ڈیم فنڈ: آئیے تھوک سے پکوڑیں تلیں !
دیامر بھاشا ڈیم پر جو ایبسرڈ سا رومانس اور خود فریبی کا کھلم کھلا اظہار ہورہا ہے اس پر غالب یاد آ تا ہے،
کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم
آ پ اٹھا لاتے ہیں جو تیر خطا ہوتا ہے
چیف جسٹس صاحب اور وزیر اعظم عمران خان صاحب کے میدان عمل میں کودنے کے بعد جو کچھ اس خوش فہم قوم کے ساتھ ہو رہا ہے مرزا نوشہ یاد کیوں نہ آئیں،
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک رہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ڈیم فنڈ پر بات کرنے سے پہلے برسوں پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا جب میں اپنے دوستوں اور چھوٹے بھائی یاسر حسین کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ ریلوے کے گھر کئی کنالوں پر مشتمل ہوتے تھے اور ہم سارا دن کرکٹ کھیلتے تھے۔ ویسے بھی برٹ کالونی میں رہتے ہوئے کرکٹ ہی اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا۔
خیر ! گیٹ پر دستک ہوئی اور چند مولوی حضرات ہونٹوں پر جعلی سا تبسم بکھیرے کھڑے تھے۔ یاسر نے گیٹ کھولا اور وہ رٹی رٹائی کہانی دہرانے لگے۔ پوری بات توجہ سے سن کر یاسر اندر آیا اور دو اینٹیں لے کر باہر چلا گیا۔ ہم بہت حیران ہوئے اور اس کے پیچھے بھاگے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یاسر دو اینٹیں ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بڑے ادب سے کہہ رہا تھا کہ، ” اے میرے ولوں کار خیر وچ پا دینا ” یعنی یہ میری طرف سے نیک کام میں ڈال دینا۔
دراصل مولوی حضرات کسی زیر تعمیر مسجد (جو دراصل پیسے اینٹھنے کا بہانہ ہوتا تھا) میں حصہ ڈلوانا چاہتے تھے اور اینٹیں دیکھ کر بہت مایوس ہوئے۔ یاسر بھی سچا تھا کہ وہ کونسا پیسہ کماتا ہے جو چندہ دے اور ویسے بھی مسجدیں بنوانا ریاست کا کام ہے کہ کتنی مسجدیں کتنے لوگوں کے لیے ہونی چاہییں اور کہاں کہاں ہونی چاہییں۔
مسجدوں کی تعمیرات پر آج کل جو ڈھکے چھپے جھگڑے چل رہے ہیں وہ منظر عام پر آ جائیں تو کمال ہو جائے یعنی کسی کا الزام ہے کہ فلاں فرقہ نے فلاں بیوہ کی زمین پر قبضہ جمایا ہوا ہے تو فلاں کی رجسٹری جعلی ہے، فلاں نے ریلوے کی زمین ہتھیانے کے لیے مسجد بنانے کا سہارا لیا ہے تو فلاں نے کچی بستی پر قبضہ جمانے کے لیے۔
بات ہو رہی تھی دیامر بھاشا ڈیم کی جس کی سائٹ پر اگلے برس چوکیدار رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ یہ فریضہ محترم جناب چیف جسٹس صاحب انجام دیں گے۔ بجائے اس کے کہ چیف صاحب ریٹائر ہونے کے بعد ہمیں پالیسیاں بنانا، ریوینیو اور ریٹنگ بڑھانا سکھائیں وہ چوکیدارا کرنے کے چکر میں پڑے ہیں۔ انہیں تو چاہیے سمندر پار پاکستانیوں کی جیبوں سے ڈالر نکلوا کر کالا باغ ڈیم بھی تعمیر کروائیں وہ چوکیدار بننے چلے ہیں۔
جناب آپ پیسہ منگوائیں چوکیدار بہت۔ اوورسیز پاکستانی ہمارے دوست، بھائی، رشتہ دار ہیں لیکن ان میں سے کچھ جن کا داؤ لگ گیا ہے وہ فیس بک پر بہت بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً عمران خان کا سارا خرچ میں چلاؤں گا۔ اتنے پیسے بھیجیں گے کہ چیف صاحب ڈالروں کے نیچے آ کر پکاریں گے، “ظالمو ! بس کر دیو۔ کج اپنے واسطے وی رکھ لؤ۔ ٹرمپ وی بڑا ظالم اے تے کفیل وی”۔
اوور سیز ایک عجیب سے احساس تفاخر میں ہوتے ہیں اور اپنی محرومی و غریب الوطنی کا ازالہ پاکستان کے لیے معجزے ہوتے دیکھ دیکھ کر کرتے ہیں۔ اکثر آ پ سنتے ہوں گے کہ “بس اللہ عمران کو کامیاب کرے۔ ہم تو اٹھتے بیٹھتے یہ دعا کرتے ہیں”۔ کوئی سیانا اگر کہہ دے کہ جناب کاسمیٹک تبدیلیاں ہی لا سکتا ہے بے چارہ خان اور کیا کر سکتا ہے تو مایوس ہو جاتے ہی یا دل میں یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ ترقی نہیں کرنا چاہتے۔
آپ ہزار کہیں کہ جناب یہ ڈیم چندے سے نہیں بن سکتے خدارا پوری قوم کو خیرات پر نہ لگائیں بلکہ خان صاحب کو کہیں کہ مستقل ریونیو کا بندوبست کریں اور اپنے زور بازو پر کریں تو یہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ جب تک اس ملک میں ہوتے ہیں بے روزگاری، مجبوری اور محرومی کا شکار رہتے ہیں، پھر باہر چلے جاتے ہیں اور ہر دن شناخت کےبحران کا شکار ہوتے ہیں، چھپ چھپ کر روتے ہیں، گلی، محلہ، گالم گلوچ اور پرانے رقعے یاد آ تے ہیں اور گاہے گاہے نئی زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں بس پھر دل چاہتا ہے کہ وہ خاک بر سر، برہنہ سر، چاک داماں، ژولیدہ مو جو پیچھے رہ گئے ہوتے ہیں انہیں ترقی کرنے کے گر سکھائیں۔ اوورسیز کو ہر حکمران کرپٹ نظر آ تا ہے کیوں کہ جھوٹ بولا ہی اتنے زور سے جاتا ہے کہ پوری حقیقت پتہ ہی نہیں چلتی۔
چند بڑھک باز قسم کے اوورسیز ہلہ شیری دے رہے ہیں جو سستی شہرت کے شوقین ہیں اور کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ میں نے تو یہ بھی محسوس کیا ہے کہ اوورسیز مغربی سرمایہ داروں کی طرح پاکستان میں غیر سیاسی حکومت کے ساتھ خوش رہتے ہیں حالانکہ جن ملکوں میں رہ رہے ہوتے ہیں وہاں غیر سیاسی حکومت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بہرحال ابھی انہوں نے خان صاحب سے اپنے تیس کروڑ کا حساب نہیں مانگا ورنہ پوچھتے کہ سیاسی جلسوں اور الیکشن کیمپین میں کروڑوں ڈالر جھونکتے ہوئے سادگی اور “ڈیم” ڈیم کا خیال نہیں آیا۔ حکومت بنانے کے بعد احساس ہوا کہ سادگی اختیار کرنی چاہیے۔ ارب پتی لوگ پارٹی میں شامل ہیں کتنا پیسہ دے رہے ہیں یہ سب۔ ذرا بتا دیجیئے۔ نیلم جہلم میں کس نے پیسہ جھونکا ہے ناروے کی کمپنی پر، اس کا تو حساب لیں۔ چیف صاحب اور آ پ تو کالا باغ کا نعرہ مارتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ نعرے کیا ہوئے؟
سمجھنے کی بات ہے دیامر ڈیم گلگت بلتستان میں بن رہا ہے اور گلگت بلتستان میں دنیا کی بہترین چوٹیاں، ٹریکس، مرغزار، وادیاں، جھرنے اور چشمے ہیں لیکن غیر ملکیوں کو سیاحت کے لیے تین مہینے پہلے درخواست دینا پڑتی ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کے لیے، سیاحت کے لیے، پیرا گلائڈنگ کے لیے، سکیننگ کے لیے، سکیٹنگ کے لیے، ٹریکنگ اور سکیلنگ کے لیے غرضیکہ غیر ملکی ڈالر انڈیلنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہماری حساسیت ہی ختم نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں ایک غیر ملکی دوست مورٹز کو اٹھا کر باہر نکال دیا حالانکہ وہ پچھکے چوالیس سال سے یہاں آ رہا ہے اور ٹور گائیڈ ہے۔ آ جکل بھارت میں چھٹیاں گزار رہا ہے اور وہ ڈالر جو یہاں دینے تھے وہاں جھونک رہا ہے اور ہمارا وزیر اعظم ہمیشہ سے خیرات کو ہی خیر سمجھ کر مانگنے چلا ہے۔
رہی سہی کسر بابا رحمتے نے نکال دی۔ ان کا بس چلے تو ہر راہ چلتے کو منہ اٹھا کر چلنے کا ہرجانہ کر دیں اور ڈیم فنڈ چھت پھاڑ کر نکل جائے۔ منہ پھاڑ کر پیسہ مانگنے کی عادت تو ڈال ہی کی ہے اور ہم لوگوں کے محاورے میں یوں بھی کچھ نہ کچھ پھاڑنے کا ذکر چلا آتا ہے، جیسے کفن پھاڑ کر بولنا۔