حسان خان
لائبریرین
بحر = فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
من از امروز ز حسن تو بریدم سر و کار
تا به دیوانگیم خلق نمایند اقرار!
میں نے آج سے تیرے حُسن سے سر و کار ختم کر لیا ہے، تاکہ میری دیوانگی کا لوگ اقرار کر سکیں!
ای مهٔ ملک عجم، ای صنم عالم شرق!
هوش گرد آور و بر گفتهٔ من دل بگمار!
اے ملکِ عجم کے چاند، اے عالمِ شرق کے صنم! ہوش کی جمع آوری کرو اور میرے کہے ہوئے پر دھیان دو۔
تا کنون پیش تو چون بنده به درگاه خدا
لابه ها کردم و بر خاک بسودم رخسار
میں اب تک تمہارے آگے اُسی طرح عجز و نیاز کرتا اور چہرہ خاک پر ملتا رہا جس طرح ایک بندہ عبادت خانے میں خدا کے سامنے کرتا ہے۔
لیکن امروز مجدّانه و رسمانه تو را
آشکارا سخنی چند بگویم، هشدار!
لیکن آج میں کوشش کر کے باقاعدہ تم سے کچھ آشکارا باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ہوشیار ہو جاؤ۔
بعد از این، از خط و خالت نهراسد دل من
زانکه با حسن تو کارم نبود دیگر بار
آج کے بعد تمہارے خال و خط سے میرا دل نہیں خوف کھائے گا، کیوں کہ اب دوبارہ مجھے تمہارے حُسن سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔
تا کی از زلف تو زنجیر نهم بر گردن؟
تا کی از مژه تو تیر زنم بر دل زار؟
میں کب تک تمہاری زلفوں کی زنجیر گردن پر ڈالے رہوں؟ میں کب تک تمہاری پلکوں سے اپنے دلِ زار پر تیر زنی کرتا رہوں؟
تا به کی بی لب لعل تو دلم خون گردد؟
چند بی مار سر زلف تو باشم بیمار؟
کب تک تیرے لعل جیسے ہونٹوں کے بغیر میرا دل خون ہوتا رہے؟ میں تیری ناگن جیسی زلفوں کی جدائی میں اور کتنا بیمار پڑتا رہوں؟
به سرانگشت تو تا چند زنم تهمت قتل
یا به مژگان تو تا چند دهم نسبت خار؟
میں تیری انگلیوں پر کب تک قتل کی تہمت لگاؤں؟ یا تیری پلکوں کو اور کتنی بار کانٹوں سے نسبت دوں؟
چند گویم که رخت ماه بود در خوبی؟
چند گویم که قدت سرو بود در رفتار؟
اور کتنی بار کہوں کہ تیرا چہرہ خوبصورتی میں چاند جیسا ہے؟ اور کتنی بار کہوں کہ تیرا قد رفتار میں سرو جیسا ہے؟
ماه روئی تو، و لازم نبود بر گفتن
سرو قدی تو، حاجت نبود بر اظهار
تو واقعی ماہ رو ہے، اس بات کو بار بار کہنا لازم نہیں ہے۔ تو واقعی سرو قد ہے، اس بات کے بار بار اظہار کی حاجت نہیں ہے۔
مدح تو بیشتر از هر که توانم گویم
لیک اینها همه حرف است و ندارد مقدار
میں جتنا کہنے کی قدرت رکھتا ہوں، تیری تعریف اُس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں محض باتیں ہیں جو قدر و قیمت سے خالی ہیں۔
زین چه حاصل که ز مژگان تو خنجر سازند؟
یا به ابروی تو گویند هلالی است نزار؟
اس سے کیا حاصل کہ اگر تیری پلکوں سے خنجر بنائے جائیں؟ یا یہ کہ تیرے ابروؤں کو لاغر ہلال کہا جائے؟
من به زیبائی بی علم، خریدار نیم
حسن مفروش دگر با من و کردار بیار
میں بے علم خوبصورتی کا خریدار نہیں ہوں۔ آئندہ مجھے اپنا حسن مت بیچنا بلکہ اپنا کردار لانا۔
عاشقان چون خط و خال تو بدآموزانند
دیگر این طایفه را راه مده بر دربار
(تیرے) عشاق تیرے خال و خط کی طرح بدآموز (بری تعلیم دینے والے) ہیں، دوبارہ اس طبقے کو اپنے دربار میں آنے کی اجازت مت دینا۔
عاشقی همچو "تمدن" به حقیقت داری
بعد از این دست ز عشاق مجازی بردار!
تیرے پاس 'تمدن' جیسا حقیقی عاشق موجود ہے، اب اس کے بعد عشاقِ مجازی سے کنارہ گیر ہو جاؤ۔
اندرین عصر تمدن، صنما، لایق نیست
دلبری چون تو، از آرایش دانش به کنار!
اے صنم! اس عصرِ تمدن میں یہ بات شایاں نہیں کہ تیرے جیسا دلبر علم و دانش کی آرائش سے بے بہرہ ہو۔
عیب باشد که تو در پرده و خلقی آزاد
حیف باشد که تو در خواب و جهانی بیدار!
یہ بات عیب ہے کہ تو پردے میں ہے اور دنیا کے لوگ آزاد ہیں۔۔۔ حیف ہے کہ تو نیند میں ہے اور دنیا بیدار ہے۔
ترک چادر کن و مکتب برو و درس بخوان!
شاخهٔ جهل ندارد ثمری جز ادبار
اپنی چادر (پردے) کو ترک کرو، مکتب جاؤ اور سبق پڑھو۔۔ جہل کی شاخ سے سوائے بدبختی کے کوئی اور پھل حاصل نہیں ہوتا۔
دانش آموز و ز اوضاع جهان آگه شو!
وین نقاب سیه از چهرهٔ روشن بردار!
علم حاصل کرو اور دنیا کے احوال سے آگاہ ہو۔۔ اور یہ سیاہ نقاب اپنے روشن چہرے سے اتار ڈالو۔
علم اگر نیست ز حیوان چه بود فرق بشر
بوی اگر نیست، تفاوت چه کند گل از خار؟
اگر علم نہ ہو تو حیوان اور بشر میں کیا فرق ہے؟ اگر خوشبو نہ ہو تو پھول اور کانٹے میں کیا تفاوت ہے؟
خرد آموز و پی تربیت ملت خویش
جهد و جدی بنما، چون دگران مادروار!
خرد سیکھو اور دوسروں کی طرح مانندِ مادر اپنی ملت کی تربیت کے لیے جدوجہد کرو۔
تو گذاری به دهان همه کس اول حرف
هر کسی از تو سخن می شنود اول بار
تو ہی سب انسانوں کے منہ میں پہلی بار حرف ڈالتی ہے اور ہر کوئی اس دنیا میں آ کر تجھ ہی سے پہلی بار بات سنتا ہے۔
پس از اول تو بگوش همه این نکته بگو:
که نترسند ز زحمت نگریزند از کار
ہر چیز سے پہلے تم سب کے کانوں میں یہ بات ڈالا کرو کہ وہ محنت سے نہ ڈریں اور کام سے نہ بھاگیں۔
سخن از دانش و آزادی و زحمت میگوی
تا که فرزند تو با این سخنان آید بار
دانش، آزادی اور محنت کی باتیں کیا کرو تاکہ تمہارا فرزند ان باتوں کے تحت تربیت پا کر جوان ہو۔
گو! بداند که: نباید بخورد لقمه مفت
گر بمیرد، دگری را نکند استثمار
اپنے فرزند سے کہو کہ وہ مفت کا لقمہ نہیں توڑے گا اور چاہے مر جائے لیکن وہ دوسروں کا استحصال نہیں کرے گا۔
فرق هرگز نگذارد به میان زن و مرد
وین دعاوی را ثابت بکند با " کردار"
(یہ بھی تربیت کرو کہ وہ) مرد و عورت کے بیچ کسی طرح کا فرق روا نہیں رکھے گا اور اس دعوے کو اپنے کردار سے بھی ثابت کرے گا۔
به یقین گر تو چنین مادر خوبی باشی
مس اقبال وطن از تو شود زر عیار
مجھے یقین ہے کہ اگر تو اس طرح کی خوب ماں بن جائے تو وطن کے بخت کا تانبہ تیرے باعث خالص سونا بن جائے گا۔
وطن از رنجبر و کارگران آباد است
نه از اشخاص توانگر، نه ز اشراف کبار
وطن محنت مشقت کرنے والوں اور مزدوروں کی وجہ سے آباد ہے نہ کہ اشخاصِ توانگر کی وجہ سے، اور نہ ہی اشرافِ کبار کی وجہ سے۔۔۔
این بود مسلک لاهوتی و هم فکرانش
گو! همه خلق بدانند، نمودیم اخطار!
یہی لاہوتی اور اس کے ہم فکروں کا مسلک ہے۔۔۔ ہم نے خبردار کرنے کے لیے اعلان کر دیا، تم بھی کہہ دو تاکہ لوگ جان جائیں۔
(ابوالقاسم لاهوتی)
سالِ وفات: ۱۹۵۷ء
من از امروز ز حسن تو بریدم سر و کار
تا به دیوانگیم خلق نمایند اقرار!
میں نے آج سے تیرے حُسن سے سر و کار ختم کر لیا ہے، تاکہ میری دیوانگی کا لوگ اقرار کر سکیں!
ای مهٔ ملک عجم، ای صنم عالم شرق!
هوش گرد آور و بر گفتهٔ من دل بگمار!
اے ملکِ عجم کے چاند، اے عالمِ شرق کے صنم! ہوش کی جمع آوری کرو اور میرے کہے ہوئے پر دھیان دو۔
تا کنون پیش تو چون بنده به درگاه خدا
لابه ها کردم و بر خاک بسودم رخسار
میں اب تک تمہارے آگے اُسی طرح عجز و نیاز کرتا اور چہرہ خاک پر ملتا رہا جس طرح ایک بندہ عبادت خانے میں خدا کے سامنے کرتا ہے۔
لیکن امروز مجدّانه و رسمانه تو را
آشکارا سخنی چند بگویم، هشدار!
لیکن آج میں کوشش کر کے باقاعدہ تم سے کچھ آشکارا باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ہوشیار ہو جاؤ۔
بعد از این، از خط و خالت نهراسد دل من
زانکه با حسن تو کارم نبود دیگر بار
آج کے بعد تمہارے خال و خط سے میرا دل نہیں خوف کھائے گا، کیوں کہ اب دوبارہ مجھے تمہارے حُسن سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔
تا کی از زلف تو زنجیر نهم بر گردن؟
تا کی از مژه تو تیر زنم بر دل زار؟
میں کب تک تمہاری زلفوں کی زنجیر گردن پر ڈالے رہوں؟ میں کب تک تمہاری پلکوں سے اپنے دلِ زار پر تیر زنی کرتا رہوں؟
تا به کی بی لب لعل تو دلم خون گردد؟
چند بی مار سر زلف تو باشم بیمار؟
کب تک تیرے لعل جیسے ہونٹوں کے بغیر میرا دل خون ہوتا رہے؟ میں تیری ناگن جیسی زلفوں کی جدائی میں اور کتنا بیمار پڑتا رہوں؟
به سرانگشت تو تا چند زنم تهمت قتل
یا به مژگان تو تا چند دهم نسبت خار؟
میں تیری انگلیوں پر کب تک قتل کی تہمت لگاؤں؟ یا تیری پلکوں کو اور کتنی بار کانٹوں سے نسبت دوں؟
چند گویم که رخت ماه بود در خوبی؟
چند گویم که قدت سرو بود در رفتار؟
اور کتنی بار کہوں کہ تیرا چہرہ خوبصورتی میں چاند جیسا ہے؟ اور کتنی بار کہوں کہ تیرا قد رفتار میں سرو جیسا ہے؟
ماه روئی تو، و لازم نبود بر گفتن
سرو قدی تو، حاجت نبود بر اظهار
تو واقعی ماہ رو ہے، اس بات کو بار بار کہنا لازم نہیں ہے۔ تو واقعی سرو قد ہے، اس بات کے بار بار اظہار کی حاجت نہیں ہے۔
مدح تو بیشتر از هر که توانم گویم
لیک اینها همه حرف است و ندارد مقدار
میں جتنا کہنے کی قدرت رکھتا ہوں، تیری تعریف اُس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں محض باتیں ہیں جو قدر و قیمت سے خالی ہیں۔
زین چه حاصل که ز مژگان تو خنجر سازند؟
یا به ابروی تو گویند هلالی است نزار؟
اس سے کیا حاصل کہ اگر تیری پلکوں سے خنجر بنائے جائیں؟ یا یہ کہ تیرے ابروؤں کو لاغر ہلال کہا جائے؟
من به زیبائی بی علم، خریدار نیم
حسن مفروش دگر با من و کردار بیار
میں بے علم خوبصورتی کا خریدار نہیں ہوں۔ آئندہ مجھے اپنا حسن مت بیچنا بلکہ اپنا کردار لانا۔
عاشقان چون خط و خال تو بدآموزانند
دیگر این طایفه را راه مده بر دربار
(تیرے) عشاق تیرے خال و خط کی طرح بدآموز (بری تعلیم دینے والے) ہیں، دوبارہ اس طبقے کو اپنے دربار میں آنے کی اجازت مت دینا۔
عاشقی همچو "تمدن" به حقیقت داری
بعد از این دست ز عشاق مجازی بردار!
تیرے پاس 'تمدن' جیسا حقیقی عاشق موجود ہے، اب اس کے بعد عشاقِ مجازی سے کنارہ گیر ہو جاؤ۔
اندرین عصر تمدن، صنما، لایق نیست
دلبری چون تو، از آرایش دانش به کنار!
اے صنم! اس عصرِ تمدن میں یہ بات شایاں نہیں کہ تیرے جیسا دلبر علم و دانش کی آرائش سے بے بہرہ ہو۔
عیب باشد که تو در پرده و خلقی آزاد
حیف باشد که تو در خواب و جهانی بیدار!
یہ بات عیب ہے کہ تو پردے میں ہے اور دنیا کے لوگ آزاد ہیں۔۔۔ حیف ہے کہ تو نیند میں ہے اور دنیا بیدار ہے۔
ترک چادر کن و مکتب برو و درس بخوان!
شاخهٔ جهل ندارد ثمری جز ادبار
اپنی چادر (پردے) کو ترک کرو، مکتب جاؤ اور سبق پڑھو۔۔ جہل کی شاخ سے سوائے بدبختی کے کوئی اور پھل حاصل نہیں ہوتا۔
دانش آموز و ز اوضاع جهان آگه شو!
وین نقاب سیه از چهرهٔ روشن بردار!
علم حاصل کرو اور دنیا کے احوال سے آگاہ ہو۔۔ اور یہ سیاہ نقاب اپنے روشن چہرے سے اتار ڈالو۔
علم اگر نیست ز حیوان چه بود فرق بشر
بوی اگر نیست، تفاوت چه کند گل از خار؟
اگر علم نہ ہو تو حیوان اور بشر میں کیا فرق ہے؟ اگر خوشبو نہ ہو تو پھول اور کانٹے میں کیا تفاوت ہے؟
خرد آموز و پی تربیت ملت خویش
جهد و جدی بنما، چون دگران مادروار!
خرد سیکھو اور دوسروں کی طرح مانندِ مادر اپنی ملت کی تربیت کے لیے جدوجہد کرو۔
تو گذاری به دهان همه کس اول حرف
هر کسی از تو سخن می شنود اول بار
تو ہی سب انسانوں کے منہ میں پہلی بار حرف ڈالتی ہے اور ہر کوئی اس دنیا میں آ کر تجھ ہی سے پہلی بار بات سنتا ہے۔
پس از اول تو بگوش همه این نکته بگو:
که نترسند ز زحمت نگریزند از کار
ہر چیز سے پہلے تم سب کے کانوں میں یہ بات ڈالا کرو کہ وہ محنت سے نہ ڈریں اور کام سے نہ بھاگیں۔
سخن از دانش و آزادی و زحمت میگوی
تا که فرزند تو با این سخنان آید بار
دانش، آزادی اور محنت کی باتیں کیا کرو تاکہ تمہارا فرزند ان باتوں کے تحت تربیت پا کر جوان ہو۔
گو! بداند که: نباید بخورد لقمه مفت
گر بمیرد، دگری را نکند استثمار
اپنے فرزند سے کہو کہ وہ مفت کا لقمہ نہیں توڑے گا اور چاہے مر جائے لیکن وہ دوسروں کا استحصال نہیں کرے گا۔
فرق هرگز نگذارد به میان زن و مرد
وین دعاوی را ثابت بکند با " کردار"
(یہ بھی تربیت کرو کہ وہ) مرد و عورت کے بیچ کسی طرح کا فرق روا نہیں رکھے گا اور اس دعوے کو اپنے کردار سے بھی ثابت کرے گا۔
به یقین گر تو چنین مادر خوبی باشی
مس اقبال وطن از تو شود زر عیار
مجھے یقین ہے کہ اگر تو اس طرح کی خوب ماں بن جائے تو وطن کے بخت کا تانبہ تیرے باعث خالص سونا بن جائے گا۔
وطن از رنجبر و کارگران آباد است
نه از اشخاص توانگر، نه ز اشراف کبار
وطن محنت مشقت کرنے والوں اور مزدوروں کی وجہ سے آباد ہے نہ کہ اشخاصِ توانگر کی وجہ سے، اور نہ ہی اشرافِ کبار کی وجہ سے۔۔۔
این بود مسلک لاهوتی و هم فکرانش
گو! همه خلق بدانند، نمودیم اخطار!
یہی لاہوتی اور اس کے ہم فکروں کا مسلک ہے۔۔۔ ہم نے خبردار کرنے کے لیے اعلان کر دیا، تم بھی کہہ دو تاکہ لوگ جان جائیں۔
(ابوالقاسم لاهوتی)
سالِ وفات: ۱۹۵۷ء
آخری تدوین: