بہاری مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم

سیاست میں سب پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور اخبارات ہر لیڈر کے بیانات سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر ہر مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ بہاری (\بیہاری؟؟) مہاجرین کا مسئلہ کیوں زیرِ بحث نہیں آتا؟

مجھے اہلِ کراچی یا قائدِ ایم کیو ایم سے جتنا مرضی اختلاف سہی، مگر اہل کراچی کا ایک مطالبہ بالکل برحق لگتا ہے کہ اُن محصور پاکستانیوں کو واپس لایا جائے۔

اس سلسلے میں جو حقائق مجھے نظر آ رہے ہیں، وہ یہ ہیں کہ:

1۔ اہلِ اندرونِ سندھ اس مطالبے کے سب سے سخت خلاف ہیں۔

2۔ اہل بلوچستان بھی اس کے خلاف۔

3۔ اہلِ پنجاب بھی اس کے خلاف

4۔ اہل سرحد بھی اس کے خلاف۔

5۔ اور تو اور پاک فوج بھی اس کے خلاف (چونکہ خود فوج کا بڑا حصہ اہل سرحد اور پنجاب پر مشتمل ہے)

اوروں کا مجھے علم نہیں، مگر وہاب صاحب اور تیلے شاہ صاحب شاید پنجاب کے موقف پر روشنی ڈال سکیں کہ وہ اس کے کیوں خلاف ہیں۔

باقی حضرات سے بھی گذارش ہے کہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ شکریہ۔

والسلام۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ مہوش۔ میں خود اس موضوع پر کافی عرصے سے بات چھیڑنا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں بہاری مہاجرین کی اصطلاح ٹھیک نہیں ہے۔ یہ لوگ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی ہیں۔ ان کو پاکستان لانا محض ایم کیو ایم کا مطالبہ کیوں ہے، یہ میں کبھی نہیں جان سکا۔ کیا ان لوگوں کا یہ جرم ہے کہ یہ پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور اس کی پاداش میں مظالم برداشت کرتے آئے ہیں؟ کچھ دنوں پہلے حکومت پاکستان نے کسی صاحب کی اس سلسلے میں رٹ درخواست کے جواب میں کہا تھا کہ محض پاکستان سے محبت کی بنیاد پر ان لوگوں کو پاکستان کی شہریت نہیں دی جا سکتی۔ صحیح کہا حکومت پاکستان نے۔۔ پاکستان کا شہری بننے کے لیے پاکستان سے محبت ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ تو اس کا وزیراعظم بننے کے لیے بھی ضروری نہیں ہے۔ ایل سابق وزیراعظم کو تو ان کا شناختی بھی ان کے وزارت عظمی کے حلف اٹھانے کے بعد پکڑایا گیا تھا۔ پاکستان کا شہری ہونے کے لیے بس امریکہ کا پٹھو ہونا ضروری ہے۔

پاکستان کی تاریخ لکھنے والے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں حد درجہ بددیانتی کا ثبوت دیتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ پاکستانی دانشور اور صحافی فلسطینیوں کے غم میں تو گھلتے رہیں گے لیکن انہیں کئی عشروں سے مظالم کا شکار اپنے بھائی نظر نہیں آتے۔ مجھے الطاف حسین کی بات بری تو بہت لگتی ہے لیکن اس کو بات کرنے کا موقعہ بھی ہم نے دیا ہے کہ نظریہ پاکستان ڈھاکہ کے کیمپوں میں قید ہے، اسے وہاں سے آزاد کراؤ۔ ہم ہر وقت نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں لیکن جب محصور پاکستانیوں کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ہمیں اپنا ڈیموگرافک پیٹرن ڈسٹرب ہوتے نظر آتا ہے۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ نبیل صاحب۔

اگر صورتحال کو دیکھا جائے تو ان محصور پاکستانیوں کی تعداد تین چار لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ آج حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں یہ افغان مہاجرین ہر جگہ اچھے گھروں اور اچھی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔

میں ان افغان مہاجرین کے خلاف نہیں۔ مگر یقینی طور پر اُن سے پہلے پاکستان آنے کا حق اُن محصور پاکستانیوں کو ہے۔

مجھے تیلے شاہ اور وہاب صاحب کے جوابات کا انتظار ہے۔ بلکہ کچھ سوالات یوں ہیں کہ:

1۔ پہلا یہ فرمائیے کہ پنجاب کی عام عوام ان محصور پاکستانیوں کو واپس لانے کے حق میں ہے یا مخالفت میں۔

2۔ اگر مخالفت میں ہے، تو پھر اس کی وجوہات بیان فرمائیے۔

3۔ پنجاب کے قائدین کا اس سلسلے میں کیا کہنا ہے اور اُن کے دلائل کیا ہیں۔

4۔ ذاتی طور پر آپ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں؟

5۔ اگر پنجاب کی عوام اس سلسلے میں مخالفت کر رہی ہے، تو کیا آپ انہیں علاقائیت کا موردِ الزام ٹہراتے ہیں اور اہل کراچی میں اہل پنجاب سے جو ناراضگی پائی جاتی ہے، کیا وہ بجا ہے؟

6۔ اگر آپ فرماتے ہیں کہ اہل پنجاب اُن محصور پاکستانیوں کی واپسی کے حق میں ہیں، تو اس سلسلے میں انہوں نے کتنی تحریکیں چلائیں ہیں؟


میری خواہش تھی کہ ادھر اہل اندرونِ سندھ اور اہل سرحد و بلوچستان کے نمائندے بھی ہوتے اور ہمیں اُن کا موقف سننے کا بھی موقع ملتا۔
 

دوست

محفلین
اصل بات یہ ہے کہ ہمیں‌ کچھ ایسے معاملات میں‌الجھا لیا گیا ہے کہ یہ سب پس منظر میں‌چلا گیا ہے. سیاسی صورت حال آپ کے سامنے ہے. چناچہ عام آدمی کی نظر سطح‌سے ہو کر لوٹ آتی ہے. دوسرے کچھ ایسا روزی روٹی کا چکر چلایا ہے حکمرانوں‌نے کہ عام آدمی کو کمانے سے فرصت ہی نہیں‌ملتی وہ اس مسائل کو کیا دیکھے.
کچھ ہم پر اللہ کا قہر چھوہدریوں‌اور وڈیروں‌کی صورت میں‌مسلط ہے جو ہماری توجہ ادھر جانے ہی نہیں‌دیتے.
کچھ یہ سمجھ لیں‌کہ غیرت بھی مرتی جاتی ہے. میرے جیسے کئی ہیں‌جو اس مسئلے کے بارے میں‌جانتے ہیں‌مگر دانستہ چشم پوشی کر جاتے ہیں .
سمجھ یہ کہ اہل پنجاب کی یہ ہی صورت حال ہے قریبًا. اگر کوئی اس بارے لکھتا بھی ہے تو اندھیرے میں‌چنگاری کی طرح‌ کچھ دیر روشنی دے کر وہ بھی بجھ جاتا ہے.
ایم کیو ایم سے ہزار اختلاف سہی اس مسئلے پر میں ان سے متفق ہوں اور شاید سارا پنجاب اور پاکستان بھی مگر بات اظہار اور عمل کی ہے.
اللہ عمل کی توفیق دے.
 
Top