کاشفی
محفلین
غزل
(احمد ندیم قاسمی)
بیٹھا ہوں تشنگی کو چھپائے نگاہ میں
ساقی کے آستانہء عالم پناہ میں
پھر عرش و فرش میں ہے قیامت مچی ہوئی
پھر جنبشیں ہیں یار کی نیچی نگاہ میں
پروردگار میری "صبوحی" کو دیکھ کر
کیوںآگ لگ گئی ہے تیرے مہر و ماہ میں
ہر ذرّے پر ہے میری جبیں اب جھکی ہوئی
دیکھا تھا نقشِ پائے صنم خاکِ راہ میں
یہ صاحبِ خلوص تو وہ بندہ ہوا
یہ فرق ہے فقیر میں اور بادشاہ میں
خاک درِ حبیب پہ جب مجھ کو ناز ہے
پھر کیا دھرا ہے طُرّہء و تاج و کلاہ میں
اس ماہِ نیم ماہ کو دیکھا جو اے ندیم
تارے چمک اُٹھے مری لوحِ سیاہ میں