبیر قد جھدانی ( قادیانی)،پاکستان سے حنیف نورالدین ( قادیانی ) ،لبنان سے وسیم دحدوح( بہائی )،لوئی شہاب الدین ( قادیانی ) شامل تھے ۔میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سپریم کورٹ میں دعوی دائر کرکے مصری حکومت کو قادیانی وبہائی مذہب کو سرکاری مذہب تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے۔اسی طرح مصری سٹیلائیٹ نیل 7 کے ذریعے دو سٹیلائیٹ چینل بنائے جائیں ،جن کے لیے فنڈ نگ قادیانی فراہم کریں گے اور ان کا نظم ونسق بہائیوں کے ہاتھوں میں ہو گا تاکہ مصر اور دیگر عرب ممالک میں اپنی سر گرمیوں کو بڑے پیمانے پر پھیلا یا جائے نیز میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وزارتِ عدل اور کابینہ سے نوٹس جاری کر وایا جائے جس میں قادیانیوں کے لیے مساجد کی تعمیر کی اجازت ہو۔ اجتماع میں فیصلہ ہوا کہ اخوان المسلمین اور دیگر اسلامی جماعتوں میں اختلافات پیدا کیے جائیں اور مصری فوج اور عوام کے بیچ دوری پیدا کرکے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا یا جائے ۔میٹنگ میں کہا گیا کہ مصرکے فقراء و مساکین کومال ودولت اور ماہانہ وظائف کے ذریعے اپنی طرف راغب کیا جائے اور قادیانی وبہائی تعارفی لٹریچر زیادہ سے زیادہ چھپوا کر تقسیم کیا جائے نیز ویب سائٹس ،آن لائن جرائد اورسوشل نیٹ ورکس جیسے فیس بک مثلاََ الیکٹرونک ذرائع سے بھر پور استفادہ کیا جائے ۔ اس سے پہلے بھی اخبار نے قادیانیوں کی مذموم سرگرمیوں سے پردہ اٹھایا تھا،جب انہوں نے قاہرہ کے وسط میں واقع طلعت حرب روڈ پر راہگیروں میں اپنے کفریہ لٹریچر کی تقسیم شروع کر رکھی تھی۔قادیانی گروہ نے انیسویں صدی کے اواخر میں برصغیر میں جنم لیا اس کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی بھارتی پنجاب کے شہر قادیان کا رہنے والا تھا۔ اس نے 1889ء میں اس فرقے( گروہ)کی بنیاد رکھی اور مہدی منتظر ہونے کا دعوی کیا۔قادیانی گروہ افریقہ ،یورپ امریکہ او ر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل چکا ہے اور اس کے پیروکاروں کی زیادہ تعداد انڈیا اور پاکستان میں ہے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ پہلے بھی قادیانی گروہ نے مجمع البحوث الاسلامیہ کو درخواست کی تھی کہ انہیں مصرمیں کام کرنے کی اجازت دی جائے اور اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ ظاہر کرکے کچھ لٹریچر بھی مجمع کو پیش کیا تھا ۔لیکن مجمع نے یہ کہہ کر ان کو اپنی تبلیغی سر گرمیاں بحیثیت مسلمان شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کہ ان کا عقیدہ اسلام مخالف اور یہ مرتد ہیں ان کے لیے مسلمانوں کی مساجد میں داخلے کی بالکل اجازت نہیں ۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ قادیانیفرقہ بر طانوی وفرانسیسی استعمار کی پیدا وار ہے اور انہیں بہائیوں کی جانب سے بھر پور امداد حاصل رہی ہے کیو نکہ دونوں کا مقصد مسلمانوں کو راہ ہدایت سے گمراہ کرنا ہے ۔ماضی میں جب قادیانی عرب ممالک میں اپنی مذموم سر گر میوں کے فروغ میں ناکام رہے تو اسرائیل نے ان کے لیے اپنے دروازے وا کر دئیے اور بر طانیہ کے بعد قادیانیوں کا سب سے بڑا مرکز اسرائیل کے شہر حیفہ میں ہے ۔1934ء میں قادیانیوں نے حیفہ میں اپنا عبادت خانہ بنایا جس کا نام مسجد سیدنا محمود رکھا ۔اسی طرح وہاں سے انہوں نے ایک ٹی ۔وی چینل ایم ۔ٹی ۔ سی کا بھی آغاز کیا ۔ نیز اخبار آخر میں لکھتا ہے کہ قادیانی پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی کے ایجنٹ کے طور پرکام کرے رہے ہیں جس کے عوض ان کولاکھوں ڈالر امداد ملتی ہے ‘‘۔
ہم اس رپورٹ پرمزید تبصرے کی بجائے صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں 1974ء کی قومی اسمبلی میں لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے اور بعد ازاں 1984 ء میں امتناع قادیانیت ایکٹ کے اجراء ونفاذ کے بعد قادیانی مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اس پر کام کی ضرورت نہیں وہ اِس ایک رپورٹ کے تناظر میں پوری دنیا میں قادیانی سر گرمیوں کا جائزہ لیں، امریکہ و یورپ ،افریقہ ومشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ ان کے دجل ودھوکہ کو قریب سے دیکھ کر ان پر کام کی ضرورت واہمیت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کتنی بڑھ گئی ہے؟ حج جیسی عبادت کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قادیانی امریکہ ویورپ اور برصغیر سے کس طرح پہنچ جاتے ہیں کس کس ملک سے کون کون سی ٹر یول ایجنسیاں قادیانیوں کو وہاں پہنچا تی ہیں، جدہ میں ان کا خفیہ مرکز کس طرح کام کر رہا ہے اور وہاں حجاج و زائرین کو پھنسانے کے لیے قادیانی کیا حربے استعمال کرتے ہیں صرف اِس حوالے سے کس طرح کے کام کی ضرورت ہے اور سفا رتی ذرائع استعمال کرنے کے لئے کس ڈھب کی محنت کی ضرورت ہے ؟ یہ سب کچھ اہل فکر ونظر کے لئے ایک سوال ہے سو چنے کا ! اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی تو فیق سے نوازیں اور کفار و مشرکین اور مرتدین سے ارض مقدس کو پاک فرمادیں ،آمین
رپورٹ بشکریہ
ماہنامہ نقیبِ ختمِ نبوت
دسمبر 2011