ضیاء حیدری
محفلین
بیمار
Zia Hydari
مرزا غالب کا شعر سنیں۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد لادوا پایا
درد لادوا کیا ہوتا ہے، کسی ٹین ایجر سے پوچھو تو اس کا جواب کچھ اور ہوگا۔ وہ کسی کے ہجر میں تڑپ رہا ہوگا، کسی بیروزگار سے پوچھو تو وہ بیرون ملک ہجرت کے لئے بےچین ہوگا۔ ہجر اور ہجرت میں بہت کم فرق ہے۔دونوں اختیاری بھی ہیں اور اس میں بے اختیاری بھی ہے ۔
اچھا وہی رہا جو وطن سے نکل گیا، مریض ہجر یا مریض ہجرت کی گفتگو اگر شروع ہوئی تو بات دور تلک نکل جائے گی۔
شائد ہی کوئ شخض ہو گا جسے بیمار ہونے کا کوئ تجربہ نہ ہو- ہم بیمار عشق کی بات نہیں کررہے ہیں کیونکہ اندیشہ ہے کہ پارسا اور پاک دامن قسم کے لوگ اس سے صاف انکار کر دیں گے- ایسے لوگ جب انکار کر دیں تو پھر وائٹ کالر کرائم کی طرح آپ کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتے ہیں
بیمار تین طرح کے ہوتے ہیں- طبی بیمار` طبیعتاٰ بیمار` اور ضرورتاٰ بیما ر
طبی بیمار یہ بہت اہم ہوتا ہے- اس کے دم قدم سے گلشن کا کروبار چلتا ہے- ہسپتال`
فارما انڈسٹری` میڈیکل اسٹور` لیبارٹری` اربوں کا لین دین اور ہیر پھیر ہوتا ہے- ہم اس کی تفصیل میں تو نہیں جائیں گے کیونکہ اندیشہ ہے کہ بچے یہ کہتے ہوئے شرمائے گے کہ وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بنے گے
سب اس بیمار کی وجہ سے عیش کر رہے ہوتے ہیں سوائے اس کے- جب دوائ کا کاروبار کرنے والے اس سے روغن گل نکال چکتے ہیں تو پھر اس کو دعا کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
آجکل اسپیشلائزیشن کا دور ہے۔ جگر کا ڈاکٹر الگ اور دل کا ڈاکٹر الگ ہوتا ہے- اس کا مطلب یہ نہیں کہ جگری دوست کو جگر اسپیشلسٹ اور دلربا کو ہارٹ اسپیشلسٹ کو دکھایا جائے- ان سب سے بہتر ایک حاذق حکیم ہوتا ہے۔ ہم یہاں اپنی پبلسٹی نہیں کر رہے ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ ہم ایڑی سے چوٹی تک ہر مرض کا علاج بے مثال کر دیتے ہیں- اگر کسی حسینہ کی ایڑی میں کانٹا چبھ جائے تو بلا تکلف ہمارے پاس آجائے` ہم بلا تکلیف کے نکال دیں گے۔ لیکن اگر وہ کسی ہیرو کے پاس جائے گی تو اس سے ہمیں تکلیف ہو گی
ہر قسم کے طبی امراض کا ذکر ہم وقتاٰ فوقتاٰ کرتے رہیں گے مگر اب ہم مریضوں کی دوسری قسم کے متعلق بتائیں گے
طبیعتاٰ بیمار ایسا مریض ` بیماریوں کی چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے۔ کونسا مرض جو اس کو نہیں ہوا ہوتا ہے۔ ہیضہ ` ٹائیفائیڈ` حتی کہ مرض ضعیفی میں بھی وہ عین عالم جوانی میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں` وہ تو قسمت اچھی تھی کہ ڈاکٹر بر وقت پہنچ گیا تھا` تو جان بچ گئ
ضرورتاٰ بیماریہ کئ طرح کے ہوتے ہیں کبھی چٹھی لینے کے لئے تو کبھی میڈیکل کا بل بنوانے کے لئے یہ بیمار پڑجاتے ہیں۔ ڈاکٹر ان کو دوا کی بجائے سرٹیفکٹ دیتا ہے اور اپنا کمیشن وصول کرتا ہے
اگر آپ دن بھر بہت مصروف رہیں ہیں` پڑوسیوں کی خفیہ معلومات اکٹھی کرنے میں` کہ خالہ خیرن کی بیٹی بن سنور کر کہاں جاتی ہے۔ نصیبن بوا کی بہو گھر کیوں بیٹھ گئ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور شوہر کے لئے کھانا پکانا یاد نہیں رہا تو کوئ بات نہیں` سر پر پٹی باندھ کر پلنگ پر پڑ جائے۔ میاں جی جب بھوکے پیاسے گھر آئیں گے اور آپ کو اس حالت میں دیکھ کر ان کی شوہرتا پھڑک اٹھے گی وہ اپنی بھوک پیاس بھول کر فوراٰ آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے- اگر ڈاکٹر مسکراتے ہوئے یہ اعلان کرے کہ آپ کا بلڈ پریشر داؤن ہو گیا ہے` تو سمجھ جائے کہ وہ آپ کا مرض سمجھ چکا ہے- وہ باہر سے کچھ دوائیں تجویز کرے گا ایک انجیکشن لگائے گا بس یونہی شرارتاٰ` مگر شوہر کو مرعوب کرنے کے لئے لگوا لیجئے گا- البتہ دوا خریدنے کی بجائے ان سے سیخ کباب اور پراٹھے منگوا لیجئے گا کہ ان سے بھی آپ کا بی پی ٹھیک ہوجایا کرتا ہے۔ اس میں شرمانے کی بات نہیں ہے` اس حمام میں سب ضرورتاٰ بیمار ہیں اور یہ بیماری ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد لادوا پایا
درد لادوا کیا ہوتا ہے، کسی ٹین ایجر سے پوچھو تو اس کا جواب کچھ اور ہوگا۔ وہ کسی کے ہجر میں تڑپ رہا ہوگا، کسی بیروزگار سے پوچھو تو وہ بیرون ملک ہجرت کے لئے بےچین ہوگا۔ ہجر اور ہجرت میں بہت کم فرق ہے۔دونوں اختیاری بھی ہیں اور اس میں بے اختیاری بھی ہے ۔
اچھا وہی رہا جو وطن سے نکل گیا، مریض ہجر یا مریض ہجرت کی گفتگو اگر شروع ہوئی تو بات دور تلک نکل جائے گی۔
شائد ہی کوئ شخض ہو گا جسے بیمار ہونے کا کوئ تجربہ نہ ہو- ہم بیمار عشق کی بات نہیں کررہے ہیں کیونکہ اندیشہ ہے کہ پارسا اور پاک دامن قسم کے لوگ اس سے صاف انکار کر دیں گے- ایسے لوگ جب انکار کر دیں تو پھر وائٹ کالر کرائم کی طرح آپ کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتے ہیں
بیمار تین طرح کے ہوتے ہیں- طبی بیمار` طبیعتاٰ بیمار` اور ضرورتاٰ بیما ر
طبی بیمار یہ بہت اہم ہوتا ہے- اس کے دم قدم سے گلشن کا کروبار چلتا ہے- ہسپتال`
فارما انڈسٹری` میڈیکل اسٹور` لیبارٹری` اربوں کا لین دین اور ہیر پھیر ہوتا ہے- ہم اس کی تفصیل میں تو نہیں جائیں گے کیونکہ اندیشہ ہے کہ بچے یہ کہتے ہوئے شرمائے گے کہ وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بنے گے
سب اس بیمار کی وجہ سے عیش کر رہے ہوتے ہیں سوائے اس کے- جب دوائ کا کاروبار کرنے والے اس سے روغن گل نکال چکتے ہیں تو پھر اس کو دعا کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
آجکل اسپیشلائزیشن کا دور ہے۔ جگر کا ڈاکٹر الگ اور دل کا ڈاکٹر الگ ہوتا ہے- اس کا مطلب یہ نہیں کہ جگری دوست کو جگر اسپیشلسٹ اور دلربا کو ہارٹ اسپیشلسٹ کو دکھایا جائے- ان سب سے بہتر ایک حاذق حکیم ہوتا ہے۔ ہم یہاں اپنی پبلسٹی نہیں کر رہے ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ ہم ایڑی سے چوٹی تک ہر مرض کا علاج بے مثال کر دیتے ہیں- اگر کسی حسینہ کی ایڑی میں کانٹا چبھ جائے تو بلا تکلف ہمارے پاس آجائے` ہم بلا تکلیف کے نکال دیں گے۔ لیکن اگر وہ کسی ہیرو کے پاس جائے گی تو اس سے ہمیں تکلیف ہو گی
ہر قسم کے طبی امراض کا ذکر ہم وقتاٰ فوقتاٰ کرتے رہیں گے مگر اب ہم مریضوں کی دوسری قسم کے متعلق بتائیں گے
طبیعتاٰ بیمار ایسا مریض ` بیماریوں کی چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے۔ کونسا مرض جو اس کو نہیں ہوا ہوتا ہے۔ ہیضہ ` ٹائیفائیڈ` حتی کہ مرض ضعیفی میں بھی وہ عین عالم جوانی میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں` وہ تو قسمت اچھی تھی کہ ڈاکٹر بر وقت پہنچ گیا تھا` تو جان بچ گئ
ضرورتاٰ بیماریہ کئ طرح کے ہوتے ہیں کبھی چٹھی لینے کے لئے تو کبھی میڈیکل کا بل بنوانے کے لئے یہ بیمار پڑجاتے ہیں۔ ڈاکٹر ان کو دوا کی بجائے سرٹیفکٹ دیتا ہے اور اپنا کمیشن وصول کرتا ہے
اگر آپ دن بھر بہت مصروف رہیں ہیں` پڑوسیوں کی خفیہ معلومات اکٹھی کرنے میں` کہ خالہ خیرن کی بیٹی بن سنور کر کہاں جاتی ہے۔ نصیبن بوا کی بہو گھر کیوں بیٹھ گئ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور شوہر کے لئے کھانا پکانا یاد نہیں رہا تو کوئ بات نہیں` سر پر پٹی باندھ کر پلنگ پر پڑ جائے۔ میاں جی جب بھوکے پیاسے گھر آئیں گے اور آپ کو اس حالت میں دیکھ کر ان کی شوہرتا پھڑک اٹھے گی وہ اپنی بھوک پیاس بھول کر فوراٰ آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے- اگر ڈاکٹر مسکراتے ہوئے یہ اعلان کرے کہ آپ کا بلڈ پریشر داؤن ہو گیا ہے` تو سمجھ جائے کہ وہ آپ کا مرض سمجھ چکا ہے- وہ باہر سے کچھ دوائیں تجویز کرے گا ایک انجیکشن لگائے گا بس یونہی شرارتاٰ` مگر شوہر کو مرعوب کرنے کے لئے لگوا لیجئے گا- البتہ دوا خریدنے کی بجائے ان سے سیخ کباب اور پراٹھے منگوا لیجئے گا کہ ان سے بھی آپ کا بی پی ٹھیک ہوجایا کرتا ہے۔ اس میں شرمانے کی بات نہیں ہے` اس حمام میں سب ضرورتاٰ بیمار ہیں اور یہ بیماری ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے