کاشفی
محفلین
غزل
(مرزا محمد رفیع سودا)
بہار بےسپرِ جام و یار گزرے ہے
نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے
گزر مِرا، ترے کوچے میں گو نہیں، نہ سہی
مرے خیال میں تو لاکھ بار گزرے ہے
کہے ہے آج ترے در پہ اضطرابِ نسیم
کہ اس جہاں سے کوئی خاکسار گزرے ہے
میں وہ نہیں، کہ کوئی مجھ سے مل کے ہو بدنام
نہ جانے! کیا تری خاطر میں، یار گزرے ہے
مجھے تو دیکھ کے جوش و خروش سودا کا
اسی ہی سوچ میں فصلِ بہار گزرے ہے
(مرزا محمد رفیع سودا)
بہار بےسپرِ جام و یار گزرے ہے
نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے
گزر مِرا، ترے کوچے میں گو نہیں، نہ سہی
مرے خیال میں تو لاکھ بار گزرے ہے
کہے ہے آج ترے در پہ اضطرابِ نسیم
کہ اس جہاں سے کوئی خاکسار گزرے ہے
میں وہ نہیں، کہ کوئی مجھ سے مل کے ہو بدنام
نہ جانے! کیا تری خاطر میں، یار گزرے ہے
مجھے تو دیکھ کے جوش و خروش سودا کا
اسی ہی سوچ میں فصلِ بہار گزرے ہے