بہت ہیں روز ثواب و گناہ دیکھنے کو - من موہن تلخ

کاشفی

محفلین
غزل
(من موہن تلخ - ہندوستان)

بہت ہیں روز ثواب و گناہ دیکھنے کو
کہ ہم ہیں زندگیء بے پناہ دیکھنے کو

بنے گی اب نظر انکار سو رُکے ہیں سبھی
خود اپنی آنکھ سے اپنی نگاہ دیکھنے کو

جو بخش دے مجھے پاکیزگی ترستا ہوں
وہ رنگِ جذبہ، وہ معصوم چاہ دیکھنے کو

نہ سنگ راہ کہو دل کے اس دوراہے پر
کھڑے ہوئے ہیں فقط اپنی راہ دیکھنے کو

ملا دیا ہمیں اپنوں سے، شکریہ اے وقت!
یہی ملے تھے ہمیں یوں تباہ دیکھنے کو

تنک مزاج ہیں ہم، یوں نہ روز روز ملو
بہت ہے آؤ اگر، گاہ گاہ دیکھنے کو


جو میرے بارے میں مجھ سے بھی معتبر ہے کوئی
میں جی رہا ہوں ترا وہ گواہ دیکھنے کو


سن اے ہمارے سفید و سیاہ کے مالک
ہم آئے ہیں وہ سفید و سیاہ دیکھنے کو

تم آنکھ تک نہیں ملتے مچا ہو جب کہرام
تم آنکھ کھولتے ہو صرف راہ دیکھنے کو

یہ کس کی آہ لگی گھر کوئی نہیں‌ملتا
ہر اک مکان ہے خود سب کی راہ دیکھنے کو

کھلا کہ دیدہء عبرت نگاہ کوئی نہ تھا
اٹھی تھی یوں تو ہر اک کی نگاہ دیکھنے کو

جو سب کی جان کا جنجال یہ نباہ ہے
"تلخ"
میں سب کے ساتھ ہوں بس وہ نباہ دیکھنے کو
 

الف عین

لائبریرین
تلخ کی شاعری مجھ کو پہلے بھی پسند تھی، افسوس کہ ان کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی۔ عمیق بھائی نے ہی ملوایا تھا ان سے۔ اب یہ دونوں دوست اور بزرگ انتقال کر چکے، بس کتاب رہ گئی، میرے پاس ان کے دستخط کے ساتھ موجود ہے، ڈاک سے بھیجی تھی۔
 
Top