بہترین شاعر امین اشرف مرحوم ہو گئے

الف عین

لائبریرین
اُردو کے ممتاز شاعر اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں انگریزی کے سابق پروفیسر (۸۳ سالہ) سید امین اشرف آج دوپہر دورۂ قلب کے نتیجے میں رِحلت کر گئے۔
پروفیسر امین اشرف۱۰ جولائی ۱۹۳۰کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ کچھوچھہ شریف کےمشہور صوفیا خاندان کی ایک ممتاز شخصیت سید حبیب اشرف کے فرزند ِ ارجمند تھے۔ پروفیسرسید امین اشرف علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں تدریسی خدمات سے سبکدوش ہو چکے تھے۔
پروفیسر سید امین اشرف نے ابتدائی تعلیم کچھوچھہ کے ایک مدرسے میں حاصل کی اور پھر انھیں لکھنؤ کی مشہور درس گاہ’’ فرنگی محل ‘‘ میں داخل کیاگیا۔ جہاں وہ اپنے والد کی ناگہانی رِحلت کے سبب اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔
پروفیسر سید امین اشرف نے اپنی عملی زندگی ایک لائبریرین کی حیثیت سےشروع کی اور جدید تعلیم سے بھی خود کو آراستہ کیا اُنہوں نے گریجویشن کرنے کے بعد ایم اے ہی نہیں کیا بلکہ انگریزی لٹریچر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی لی اور پھر اپنی اسی مادر علمی اوردانشگاہ میں انہوں نے پڑھایا بھی۔ پی ایچ ڈی کے تھیسس میں انہوں سروجنی نائیڈو کی شاعری پر بالخصوص روشنی ڈالی ہے۔
پروفیسر سید امین اشرف کے تین شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن کے نام اسطرح ہیں:
جادۂ شب(۲۰۰۰)
بہارِ ایجاد(۲۰۰۷)
قفس رنگ (۲۰۱۱)

پروفیسر سیدامین اشرف کو اتر پردیش اُردو اکادیمی سے ۲۰۰۷ میں اور پھر۲۰۱۰ میں ان کے شعری مجموعوں کے حوالے سے انعام بھی دیا گیا۔ علیگڑھ کی میکش اکادیمی نے بھی انھیں میکش ایوارڈ سے سرفراز کیا نیز ۲۰۱۱ میں مرحوم کو غالب ایوارڈ(دہلی) بھی تفویض کیا گیا۔
مرحوم پروفیسر سید امین اشرف کی بیوہ اُمِ ہانی اشرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
مرحوم کو اللہ نے اولاد کی نعمت میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں دیں۔رضائے الٰہی سے ایک بیٹاسید حمید اشرف کا ۱۹۹۳ میں ایک سڑک حادثے کےنتیجے میں انتقال کر گیا۔
پروفیسر سید امین اشرف کا جسدِ خاکی علیگڑھ سے کچھوچھہ شریف لے جانے کاپروگرام ہے جہاں کل بعد نماز ِجمعہ اسے سپرد ِلحد کیا جائے گا۔
(تشکر: ندیم صدیقی)
 

محمداحمد

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور عزیز و اقارب کو صبر عطا فرمائے (آمین)
 

نایاب

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین
کیا خوب کہا تھا کہ

یہ سازو رختِ دلِ بہرہ مند کیا شے ہے
تمام بکھرے ہوئے درد کا سمٹ جانا
 
Top