عمران القادری
محفلین
انوار اختر ایڈووکیٹ
بین الاقوامی صورت حال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پوری دنیا مسلم ورلڈ اور نان مسلم ورلڈ میں تقسیم ہوچکی ہے اور مسلم بلاک کے حق میں توازنِ طاقت بگڑ چکا ہے جس کی وجہ مسلم بلاک کے حکمرانوں کی اپنی مصلحتیں، باہمی اختلافات اور وابستگیاں بھی ہیں۔ حالات اس طرح کے بن چکے ہیں کہ کوئی مخلص قوت، قیادت یا ملک، ملت اسلامیہ کے جسد میں نئی روح پھونکنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ نان مسلم ورلڈ نے ایسی فکرو پروگرام رکھنے والوں کے خاتمہ کے لئے طویل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
آج عالمی سطح پر خام وسائل، ٹیکنالوجی، میڈیا، اکانومی، کلچر، تعلیم اور گلوبلائزیشن کی جنگ ہے۔ اب دنیا علاقائی یونینز، عالمی اتحاد، سی ٹی بی ٹی، سی ڈبلیو سی، ڈبلیو سی، ڈبلیوٹی او، گلوبلائزیشن اور یو این او کی طرف بڑھ رہی ہے اور پوری دنیا فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات، انتہا پسندی، دہشت گردی، جنونیت، بنیاد پرستی اور پسماندگی و جہالت کے خلاف صف آرا ہوچکی ہے۔ اب دنیا انسانی حقوق، امن، جمہوریت، ترقی پسندی، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی کے ایجنڈے پر اکٹھی ہو رہی ہے۔
قیام امن کے تقاضے
ان حالات میں ایک ایسی قیادت ہی مسلم امہ کو بحران سے نکال سکتی ہے جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکے اور تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھے لہذا مسلم امہ کو آج ایسی مسلم سکالر شخصیت کی قیادت کی ضرورت ہے جو سکالر، قانون دان، معتدل، وسیع النظر، وسیع القلب، وسیع الذہن، مصلح اور پراگریسو ہو اور ایسی ہمہ جہت شخصیت ہو۔ ۔ ۔ جو مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات، قانون و روحانیات میں اپنا اہم مقام رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جو آئینی، قانونی، سیاسی اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جس کی ملکی، قومی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر ہو۔ ۔ ۔ جو دین اسلام کے زریں اصول اجتہاد، اجماع اور شورائیت کو تسلیم کرے اور اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنے کا خصوصی وصف رکھتی ہو کہ آج مسلم امہ دار ارقم، ہجرت مدینہ، صلح حدیبیہ یا میثاق مدینہ جیسے کسی مرحلہ پر کھڑی ہے۔ ۔ ۔ مسلم امہ کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ انقلابی فکر رکھتی ہو اور ہر سطح پر نظام کی تبدیلی کی نہ صرف مطالبہ کرتی ہو بلکہ نفاذ کی اہل ہو۔
تبدیلی نظام کے تقاضے
اس مرحلہ پر ہمیں انقلاب یعنی تبدیلی نظام کے تصور کو سمجھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تبدیلی نظام سے یہ مراد ہے کہ قرآن و سنت کی حاکمیت پر مبنی آئین و قانون کی حکمرانی ہو۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہو۔ ۔ ۔ عدلیہ بالادست اور آزاد ہو۔ ۔ ۔ احتساب کا مربوط نظام تشکیل پائے اور نظام انتخاب اس طرح تبدیل ہو کہ اہل الرائے اور متوسط طبقات کی پارلیمنٹ میں موثر نمائندگی ہو تاکہ ہر شخص کے لئے اسلام کی انقلابی تعلیمات کے مطابق خوشحال زندگی بسر کرنا آسان اور ممکن ہوسکے۔
امت مسلمہ کی سطح پر تبدیلی نظام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی سربراہی کانفرنس ایک مضبوط اور مقتدر ادارہ کی صورت سامنے آئے، ایک متحدہ اسلامی بلاک معرض وجود میں آئے تاکہ دنیا میں امن عالم کے لئے طاقت کا توازن پیدا ہو، مسلم ممالک کو حقیقی آزادی میسر آئے اور دنیا میں مذہبی ہم آہنگی پیدا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر تبدیلی نظام سے مراد ہے کہ مملکتیں اپنے معائدات کا احترام کریں۔ ۔ ۔ عالمی سطح پر پسماندگی اور جہالت کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہو۔ ۔ ۔ UN کا چارٹر اور جنرل اسمبلی سپریم ہو۔ ۔ ۔ اور عالمی عدالت انصاف کا بول بالا ہو جو اسلام کے اصولوں کے تحت امن عالم، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت فراہم کرے۔
جدید طریقہ ہائے انقلاب
جدید طریقہ ہائے انقلاب خونی نہیں بلکہ یہ شعوری و فکری سطح کا انقلاب ہے جس کے لئے ملکی سطح پر عوامی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ عالمی سطح پر سفارتی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اقتصادی و میڈیا کے محاذوں پر برتری درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اب ریاستوں اور دنیا نے اداروں کے استحکام، امن و سلامتی اور حقوق انسانی کے تصورات کے ذریعے Rule of law کا نظام قائم کرنا ہے کیونکہ اب دنیا میں نظام اقتصادیات، میڈیا، ٹیکنالوجی، کلچر اور سفارتی جنگ کا دور ہے اور دنیا گلوبلائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔
قیام امن کے لئے سفیر امن کی کاوشیں
ان حالات میں سفیر امن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مسلم امہ میں واحد شخصیت ہیں جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ اور صحیح معنوں میں تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار میں اسلام کا وہ حقیقی تصور موجود ہے جس سے مغربی دنیا میں اسلام کو Good will ملے گی۔ ۔ ۔ مغربی اور اسلامی دنیا میں کھچاؤ ختم ہوگا کیونکہ آپ عالمی امن، حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں۔
سفیر امن شیخ الاسلام مسلم امہ میں وہ منفرد قیادت ہیں جو مسلم امہ کو قرآن و سنت۔ ۔ ۔ بین الاقوامی مذہبی رواداری۔ ۔ ۔ انسانی حقوق اور عالمی امن کے تقاضوں پر متفق کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ نان مسلم ورلڈ کو عالمی امن۔ ۔ ۔ مذہبی رواداری۔ ۔ ۔ حقوق انسانی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق پالیسی وضع کرنے پر قائل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جہاں مسلم امہ کے لئے اسلامی دولت مشترکہ کے قیام کے علمبردار ہیں وہاں، عالمی سطح پر امن و سلامتی پر مبنی بین الاقوامی معاشرہ کی تشکیل کے بھی داعی ہیں۔
انسداد دہشت گرد ی پر خصوصی خطابات
سفیر امن شیخ الاسلام نے قیام امن اور انسداد دہشت گردی کی جدوجہد پر مبنی موضوعات پر متعدد خصوصی لیکچرز دیئے ہیں۔ جن میں سے چند ایک بطور مثال پیش نظر ہیں:
جمہوری معاشرہ اور وسعت ظرف
مساجد کے نام پر تفرقہ و تخریب کے مراکز
اتحاد امت میں حائل مشکلات اور ان کا حل
عالمی امن اور انسانی حقوق
دہشت گردی اور عالمی امن
دہشت گردی کے اسباب اور ان کا سد باب
دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ (بین الاقوامی استنبول کانفرنس)
Does Islam teach terrorism (Canada)
Renonesing Terror Regaining Peace (Birminghim)
بین الاقوامی صورت حال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پوری دنیا مسلم ورلڈ اور نان مسلم ورلڈ میں تقسیم ہوچکی ہے اور مسلم بلاک کے حق میں توازنِ طاقت بگڑ چکا ہے جس کی وجہ مسلم بلاک کے حکمرانوں کی اپنی مصلحتیں، باہمی اختلافات اور وابستگیاں بھی ہیں۔ حالات اس طرح کے بن چکے ہیں کہ کوئی مخلص قوت، قیادت یا ملک، ملت اسلامیہ کے جسد میں نئی روح پھونکنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ نان مسلم ورلڈ نے ایسی فکرو پروگرام رکھنے والوں کے خاتمہ کے لئے طویل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
آج عالمی سطح پر خام وسائل، ٹیکنالوجی، میڈیا، اکانومی، کلچر، تعلیم اور گلوبلائزیشن کی جنگ ہے۔ اب دنیا علاقائی یونینز، عالمی اتحاد، سی ٹی بی ٹی، سی ڈبلیو سی، ڈبلیو سی، ڈبلیوٹی او، گلوبلائزیشن اور یو این او کی طرف بڑھ رہی ہے اور پوری دنیا فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات، انتہا پسندی، دہشت گردی، جنونیت، بنیاد پرستی اور پسماندگی و جہالت کے خلاف صف آرا ہوچکی ہے۔ اب دنیا انسانی حقوق، امن، جمہوریت، ترقی پسندی، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی کے ایجنڈے پر اکٹھی ہو رہی ہے۔
قیام امن کے تقاضے
ان حالات میں ایک ایسی قیادت ہی مسلم امہ کو بحران سے نکال سکتی ہے جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکے اور تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھے لہذا مسلم امہ کو آج ایسی مسلم سکالر شخصیت کی قیادت کی ضرورت ہے جو سکالر، قانون دان، معتدل، وسیع النظر، وسیع القلب، وسیع الذہن، مصلح اور پراگریسو ہو اور ایسی ہمہ جہت شخصیت ہو۔ ۔ ۔ جو مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات، قانون و روحانیات میں اپنا اہم مقام رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جو آئینی، قانونی، سیاسی اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جس کی ملکی، قومی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر ہو۔ ۔ ۔ جو دین اسلام کے زریں اصول اجتہاد، اجماع اور شورائیت کو تسلیم کرے اور اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنے کا خصوصی وصف رکھتی ہو کہ آج مسلم امہ دار ارقم، ہجرت مدینہ، صلح حدیبیہ یا میثاق مدینہ جیسے کسی مرحلہ پر کھڑی ہے۔ ۔ ۔ مسلم امہ کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ انقلابی فکر رکھتی ہو اور ہر سطح پر نظام کی تبدیلی کی نہ صرف مطالبہ کرتی ہو بلکہ نفاذ کی اہل ہو۔
تبدیلی نظام کے تقاضے
اس مرحلہ پر ہمیں انقلاب یعنی تبدیلی نظام کے تصور کو سمجھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تبدیلی نظام سے یہ مراد ہے کہ قرآن و سنت کی حاکمیت پر مبنی آئین و قانون کی حکمرانی ہو۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہو۔ ۔ ۔ عدلیہ بالادست اور آزاد ہو۔ ۔ ۔ احتساب کا مربوط نظام تشکیل پائے اور نظام انتخاب اس طرح تبدیل ہو کہ اہل الرائے اور متوسط طبقات کی پارلیمنٹ میں موثر نمائندگی ہو تاکہ ہر شخص کے لئے اسلام کی انقلابی تعلیمات کے مطابق خوشحال زندگی بسر کرنا آسان اور ممکن ہوسکے۔
امت مسلمہ کی سطح پر تبدیلی نظام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی سربراہی کانفرنس ایک مضبوط اور مقتدر ادارہ کی صورت سامنے آئے، ایک متحدہ اسلامی بلاک معرض وجود میں آئے تاکہ دنیا میں امن عالم کے لئے طاقت کا توازن پیدا ہو، مسلم ممالک کو حقیقی آزادی میسر آئے اور دنیا میں مذہبی ہم آہنگی پیدا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر تبدیلی نظام سے مراد ہے کہ مملکتیں اپنے معائدات کا احترام کریں۔ ۔ ۔ عالمی سطح پر پسماندگی اور جہالت کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہو۔ ۔ ۔ UN کا چارٹر اور جنرل اسمبلی سپریم ہو۔ ۔ ۔ اور عالمی عدالت انصاف کا بول بالا ہو جو اسلام کے اصولوں کے تحت امن عالم، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت فراہم کرے۔
جدید طریقہ ہائے انقلاب
جدید طریقہ ہائے انقلاب خونی نہیں بلکہ یہ شعوری و فکری سطح کا انقلاب ہے جس کے لئے ملکی سطح پر عوامی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ عالمی سطح پر سفارتی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اقتصادی و میڈیا کے محاذوں پر برتری درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اب ریاستوں اور دنیا نے اداروں کے استحکام، امن و سلامتی اور حقوق انسانی کے تصورات کے ذریعے Rule of law کا نظام قائم کرنا ہے کیونکہ اب دنیا میں نظام اقتصادیات، میڈیا، ٹیکنالوجی، کلچر اور سفارتی جنگ کا دور ہے اور دنیا گلوبلائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔
قیام امن کے لئے سفیر امن کی کاوشیں
ان حالات میں سفیر امن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مسلم امہ میں واحد شخصیت ہیں جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ اور صحیح معنوں میں تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار میں اسلام کا وہ حقیقی تصور موجود ہے جس سے مغربی دنیا میں اسلام کو Good will ملے گی۔ ۔ ۔ مغربی اور اسلامی دنیا میں کھچاؤ ختم ہوگا کیونکہ آپ عالمی امن، حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں۔
سفیر امن شیخ الاسلام مسلم امہ میں وہ منفرد قیادت ہیں جو مسلم امہ کو قرآن و سنت۔ ۔ ۔ بین الاقوامی مذہبی رواداری۔ ۔ ۔ انسانی حقوق اور عالمی امن کے تقاضوں پر متفق کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ نان مسلم ورلڈ کو عالمی امن۔ ۔ ۔ مذہبی رواداری۔ ۔ ۔ حقوق انسانی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق پالیسی وضع کرنے پر قائل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جہاں مسلم امہ کے لئے اسلامی دولت مشترکہ کے قیام کے علمبردار ہیں وہاں، عالمی سطح پر امن و سلامتی پر مبنی بین الاقوامی معاشرہ کی تشکیل کے بھی داعی ہیں۔
انسداد دہشت گرد ی پر خصوصی خطابات
سفیر امن شیخ الاسلام نے قیام امن اور انسداد دہشت گردی کی جدوجہد پر مبنی موضوعات پر متعدد خصوصی لیکچرز دیئے ہیں۔ جن میں سے چند ایک بطور مثال پیش نظر ہیں:
جمہوری معاشرہ اور وسعت ظرف
مساجد کے نام پر تفرقہ و تخریب کے مراکز
اتحاد امت میں حائل مشکلات اور ان کا حل
عالمی امن اور انسانی حقوق
دہشت گردی اور عالمی امن
دہشت گردی کے اسباب اور ان کا سد باب
دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ (بین الاقوامی استنبول کانفرنس)
Does Islam teach terrorism (Canada)
Renonesing Terror Regaining Peace (Birminghim)