ایس ایس ساگر
لائبریرین
یہ ہار بِک چکا بہن جی ! آپ کوئی اورچیز پسند کرلیں۔ حمیدالدین بیزار لہجے میں اُس عورت سےمخاطب ہوا جو ایک طرف رکھےچاندی کے ہار کو للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ صبح سے لے کرشام تک یہی فقرہ دُہراتے ہوئے وہ قدرےاُکتا سا گیا تھا۔ اُس کی دکان بناؤ سنگھار کی چیزوں سےبھری پڑی تھی۔پھر بھی نجانے کیوں ہرکسی کی نظر اُس ہار پرجا ٹھہرتی، جسے وہ بیچنا نہیں چاہتا تھا۔
نورپور قصبے کے اکلوتے بازار کے بیچوں بیچ حمید الدین کی منیاری کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جوسارا دن عورتوں کی دلچسپی کا مرکز بنی رہتی ۔ کوئی ست رنگی چوڑیوں کی شوقین تھی، تو کوئی پازیبوں کی دلدادہ۔ایک کاجل مانگتی ، تو دوسری غازہ ۔ کسی کوجھمکے پسند، تو کوئی رنگ برنگے پراندوں کی طرف لپکتی۔ایسے میں حمیدالدین ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ سجائے، اُن کی ہر فرمائش خوشدلی سے پوری کرتا دکھائی دیتا۔
آج بھی حسبِ معمول اُس کی دکان پرخواتین آ جا رہی تھیں۔ گاہکوں کو نبٹاتے ہوئے حمیدالدین کی نظرجونہی ہار پر پڑتی، اُسے رانی یاد آ جاتی ۔ رانی جو اُس کی محبوب بیوی تھی، طویل عرصہ تپ دق کی بیماری سے جنگ لڑنے کے بعد آج اسپتال سے روبہ صحت ہو کر گھرلوٹی تھی۔ اللہ نے اسے ایک نئی زندگی بخشی تھی ۔ اگرچہ گزرے چند ماہ و سال میں حمیدالدین اُسےایک بھی تحفہ پیش نہ کر سکا تھا مگراس بار اُس نے اپنی غلطی سدھارنے کا عزم کیا تھا ۔ اسےپورا یقین تھا کہ رانی ہار کا تحفہ پا کربہت خوش ہو گی۔
کام سے ذرا فرصت ملی، تو وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھو گیا۔ اُونچی نیچی ، ناہموار سی پگڈنڈیوں پر وہ رانی کے پیچھے بھا گ رہا تھا۔ وہ ہنستی ہوئی کسی ہرنی کی طرح کلانچیں بھرتی اُس سے دور بھاگی جا رہی تھی اور وہ مسلسل اس کے تعاقب میں تھا۔اُس کابچپن تتلیوں کے بجائے رانی کا پیچھا کرتے گزراتھا۔ پھرجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ان دونوں کی دوستی محبت میں بدل گئی۔ جب اُن دونوں کی چاہت کے قصےزبان زدِعام ہوئے، تو ماں باپ نے اُن کی شادی رچانے میں ہی عافیت سمجھی ۔یوں اُنھیں ایک ہونے کا موقع مل گیا۔
رانی کو پا کر خوشی کے مارے حمیدالدین کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ وہ ہر وقت رانی کے آگے پیچھے گھوما کرتا۔ اس کا ہر ناز نخرہ اُٹھانے میں خوشی محسوس کرتا۔ رانی کو پھُول بیحد پسند تھے، اس لیے حمیدالدین اُس کی ہر شام کو گجروں سے مہکا دیتا۔ ہفتے میں ایک آدھ باروہ اسے فلم دکھانے سینما بھی لے جاتا۔ یہ سب کچھ پا کر رانی بھی بہت خوش تھی۔
شروع کے دن نئی نئی شادی کے چاؤ میں گزرتے چلے گئے۔پھر رفتہ رفتہ زندگی کی تلخ حقیقتوں نے روپ دکھانا شروع کیا توخوشیاں کافور ہو گئیں۔ باپ کے مرتے ہی حمیدالدین نے دُکان سنبھال لی۔اُس کی تعلیم واجبی سی تھی، اِس لیے اُس نے ملازمت ڈھونڈنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی اور دکان داری کو ہی گزر بسر کا ذریعہ بنا لیا۔
ا ُس کی شبانہ روز محنت کی بدولت دکان تو چل نکلی مگراب اُس کی مصروفیات میں بھی اضافہ ہو گیا۔دُکان داری بہت زیادہ وقت مانگتی ہے۔صبح سویرے اُٹھ کر دکان کے لیے منڈی سے سامان ڈھونا اور پھر سارادن گاہکوں کے ساتھ سر کھپانا آسان نہیں تھا۔
دن بھر کی مغزماری کے بعد جب وہ تھکا ہارا رات کو گھر لوٹتا، تو رانی دل میں طرح طرح کےارمان سجائے اُس کی منتظر ہوتی۔مگر اب حمیدالدین کو صبح جلدی اُٹھنے کی فکرستانے لگتی ۔ دُکان دیر سے کھلنے پرگاہک خفا ہوتے۔ اُنھیں خوش کرتا تو رانی ناراض ہوجاتی۔بسااوقات تو رانی کے دل میں دبی باتوں کو اظہار کا موقع ہی نہ ملتا اور وہ خراٹے لینے لگتا۔ گہری نیند میں اُسےخبرتک نہ ہوتی کہ کب جھیل سی آنکھیں آبشار کی شکل اختیار کر لیتیں۔ اُس آبشار کا پانی چپ چاپ رانی کے تکیےمیں جذب ہوتا رہتا ۔
وقت پنکھ لگائے محو ِ پروازتھا۔ گھریلو حالات کے پیشِ نظر رانی نےاب اپنی خواہشات محدود کر لیں۔شوہرکی مصروفیت کے باعث وہ میکے سے تقریباًکٹ چکی تھی۔ جب کبھی وہ شوہرسے کہیں جانے کی بات کرتی، وہ وقت کی قلت کا رونا رو دیتا اور وہ بیچاری چپ ہو رہتی۔ خاندان کی بیشتر شادیوں میں وہ شرکت نہ کر سکی کیونکہ اس کے شوہر کے پاس وقت نہیں تھا۔ شوہر کی بے اعتنائی کااحساس کم کرنے کی خاطر آخرکار رانی نے ایک مصروفیت ڈھونڈ لی۔
اُس نے لوگوں کے کپڑے سینے شروع کر دئیے ۔ سلائی مشین کی صورت میں اُسے تنہائی کا ایک ساتھی مل گیا۔اب وہ اپنا زیادہ تر وقت سلائی مشین چلانے میں صرف کر تی۔ حمیدالدین رات کو گھر لوٹتاتو اسے مشین چلانے میں مگن پاتا۔ کھانا مانگنے پر وہ چپ چاپ اٹھتی اورحکم بجا لانے کے بعد پھر سے اپنے کام میں جُت جاتی۔
زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک دن اللہ نے اُنہیں بیٹے کی نعمت سے نوازدیا۔ اُس دن رانی کی خوشی دیدنی تھی۔ شادی کےتقریباً چھ سال بعدبالآخراللہ نے اُس کی سن لی تھی۔ اولاد کی آرزو دل میں چھپائے اُس نے شب وروزروتے ہوئے گزارے تھے۔ اِس خواہش نے اسے اندر سے بُری طرح توڑ دیا تھا۔ وہ لوگوں کی شک بھری نظروں اور چبھتے سوالات سے تنگ آگئی تھی۔آخرکار قدرت اُس پر مہربان ہو گئی اور وہ پھر سے جی اٹھی۔
اُس دن جذبات کی رو میں بہہ کر اُس نے حمیدالدین سے ایک فرمائش کر ڈالی۔ وہ اس خوشی کے موقع پرمحلے میں مٹھائی بانٹنا چاہتی تھی ،مگر جب اس نے اپنی خواہش حمیدالدین کے سامنے رکھی، تو حسب معمول اُس کی امیدوں پراوس پڑ گئی۔وہ پل بھر کو بھول گئی تھی کہ اس کا شوہرایک بیوپاری ہے۔ وہ ہر شے کو ترازو میں تولنے کا عادی تھا۔ رانی کی بات سن کر کہنے لگا: "اری بھلی مانس ۔ وہ زمانہ گزر گیا ، جب لوگ دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے تھے۔ آجکل حاسد زیادہ ہیں ۔ پھر کیا ضرورت ہے اتنا خرچہ کرنے کی ؟"
وہ چپ چاپ سر جھکائے حمیدالدین کا وعظ سنتی رہی اوررات بھرآنسوؤں کی بارش میں بھیگتی رہی۔ اگلے چندماہ ماں بننے کے احساس کا آنچل اوڑھے وہ آسمانوں میں اڑتی رہی مگر کیا کیجیے کہ غم کی طرح خوشی کا احساس بھی دائمی نہیں ہوتا۔ گزرتاوقت ہر احساس کو دُھندلا دیتا ہے۔ یہی کچھ رانی کے ساتھ ہوا۔
کچھ عرصے بعد اُس کی زندگی پھرپرانی روش پرچل نکلی۔ فرق یہ تھا کہ اب اُسےدل بہلانے کے لیے سلائی مشین کے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ احمد کی قلقاریاں اور معصوم شرارتیں اس کے ممتا بھرے دل میں سکون بھرنے کے لیے کافی تھیں۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ احمد آٹھ سال کا ہو گیا۔ ایک دن رانی صحن میں بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی کہ اطلاع ملی کہ اس کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ اُس نے جلدی سےاحمد کودکان کی طرف دوڑایا کہ جاؤ۔اپنے ابا کو بلالاؤ۔ تھوڑی دیر بعدوہ منہ لٹکا ئے، واپس آتا دکھائی دیا۔ قریب آ کر کہنے لگا کہ ابا کہتے ہیں، وہ مصروف ہیں۔ دکان بند نہیں کرسکتے۔ تم لوگ چلے جاؤ۔ رانی کا دل ٹوٹ گیا مگر وہ ایک صابر عورت تھی۔ اُس نے احمد کا ہاتھ پکڑا اور لاری اڈے سے پہلی بس پکڑ کر میکے کی طرف روانہ ہوئی۔
جنازے پر پہنچی تووہاں موجود ہرشخص کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ کیا ہوا ؟۔ حمیدالدین کیوں نہیں آیا؟۔ وہ ہرایک سے جھوٹ بولتی رہی ۔ سچے جھوٹے بہانے گھڑتی رہی۔ خیر وہ دن جیسے تیسے گزرامگر اُس دن کے بعد سے اُس نےشوہر سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ زندگی رانی کو ایک کے بعد ایک سبق پڑھارہی تھی۔ اس نےارمانوں کوسینے میں دفن کرنے کا ہنرسیکھ لیا تھا۔ کبھی ہونٹوں پر کوئی شکوہ نہ لاتی۔
شوہر کی بے رخی اورگھریلو حالات کے تھپیڑے کھاتے ہوئے رانی کا حُسن اب گہنا نے لگا تھا۔ وہ بیماررہنے لگی ۔اُسے کبھی کبھار کھانسی کا شدید دورہ پڑتا۔ کھانس کھانس کر برا حال ہو جاتا۔ سینہ درد کرنے لگتا۔سانس اُکھڑنے لگتی مگر وہ صبرکا دامن تھامے رہتی۔ کچھ عرصے اس نے اپنی بیماری شوہر سے چھپا ئے رکھی۔مسلسل گرتی ہوئی صحت نے آخر کار اس کا راز افشا کردیا اور حمیدالدین کو خبر ہو گئی۔ مگر پتا تب چلاجب رانی خون تھوکنےلگی تھی ۔ محلے کےمعالج نےبتایا کہ مرض کافی بگڑچکا اوررانی کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ حمیدالدین نے معالج کی ہدایت پراسےاسپتال میں داخل کروا دیا۔
رانی کی بیماری کے دن حمیدالدین پر بہت بھاری گزرے ۔ دُکان داری ، احمد کی دیکھ بھال اوراوپر سے اسپتال کے چکر، ان تمام چیزوں نے مل کر حمیدالدین کی زندگی کو ڈراؤنا خواب بنا دیا ۔ اُن دنوں اُسےاحساس ہوا کہ رانی نے اس کی زندگی کو کتنا سہل بنا رکھاتھا۔ احمدکوصبح ناشتا کروانا۔ اسے سکول کے لیے تیار کرنا۔پڑھانا لکھانااورپھر گھر کےکام کاج کرنا ۔وہ یہ سب ذمے داریاں احسن طریقے سےنبھا رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب مرد کو گھر کا کام کرنا پڑ جائے، تب اُسے زند گی میں عورت کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ حمیدالدین کو بھی ان دنوں میں یہ احسا س شدت سے ہواکہ دُکان داری کے جھنجھٹ میں وہ رانی کی ان قربانیوں کو یکسر فراموش کربیٹھا تھا جو گزشتہ کئی برسوں سے وہ خاموشی سےدیتی چلی آئی تھی۔ بدلے میں اس نے حمیدالدین سے سوائے محبت کے چند میٹھے بولوں کے کچھ نہیں مانگا تھا ، مگر حمیدالدین کے پاس اُس کے لیے وقت ہی کہاں تھا۔
صبح احمد کو اسکول چھوڑنے کے بعد وہ دکان کی طرف روانہ ہونے لگا، تو اُسے یکدم خیال آیا کہ آج رانی کا جنم دن ہے۔ اس نےکمرے کے دروازے پر رُک کر پوچھا: "کسی چیز کی ضرورت ہو، تو بتادو ۔ میں واپسی پر لیتا آؤں گا۔" رانی نقاہت کےمارے آنکھیں بند کیے بستر پر نیم درازتھی۔ شوہر کی آواز پر وہ چونکی اور ہونٹوں پرجمی پپڑیوں پر خشک زبان پھیرتے ہوئے مسکرا کر بولی۔"نہیں ! کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ بس آپ جلدی آ جائیے گا۔" حمیدالدین جواب سن کر چپ چاپ دکان پر چلا آیا۔ راستے بھر رانی کے چہرے کی اُداسی اس کا پیچھا کرتی رہی۔ اس نے ارادہ باندھا کہ آج وہ دکان بند کر کے جلدی گھرچلا جائے گا۔صبح دکان کھولتے ہی اس نے چاندی کا ایک خوبصورت سا ہاردوسرے سامان سے الگ کر لیا ۔ وہ جانتا تھا کہ جب وہ رانی کے گلے میں یہ ہار پہنائے گا، تو گزرے برسوں کے سارے گلےشکِوے آنسو بن کراس کی آنکھوں سے بہہ جائیں گے۔ تب وہ کہے گا: رانی! وقت نے مجھے مہلت نہ دی کہ تمہاری سب آرزؤں کو پورا کرپاتا۔مگر میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ دیکھو! تمہارے لیے میں یہ تحفہ لایا ہوں۔ تمہیں یہ پسند ہے نا!۔ وہ خیالوں میں رانی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک او ر چہرےپردمکنے والی خوشی کے احساس سے سرشار ہو نے لگا۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ اُس نے سر جھٹکا او ر خیالات کی دنیا سے نکل آیا۔ دکان بند کرنے کی نیت سے اس نے ایک طرف رکھے لکڑی کے صندوق کو کھولا اور اس میں پڑے نوٹ گننے لگا۔رقم گنتے گنتے اُسے یکدم خیال آیا کہ کل احمد کے سکول کی فیس ادا کرنے کا آخری دن تھا۔ رانی کی بیماری پر اٹھنے والےاخراجات کی وجہ سے وہ پچھلے کئی ماہ سے سکول کی فیس ادا نہ کر سکا تھا۔ سکول والوں نے نوٹس بھیجا تھا کہ اس بار بھی سکول کی فیس جمع نہ کروائی گئی، تو بچے کا نام سکول سے خارج کر دیا جائے گا۔
یہ خیال آتے ہی اُس کے چہرے سے پریشانی عیاں ہونے لگی۔ اس کے پاس رقم ضرورت سے کچھ کم تھی۔ اب کیا کیا جائے؟۔ وہ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک قریب سے ایک نسوانی آواز اُبھری۔ بھیا !۔ ذرا یہ ہار تو دِکھانا۔ وہ خیالوں سے نکل آیا۔ اس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا اور ہاراُٹھا کر اُس عورت کی طرف بڑھا دیا جس کی للچائی نظریں اُس پر جمی تھیں۔ "اِس ہار کی کیا قیمت ہے بھائی ؟" عورت کے سوال پر وہ چونکا۔ "صرف پانچ سو روپے!"۔ وہ جیسے گہری نیند میں بڑبڑایا۔ عورت نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور پھر پیسے اس کے ہاتھ میں تھما کر ایک طرف کو چل دی۔حمید الدین نے دکان بند کی اور چپ چاپ سر جھکائے بوجھل قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔
نورپور قصبے کے اکلوتے بازار کے بیچوں بیچ حمید الدین کی منیاری کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جوسارا دن عورتوں کی دلچسپی کا مرکز بنی رہتی ۔ کوئی ست رنگی چوڑیوں کی شوقین تھی، تو کوئی پازیبوں کی دلدادہ۔ایک کاجل مانگتی ، تو دوسری غازہ ۔ کسی کوجھمکے پسند، تو کوئی رنگ برنگے پراندوں کی طرف لپکتی۔ایسے میں حمیدالدین ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ سجائے، اُن کی ہر فرمائش خوشدلی سے پوری کرتا دکھائی دیتا۔
آج بھی حسبِ معمول اُس کی دکان پرخواتین آ جا رہی تھیں۔ گاہکوں کو نبٹاتے ہوئے حمیدالدین کی نظرجونہی ہار پر پڑتی، اُسے رانی یاد آ جاتی ۔ رانی جو اُس کی محبوب بیوی تھی، طویل عرصہ تپ دق کی بیماری سے جنگ لڑنے کے بعد آج اسپتال سے روبہ صحت ہو کر گھرلوٹی تھی۔ اللہ نے اسے ایک نئی زندگی بخشی تھی ۔ اگرچہ گزرے چند ماہ و سال میں حمیدالدین اُسےایک بھی تحفہ پیش نہ کر سکا تھا مگراس بار اُس نے اپنی غلطی سدھارنے کا عزم کیا تھا ۔ اسےپورا یقین تھا کہ رانی ہار کا تحفہ پا کربہت خوش ہو گی۔
کام سے ذرا فرصت ملی، تو وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھو گیا۔ اُونچی نیچی ، ناہموار سی پگڈنڈیوں پر وہ رانی کے پیچھے بھا گ رہا تھا۔ وہ ہنستی ہوئی کسی ہرنی کی طرح کلانچیں بھرتی اُس سے دور بھاگی جا رہی تھی اور وہ مسلسل اس کے تعاقب میں تھا۔اُس کابچپن تتلیوں کے بجائے رانی کا پیچھا کرتے گزراتھا۔ پھرجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ان دونوں کی دوستی محبت میں بدل گئی۔ جب اُن دونوں کی چاہت کے قصےزبان زدِعام ہوئے، تو ماں باپ نے اُن کی شادی رچانے میں ہی عافیت سمجھی ۔یوں اُنھیں ایک ہونے کا موقع مل گیا۔
رانی کو پا کر خوشی کے مارے حمیدالدین کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ وہ ہر وقت رانی کے آگے پیچھے گھوما کرتا۔ اس کا ہر ناز نخرہ اُٹھانے میں خوشی محسوس کرتا۔ رانی کو پھُول بیحد پسند تھے، اس لیے حمیدالدین اُس کی ہر شام کو گجروں سے مہکا دیتا۔ ہفتے میں ایک آدھ باروہ اسے فلم دکھانے سینما بھی لے جاتا۔ یہ سب کچھ پا کر رانی بھی بہت خوش تھی۔
شروع کے دن نئی نئی شادی کے چاؤ میں گزرتے چلے گئے۔پھر رفتہ رفتہ زندگی کی تلخ حقیقتوں نے روپ دکھانا شروع کیا توخوشیاں کافور ہو گئیں۔ باپ کے مرتے ہی حمیدالدین نے دُکان سنبھال لی۔اُس کی تعلیم واجبی سی تھی، اِس لیے اُس نے ملازمت ڈھونڈنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی اور دکان داری کو ہی گزر بسر کا ذریعہ بنا لیا۔
ا ُس کی شبانہ روز محنت کی بدولت دکان تو چل نکلی مگراب اُس کی مصروفیات میں بھی اضافہ ہو گیا۔دُکان داری بہت زیادہ وقت مانگتی ہے۔صبح سویرے اُٹھ کر دکان کے لیے منڈی سے سامان ڈھونا اور پھر سارادن گاہکوں کے ساتھ سر کھپانا آسان نہیں تھا۔
دن بھر کی مغزماری کے بعد جب وہ تھکا ہارا رات کو گھر لوٹتا، تو رانی دل میں طرح طرح کےارمان سجائے اُس کی منتظر ہوتی۔مگر اب حمیدالدین کو صبح جلدی اُٹھنے کی فکرستانے لگتی ۔ دُکان دیر سے کھلنے پرگاہک خفا ہوتے۔ اُنھیں خوش کرتا تو رانی ناراض ہوجاتی۔بسااوقات تو رانی کے دل میں دبی باتوں کو اظہار کا موقع ہی نہ ملتا اور وہ خراٹے لینے لگتا۔ گہری نیند میں اُسےخبرتک نہ ہوتی کہ کب جھیل سی آنکھیں آبشار کی شکل اختیار کر لیتیں۔ اُس آبشار کا پانی چپ چاپ رانی کے تکیےمیں جذب ہوتا رہتا ۔
وقت پنکھ لگائے محو ِ پروازتھا۔ گھریلو حالات کے پیشِ نظر رانی نےاب اپنی خواہشات محدود کر لیں۔شوہرکی مصروفیت کے باعث وہ میکے سے تقریباًکٹ چکی تھی۔ جب کبھی وہ شوہرسے کہیں جانے کی بات کرتی، وہ وقت کی قلت کا رونا رو دیتا اور وہ بیچاری چپ ہو رہتی۔ خاندان کی بیشتر شادیوں میں وہ شرکت نہ کر سکی کیونکہ اس کے شوہر کے پاس وقت نہیں تھا۔ شوہر کی بے اعتنائی کااحساس کم کرنے کی خاطر آخرکار رانی نے ایک مصروفیت ڈھونڈ لی۔
اُس نے لوگوں کے کپڑے سینے شروع کر دئیے ۔ سلائی مشین کی صورت میں اُسے تنہائی کا ایک ساتھی مل گیا۔اب وہ اپنا زیادہ تر وقت سلائی مشین چلانے میں صرف کر تی۔ حمیدالدین رات کو گھر لوٹتاتو اسے مشین چلانے میں مگن پاتا۔ کھانا مانگنے پر وہ چپ چاپ اٹھتی اورحکم بجا لانے کے بعد پھر سے اپنے کام میں جُت جاتی۔
زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک دن اللہ نے اُنہیں بیٹے کی نعمت سے نوازدیا۔ اُس دن رانی کی خوشی دیدنی تھی۔ شادی کےتقریباً چھ سال بعدبالآخراللہ نے اُس کی سن لی تھی۔ اولاد کی آرزو دل میں چھپائے اُس نے شب وروزروتے ہوئے گزارے تھے۔ اِس خواہش نے اسے اندر سے بُری طرح توڑ دیا تھا۔ وہ لوگوں کی شک بھری نظروں اور چبھتے سوالات سے تنگ آگئی تھی۔آخرکار قدرت اُس پر مہربان ہو گئی اور وہ پھر سے جی اٹھی۔
اُس دن جذبات کی رو میں بہہ کر اُس نے حمیدالدین سے ایک فرمائش کر ڈالی۔ وہ اس خوشی کے موقع پرمحلے میں مٹھائی بانٹنا چاہتی تھی ،مگر جب اس نے اپنی خواہش حمیدالدین کے سامنے رکھی، تو حسب معمول اُس کی امیدوں پراوس پڑ گئی۔وہ پل بھر کو بھول گئی تھی کہ اس کا شوہرایک بیوپاری ہے۔ وہ ہر شے کو ترازو میں تولنے کا عادی تھا۔ رانی کی بات سن کر کہنے لگا: "اری بھلی مانس ۔ وہ زمانہ گزر گیا ، جب لوگ دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے تھے۔ آجکل حاسد زیادہ ہیں ۔ پھر کیا ضرورت ہے اتنا خرچہ کرنے کی ؟"
وہ چپ چاپ سر جھکائے حمیدالدین کا وعظ سنتی رہی اوررات بھرآنسوؤں کی بارش میں بھیگتی رہی۔ اگلے چندماہ ماں بننے کے احساس کا آنچل اوڑھے وہ آسمانوں میں اڑتی رہی مگر کیا کیجیے کہ غم کی طرح خوشی کا احساس بھی دائمی نہیں ہوتا۔ گزرتاوقت ہر احساس کو دُھندلا دیتا ہے۔ یہی کچھ رانی کے ساتھ ہوا۔
کچھ عرصے بعد اُس کی زندگی پھرپرانی روش پرچل نکلی۔ فرق یہ تھا کہ اب اُسےدل بہلانے کے لیے سلائی مشین کے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ احمد کی قلقاریاں اور معصوم شرارتیں اس کے ممتا بھرے دل میں سکون بھرنے کے لیے کافی تھیں۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ احمد آٹھ سال کا ہو گیا۔ ایک دن رانی صحن میں بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی کہ اطلاع ملی کہ اس کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ اُس نے جلدی سےاحمد کودکان کی طرف دوڑایا کہ جاؤ۔اپنے ابا کو بلالاؤ۔ تھوڑی دیر بعدوہ منہ لٹکا ئے، واپس آتا دکھائی دیا۔ قریب آ کر کہنے لگا کہ ابا کہتے ہیں، وہ مصروف ہیں۔ دکان بند نہیں کرسکتے۔ تم لوگ چلے جاؤ۔ رانی کا دل ٹوٹ گیا مگر وہ ایک صابر عورت تھی۔ اُس نے احمد کا ہاتھ پکڑا اور لاری اڈے سے پہلی بس پکڑ کر میکے کی طرف روانہ ہوئی۔
جنازے پر پہنچی تووہاں موجود ہرشخص کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ کیا ہوا ؟۔ حمیدالدین کیوں نہیں آیا؟۔ وہ ہرایک سے جھوٹ بولتی رہی ۔ سچے جھوٹے بہانے گھڑتی رہی۔ خیر وہ دن جیسے تیسے گزرامگر اُس دن کے بعد سے اُس نےشوہر سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ زندگی رانی کو ایک کے بعد ایک سبق پڑھارہی تھی۔ اس نےارمانوں کوسینے میں دفن کرنے کا ہنرسیکھ لیا تھا۔ کبھی ہونٹوں پر کوئی شکوہ نہ لاتی۔
شوہر کی بے رخی اورگھریلو حالات کے تھپیڑے کھاتے ہوئے رانی کا حُسن اب گہنا نے لگا تھا۔ وہ بیماررہنے لگی ۔اُسے کبھی کبھار کھانسی کا شدید دورہ پڑتا۔ کھانس کھانس کر برا حال ہو جاتا۔ سینہ درد کرنے لگتا۔سانس اُکھڑنے لگتی مگر وہ صبرکا دامن تھامے رہتی۔ کچھ عرصے اس نے اپنی بیماری شوہر سے چھپا ئے رکھی۔مسلسل گرتی ہوئی صحت نے آخر کار اس کا راز افشا کردیا اور حمیدالدین کو خبر ہو گئی۔ مگر پتا تب چلاجب رانی خون تھوکنےلگی تھی ۔ محلے کےمعالج نےبتایا کہ مرض کافی بگڑچکا اوررانی کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ حمیدالدین نے معالج کی ہدایت پراسےاسپتال میں داخل کروا دیا۔
رانی کی بیماری کے دن حمیدالدین پر بہت بھاری گزرے ۔ دُکان داری ، احمد کی دیکھ بھال اوراوپر سے اسپتال کے چکر، ان تمام چیزوں نے مل کر حمیدالدین کی زندگی کو ڈراؤنا خواب بنا دیا ۔ اُن دنوں اُسےاحساس ہوا کہ رانی نے اس کی زندگی کو کتنا سہل بنا رکھاتھا۔ احمدکوصبح ناشتا کروانا۔ اسے سکول کے لیے تیار کرنا۔پڑھانا لکھانااورپھر گھر کےکام کاج کرنا ۔وہ یہ سب ذمے داریاں احسن طریقے سےنبھا رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب مرد کو گھر کا کام کرنا پڑ جائے، تب اُسے زند گی میں عورت کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ حمیدالدین کو بھی ان دنوں میں یہ احسا س شدت سے ہواکہ دُکان داری کے جھنجھٹ میں وہ رانی کی ان قربانیوں کو یکسر فراموش کربیٹھا تھا جو گزشتہ کئی برسوں سے وہ خاموشی سےدیتی چلی آئی تھی۔ بدلے میں اس نے حمیدالدین سے سوائے محبت کے چند میٹھے بولوں کے کچھ نہیں مانگا تھا ، مگر حمیدالدین کے پاس اُس کے لیے وقت ہی کہاں تھا۔
صبح احمد کو اسکول چھوڑنے کے بعد وہ دکان کی طرف روانہ ہونے لگا، تو اُسے یکدم خیال آیا کہ آج رانی کا جنم دن ہے۔ اس نےکمرے کے دروازے پر رُک کر پوچھا: "کسی چیز کی ضرورت ہو، تو بتادو ۔ میں واپسی پر لیتا آؤں گا۔" رانی نقاہت کےمارے آنکھیں بند کیے بستر پر نیم درازتھی۔ شوہر کی آواز پر وہ چونکی اور ہونٹوں پرجمی پپڑیوں پر خشک زبان پھیرتے ہوئے مسکرا کر بولی۔"نہیں ! کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ بس آپ جلدی آ جائیے گا۔" حمیدالدین جواب سن کر چپ چاپ دکان پر چلا آیا۔ راستے بھر رانی کے چہرے کی اُداسی اس کا پیچھا کرتی رہی۔ اس نے ارادہ باندھا کہ آج وہ دکان بند کر کے جلدی گھرچلا جائے گا۔صبح دکان کھولتے ہی اس نے چاندی کا ایک خوبصورت سا ہاردوسرے سامان سے الگ کر لیا ۔ وہ جانتا تھا کہ جب وہ رانی کے گلے میں یہ ہار پہنائے گا، تو گزرے برسوں کے سارے گلےشکِوے آنسو بن کراس کی آنکھوں سے بہہ جائیں گے۔ تب وہ کہے گا: رانی! وقت نے مجھے مہلت نہ دی کہ تمہاری سب آرزؤں کو پورا کرپاتا۔مگر میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ دیکھو! تمہارے لیے میں یہ تحفہ لایا ہوں۔ تمہیں یہ پسند ہے نا!۔ وہ خیالوں میں رانی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک او ر چہرےپردمکنے والی خوشی کے احساس سے سرشار ہو نے لگا۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ اُس نے سر جھٹکا او ر خیالات کی دنیا سے نکل آیا۔ دکان بند کرنے کی نیت سے اس نے ایک طرف رکھے لکڑی کے صندوق کو کھولا اور اس میں پڑے نوٹ گننے لگا۔رقم گنتے گنتے اُسے یکدم خیال آیا کہ کل احمد کے سکول کی فیس ادا کرنے کا آخری دن تھا۔ رانی کی بیماری پر اٹھنے والےاخراجات کی وجہ سے وہ پچھلے کئی ماہ سے سکول کی فیس ادا نہ کر سکا تھا۔ سکول والوں نے نوٹس بھیجا تھا کہ اس بار بھی سکول کی فیس جمع نہ کروائی گئی، تو بچے کا نام سکول سے خارج کر دیا جائے گا۔
یہ خیال آتے ہی اُس کے چہرے سے پریشانی عیاں ہونے لگی۔ اس کے پاس رقم ضرورت سے کچھ کم تھی۔ اب کیا کیا جائے؟۔ وہ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک قریب سے ایک نسوانی آواز اُبھری۔ بھیا !۔ ذرا یہ ہار تو دِکھانا۔ وہ خیالوں سے نکل آیا۔ اس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا اور ہاراُٹھا کر اُس عورت کی طرف بڑھا دیا جس کی للچائی نظریں اُس پر جمی تھیں۔ "اِس ہار کی کیا قیمت ہے بھائی ؟" عورت کے سوال پر وہ چونکا۔ "صرف پانچ سو روپے!"۔ وہ جیسے گہری نیند میں بڑبڑایا۔ عورت نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور پھر پیسے اس کے ہاتھ میں تھما کر ایک طرف کو چل دی۔حمید الدین نے دکان بند کی اور چپ چاپ سر جھکائے بوجھل قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔
آخری تدوین: