نیرنگ خیال
لائبریرین
بہتے لہو میں سب تیرا مفہوم بہہ گیا
چودہ اگست صرف تیرا نام رہ گیا
جلنا ہے غم کی آگ میں ہم کو تمام شب
بجھتا ہوا چراغ سر شام کہہ گیا
ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جورنج اس نگر میں یہ دل ہنس کہ سہہ گیا
گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روزوشب
خورشید بجھ گیا کبھی مہتاب گہنا گیا
شاعر حضور شاہ سبھی سر کے بل گئے
جالب ہی اس گناہ سے بس دور رہ گیا