ساتھ دل میں جمتے جاتے ہیں جس سے دین تو ان کا تباہ ہوتا ہی ہے مگر دنیا بھی بے لطف و بدمزہ ہوجاتی ہے،اس وجہ سے بداعتقادی سے بداخلاقی پیدا ہوتی ہے اور بد اخلاقی سے بد اعمالی اور بد اعمالی سے بد معاملگی جو جڑ ہے تکدر معیشت کی،رہا شوہر اگر ان ہی جیسا ہوا تو دو مفسدوں کے جمع ہونے سے فساد میں اور ترقی ہوئی جس سے آخرت کی تو خانہ ویرانی ضروری ہے مگر اکثر اوقات اس فساد کا انجام باہمی نزاع ہوکر دنیا کی خانہ ویرانی بھی ہوجاتی ہے اور اگر شوہر میں کچھ صلاحیت ہوئی تو اس بیچارے کوجنم بھر کی قید نصیب ہوئی۔بیوی کی ہر حرکت اس بیچارے شوہر کیلئے ایذا رساں اور اس کی ہر نصیحت اس بیوی کو ناگوار اور گراں۔اگر صبر نہ ہوسکا تو نوبت نااتفاقی اور علیحدگی تک پہنچ گئی اور اگر صبر کیا گیا تو قید ہونے میں شبہ ہی نہیں اور اس ناواقفیت علوم دین کی وجہ سے ان کی دنیا بھی خراب ہوتی ہے،مثلاََ کسی کی غیبت کی اس سے عداوت ہوگئی اور اس سے کوئی ضرر پہنچ گیا اور مثلاََ طلبِ جاہ ناموری کے لئے فضول رسوم مں اسراف کیا اور ثروت مبدل بہ افلاس ہوگئی اور مثلاََ شوہر کو ناراض کر دیا اس نے نکال باہر کیا یا بے التفاتی کر کے نظر انداز کر دیا،اور مثلاََ اولاد کی بے جا ناز برداری کی اور وہ بے ہنر اور نامکمل رہ گئی اور ان کو دیکھ دیکھ کو ساری عمر کوفت میں گزری اور مثلاََ مال و زیور کی حرص بڑھی اور بقدر حرص نصیب نہ ہوا تو تمام عمر اسی اُدھیڑ بن میں کاتٰ اور اسی طرح بہت سے مفاسد لازمی اور متعدی اس ناواقفیت کی بدولت پیدا ہوتے ہیں چونکہ علاج ہر شے کا اس کی ضد سے ہوتا ہے اس لئے اس کا علاج واقفیت علم دین یقینی قرار پایا۔ بناء علیہ مدت دراز سے اس خیال میں تھا کہ عورتوں کو اہتمام کر کے علم دین گو اردو ہی میں کیوں نہ ہو ضرور سکھایا جائے،اس ضرورت سے موجودہ اردو کے رسالے اور کتابیں دیکھی گئیں تو اس ضرورت کے رفع کرنے کے لئے کافی نہیں پائی گئیں۔ بعض کتابیں تا محض نامعتبر اور غلط پائی گئیں۔ بعض کتابیں جو معتبر تھیں ان کی عبارت ایسی سلیس نہ تھی جو عورتوں کے فہم کے لائق ہو۔ پھر ان میں وہ مضامین بھی مخلوط تھے جن کا تعلق عورتوں سے کچھ بھی نہیں۔ بعض کتابیں عورتوں کے لئے پائی گئیں مگر وہ اس قدر تنگ اور کم تھیں کہ ضروری مسائل اور احکام کی تعلیم میں کافی نہیں، اس لئے تجویز کی کہ ایک کتاب خاص ان کے لئے ایسی بنائی جائے جس کی عبارت بہت ہی سلیس ہو،جمیع ضروریات دین کو وہ حاوی ہو اور جو احکام صرف مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں ان کو اس میں نہ لیا جائے اور ایسی کافی و دافی ہو کی صرف اس کا پڑھ لینا ضروریات دین روزمرہ میں اور کتابوں سے مستغنی کر دے اور یوں تو علم دین کا احاطہ ایک کتاب میں ظاہر ہے کہ ناممکن ہے اسی طرح مسلمانوں کو علماء سے استغنا محال ہے۔ کئی سال تک یہ خیال دل میں پکتا رہا لیکن بوجہ عروض عوارض مختلفہ کے جس میں بڑا امر کم فرصتی ہے اس کے شروع کی نوبت نہ آئی۔ آخر 1320 ھ میں جس طرح بن پڑا اللی کا نام لے کر اس کو شروع ہی کر دیا اور خدا کا فضل شامل حال یہ ہوا کہ ساتھ ہی اس کا سامان طبع بھی کچھ شروع ہوگیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے رنگون کے مدرسہ نسواں سورتی کے مہتمم سیٹھ صاحب کا اور جناب مولانا عبدالغفار صاحب لھنوی رحمتہ اللہ الیہ کی صاحبزادی مرحومہ کا جو حکیم عبد اسلام صاحب دانا پوری سے منسوب تھیں حصہ رکھا تھا کہ ان کی رقموں سے یہ نیک کام فرجام شروع ہوا ،اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ دیکھیے آئیندہ اس میں کس کس کا حصہ ہے۔تالیف اس کی برائے نام اس ناکارہ و ناچیز کی طرف منسوب ہے اور واقع میں اس کے گُلِ سرسید حبیبی عزیزی مولوی سید احمد علی صاحب فتح پوری سلمہ اللہ تعالیٰ بالافادات و الافاضات
یہ کتاب تو یونی کوڈ میں دستیاب ہے۔ اب تین حصوں میں تدوین کرنے کے بعد پوسٹ ہو چکی اول دوم سوم
اگرچہ متن جہاں سے اسد نے جمع کر کے دیا تھا، وہ سائٹ اب غائب ہے۔
یہ کتاب تو یونی کوڈ میں دستیاب ہے۔ اب تین حصوں میں تدوین کرنے کے بعد پوسٹ ہو چکی اول دوم سوم
اگرچہ متن جہاں سے اسد نے جمع کر کے دیا تھا، وہ سائٹ اب غائب ہے۔