محمد یعقوب آسی
محفلین
یہاں ایک لفظ دیکھا ’’ہمشیرہ‘‘ (سگی بہن کے معانی میں)۔ ایک بہت عام سی غلطی ہے اور ہم میں اکثر احباب کو اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔
بلکہ شاید اسی مثال پر ’’اداکارہ‘‘، ’’فن کارہ‘‘، ’’گلو کارہ‘‘ کے الفاظ بھی رائج ہو گئے۔
فارسی میں مذکر مؤنث کے لئے صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے سماعی (یعنی جیسا سنا)۔ مادر، پدر؛ برادر، خواہر؛ مرد، زن؛ وغیرہ۔ ہائے تانیث کا تصور عربی الاصل اسماء کے ساتھ خاص ہے۔ طالب، طالبہ؛ نفیس، نفیسہ؛ حبیب، حبیبہ۔ اصولی طور پر ’’اداکار‘‘، ’’فن کار‘‘، ’’گلو کار‘‘ وغیرہ یہ الفاظ مذکر اور مؤنث دونوں کو احاطہ کرتے ہیں۔ جہاں تخصیص لازم ہو جائے وہاں ’’اداکارہ‘‘، ’’فن کارہ‘‘، ’’گلو کارہ‘‘ کی بجائے ’’اداکار‘‘، ’’فن کار‘‘، ’’گلو کار‘‘ مرد یا خاتون کہا جانا چاہئے۔ اسی قاعدے کے مطابق ’’ہم شیر‘‘ سگا بھائی اور سگی بہن دونوں پر محیط ہے۔ بلکہ شرط چونکہ صرف دودھ کی سانجھ ہونے کی ہے، لہٰذا رضاعی بھائی بہن بھی اسی میں آ گئے۔
غلط العام اور غلط العوام کی بات دوسری ہے۔
بلکہ شاید اسی مثال پر ’’اداکارہ‘‘، ’’فن کارہ‘‘، ’’گلو کارہ‘‘ کے الفاظ بھی رائج ہو گئے۔
فارسی میں مذکر مؤنث کے لئے صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے سماعی (یعنی جیسا سنا)۔ مادر، پدر؛ برادر، خواہر؛ مرد، زن؛ وغیرہ۔ ہائے تانیث کا تصور عربی الاصل اسماء کے ساتھ خاص ہے۔ طالب، طالبہ؛ نفیس، نفیسہ؛ حبیب، حبیبہ۔ اصولی طور پر ’’اداکار‘‘، ’’فن کار‘‘، ’’گلو کار‘‘ وغیرہ یہ الفاظ مذکر اور مؤنث دونوں کو احاطہ کرتے ہیں۔ جہاں تخصیص لازم ہو جائے وہاں ’’اداکارہ‘‘، ’’فن کارہ‘‘، ’’گلو کارہ‘‘ کی بجائے ’’اداکار‘‘، ’’فن کار‘‘، ’’گلو کار‘‘ مرد یا خاتون کہا جانا چاہئے۔ اسی قاعدے کے مطابق ’’ہم شیر‘‘ سگا بھائی اور سگی بہن دونوں پر محیط ہے۔ بلکہ شرط چونکہ صرف دودھ کی سانجھ ہونے کی ہے، لہٰذا رضاعی بھائی بہن بھی اسی میں آ گئے۔
غلط العام اور غلط العوام کی بات دوسری ہے۔