ایس ایس ساگر
لائبریرین
ایک پرانی تحریر پیشِ خدمت ہے۔ احباب کی طرف سے قیمتی آراء کا انتظار رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردی اپنے عروج پر تھی۔ آسمان کو گہرے سیاہ بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ سرد اور تیزوتند ہوائیں شدت پکڑتی جا رہی تھیں۔ تیز ہوا سڑک کے دونو ں جانب کھڑے درختوں کی جھکی ٹہنیوں کو جھولا جھلا رہی تھی۔پتھریلی اور ناہموار سی وہ پہاڑی سٹرک دور تک چلی گئی تھی۔ اس سڑک کے اختتام پر سرخ پتھروں سے بنا ہوا پرانا مزار تھا ، جس کے لمبے اور بوسیدہ مینار دور سے نظر آ جاتے تھے۔
پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا یہ مزار اگرچہ بہت قدیم تھا مگر دیکھنے والوں کو پہلی ہی نظر میں پتا چل جاتا کہ کسی زمانے میں یہ بہت عالی شان اور پرشکوہ رہا ہو گا۔ سبز کپڑے کا ایک جھنڈا مزار کے مینار سے بندھا تھا۔ تیز ہوا سے یہ پھٹا پرانا جھنڈا پھڑا پھڑا رہا تھا۔ پہاڑی علاقے کے لوگ اس مزار کو بہت مقدس سمجھتے تھے۔ دورونزدیک یہ"شاہ بابا کا مزار" کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ ہر سال یہاں عرس کے موقع پر ایک عظیم الشان میلہ لگتا تھا۔ اس میں شرکت کرنے لوگ جوق درجوق کھنچے چلے آتے تھے۔
آج بھی میلے کا دن تھا۔ مزار کی جانب جانے والی سڑک زائرین سے بھری پڑی تھی۔ رنگا رنگ کپڑے پہنے لوگ جوق درجوق چلے آ رہے تھے۔ ان کے کپڑےہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔ وہ ہنستے مسکراتے مزار کی طرف جا رہے تھے۔ ہر کسی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ میلے میں شریک ہونے کے لیے لوگوں نے خراب موسم کی پرواہ بھی نہ کی تھی اور مزار پر حاضری دینے چلے آ ئے۔ مزار کاصحن رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ تیز ہوا سے زیادہ تر جھنڈیاں پھٹ چکی تھیں۔ ان کے پھٹے ہوئے ٹکڑے صحن میں اڑتے پھر رہے تھے اور چھوٹے بچے انہیں پکڑنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ وسیع صحن کی دائیں جانب ایک کمرہ تھا، جس میں شاہ بابا کی لحد مبارک تھی۔ اس کمرے کو بھی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اور محرابوں میں دیے روشن کیے گئے تھے۔ چراغوں کی لو ہوا سے کبھی تو مدھم پڑ جاتی اور کبھی اچانک بھڑک اُٹھتی۔ اکثر دیئے بجھ چکے تھے۔ کمرے میٖں اگربتیوں کی تیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ شاہ بابا کی قبر ِاقدس رنگ برنگی چادروں اورتازہ گلابوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔
آسمان پر بادلوں کا غلاف گہرا ہو گیا تھا۔ ہوا بھی اورتیز ہو گئی۔ سڑک کے کنارے ایستادہ ایک درخت تلے ایک خستہ حال بوڑھا بیٹھا تھا۔اس کے بال مٹی سے اَٹے ہوئے تھے۔ کپڑوں کے بجائے جسم پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ سرد اورجسم چھید نے والی ہوائیں اس کے بوڑھے اور نحیف جسم کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔ کپڑے پھٹ جانے کے باعث جسم کے کئی حصے واضح تھے۔ سردی کی شدت سے ہاتھوں کی ابھری ہوئی رگیں نیلاہٹ زدہ نظر آ تی تھیں۔وہ درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔چہرہ مایوسیوں اور محرومیوں کی آماہ جگاہ بنا ہوا تھا۔ حسرت زدہ نظریں لوگوں کے سرخ و سپید اور ہنستے مسکراتے چہروں پر گڑی تھیں ۔ خوش گپیوں میں مگن لوگ اس کے پاس سے گزرتے جا رہے تھے۔ کسی نے آنکھ اٹھا کراس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس کے خشک اور پھٹے ہوئے پاؤں پتھریلی زمین پر سختی سے جمے ہوئے تھے۔
اچانک ڈھول کی آواز سن کر اس کا ڈھلکا ہوا سر اٹھا۔ دورسڑک پر ایک آدمی بے تحاشا ڈھول پیٹ رہا تھا۔ کچھ ملنگ سبز لباس پہنے، گلے میں طرح طرح کے موتیوں والے ہار لٹکائے، ڈھول کی تال پر رقص کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ ان کے گرد جمع تھے۔ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ڈھول والا زور زور سے ڈھول پیٹ رہا تھا۔ ہر طرف لوگ زرق برق لباس پہنے گھومتے پھر رہے تھے۔ لوگوں کا بڑھتا ہوا ہجوم سڑک پر رینگتا ہوا اس کی طرف بڑھا چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنا جسم سکیڑ لیا۔ سر کو گھٹنوں میں دے لیا۔ ڈھول کی آواز اس کے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔ ملنگوں کے پیروں میں بندھے گھنگھروؤں کی صدا، ڈھول کی تھاپ اور قدموں کی آواز لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب تر ہو رہی تھیں۔ پھر یہ طوفانی شوروغوغا اس کے پاس سے گزر گیا۔ کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
اس نے سر اٹھایا ۔ بوجھل نگاہیں چاروں طرف دوڑائیں ، مگر کوئی بھی اسے اپنا ہمدرد دکھائی نہ دیا۔یکا یک اس کی نظروں میں لوگوں کے چہرے بگڑنے لگے۔ کوئی اسے خوں آشام بھیڑئیے کی طرح دکھائی دیا تو کوئی بھوکے شیر کی مانند۔ اس نے گھبراکر آنکھیں موند لیں۔
ڈھول والا اب مزار کے قریب پہنچ گیا تھا۔وہ مزار کے صحن میں پہنچ کر ڈھول بجانے لگا۔ ملنگوں کے دھمال اور گھنگھروؤں کی آوازیں اب بھی اسے سنائی دے رہی تھیں۔ بوڑھےنے درخت کا سہارا لےکراپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔ درخت سےپتے جھڑ کر اس کی گود میں گر رہےتھے۔
اس نے سڑک پر نظریں جما دیں۔ کئی لوگ اب بھی گزرتے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھوں میں لفافے تھامے ہوئے تھے جن میں مختلف قسم کی کھانے پینےکی اشیاء بھری تھیں۔ انہیں دیکھ کر بے اختیار اس کے منہ میں پانی بھرآیا اور اس سے رہا نہ گیا ۔ اس نے بے اختیاری کے عالم میں ان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ جب ہاتھ سمیٹا تو کھنکتے ہوئے چند سکے اس کی ہتھیلی پر دھرے تھے۔ اس نے سختی سے مٹھی بھینچ لی۔ "میں بھکاری نہیں ہوں۔" اس کے مرجھائے ہوئے لب ہلے۔سکے ہاتھ سے چھوٹ کر پتھروں سے ٹکراتے سڑک پر لڑھکتے چلے گئے۔
اس نے اپنا جسم سمیٹ لیا۔ آنکھوں میں کرب کا عنصر نمایاں تھا۔ کچھ لوگ رنگ برنگی چادریں مزار پر چڑھانے لے جا رہے تھے۔ کتنے ناداں تھے یہ لوگ۔ یہ سب قبر کے اس مکیں کی نذر کرنا چاہتے تھے جو ان چیزوں کا محتاج نہیں تھا مگر ایک زندہ ، جیتا جاگتا انسان ان کے سامنے سردی سے ٹھٹھر تامر رہا تھا۔ مگر کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کسی نے اس کے نیم برہنہ بدن کو کپڑوں سے ڈھانپنا گوارہ نہ کیا۔ بوڑھے نے ان کی طرف سے نظریں ہٹا لیں۔ وہ دنیا سے بیزار نظر آتا تھا۔ اس بے چارے کو دنیا میں ملا ہی کیا تھا۔ سوائے دکھوں اور غموں کے ۔
دنیا میں اس کا واحد سہارا ایک بیٹا تھا۔ آج اس نے بھی بیوی کے کہنے پر اسےگھر سے نکال دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ساون کی گھٹا کی طرح لہرائے او ر پچکے ہوئے گال تر کرتے دامن میں گر گئے۔ یہ دردناک منظر شاید آسمان بھی نہ سہہ سکا۔ ایک زبردست کڑاکا ہوا اور آسمان نے بھی آنسو بہانے شروع کر دئیے۔ بادلوں میں بجلی کی چمک بڑھ گئی۔ ہوائیں مزید سر د ہو گئی تھیں۔ آسمان مسلسل پانی بہا رہا تھامگر اس کے آنسوبوڑھے کا درد بٹانے کے بجائے مشکلات اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ اس کا لاغر و نحیف جسم سردی سے کا نپنے لگا ۔سردی اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ اِکا دُکا لوگ اب بھی مزار کی طرف جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی چھتریاں کھول کر سروں پر تان لی تھیں۔ پھسلن سے بچتے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے۔
ڈھول اورگھنگھروؤں کی آواز بارش کے شور میں دب گئی ۔ اس کا جسم بھیگ رہا تھا۔ اس نے بدن مزید سمیٹ لیا۔ اب اس کی نظریں مزار کے پرانے برج پر بیٹھے اس پہاڑی کوے پر جم گئیں جوتقریباً مکمل بھیگ چکا تھا۔ مگر وہ حرکت نہیں کر رہا تھا۔ شاید اس کا بھی کوئی ٹھکانہ ، کوئی آشیانہ نہ تھا۔ بوڑھے نے اس کی طرف سے نظریں ہٹا لیں۔ کوے کی حالت نے اس کے دل کو درد سے مزید بھر دیا۔
اب سڑک پر کوئی آدمی نظر نہ آ رہا تھا۔ سب لوگ مزار کے اندر جا چکے تھے۔ کبھی کبھی بارش کے شور میں ڈھول کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتاگیا۔ سڑک کی ڈھلوان پر پانی آبشار کی طرح بہہ رہاتھا۔ بوڑھے نے مایوس ہو کر آنکھیں بند کر لیں ۔ اسی لمحے پہاڑی کوے نے زور سے کائیں کائیں کیا اورچونچ کو اپنے بھیگے پروں میں چھپا لیا۔ بوڑھے نے ایک مرتبہ آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر آنکھیں موند لیں۔
شام ڈھلے بارش کے تسلسل میں ذرا کمی واقع ہوئی اور ہواؤں کا زور ٹوٹا تو لوگ مزار سے نکلنے لگے۔ موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔ ہوا کی چال میں مستی چھلک رہی تھی۔ درخت تروتازہ اور شاداب نظر آ رہے تھے۔ لوگ پھسلن سے بچنے کے لیےاحتیاط برتتے پہاڑی سڑک پر پاؤں جماتے نیچے اتر رہے تھے۔ اچانک لوگوں کے بڑھتے قدم رک گئے۔ اان کی نظریں شیشم کے ایک درخت تلے بوڑھے کی ٹھٹھری ہوئی لاش پر جم گئیں۔
گونجتے قہقہے تھم گئے۔
"ہائے بے چارہ بدنصیب!"
ہجوم سے کسی نے سرد آہ بھری۔
"بے چارہ صبح سے اس درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ شاید اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، جو یوں لاوارثوں کی طرح مر گیا۔"
کسی نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
"شاید اس کی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ "
لوگوں کے ہجوم میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ہر کوئی افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔
بوڑھے کا مردہ جسم نیلا پڑ چکا تھا۔ ہوا کے جھونکے اس کے مردہ جسم سے ٹکرا رہے تھے۔ درخت کے پتوں سے ایک ایک کر کے بارش کے قطرے اب بھی جسم پر گر رہے تھے۔ ماحول پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
اور اب دور مزار کے مینا ر پر بیٹھا پہاڑی کوا بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا یہ مزار اگرچہ بہت قدیم تھا مگر دیکھنے والوں کو پہلی ہی نظر میں پتا چل جاتا کہ کسی زمانے میں یہ بہت عالی شان اور پرشکوہ رہا ہو گا۔ سبز کپڑے کا ایک جھنڈا مزار کے مینار سے بندھا تھا۔ تیز ہوا سے یہ پھٹا پرانا جھنڈا پھڑا پھڑا رہا تھا۔ پہاڑی علاقے کے لوگ اس مزار کو بہت مقدس سمجھتے تھے۔ دورونزدیک یہ"شاہ بابا کا مزار" کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ ہر سال یہاں عرس کے موقع پر ایک عظیم الشان میلہ لگتا تھا۔ اس میں شرکت کرنے لوگ جوق درجوق کھنچے چلے آتے تھے۔
آج بھی میلے کا دن تھا۔ مزار کی جانب جانے والی سڑک زائرین سے بھری پڑی تھی۔ رنگا رنگ کپڑے پہنے لوگ جوق درجوق چلے آ رہے تھے۔ ان کے کپڑےہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔ وہ ہنستے مسکراتے مزار کی طرف جا رہے تھے۔ ہر کسی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ میلے میں شریک ہونے کے لیے لوگوں نے خراب موسم کی پرواہ بھی نہ کی تھی اور مزار پر حاضری دینے چلے آ ئے۔ مزار کاصحن رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ تیز ہوا سے زیادہ تر جھنڈیاں پھٹ چکی تھیں۔ ان کے پھٹے ہوئے ٹکڑے صحن میں اڑتے پھر رہے تھے اور چھوٹے بچے انہیں پکڑنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ وسیع صحن کی دائیں جانب ایک کمرہ تھا، جس میں شاہ بابا کی لحد مبارک تھی۔ اس کمرے کو بھی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اور محرابوں میں دیے روشن کیے گئے تھے۔ چراغوں کی لو ہوا سے کبھی تو مدھم پڑ جاتی اور کبھی اچانک بھڑک اُٹھتی۔ اکثر دیئے بجھ چکے تھے۔ کمرے میٖں اگربتیوں کی تیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ شاہ بابا کی قبر ِاقدس رنگ برنگی چادروں اورتازہ گلابوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔
آسمان پر بادلوں کا غلاف گہرا ہو گیا تھا۔ ہوا بھی اورتیز ہو گئی۔ سڑک کے کنارے ایستادہ ایک درخت تلے ایک خستہ حال بوڑھا بیٹھا تھا۔اس کے بال مٹی سے اَٹے ہوئے تھے۔ کپڑوں کے بجائے جسم پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ سرد اورجسم چھید نے والی ہوائیں اس کے بوڑھے اور نحیف جسم کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔ کپڑے پھٹ جانے کے باعث جسم کے کئی حصے واضح تھے۔ سردی کی شدت سے ہاتھوں کی ابھری ہوئی رگیں نیلاہٹ زدہ نظر آ تی تھیں۔وہ درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔چہرہ مایوسیوں اور محرومیوں کی آماہ جگاہ بنا ہوا تھا۔ حسرت زدہ نظریں لوگوں کے سرخ و سپید اور ہنستے مسکراتے چہروں پر گڑی تھیں ۔ خوش گپیوں میں مگن لوگ اس کے پاس سے گزرتے جا رہے تھے۔ کسی نے آنکھ اٹھا کراس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس کے خشک اور پھٹے ہوئے پاؤں پتھریلی زمین پر سختی سے جمے ہوئے تھے۔
اچانک ڈھول کی آواز سن کر اس کا ڈھلکا ہوا سر اٹھا۔ دورسڑک پر ایک آدمی بے تحاشا ڈھول پیٹ رہا تھا۔ کچھ ملنگ سبز لباس پہنے، گلے میں طرح طرح کے موتیوں والے ہار لٹکائے، ڈھول کی تال پر رقص کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ ان کے گرد جمع تھے۔ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ڈھول والا زور زور سے ڈھول پیٹ رہا تھا۔ ہر طرف لوگ زرق برق لباس پہنے گھومتے پھر رہے تھے۔ لوگوں کا بڑھتا ہوا ہجوم سڑک پر رینگتا ہوا اس کی طرف بڑھا چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنا جسم سکیڑ لیا۔ سر کو گھٹنوں میں دے لیا۔ ڈھول کی آواز اس کے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔ ملنگوں کے پیروں میں بندھے گھنگھروؤں کی صدا، ڈھول کی تھاپ اور قدموں کی آواز لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب تر ہو رہی تھیں۔ پھر یہ طوفانی شوروغوغا اس کے پاس سے گزر گیا۔ کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
اس نے سر اٹھایا ۔ بوجھل نگاہیں چاروں طرف دوڑائیں ، مگر کوئی بھی اسے اپنا ہمدرد دکھائی نہ دیا۔یکا یک اس کی نظروں میں لوگوں کے چہرے بگڑنے لگے۔ کوئی اسے خوں آشام بھیڑئیے کی طرح دکھائی دیا تو کوئی بھوکے شیر کی مانند۔ اس نے گھبراکر آنکھیں موند لیں۔
ڈھول والا اب مزار کے قریب پہنچ گیا تھا۔وہ مزار کے صحن میں پہنچ کر ڈھول بجانے لگا۔ ملنگوں کے دھمال اور گھنگھروؤں کی آوازیں اب بھی اسے سنائی دے رہی تھیں۔ بوڑھےنے درخت کا سہارا لےکراپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔ درخت سےپتے جھڑ کر اس کی گود میں گر رہےتھے۔
اس نے سڑک پر نظریں جما دیں۔ کئی لوگ اب بھی گزرتے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھوں میں لفافے تھامے ہوئے تھے جن میں مختلف قسم کی کھانے پینےکی اشیاء بھری تھیں۔ انہیں دیکھ کر بے اختیار اس کے منہ میں پانی بھرآیا اور اس سے رہا نہ گیا ۔ اس نے بے اختیاری کے عالم میں ان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ جب ہاتھ سمیٹا تو کھنکتے ہوئے چند سکے اس کی ہتھیلی پر دھرے تھے۔ اس نے سختی سے مٹھی بھینچ لی۔ "میں بھکاری نہیں ہوں۔" اس کے مرجھائے ہوئے لب ہلے۔سکے ہاتھ سے چھوٹ کر پتھروں سے ٹکراتے سڑک پر لڑھکتے چلے گئے۔
اس نے اپنا جسم سمیٹ لیا۔ آنکھوں میں کرب کا عنصر نمایاں تھا۔ کچھ لوگ رنگ برنگی چادریں مزار پر چڑھانے لے جا رہے تھے۔ کتنے ناداں تھے یہ لوگ۔ یہ سب قبر کے اس مکیں کی نذر کرنا چاہتے تھے جو ان چیزوں کا محتاج نہیں تھا مگر ایک زندہ ، جیتا جاگتا انسان ان کے سامنے سردی سے ٹھٹھر تامر رہا تھا۔ مگر کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کسی نے اس کے نیم برہنہ بدن کو کپڑوں سے ڈھانپنا گوارہ نہ کیا۔ بوڑھے نے ان کی طرف سے نظریں ہٹا لیں۔ وہ دنیا سے بیزار نظر آتا تھا۔ اس بے چارے کو دنیا میں ملا ہی کیا تھا۔ سوائے دکھوں اور غموں کے ۔
دنیا میں اس کا واحد سہارا ایک بیٹا تھا۔ آج اس نے بھی بیوی کے کہنے پر اسےگھر سے نکال دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ساون کی گھٹا کی طرح لہرائے او ر پچکے ہوئے گال تر کرتے دامن میں گر گئے۔ یہ دردناک منظر شاید آسمان بھی نہ سہہ سکا۔ ایک زبردست کڑاکا ہوا اور آسمان نے بھی آنسو بہانے شروع کر دئیے۔ بادلوں میں بجلی کی چمک بڑھ گئی۔ ہوائیں مزید سر د ہو گئی تھیں۔ آسمان مسلسل پانی بہا رہا تھامگر اس کے آنسوبوڑھے کا درد بٹانے کے بجائے مشکلات اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ اس کا لاغر و نحیف جسم سردی سے کا نپنے لگا ۔سردی اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ اِکا دُکا لوگ اب بھی مزار کی طرف جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی چھتریاں کھول کر سروں پر تان لی تھیں۔ پھسلن سے بچتے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے۔
ڈھول اورگھنگھروؤں کی آواز بارش کے شور میں دب گئی ۔ اس کا جسم بھیگ رہا تھا۔ اس نے بدن مزید سمیٹ لیا۔ اب اس کی نظریں مزار کے پرانے برج پر بیٹھے اس پہاڑی کوے پر جم گئیں جوتقریباً مکمل بھیگ چکا تھا۔ مگر وہ حرکت نہیں کر رہا تھا۔ شاید اس کا بھی کوئی ٹھکانہ ، کوئی آشیانہ نہ تھا۔ بوڑھے نے اس کی طرف سے نظریں ہٹا لیں۔ کوے کی حالت نے اس کے دل کو درد سے مزید بھر دیا۔
اب سڑک پر کوئی آدمی نظر نہ آ رہا تھا۔ سب لوگ مزار کے اندر جا چکے تھے۔ کبھی کبھی بارش کے شور میں ڈھول کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتاگیا۔ سڑک کی ڈھلوان پر پانی آبشار کی طرح بہہ رہاتھا۔ بوڑھے نے مایوس ہو کر آنکھیں بند کر لیں ۔ اسی لمحے پہاڑی کوے نے زور سے کائیں کائیں کیا اورچونچ کو اپنے بھیگے پروں میں چھپا لیا۔ بوڑھے نے ایک مرتبہ آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر آنکھیں موند لیں۔
شام ڈھلے بارش کے تسلسل میں ذرا کمی واقع ہوئی اور ہواؤں کا زور ٹوٹا تو لوگ مزار سے نکلنے لگے۔ موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔ ہوا کی چال میں مستی چھلک رہی تھی۔ درخت تروتازہ اور شاداب نظر آ رہے تھے۔ لوگ پھسلن سے بچنے کے لیےاحتیاط برتتے پہاڑی سڑک پر پاؤں جماتے نیچے اتر رہے تھے۔ اچانک لوگوں کے بڑھتے قدم رک گئے۔ اان کی نظریں شیشم کے ایک درخت تلے بوڑھے کی ٹھٹھری ہوئی لاش پر جم گئیں۔
گونجتے قہقہے تھم گئے۔
"ہائے بے چارہ بدنصیب!"
ہجوم سے کسی نے سرد آہ بھری۔
"بے چارہ صبح سے اس درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ شاید اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، جو یوں لاوارثوں کی طرح مر گیا۔"
کسی نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
"شاید اس کی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ "
لوگوں کے ہجوم میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ہر کوئی افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔
بوڑھے کا مردہ جسم نیلا پڑ چکا تھا۔ ہوا کے جھونکے اس کے مردہ جسم سے ٹکرا رہے تھے۔ درخت کے پتوں سے ایک ایک کر کے بارش کے قطرے اب بھی جسم پر گر رہے تھے۔ ماحول پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
اور اب دور مزار کے مینا ر پر بیٹھا پہاڑی کوا بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آخری تدوین: