سین خے

محفلین
جی بالکل مرض کی صحیح نشان دہی کی...
موبائل اور سینکڑوں ٹی وی چینلز نے ہمارے لیے اچھائی دو تین فیصد ہی نکالی ہوگی اور بربادی پچانوے فیصد!!!

میں نے والدین سے کہا کہ صرف ایگزامز کے دنوں میں آپ لوگ بچوں پر ان چیزوں کے استعمال پر پابندی لگائیں پر انھوں نے جواب دیا کہ بچے بور ہو جائیں گے۔ میں نے کہا آپ ان سے باتیں کریں یا رات کو باہر ایک گھنٹہ گھما کر لے آئیں، اتنی تفریح ایگزامز کے دنوں میں کافی ہے۔ پر ان کو لگتا ہے کہ اگر یہ سب نہیں ہوگا تو بچے تنگ کریں گے اور وہ خود کام کر کے تھکے ہوتے ہیں تو اتنا وقت نہیں دے سکتے۔

اب ایسے میں پھر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ بچے بہترین پڑھیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
آج کل کے دور میں والدین بچوں کے لیے اچھے اور بہترین تعلیمی اور تفریحی سہولیات فراہم کرے کے یہ سوچتے ہیں کہ ان کے فرائض پورے ہوگئے , والدین اپنی مصروفیات کی وجہ سے اکثر بچوں کی سرگرمیوں سے لا علم رہتے ہیں ,پتہ جب چلتا ہے تو اس وقت تک بچہ مکمل طور پر غیر نصابی سرگرمیوں کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ,غافل والدین اپنی اور بچے کی نااہلی کو چھپا کر قصور وار اسکول اور ٹیوشن سینٹر کو قرار دیتے ہیں ۔
اس مراسلے پر آپ کی املا کی سرگرمیوں کو معاف کیا جاتا ہے!!!
 

سین خے

محفلین
آج کل کے دور میں والدین بچوں کے لیے اچھے اور بہترین تعلیمی اور تفریحی سہولیات فراہم کرے کے یہ سوچتے ہیں کہ ان کے فرائض پورے ہوگئے , والدین اپنی مصروفیات کی وجہ سے اکثر بچوں کی سرگرمیوں سے لا علم رہتے ہیں ,پتہ جب چلتا ہے تو اس وقت تک بچہ مکمل طور پر غیر نصابی سرگرمیوں کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ,غافل والدین اپنی اور بچے کی نااہلی کو چھپا کر قصور وار اسکول اور ٹیوشن سینٹر کو قرار دیتے ہیں ۔

سو فیصد متفق۔

ایک بات میں نے اور نوٹ کی کہ ان کے یہاں ویک اینڈ پر بہت بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام ہوتا ہے جس میں دونوں والدین کے دوست احباب آتے ہیں۔ رشتے داروں کو کم کم بلاتے ہیں ملنے بھی کم جاتے ہیں پر ان کا اپنا سوشل سرکل بہت بڑا ہے۔ اب ہر ہفتے کی سوشل گیدرنگز منعقد کرنے میں وقت تو لگتا ہوگا اور ایسے میں بچوں کو کون وقت دے گا؟
 
میں نے والدین سے کہا کہ صرف ایگزامز کے دنوں میں آپ لوگ بچوں پکے ان چیزوں کے استعمال پر پابندی لگائیں پر انھوں نے جواب دیا کہ بچے بور ہو جائیں گے۔ میں نے کہا آپ ان سے باتیں کریں یا رات کو باہر ایک گھنٹہ غھما کر لے آئیں، اتنی تفریح ایگزامز کے دنوں میں کافی ہے۔ پر ان کو لگتا ہے کہ اگر یہ سب نہیں ہوگا تو بچے تنگ کریں گے اور وہ خود کام کر کے تھکے ہوتے ہیں تو اتنا وقت نہیں دے سکتے۔

اب ایسے میں پھر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ بچے بہترین پڑھیں گے۔
اس ہی بات کا تو رونا ہے کہ اکثر والدین اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر بھی نہیں سمجھ رہے ,انھیں اپنی لائف اسٹائل کی مصروفیات سے فراغت ملے تو بچوں کی سرگرمیوں پر توجہ دیں ۔
 

سید عمران

محفلین
میں نے والدین سے کہا کہ صرف ایگزامز کے دنوں میں آپ لوگ بچوں پر ان چیزوں کے استعمال پر پابندی لگائیں پر انھوں نے جواب دیا کہ بچے بور ہو جائیں گے۔ میں نے کہا آپ ان سے باتیں کریں یا رات کو باہر ایک گھنٹہ غھما کر لے آئیں، اتنی تفریح ایگزامز کے دنوں میں کافی ہے۔ پر ان کو لگتا ہے کہ اگر یہ سب نہیں ہوگا تو بچے تنگ کریں گے اور وہ خود کام کر کے تھکے ہوتے ہیں تو اتنا وقت نہیں دے سکتے۔

اب ایسے میں پھر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ بچے بہترین پڑھیں گے۔
بالکل یہی صورت حال ہمارے گھر میں پیدا ہوگئی تھی...
بچے بور ہورہے ہیں یا شرارتیں کرکے تنگ کررہے ہیں تو موبائل یا کمپیوٹر پر مشغول کردو...
اس کے دو نقصانات ہوئے...
ایک تو بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوگیا...
دوسرے صحت خراب ہونے لگی...
تھکے تھکے سے رہنے لگے، آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرہ بجھا بجھا...
بچوں میں جو ایکٹونیس، فرہشنیس اور انرجی ہوتی ہے وہ نہ رہی...
پہلے تو جسمانی کمزوری سمجھ کر اس کا علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...
پھر سوچ سوچ کر اسی نتیجے ہر پہنچے کہ سارا موبائل کا فساد ہے، مسلسل دیکھتے رہنے سے آنکھیں متاثر ہورہی ہیں اور جسمانی کھیل کود نہ ہونے سے ڈل نیس ہے...
چناں چہ آہستہ آہستہ روٹین بدلا، شام کو کھیلنے کے لیے باہر جانے لگے، فارغ وقت کے لیے بچوں کے رسائل لادئیے اور خود بھی ان کے سامنے موبائل کا استعمال کم کردیا...
اور پھر صورت حال یکسر مختلف ہوگئی...
اسمارٹ موبائل اچھا خاصا وبال بنتا جارہا ہے...
فائدہ کم نقصان زیادہ!!!
 

فاخر رضا

محفلین
یہ بات کہ موبائل فون چھڑانے کے لئے والدین وقت دیں، شاید اس سے مسئلہ حل نہ ہو.
ہر بچہ اپنے ہم عمر کے ساتھ انجوائے کرتا ہے، لڑتا ہے. پہلے بہت سے بہن بھائی ہوتے تھے ،کزن ہوتے تھے تو وقت گزر جاتا تھا. پاس پاس گھر ہوتے تھے. اب بوڑھے زیادہ ہوتے جارہے ہیں اور بچے کم. بچے کیا کریں، کس سے کھیلیں
اب بھی اگر ہم عمر بچوں کی دوستیاں کرادی جائیں تو وہ موبائل چھوڑ دیتے ہیں. کرکٹ کھیلتے ہیں، فٹبال کھیلتے ہیں. دوستی بہت اہم ہے
 

سید عمران

محفلین
یہ بات کہ موبائل فون چھڑانے کے لئے والدین وقت دیں، شاید اس سے مسئلہ حل نہ ہو.
ہر بچہ اپنے ہم عمر کے ساتھ انجوائے کرتا ہے، لڑتا ہے. پہلے بہت سے بہن بھائی ہوتے تھے ،کزن ہوتے تھے تو وقت گزر جاتا تھا. پاس پاس گھر ہوتے تھے. اب بوڑھے زیادہ ہوتے جارہے ہیں اور بچے کم. بچے کیا کریں، کس سے کھیلیں
اب بھی اگر ہم عمر بچوں کی دوستیاں کرادی جائیں تو وہ موبائل چھوڑ دیتے ہیں. کرکٹ کھیلتے ہیں، فٹبال کھیلتے ہیں. دوستی بہت اہم ہے
بالکل فطری بات کی ہے...
پہلی کوشش تو یہی ہو کہ والدین اور بہن بھائی ہی آپس میں ایسی روٹین بنائیں کہ باہر کسی اور کی ضرورت ہی نہ پڑے...
گھر سے باہر دوست ہوں تو دیکھیں کہ وہ کیسے ہیں اور بچہ ان سے کیا سیکھ رہا ہے...
اسی بات کی تنبیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر فرمارہے ہیں...
المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل...
آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے لہذا خوب اچھی طرح دیکھ بھال کرلو کہ کسے دوست بنا رہے ہو!!!
 

جاسمن

لائبریرین
اس وقت ہم کسی بھی رُخ سے ایک مہذب قوم نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ منفی تبدیلی کے اس مرحلے میں ہے جس میں ہم تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً مفید سرگرمیاں مفقود ہوگئیں جیسے صحتمندانہ کھیلوں کا انعقاد، لائبریریوں کا وجود، ادبی اور علمی محافل، دینی مجالس، آپس میں مل بیٹھ کر اچھے موضوعات پر تبادلۂ خیالات وغیرہ۔ چند برس قبل تک محلے کے بزرگ نوجوانوں کی تربیت پر گہری نگاہ رکھتے تھے، ان کے دلوں میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ محلے کے بزرگوں کا ڈر بھی رہتا تھا، کوئی محفل ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں بزرگ اور نوجوان ایک ساتھ بیٹھ کر تعمیری گفتگو نہ کرتے ہوں۔اس کے علاوہ اساتذہ کا کردار بھی تربیت میں مددگار ثابت ہوتا تھا۔

آج ہماری اخلاقیات کی ابتری کا یہ حال ہے کہ بلامقصد اونچی آواز میں غیر مہذبانہ گفتگو کرتے ہیں یہاں تک کہ سڑک پر موٹر سائیکل اور کار سوار بھی اسی طرح گفتگو کرتے ہیں جو سنگین حادثات کا باعث بنتی ہے۔ یہ شور شرابا انسانی اعصاب کو متاثر کرکے چڑچڑے پن اور عدم برداشت کا سبب بنتا ہے۔ہر سال اس شور شرابے اور عدم برداشت کا گراف بڑھ رہا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس بے ہنگم شور کو ’’ماحولیاتی آلودگی“قرار دے کر اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتے ہیں۔ اسی لیے ان ممالک کے ہسپتالوں، درس گاہوں اور رہائشی علاقوں کے قریب بلاوجہ ہارن بجانے پر پابندی ہے، جبکہ ہمارے یہاں جن جگہوں پر ہارن بجانے کی پابندی ہے سب سے زیادہ ہارن ان ہی علاقوں میں بجتے ہیں، اسی طرح جہاں تھوکنا منع ہے وہیں زیادہ تھوکتے ہیں،جہاں کوڑا پھینکنے پر پابندی ہو وہاں کوڑے کاڈھیر لگا ہوتا ہے، کچرے کے ڈبے اندر سے خالی ہوتے ہیں اور اُن کے باہر کوڑے کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔یہ ہے ہماری معاشرتی زندگی کی تربیت کا فقدان کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے منع کیا جائے۔

کسی بھی معاشرے کی بہترین عکاس وہاں کی سڑکیں ہوتی ہیں۔ چوں کہ معاشرہ کا ہر فرد سٹرک پر آتا ہے چناں چہ اُس معاشرے کا مزاج اور رویہ بھی سڑکوں پر نظر آتا ہے۔تہذیب یافتہ معاشرہ کی سٹرکوں پر گاڑیاں اپنی اپنی لین میں نظر آتی ہیں، ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا، دوسروں کو عزت دینا، بزرگ شہریوں کو اوّلیت دینا، سڑک پار کرنے والے پیدل افراد اور ایمبولینس کو راستہ دینا فرض تصور کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ہمارے یہاں سڑکوں پر لوگ سائلینسر نکال کر ایک پہیے پر یا آڑی ترچھی موٹر سائیکل چلائیں گے،گاڑی کا ہارن زور زور سے بجائیں گے، دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں ٹریفک جام کریں گے،سرعام دوسروں سے بدتمیزی کریں گے، کبھی اپنی غلطی نہیں مانیں گے، بزرگوں کا احترام نہیں کریں گے، ایمبولینس لاکھ سائرن دے ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔

دنیا بھر میں دیانت داری کو خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کاروبار کی بات کریں تو ملاوٹ ، دھوکہ، فریب اور جعل سازی ہماری پہچان بن چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اہم قومی مواقع پر اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں اور ہمارے یہاں رمضان سے قبل ذخیرہ اندوزی شروع ہو جاتی ہے تاکہ رمضان میں ناجائز منافع خوری کی جاسکے۔طبی میدان کی بات کریں تو معالج مسیحا نہیں پیشہ ور قصاب ہیں جو اذیت میں مبتلا شخص کا خون تک نچوڑ لیتے ہیں اور مریضوں کو تڑپتا چھوڑ کر احتجاج میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

ہم اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈالتے ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی بدحالی کی ذمہ داری بزرگ نئی نسل پرڈال دیتے ہیں،اُن کے بقول نئی نسل اخلاقیات اور تہذیب سے عاری ہے۔ حالاں کہ اس بگاڑ کے اصل ذمہ دار یہی بڑے ہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد کو اخلاقیات کی تربیت دیں اور انہیں برے لوگوں کی صحبت سے بچا کر رکھیں تو ان کے بگڑنے کے امکانات نہایت کم ہوجائیں گے۔ بد قسمتی سے آج کی مائیں بچے کی تربیت پر توجہ دینے کے بجائے ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا اور سوشل پارٹیز پر زیادہ توجہ دیتی ہیں جبکہ باپ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے بچوں سے دور ہوگئے۔

محض چند برس قبل ہمیں جو تہذیبی روایات نظر آتی تھیں وہ اب دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ اساتذہ جو اپنے طلباء پر انفرادی توجہ دیتےتھے اب ان کی کردار سازی سے بے زار ہیں۔ اس وقت تعلیم کا مقصد کردار سازی کی بجائے صرف ڈگری اور اعلیٰ ملازمت کا حصول رہ گیا ہے اور اس شعبے میں بھی کمرشل ازم آگیا ہے۔ اب اساتذہ کردار سازی کی بجائے دولت کمانے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں۔

ہمارے نوجوانوں کے پاس تعلیمی ڈگری تو ہے مگر اعلیٰ کردار نہیں۔ جب ہم بچے کے ذہن میں یہ بٹھائیں گے کہ عہدے والے کی عزت ہے، پیسے والے کی عزت ہے، بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے کی عزت ہے تو اس نسل سے یہ امید کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ باکردار ہوگی؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے کردار والوں کو سامنے لایا جائے۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ اعلیٰ کردار والا کتنی عزت والا ہوتا ہے ہم کبھی اعلیٰ کردار والے نہیں بنیں گے۔اس کے لیے سب سے پہلے ہم خود کو مثالی کردار بنائیں اور اچھے کردار والوں کی عزت کریں، ان کے کثرت سے تذکرے کریں۔ نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاق اور کردار کی تربیت دینے کی بھی بھرپور کوشش کریں تبھی معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے نوجوانوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا جائے، طالب علموں کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مفید غیر نصابی سرگرمیوں میں اتنا مشغول رکھیں کہ وہ منفی سرگرمیوں یا وقت کے ضیاع سے بچیں اور ان کے اخلاق و کردار کی بہتر انداز میں تشکیل ہو۔اس کے لیے علاوہ انہیں اسلام کی صحیح روح سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا کے موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اگر شروع ہی سے نوجوانوں کی اخلاقی سوچ کو بہتر بنایا جائے تو بڑے ہوکر یہی اچھا معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں گے۔

ہر قوم کی اصل قوت اس کا اخلاق اور کردار ہے اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کے بارے میں فرمایا کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ مجموعی اور انفرادی دونوں سطح پر اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں اور مستقبل میں اس کے کیسے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس جائزے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ پر اپنا کرادر ادا کرے اور پاکستان کی تعمیر وترقی کے لیے متحرک ہو۔

اس وقت ہمارے اندر وہ تمام عادات پائی جاتی ہیں جو غیر مہذہب اقوام کی پہچان ہوتی ہیں۔ ہم تہذیب یافتہ اقوام سے کچھ بھی نہیں سیکھ سکے۔دیکھا جائے تو اسلام نے ہمیں جو طرز زندگی سکھایا ہے وہ مہذب اقوام اپنا چکی ہیں۔ اگر ہم بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسروں سے ویسا ہی برتاوٴ کریں جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی بہترین تہذیب یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

اصل تربیت وہی ہے جو اپنے عمل سے اپنے چھوٹوں کو سِکھائی جائے اور وہ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ کا اپنا کردار اچھا ہوگا!!!

سوچنے اور عمل کرنے پہ مجبور کرتی تحریر۔
متفق۔
پسندیدہ
زبردست
غم ناک
دوستانہ
 

فاخر رضا

محفلین
میرا ہمیشہ یہی کہنا ہے کہ دوستیاں والدین کروائیں. وجہ واضح ہے. جن بچوں سے دوستی کرائیں گے ان کے والدین لازماً آپ کے دوست ہونگے. ساتھ ہی ان کا ایڈریس، فون نمبر وغیرہ بھی آپ کے پاس ہوگا
آج کل ایسی گھڑیاں آرہی ہیں جن میں سم ہوتی ہے اور بچہ ٹریک کیا جاسکتا ہے. ایمرجنسی کی صورت میں وہ بچہ ایک بٹن دبا کر مدد طلب کرسکتا ہے. یوفون نے یہ شروع کی تھی
 

سین خے

محفلین
بالکل یہی صورت حال ہمارے گھر میں پیدا ہوگئی تھی...
بچے بور ہورہے ہیں یا شرارتیں کرکے تنگ کررہے ہیں تو موبائل یا کمپیوٹر پر مشغول کردو...
اس کے دو نقصانات ہوئے...
ایک تو بچوں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوگیا...
دوسرے صحت خراب ہونے لگی...
تھکے تھکے سے رہنے لگے، آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرہ بجھا بجھا...
بچوں میں جو ایکٹونیس، فرہشنیس اور انرجی ہوتی ہے وہ نہ رہی...
پہلے تو جسمانی کمزوری سمجھ کر اس کا علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...
پھر سوچ سوچ کر اسی نتیجے ہر پہنچے کہ سارا موبائل کا فساد ہے، مسلسل دیکھتے رہنے سے آنکھیں متاثر ہورہی ہیں اور جسمانی کھیل کود نہ ہونے سے ڈل نیس ہے...
چناں چہ آہستہ آہستہ روٹین بدلا، شام کو کھیلنے کے لیے باہر جانے لگے، فارغ وقت کے لیے بچوں کے رسائل لادئیے اور خود بھی ان کے سامنے موبائل کا استعمال کم کردیا...
اور پھر صورت حال یکسر مختلف ہوگئی...
اسمارٹ موبائل اچھا خاصا وبال بنتا جارہا ہے...
فائدہ کم نقصان زیادہ!!!

بالکل ایسا ہی ہے۔ آپ نے بہت بروقت ایکشن لے لیا۔
ہمارے یہاں آج کل بچوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان بھی بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات بیکن ہاوَس کی ایک پرنسپل نے ہمارے خاندان کے ایک بچے کے ایڈمشن کے وقت کہی تھی کہ والدین ریڈنگ آور بنائیں۔ اس میں والدین بھی اپنی پسند کی کتابیں یا میگزین لے کر بیٹھیں اور بچوں کو بھی کتابیں دیں۔ خود بھی پڑھتے جائیں اور جو بچوں کو مسائل ہوں اس پر ان سے بات کرتے جائیں۔ آخر میں کچھ مقابلے کی فضا بنانے کی کوشش کریں کہ آج کس نے کتنا پڑھا اور کون آگے رہا۔ اس طرح بچوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے گی اور ان میں شوق بھی بڑھے گا۔
 

سین خے

محفلین
اصل میں ہر چیز ایک اعتدال میں اچھی لگتی ہے۔ ایک یہ بھی کام ہو سکتا ہے اور اکثر میں والدین کو کہتی بھی ہوں کہ آپ ایک گھنٹہ شام کو ٹی وی یا گیمز وغیرہ کے لئے مختص کر دیں۔ یہ بھی اس وقت جب بچے پڑھائی سے فارغ ہو جائیں۔ ٹی وی دیکھنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ آپ بچوں سے دو چار باتیں کریں کہ انھوں کسی پروگرام سے کیا سیکھا۔ اس سے بچے اپنے خیالات کا اظہار کرنا بہتر طور پر سیکھتے ہیں۔ اس طرح ان کی کچھ تربیت بھی ہو جاتی ہے اور وہ کچھ اچھے اور برے میں فرق بھی کرنا سیکھتے ہیں۔
 
تربیت کا جو اصل حق ہے وہ والدین ہی پورے کر سکتے ہیں ،اساتذہ دنیاوی علم سے روشناس کرتے ہیں مگر والدین کی جانب سے کی گئی پرورش اور تربیت بچے کو اخلاقی اور روحانی علم سے روشناس کرتی ہے ،بچوں میں پہچان اور سمجھ کی ابتداء ہوتی تو وہ اپنے والدین کی حرکات سکنات سے ہی سیکھنا شروع کرتا ہے ۔
 
Top