ایسے افراد کی اخلاقی تربیت میں یقینی طورپر کوئی نہ کوئی کسر باقی رہ گئی ہے۔کیا کیا جائے؟
میں اخلاقی تربیت کا تو نہیں کہوں گی کیونکہ بہت ہی پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور اچھے کردار کے مالک افراد بھی اس سوشل میڈیائی بدتمیزی کے رواج کی لپیٹ میں آتے نظر آرہے ہیں۔
اصل مسئلہ سیاسی لیڈروں اور ان کی سوشل میڈیائی ٹیموں کا ہے۔ یہ اگریسو ہوئے اور ساتھ میں انھوں نے اپنی سوشل میڈیائی ٹیموں کو گند مچانے کی کھلی چھٹی دے دی۔
اگر کوئی مخالف پارٹی کا کسی دوسری پارٹی کے بارے میں تمیز سے بھی سوال کرتا ہے تو اس پر مذکورہ پارٹی کے افراد جو کہ زیادہ تر فیک آئی ڈیز ہیں، حملہ کر دیتے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ جو جان بوجھ کر اس بدتمیزی کے طوفان کو کھڑا کیا گیا ہے، اس سے بچا جائے۔ یہ لیڈرز صرف عوام کی رائے کو manipulate کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس سارے کھیل میں استعمال ہو چکے ہیں۔
یہ صرف نفسیاتی حربے ہیں جن کے ذریعے عوام کی رائے اپنے حق میں تبدیل کی جاتی ہے۔ اب جس کے ساتھ بدتمیزی ہوتی ہے اور بار بار ہوتی ہے ذرا اس کی دماغی حالت سوچیں کچھ عرصے بعد کیسی ہو جائے گی؟ وہ بھی انسان ہے، وہ بھی بدتمیزی پر اتر آئے گا اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ صحیح اور غلط کے درمیان جو باریک سی لکیر ہوتی ہے وہ بھی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
ایک یہ بھی سوچ کچھ سالوں سے سامنے لائی گئی ہے کہ بڑے مجرموں کو جب تک ٹف ٹائم نہیں دیا جائے گا تب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ اب اس سب میں ایک عام سا ووٹر اور سپورٹر بھی پس جاتا ہے۔ اب وہ ذاتی زندگی میں کتنا ہی ایماندار اور نیک کیوں نہ ہو، اس نے چاہے کبھی کسی کا حق نہ مارا ہو یا ہاتھ پیر سے کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچائی ہو وہ بہرحال ایک منٹ میں غدار ٹہرا دیا جاتا ہے اور ملک کی پوری بربادی اس کے سر ڈال دی جاتی ہے کہ اس کے ووٹ کی وجہ سے یہ ہوا۔ یہ ذمہ دار ہے اس ملک کی بربادی کا۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ بھی یہی رویہ دوسروں کے لئے اپنا لیتا ہے۔
اصل مسئلہ درپردہ جاری اس کھیل کو سمجھنے کا ہے۔
بات یہ ہے کہ ہم کسی کی سوچ کو ذبردستی بدل نہیں سکتے۔ البتہ اگر لاجک سے بات کی جائے اور الزام تراشیوں سے بچا جائے تو ہو سکتا ہے کہ کسی کی سوچ وقت کے ساتھ بدل جائے۔