سید شہزاد ناصر
محفلین
ہم تو رے بابل بیلے کی کلیاں، گھر گھر مانگن جائیں رے لکھیا بابل مورے۔ ۔ ۔
امیر خسرو کی لازوال شاعری نے مجھے ہمیشہ ہی مسحور کیا تھا مگر آج مجھے اس مصرع سے ایک چبھن کا احساس ہو رہا تھا۔ آنگن کو خوشبوں سے بھر دینے والی بیلے کی کلیوں کی اس قدر ناقدری؟ اتنا مول تول؟
شادی کا نام سن کر شرما جانے والی لڑکیوں کو اب اس لفظ سے الجھن محسوس ہونے لگی ہے۔ خود کو چائے کی خوبصورت پیالی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کئی بار ان کی زبان اور قدم دونوں ہی لڑکھڑا جاتے ہیں۔
آئیے! مجھے دیکھیے، میں بول سکتی ہوں، چل سکتی ہوں۔ میرے آنکھ ،کان سب اپنی جگہ پر ہیں، مجھے پسند کیجیے اوراپنے گھر لے جائیے تاکہ میرے والدین کے سر سے بیٹی کی ذمہ داری کا بوجھ اتر جائے۔ اور میرا کیا ہے؟ میں تو مشرق کی بیٹی ہوں۔ آسانی سے کوئی بھی رنگ چڑھا سکتے ہیں مجھ پر۔ ۔ ۔ ۔
مشرقی معاشرے کے اس المیے کو الفاظ میں بیان کرنا پھر بھی آسان ہے لیکن یہ حقیقت میں بہت تکلیف دہ ہے۔ میری بہن کی بیٹی - جو کراچی یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر رہی ہے - اسے لڑکے والوں کی طرف سے یہ کہہ کر ریجیکٹ کر دیا گیا ہے کہ اس کے کان تھوڑے بڑے ہیں۔
مجھے یہ بات جب سے پریشان کر رہی ہے کہ پاکستان کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو اس مرحلے سے کئی بار گذرنا پڑتا ہو گا لیکن کیا برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہماری پاکستانی لڑکیاں اسی روایت کا سامنا کرتی ہیں؟
میں نے اپنے اس سوال کے جواب کے لیے لندن کے ایک پرانے اور اچھی ساکھ رکھنے والے میرج بیورو کی منتظمہ مسز زوبیہ سے رابطہ کیا۔
سوال: کیا یہاں بھی رشتے چائے کی پیالی پر طے کئیے جاتے ہیں؟
جواب: جی ہاں رواج تو آج بھی وہی ہے۔ لڑکی کو دیکھنے کے لیے لڑکے کا خاندان اور خود لڑکا بھی جاتا ہے۔ مگر برطانیہ میں اس روایت کا ایک بدلا ہوا رنگ نظر آتا ہے جہاں والدین ہمارے بیورو سے رشتہ منتخب کرنے کے بعد اکثر پہلے اپنے بچوں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کر لیں۔ اس کے بعد گھر والے رشتہ طے کرنے کے معاملات میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہاں رشتے لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی کے بغیر طے نہیں کیے جاتے۔
میرے ایک سوال کےجواب میں انھوں نے کہا کہ ایسے والدین کی تعداد زیادہ ہے جو ہمارے پاس اپنی میچیور اور اعلی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتے کے لیے آتے ہیں۔ جس کے قصور وار خود والدین ہی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کو برادری میں بیاہنے کی خواہش میں اس عمر تک پہنچا دیتے ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر لڑکے والے کم عمر اور گھریلو لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل میں برداشت کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے مگرلڑکی کی شادی کی کامیابی میں اس کی تربیت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ زیادہ تر لڑکیاں خلاف معمول صورت حال پر پریشان ہوجاتی ہیں اور بہت جلد ہی سسرال سے علیحدہ ہو جاتی ہیں۔ اور جو اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو پاتی ہیں ان کی شادیاں اکثر ناکام ہو جاتی ہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی گھرانوں میں شادی کی ناکامی کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام اکثر خواتین پر ڈالا جاتا ہے جو مغربی معاشرے میں رہنے کی وجہ سے زیادہ آزاد خیال اور خود مختار ہو گئی ہیں۔ میں نے اس الزام کی حقیقت جاننے کے لیے ایک عالم دین سے رجوع کیا۔
محمد علی صاحب شیفیلڈ کی ایک مسجد میں پیش امام ہیں۔ انھوں نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ برطانیہ میں پاکستانی گھرانوں میں شادیوں کی ناکامی کا اہم سبب خود مرد ہیں جو یہاں مشرقی اقدارکا دم بھرنے کے ساتھ ساتھ مغرب ماحول کی آزاد سوچ کے حامل ہیں۔
ایسی دہری زندگی گزارنے والے مردوں کی بیویوں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اکثر لڑکیاں بچوں کی وجہ سے مجبور ہو کر اپنی زندگی اسی طرح گزار لیتی ہیں لیکن جو لڑکی اس کی راہ میں رکاوٹ بننے لگتی ہے اسے طلاق دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔
تاہم کچھ خواتین مغربی معاشرے میں خواتین کو دیے جانے والے حقوق سےناجائز فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ مثلا ایک لڑکی اپنے گھر والوں کے کہنے پر اپنے شوہر سے اس لیے طلاق لینا چاہتی ہے کیونکہ اس کے شوہر کی برطانیہ میں کافی جائداد ہے اور وہ طلاق کی صورت میں آدھی جائداد کی حصہ دار بن سکتی ہے۔
مسسز شمیم امِ سحر کے نام سے جانی جاتی ہیں اور ایک مصنفہ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ 'وی او اے' سے بات کرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ وہ خواتین کی دو جنریشن کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ان کے بقول پہلے ان کے پاس جو خواتین اپنے شوہر اور ساس کے مسائل لے کر آیا کرتی تھیں اب وہ اپنی بیٹی کے سسرال کی طرف سے فکر مند نظر آتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک کامیاب شادی کا انحصار میاں، بیوی اور ساس کے باہمی رشتے کی تکون پر ہوتا ہے۔ ساس اگر سمجھ دار ہے اور لڑکی کو شروع میں گھر کے ماحول میں ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرتی ہے تو لڑکی بہت جلد ہی اپنے سسرال کے طور طریقے اپنا لیتی ہے۔
انھوں نے لڑکی کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک پاکستانی خاندان چند ماہ قبل اسلام آباد سے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کر کے آیا ہے لیکن بہو کسی طرح برطانیہ رکنے پر تیار نہیں ہے۔
ان کے بقول لڑکی نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا شوہر زیادہ تر اپنے لیب ٹاپ پر مصروف رہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ وہ اس کی تنہائی میں مخل ہو۔ جب کہ اس کی ماں اپنے بیٹے سے چھوٹے بچے والا سلوک کرتی ہے، وہ زیادہ تر اپنی ماں کے ساتھ ہی سو جاتا ہے۔ یہ صورت حال اس لڑکی کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔
ان کے بقول اس میں قصور اس ماں کا ہے جس نے شروع ہی سے اس لڑکے کو تنہائی کا عادی بنا دیا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر مائیں اپنے بچوں کو کچھ اسی طرح پال رہی ہیں کہ بچوں کو اسکول کا ہوم ورک کرانے اور کھانا کھلانے کے دوران ہی خاندان کے ساتھ بیٹھنے دیا جاتا ہے اور رات آٹھ بجے بستر پر سلا دیا جاتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی کو اس لیے طلاق دلوائی گئی کیونکہ وہ صبح اٹھ کر اپنی ساس کو سلام نہیں کرتی تھی اور زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں کمپیوٹر پرگذارتی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ یہاں پیدا ہونے والی بچیاں بھی اپنے والدین کے لیے بہت کچھ برداشت کر رہی ہیں۔ ایک لڑکی جس نے 30 سال کی عمر تک اپنے والدین کی خواہش کے مطابق اپنی برادری سے رشتہ ملنے کا انتظار کیا، گزشتہ برس اس کی شادی اس کی برادری کے ایک ایسے لڑکے سے کر دی گئی جو پہلے سے کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا۔
اب حال یہ ہے کہ اگر وہ اپنے شوہر کو اس لڑکی سے ملنے پر منع کرتی ہے تو اس کی ساس اس کا ساتھ دینے کے بجائے اسے کہتی ہیں کہ وہ ان کے بیٹے کی زندگی حرام کر رہی ہے۔ تین ماہ قبل اس کا شوہر اسےبہانے سے میکے چھوڑ گیا اور اب اسے طلاق نامہ بھیج کر جان چھڑا لی گئی ہے۔
لندن میں میری ملاقات پاکستانی ریسٹورنٹ میں کام کرنے والی فریحہ سے ہوئی جو کہ دو بیٹیوں کی ماں ہے۔ گزشتہ برس اس کے شوہر نے دوسری شادی کرلی اور اسے طلاق دے دی ہے جبکہ بچیوں کو بھی چھین لیا ہے۔ فریحہ اپنی بچیوں کو حاصل کرنے کے لیے مقدمہ لڑ رہی ہے۔
بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی غزالہ نے 'وی او اے' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنے کزن سے شادی کی تھی لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ نشہ کرتا ہے۔ مجبوراً اسے ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد اپنے شوہر کو چھوڑنا پڑا اور اب وہ گھر سے کیٹرنگ کا کام کرتی ہے۔
حالات اور اسباب چاہے جو بھی ہوں، شادی کی ناکامی کسی بھی لڑکی کے نازک احساسات پر کاری ضرب ثابت ہوتی ہے۔ طلاق کا لفظ کسی بھی لڑکی کے لیے آج بھی اتنا ہی ناپسندیدہ ہے جتنا کہ کل تھا۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی لڑکی میں برداشت کی صلاحیت تو شاید کم ہو لیکن ہمت اور حوصلے کی بالکل کمی نہیں ہے۔ وہ نہ تو خود اس بھنور میں ڈوبتی ہے اور نہ ہی اپنے خاندان کو اس کی نذر کرتی ہے۔
ربط
http://www.urduvoa.com/content/marriage-issues-in-the-uk-16mar2013/1622868.html