محمداحمد
لائبریرین
غزل
بہ پاسِ خاطرِ سرکار کیا نہیں کرتے
ہیں دل فگار مگر دل بُرا نہیں کرتے
ہماری ذات میں محشر بپا ہے مدت سے
مگر یہ ہم کہ کوئی فیصلہ نہیں کرتے
غبارِ راہ سے آگے نکل گئے ہوتے
جو رک کے پاؤں سے کانٹے جدا نہیں کرتے
و ہ دل پہ وار بھی کرتا ہے یہ بھی کہتاہے
کہ دل کے زخم عجب ہیں بھرا نہیں کرتے
اب اور پاؤں نہ پھیلائے اس تھکن سے کہو
کہ ہم سفر میں زیادہ رکا نہیں کرتے
شکستِ شیشۂ دل کی صدا ہی سن لیتے
وہ تُند خُو جو کسی کی سنا نہیں کرتے
پیرزادہ قاسم