بی بی سی اردو کا کارنامہ

ساجد

محفلین
برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ، جسے مختصر صورت میں بی بی سی کہا جاتا ہے ، طویل عرصہ سے صحافتی میدان میں اپنی خدمات پیش کر رہا ہے ۔ جب ریڈیو سیٹ چیدہ چیدہ ٹی وی خال خال اور انٹر نیٹ ناپید تھا تو پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر کے چوراہوں میں لوگ دودھ فروش ، پان سگریٹ والی دکان یا ڈھابوںپررات کے وقت جہازی سائز کے ریڈیو سیٹس پر "سیر بین" شارٹ ویو فریکونسی پر باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ حالانکہ اس وقت ریڈیو پاکستان کا بھی وجود تھا لیکن یہ زمانہ 65 اور 71 کی جنگوں کے دوران قریب کا تھا اور بھارت اور پاکستان کے جنگوں کی صورت حال پر دونوں ممالک کے نشریاتی اداروں کی خبریں سنسر شدہ اور مبالغہ آمیز ہوتی تھیں اس لئیے لوگ غیر جانبدار خبروں کے لئیے بی بی سی کو ترجیح دیتے۔ ایسا کچھ غلط بھی نہ تھا بی بی سی پر خبریں اور تجزئیے تو تھے ہی ادب ، تعلیم ، فن ، ثقافت اور بچوں کے حوالے سے بھی اعلی پائے کے پروگرام اردو زبان میں دستیاب تھے اگرچہ اس وقت ریڈیو پاکستان بھی ادیبوں ، قلمکاروں ، علماء ، تخلیق کاروں ، اساتذہ ، فنکاروں اور موسیقاروں کا مرکز نگاہ تھا اور اس کے پروگرام بہت جانفشانی سے تیار کئیے جاتے تھے اور ان کی عوام میں بے حد مقبولیت تھی۔ ایسے خوبصورت پروگراموں اور خوش کن لب و لہجہ کی حامل آوازوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کے ادب کو چار چاند لگا دئیے لیکن خبروں کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پر بی بی سی کو ہی ترجیح دی جاتی تھی۔
مرور زمانہ بہت ساری تکنیکی ، معاشی ، سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں لاتا رہا اور واقعات ، شخصیات ادارہ جات اور معاملات وقت کے دھارے کا ساتھ دیتے دیتے کچھ سے کچھ ہو گئے۔ جہاں کچھ بہتر ہوا تو کچھ ابتر بھی ہوا اور ایسی ہی ابتری بی بی سی کی غیر جانبداری اور خبروں کے معیار میں بھی آئی۔ اس کی کچھ وجوہات تو بڑی آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں مثال کے طور پر کہ بی بی سی برطانوی حکومت کی مالی مدد سے چلتا ہے اور جب سے برطانیہ اتحادی کا رتبہ حاصل کر گیا ہے تو اس کا اثر بی بی سی کی غیر جانبداری پر بھی پڑا (اگرچہ برطانیہ اور بی بی سی یہ بات تسلیم نہیں کرتے لیکن ریڈیو کے مستقل سامعین جانتے ہیں کہ 2001 سے بی بی سی کی غیر جانبداری کا معیار متاثر ہوا ہے)۔
اس کے ساتھ ساتھ خبروں کے تناظر کو بھی پیش نظر رکھنے کی روایت کمزور پڑ گئی۔ اسے آسان لفظوں میں یوں سمجھئیے کہ اگر قتل کا ایک واقعہ رپورٹ ہوتا تھا تو اس کا تناظر اور اسباب بھی غیر جانبداری سے دیکھ بھال کر اس کو خبر کے طور پہ پیش کیا جاتا تھا اور الفاظ کے چناؤ میں انتہائی احتیاط سے کام لیا جاتا تھا تا کہ خبر کا تاثر نہ بگڑے۔ لیکن افسوس کہ بی بی سی کا یہ معیار بھی اب رو بہ زوال ہے اور بی بی سی اپنے ماضی کی شاندار روایات سے پہلو تہی کرتے ہوئے تناظر اور اسباب پر غور کرنے کی ذمہ داری سے آزاد ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ صحافتی اعتبار سے ایسا کرنا جہاں ایک ادارے اور صحافت کے معیار کو گراتا ہے وہیں مختلف لوگوں اور کمیونٹیز (برادریوں) کے درمیان رنجشیں بھی پیدا کر نے کا سبب بنتا ہے۔ اور بی بی سی جیسا بین الاقوامی ادارہ ایسا کرے تو معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔خبر کا تاثر غلط ہوا تو وہ خبر نہ رہی بلکہ صحافی یا ادارے کی ذاتی رائے یا دانستہ حالات میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کہلائے گی جس سے کسی فرد ، گروہ، ادارے یا حکومت کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو یا اپنا مفاد پیش نظر ہو۔
اس لنک پر کلک کریں اور دیکھیں کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں اکثر اور شہری علاقوں میں تھوڑے کم پیمانے پر زمینوں اور پلاٹوں پر قبضہ کرنے کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں اور یہ دشمنیوں کی وجہ بھی بنتے ہیں جن میں درجنوں افراد جان سے جاتے ہیں۔ مرنے والوں میں ہر قبیلے ، نسل اور مذہب کے لوگ ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی نے اس کو نہ تو مذہبی اور نہ کمیونل مسئلہ بنایا۔ میرے اپنے گاؤں میں دو گروپوں کے درمیان اراضی پر جھگڑا موجود ہے اور دونوں کے مسلحین میں ایک سے زیادہ مذہب کے لوگ موجود ہیں لیکن آج تک اس لڑائی میں قتل صرف مسلمان ہوئے لیکن کسی نے بھی کوشش نہیں کی کہ اسے مذہبی رنگ دے کر اچھالا جائے۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہئیے۔ کیوں کہ واقعہ کا تناظر مذہبی لڑائی نہیں بلکہ اراضی ہے اور اسباب معاشرتی ہیں مذہبی نہیں۔ اسے اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے لیکن آپ دیکھئیے کہ میاں چنوں میں ہونے والے اسی قسم کے واقعہ کو بی بی سی کیا رنگ دینے جا رہا ہے۔ تناظر اور اسباب کو جاننے اور سمجھنے کی روایت عنقا ہو جائے تو ایک صحافتی ادارہ اپنی ساکھ سب سے پہلے گراتا ہے۔ بی بی سی اردو کے منتظمین کبھی اس پہ غور فرمائیں گے؟؟؟۔
 

شمشاد

لائبریرین
بی بی سی پر اب غیرجانبداری کی مہر نہیں لگائی جا سکتی۔ اگر کوئی اچھا واقعہ پاکستان کمیونٹی کی جانب سے وہاں منظر عام پر آتا ہے تو اسے “ایشیائی“ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بُرا واقعہ منظر عام پر آتا ہے تو پاکستان کا باقاعدہ نام لیکر پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔
 

طالوت

محفلین
بی بی سی کی اس بے ہودگی پہ مجھے بھی غصہ بہت آیا پر کیا کیجئے دنیا کی ساری توپوں کا رخ ہماری جانب اور ہماری ساری توپوں کا رخ بھی ہماری جانب۔
 
Top