نیرنگ خیال
لائبریرین
صبح جب نیند سے جاگا تو معمول کے مطابق اک صبح تھی۔ جس میں سوائے دن اور تاریخ کے شائد معمولات میں کوئی اور زیادہ تغیر کا امکان نہیں تھا۔ مگر جیسے ہی اس نے گھر کے گیٹ سے نکلنے کے لیئے قدم اٹھایا۔ تو اسکی نظر اخبار پر پڑ گئی۔ پہلے صفحے پر کچھ لاشوں کا تذکرہ تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ بیٹھ کر پوری خبر پڑھتا۔ ماتم کرتا۔ یا سوچتا کہ اس بگڑتی صورتحال کو سنبھالنے میں اسکا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ لمحہ بھر کو اس نے سرسری سا جائزہ لیا۔ اور پھر دفتر کے راستے پر نکل کھڑا ہوا۔ پر کچھ عجب سی بے چینی تھی آج۔ جو اس سے پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔
محلے سے نکلتے ہوئے کچرے کے اک ڈھیر پر اسے اک نشئ دکھائی دیا۔ جو شائد رات کا وہاں مدہوش پڑا تھا۔ اسکے بال بکھرے اور جسم گندگی سے اٹا ہوا تھا۔ اسے اک گھن کا احساس ہوا۔ کیسا آدمی ہے۔ کیسے کچرے کے ڈھیر پر مطمئن سویا پڑا ہے۔ جیسے دنیا میں اس سے آرام دہ بستر کوئی نہیں۔ اس کی ناک بند ہوگی۔ یا پھر یہ اس تعفن کا عادی ہو گیا ہے۔ موخرالذکر اسے قرین قیاس لگا۔ یہ اس گندگی کے اندر یوں رچ بس گیا ہے کہ اب اسکو تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ جب وہ اس آدمی کے سامنے سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ اس آدمی کی آنکھیں کھلی ہوئی اور جسم کسی بھی قسم کی حرکت سے عاری۔ اندر سے انسانیت نے پکارا۔ دیکھو کہیں گزر تو نہیں گیا۔ وہ ناک پر ہاتھ رکھ کر قریب گیا تو اس بدحال شخص کے چہرے پر اسے اک مسکراہٹ نظر آئی۔ جیسا کہہ رہا ہوں۔ صاحب بدبو برداشت نہیں ہوتی کیا۔ اس نے گندگی سے لتھڑے اس شخص کو کہا کہ یہ بدبو اب محسوس نہیں ہوتی تمہیں۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگا۔ جی صاحب بالکل ایسے۔ جیسے آپ کو اپنے وجود سے اٹھنے والا تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ اس کا خون کھول اٹھا۔ وہ روز نہانے کا عادی تھا۔ مہنگی خوشبو لگانا اسکے مزاج کا حصہ تھا۔ اور اس بدحال نشئی نے اس کے وجود سے اٹھنے والی مہکار کو تعفن کہہ دیا۔ قبل اسکے کہ وہ منہ کھولتا۔ وہ خستہ حال شخص اٹھ بیٹھا۔ اور کہنے لگا۔ کیا سوچ رہے ہو صاحب۔ لاشوں پر سوتے ہو روز۔ محض خبریں سمجھتے ہو کیا انکو۔ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد فرحت و شاداں زندگی گزار رہے ہو۔ اس بےحسی سے پیدا ہونے والا تعفن اب تمہارے وجود سے بہت تیز اٹھ رہا ہے۔ جاؤ صاحب اپنے دفتر جاؤ۔ جہاں تم جیسے تمہارے منتظر ہیں۔ جن کے اپنے وجود تمہاری ہی طرح تعفن زدہ ہیں۔ اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ پر اس نے اس گندے شخص سے الجھنا مناسب نہ سمجھا۔ اور آگے کی طرف چل پڑا۔
کچھ آگے اس نے گندگی کے اک ڈھیر پر بیٹھے چند کتوں کو دیکھا۔ اور سوچنے لگا کہ اللہ نے اسے اشرف المخلوقات بنا نے خوشحالی کی نعمت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ عقل اور فکر جیسی دولت سے نواز کر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ کہ وہ اس نشئی کی طرح گندگی کے ڈھیر پر نہیں بیٹھا۔ جو اسکے وجود کو تعفن زدہ کہہ رہا تھا۔ درحقیقت وہ تو اس بدبو سے بھی دور بھاگتا تھا جو اس ڈھیر سے اٹھتی تھی۔ کہ اسے گماں گزرا کتے اسے دیکھ کر منہ بنا رہے ہیں۔ پہلے تو اس نے اپنا وہم سمجھا۔ مگر پھر اس نے غور کیا تو دیکھا کہ کتوں نے اپنی ناک اس ڈھیر میں دبا لی ہے۔ وہ تھوڑاآگے گیا۔ تو اک کتے کی آواز اسے سنائی دی۔ جو دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ اف کسقدر تعفن اٹھتا ہے اس کے وجود سے۔ آگہی کے قبرستان میں خیالات کو بے گورو کفن چھوڑ دیتے ہیں یہ لوگ۔
کاغذ کی لاشیں۔کاغذ کی لاشیں۔ کیا آواز ہے جو ہواؤں میں ہے۔ یہ کیسی گونج ہے جو ذہن سے چپک گئی ہے۔ بارہا سر جھٹکانے کے باوجود اس خیال سے آزادی نہیں مل رہی۔ ہر طرف اک ہی آواز ہے۔ کاغذ کی لاشیں۔بےحسی سے اٹھنے والاتعفن۔ وہ دفتر پہنچا تو معمولات سرانجام دینے میں بھی رکاوٹ کا سامنا۔ چائے کے وقفے میں کیفے میں موجود تمام لوگ اخباروں میں شہ سرخی پر لگی لاشوں کی باتیں کر نے لگے۔ اُس علاقے میں اتنے لوگ مر گئے۔ فلاں علاقے میں اتنے لوگ اڑا دیئے گئے۔ اس علاقے میں اتنے عرصہ سے قتل عام جاری ہے۔ اسکا ذہن جاگنے لگا۔ فضا میں بسی گونج اسے سمجھ آنے لگی تھی۔ وہ عرصہ سے ان لاشوں پر اٹھ بیٹھ رہا ہے۔ زندگی کے کسی لمحے میں اس نے نہیں سوچا کہ جب کوئی اپنا ناحق جدا ہوجاتا ہے۔ تو زندگی بنجر ہوجاتی ہے۔ مقصد حیات پر ایسی ضرب پڑتی ہے کہ جینا صرف عادت رہ جاتی ہے۔ وہ روز اخبارات میں لاشوں کی تعداد گنتا تھا۔ آج اتنے، آج اتنے، کتنے اتنے اتنے جدا ہوئے جاتے ہیں۔ اس کے منہ سے اک حرف تسلی کا نہیں نکلا۔ چاہے خودکلامی کی صورت ہی نکلتا۔ کتنی سہاگنوں کے سہاگ چھن گئے۔کتنے بچے، جوان، بوڑھے عورتیں پلک جھپکنے میں خالق حقیقی سے جاملے۔ کتنے بچے ہنسنے کی عمر میں غم کلیجے سے لگائے مایوسی اور خاموشی کی اس دلدل میں اتر گئے کہ حالت زار بیان کو کرنے کو الفاظ کی حاجت بھی نہ رہی۔ کہانیاں خط پیشانی بنکر چمکنے لگیں۔ تو یہ اس بےحسی کا تعفن ہے جو اسکے وجود سے اٹھ رہا ہے۔ اس نے لاشوں کو ہمیشہ کاغذ کی لاشیں ہی گردانا تھا۔ تو کیا یہ حروف تلخیوں کے پیامبر ہیں۔ کیا یہ ہندسے حقائق کو بیان کرتے ہیں۔ اس نے اردگرد کیفے پر نظر دوڑائی۔ سب کے چہرے پر اک جیسی بےحسی تھی۔ساتھ موجود اک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ چھوڑ یار۔ کن بیکار خبروں میں الجھا ہے۔ چائے جلدی ختم کر اور اوباشانہ انداز میں آنکھ مارتے ہوئے بولا، آج پھر بڑی بن سنور کر آئی ہے۔ دونوں بلند آواز میں ہنسنے لگے۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ اپنے وجود سے اٹھنے والاتعفن ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ بےحسی کی چادر تو سب نے اوڑھ رکھی تھی۔ لیکن باقی سب ابھی اس احساس سے عاری تھے۔انکو کرنے کو اور بہت باتیں تھیں۔ بہت قیمتی موضوع تھے۔ جو انکے الفا ظ و خیالات کا بہترین مصرف ہوسکتے تھے۔ یہ مرنے والے تو ویسے ہی مر چکے تھے۔ اسکا سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر باہر بھاگا۔ تازہ ہوا میں سانس لینے سے کچھ حواس بحال کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
کتنے لوگ آن کی آن میں لقمہ اجل بنتے جاتے ہیں۔ انکا کوئی قصور نہیں۔ انکو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انکو فرشتہ اجل نے کیوں آدبوچا ہے۔ وہ تو اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ جو رواداری اور حسن اخلاق کا مذہب ہے۔ جو محبت کا درس دیتا ہے۔ جو اس سچ سے بھی منع کرتا ہے جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ پھر یہ لوگ جو بیٹھے ہیں۔ جو احساس سے عاری ہیں۔ کیا یہ اس مذہب کے پیروکار نہیں۔ اس کو اپنے مسلماں ہونے پر شبہ ہونے لگا۔ والدین نےکلمہ سکھایا تھا۔ قرآن کا ناظرہ بھی ختم کر لیا بچپن میں ہی۔ ماں روز رات کو کسی صحابی کا قصہ بھی سناتی تھی۔ اسلاف کی عظمت پر اسکو یوں ایمان تھا جیسے خدا پر۔ لیکن آج سارے عقائد ہیچ نظر آنے لگے۔ وہ آنکھیں بند کرکے سوچنے لگا۔ کہ انسانیت کا سبق کہاں پڑھا تھا۔ کس نے پڑھایا تھا۔ رواداری، مروت اور حسن اخلاق کونسے درس کا حصہ تھے۔ سر میں درد بڑھنے لگا۔ مگر حافظہ اس قسم کا کوئی بھی مضموں یاد کرنے سے قاصر رہا۔ تو انسانیت کا سبق میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ تو پھر میں اتنا پریشان کیوں ہوں۔ یہ تو میرے نصاب میں ہی نہیں۔
مگر اسلام کے نصاب میں تو یہ اولیں ہے۔ تو کیا ہم اسلام کو کہیں چھوڑ آئے ہیں۔ کیا یہ وہ مذہب نہیں جس نے کالوں کو گوروں سے اوپر کر دیا تھا۔ جس نے صدیوں کی قائم کردہ منافرت کی دیواریں توڑ دیں تھیں۔وہ مذہب جو کہتا ہے کہ اک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ میں کس مذہب کا پیروکار ہوں۔ اس خیال سے اسکا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔ سر درد سے پھٹنے کو تھا۔ احساس ندامت نے کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ وہ حرکت کرنے سے بھی خود کو معذور سمجھ رہا تھا۔
آگہی اس پر عذاب بنکر اتر آئی تھی۔ یہ لاشوں کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔ کتنے افراد ہیں۔ جو اک بار آواز بلند کریں تو شہر کے شہر گونج اٹھیں۔ تو کیوں نہیں بولتے۔ شائد سارے ان لاشوں کو اصل نہیں سمجھتے۔ شائد سب اس تذکرے کو حروف کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ شائد یہ وہی ہندسے ہیں جو انڈے اور کینو گننے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اب تو یہ ہندسے لاشوں سے پہلے لگ گئے تھے۔ اور لاشیں بھی انسانوں کی۔ اور اسکے بعد اک نبی کو ماننے والوں کی۔ اور اُس پر اِس کے ہم وطنوں کی۔ کتنے رشتے ہیں ان کاغذ پر چھپے ہندسوں کے ساتھ۔ یہ جو روز پڑھتا ہوں۔ لوگ کہہ دیتے ہیں پتہ نہیں کون تھے۔ پر میرے تو بہت سے رشتے ہیں ان سے۔ کس کس رشتے سے انکار کروں گا۔ کیا جواب دوں گا اللہ کو۔ اگر ان لوگوں نے گریباں پکڑ لیا روز محشر۔ کہ تم بھی تو اپنے تھے۔ تم کیوں نہ بولے۔ ہمارے قتل کی خبر ملی۔ پر تم نے اپنا چائے کا کپ بھی نہ چھوڑا۔ اور چائے پینے کے دوران ساتھ موجود آدمی سے یہ کہہ دینا بہت سمجھا کہ جی ظلم ہورہا ہے۔ ہمارے ٹکڑے بکھرے رہے۔ اور تم ان کے اوپر لیٹے سوتے رہے۔ کیوں کہ ہمارا تم سے خون کا رشتہ نہ تھا۔ صرف اس لیئے۔ مگر جو بقیہ رشتے تھے۔ مذہب کا ، ہم وطنی کا، زبان کا، وہ سارے بھی فراموش کر دیئے تم نے۔ کل جب تمہاری لاش اسی طرح بکھری ہوگی۔ تب بھی لوگ یہی کہہ کر گزر جائیں گے۔ پتہ نہیں کون تھا۔ افسوس کا مقام ہے جی۔ اس سوچ سے جسم خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگا۔
خیالات کے اس دریا میں بہتے اسے یقین ہوگیا کہ وہ اب توجہ سے کام نہ کر سکے گا۔ سو اس نے رخصت لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ واپسی اسی راستے سے گزرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ کتے بہتر تھے۔ وہ توگندگی کے ڈھیر پر بیٹھے تھے۔اپنوں کی لاشوں پر نہیں۔ اور وہ بدحال نشئی۔ وہ کچرے کے ڈھیر پر بیٹھا تھا مگر ادراک جیسی قیمتی دولت سے مالامال تھا۔ وہ خود ان سب سے پست تھا۔ وہ تو لاشوں پر سوتا تھا۔ خبروں کے بستر پر آگہی کو تکیہ بنائے بے حسی کی چادر اوڑھے۔کوئی ایسا بہانہ ایسا خیال جو اسکے ذہن سے یہ بوجھ اتار پھینکے۔ مگر ذہن کسی بھی قسم کا مناسب جواب تراشنے سے قاصر تھا جو اس کی سوچوں کے اس دھارے کے آگے بندھ باندھ سکے۔ جو اسکو تسلی دے سکے۔ کہ اگر اس نے توجہ نہیں دی۔ تو کوئی وجہ ہوگی۔ اگر وہ ہنکارہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ تو کوئی رمز پوشیدہ ہوگی۔
محلے سے نکلتے ہوئے کچرے کے اک ڈھیر پر اسے اک نشئ دکھائی دیا۔ جو شائد رات کا وہاں مدہوش پڑا تھا۔ اسکے بال بکھرے اور جسم گندگی سے اٹا ہوا تھا۔ اسے اک گھن کا احساس ہوا۔ کیسا آدمی ہے۔ کیسے کچرے کے ڈھیر پر مطمئن سویا پڑا ہے۔ جیسے دنیا میں اس سے آرام دہ بستر کوئی نہیں۔ اس کی ناک بند ہوگی۔ یا پھر یہ اس تعفن کا عادی ہو گیا ہے۔ موخرالذکر اسے قرین قیاس لگا۔ یہ اس گندگی کے اندر یوں رچ بس گیا ہے کہ اب اسکو تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ جب وہ اس آدمی کے سامنے سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ اس آدمی کی آنکھیں کھلی ہوئی اور جسم کسی بھی قسم کی حرکت سے عاری۔ اندر سے انسانیت نے پکارا۔ دیکھو کہیں گزر تو نہیں گیا۔ وہ ناک پر ہاتھ رکھ کر قریب گیا تو اس بدحال شخص کے چہرے پر اسے اک مسکراہٹ نظر آئی۔ جیسا کہہ رہا ہوں۔ صاحب بدبو برداشت نہیں ہوتی کیا۔ اس نے گندگی سے لتھڑے اس شخص کو کہا کہ یہ بدبو اب محسوس نہیں ہوتی تمہیں۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگا۔ جی صاحب بالکل ایسے۔ جیسے آپ کو اپنے وجود سے اٹھنے والا تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ اس کا خون کھول اٹھا۔ وہ روز نہانے کا عادی تھا۔ مہنگی خوشبو لگانا اسکے مزاج کا حصہ تھا۔ اور اس بدحال نشئی نے اس کے وجود سے اٹھنے والی مہکار کو تعفن کہہ دیا۔ قبل اسکے کہ وہ منہ کھولتا۔ وہ خستہ حال شخص اٹھ بیٹھا۔ اور کہنے لگا۔ کیا سوچ رہے ہو صاحب۔ لاشوں پر سوتے ہو روز۔ محض خبریں سمجھتے ہو کیا انکو۔ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد فرحت و شاداں زندگی گزار رہے ہو۔ اس بےحسی سے پیدا ہونے والا تعفن اب تمہارے وجود سے بہت تیز اٹھ رہا ہے۔ جاؤ صاحب اپنے دفتر جاؤ۔ جہاں تم جیسے تمہارے منتظر ہیں۔ جن کے اپنے وجود تمہاری ہی طرح تعفن زدہ ہیں۔ اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ پر اس نے اس گندے شخص سے الجھنا مناسب نہ سمجھا۔ اور آگے کی طرف چل پڑا۔
کچھ آگے اس نے گندگی کے اک ڈھیر پر بیٹھے چند کتوں کو دیکھا۔ اور سوچنے لگا کہ اللہ نے اسے اشرف المخلوقات بنا نے خوشحالی کی نعمت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ عقل اور فکر جیسی دولت سے نواز کر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ کہ وہ اس نشئی کی طرح گندگی کے ڈھیر پر نہیں بیٹھا۔ جو اسکے وجود کو تعفن زدہ کہہ رہا تھا۔ درحقیقت وہ تو اس بدبو سے بھی دور بھاگتا تھا جو اس ڈھیر سے اٹھتی تھی۔ کہ اسے گماں گزرا کتے اسے دیکھ کر منہ بنا رہے ہیں۔ پہلے تو اس نے اپنا وہم سمجھا۔ مگر پھر اس نے غور کیا تو دیکھا کہ کتوں نے اپنی ناک اس ڈھیر میں دبا لی ہے۔ وہ تھوڑاآگے گیا۔ تو اک کتے کی آواز اسے سنائی دی۔ جو دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ اف کسقدر تعفن اٹھتا ہے اس کے وجود سے۔ آگہی کے قبرستان میں خیالات کو بے گورو کفن چھوڑ دیتے ہیں یہ لوگ۔
کاغذ کی لاشیں۔کاغذ کی لاشیں۔ کیا آواز ہے جو ہواؤں میں ہے۔ یہ کیسی گونج ہے جو ذہن سے چپک گئی ہے۔ بارہا سر جھٹکانے کے باوجود اس خیال سے آزادی نہیں مل رہی۔ ہر طرف اک ہی آواز ہے۔ کاغذ کی لاشیں۔بےحسی سے اٹھنے والاتعفن۔ وہ دفتر پہنچا تو معمولات سرانجام دینے میں بھی رکاوٹ کا سامنا۔ چائے کے وقفے میں کیفے میں موجود تمام لوگ اخباروں میں شہ سرخی پر لگی لاشوں کی باتیں کر نے لگے۔ اُس علاقے میں اتنے لوگ مر گئے۔ فلاں علاقے میں اتنے لوگ اڑا دیئے گئے۔ اس علاقے میں اتنے عرصہ سے قتل عام جاری ہے۔ اسکا ذہن جاگنے لگا۔ فضا میں بسی گونج اسے سمجھ آنے لگی تھی۔ وہ عرصہ سے ان لاشوں پر اٹھ بیٹھ رہا ہے۔ زندگی کے کسی لمحے میں اس نے نہیں سوچا کہ جب کوئی اپنا ناحق جدا ہوجاتا ہے۔ تو زندگی بنجر ہوجاتی ہے۔ مقصد حیات پر ایسی ضرب پڑتی ہے کہ جینا صرف عادت رہ جاتی ہے۔ وہ روز اخبارات میں لاشوں کی تعداد گنتا تھا۔ آج اتنے، آج اتنے، کتنے اتنے اتنے جدا ہوئے جاتے ہیں۔ اس کے منہ سے اک حرف تسلی کا نہیں نکلا۔ چاہے خودکلامی کی صورت ہی نکلتا۔ کتنی سہاگنوں کے سہاگ چھن گئے۔کتنے بچے، جوان، بوڑھے عورتیں پلک جھپکنے میں خالق حقیقی سے جاملے۔ کتنے بچے ہنسنے کی عمر میں غم کلیجے سے لگائے مایوسی اور خاموشی کی اس دلدل میں اتر گئے کہ حالت زار بیان کو کرنے کو الفاظ کی حاجت بھی نہ رہی۔ کہانیاں خط پیشانی بنکر چمکنے لگیں۔ تو یہ اس بےحسی کا تعفن ہے جو اسکے وجود سے اٹھ رہا ہے۔ اس نے لاشوں کو ہمیشہ کاغذ کی لاشیں ہی گردانا تھا۔ تو کیا یہ حروف تلخیوں کے پیامبر ہیں۔ کیا یہ ہندسے حقائق کو بیان کرتے ہیں۔ اس نے اردگرد کیفے پر نظر دوڑائی۔ سب کے چہرے پر اک جیسی بےحسی تھی۔ساتھ موجود اک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ چھوڑ یار۔ کن بیکار خبروں میں الجھا ہے۔ چائے جلدی ختم کر اور اوباشانہ انداز میں آنکھ مارتے ہوئے بولا، آج پھر بڑی بن سنور کر آئی ہے۔ دونوں بلند آواز میں ہنسنے لگے۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ اپنے وجود سے اٹھنے والاتعفن ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ بےحسی کی چادر تو سب نے اوڑھ رکھی تھی۔ لیکن باقی سب ابھی اس احساس سے عاری تھے۔انکو کرنے کو اور بہت باتیں تھیں۔ بہت قیمتی موضوع تھے۔ جو انکے الفا ظ و خیالات کا بہترین مصرف ہوسکتے تھے۔ یہ مرنے والے تو ویسے ہی مر چکے تھے۔ اسکا سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر باہر بھاگا۔ تازہ ہوا میں سانس لینے سے کچھ حواس بحال کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
کتنے لوگ آن کی آن میں لقمہ اجل بنتے جاتے ہیں۔ انکا کوئی قصور نہیں۔ انکو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انکو فرشتہ اجل نے کیوں آدبوچا ہے۔ وہ تو اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ جو رواداری اور حسن اخلاق کا مذہب ہے۔ جو محبت کا درس دیتا ہے۔ جو اس سچ سے بھی منع کرتا ہے جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ پھر یہ لوگ جو بیٹھے ہیں۔ جو احساس سے عاری ہیں۔ کیا یہ اس مذہب کے پیروکار نہیں۔ اس کو اپنے مسلماں ہونے پر شبہ ہونے لگا۔ والدین نےکلمہ سکھایا تھا۔ قرآن کا ناظرہ بھی ختم کر لیا بچپن میں ہی۔ ماں روز رات کو کسی صحابی کا قصہ بھی سناتی تھی۔ اسلاف کی عظمت پر اسکو یوں ایمان تھا جیسے خدا پر۔ لیکن آج سارے عقائد ہیچ نظر آنے لگے۔ وہ آنکھیں بند کرکے سوچنے لگا۔ کہ انسانیت کا سبق کہاں پڑھا تھا۔ کس نے پڑھایا تھا۔ رواداری، مروت اور حسن اخلاق کونسے درس کا حصہ تھے۔ سر میں درد بڑھنے لگا۔ مگر حافظہ اس قسم کا کوئی بھی مضموں یاد کرنے سے قاصر رہا۔ تو انسانیت کا سبق میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ تو پھر میں اتنا پریشان کیوں ہوں۔ یہ تو میرے نصاب میں ہی نہیں۔
مگر اسلام کے نصاب میں تو یہ اولیں ہے۔ تو کیا ہم اسلام کو کہیں چھوڑ آئے ہیں۔ کیا یہ وہ مذہب نہیں جس نے کالوں کو گوروں سے اوپر کر دیا تھا۔ جس نے صدیوں کی قائم کردہ منافرت کی دیواریں توڑ دیں تھیں۔وہ مذہب جو کہتا ہے کہ اک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ میں کس مذہب کا پیروکار ہوں۔ اس خیال سے اسکا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔ سر درد سے پھٹنے کو تھا۔ احساس ندامت نے کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ وہ حرکت کرنے سے بھی خود کو معذور سمجھ رہا تھا۔
آگہی اس پر عذاب بنکر اتر آئی تھی۔ یہ لاشوں کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔ کتنے افراد ہیں۔ جو اک بار آواز بلند کریں تو شہر کے شہر گونج اٹھیں۔ تو کیوں نہیں بولتے۔ شائد سارے ان لاشوں کو اصل نہیں سمجھتے۔ شائد سب اس تذکرے کو حروف کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ شائد یہ وہی ہندسے ہیں جو انڈے اور کینو گننے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اب تو یہ ہندسے لاشوں سے پہلے لگ گئے تھے۔ اور لاشیں بھی انسانوں کی۔ اور اسکے بعد اک نبی کو ماننے والوں کی۔ اور اُس پر اِس کے ہم وطنوں کی۔ کتنے رشتے ہیں ان کاغذ پر چھپے ہندسوں کے ساتھ۔ یہ جو روز پڑھتا ہوں۔ لوگ کہہ دیتے ہیں پتہ نہیں کون تھے۔ پر میرے تو بہت سے رشتے ہیں ان سے۔ کس کس رشتے سے انکار کروں گا۔ کیا جواب دوں گا اللہ کو۔ اگر ان لوگوں نے گریباں پکڑ لیا روز محشر۔ کہ تم بھی تو اپنے تھے۔ تم کیوں نہ بولے۔ ہمارے قتل کی خبر ملی۔ پر تم نے اپنا چائے کا کپ بھی نہ چھوڑا۔ اور چائے پینے کے دوران ساتھ موجود آدمی سے یہ کہہ دینا بہت سمجھا کہ جی ظلم ہورہا ہے۔ ہمارے ٹکڑے بکھرے رہے۔ اور تم ان کے اوپر لیٹے سوتے رہے۔ کیوں کہ ہمارا تم سے خون کا رشتہ نہ تھا۔ صرف اس لیئے۔ مگر جو بقیہ رشتے تھے۔ مذہب کا ، ہم وطنی کا، زبان کا، وہ سارے بھی فراموش کر دیئے تم نے۔ کل جب تمہاری لاش اسی طرح بکھری ہوگی۔ تب بھی لوگ یہی کہہ کر گزر جائیں گے۔ پتہ نہیں کون تھا۔ افسوس کا مقام ہے جی۔ اس سوچ سے جسم خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگا۔
خیالات کے اس دریا میں بہتے اسے یقین ہوگیا کہ وہ اب توجہ سے کام نہ کر سکے گا۔ سو اس نے رخصت لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ واپسی اسی راستے سے گزرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ کتے بہتر تھے۔ وہ توگندگی کے ڈھیر پر بیٹھے تھے۔اپنوں کی لاشوں پر نہیں۔ اور وہ بدحال نشئی۔ وہ کچرے کے ڈھیر پر بیٹھا تھا مگر ادراک جیسی قیمتی دولت سے مالامال تھا۔ وہ خود ان سب سے پست تھا۔ وہ تو لاشوں پر سوتا تھا۔ خبروں کے بستر پر آگہی کو تکیہ بنائے بے حسی کی چادر اوڑھے۔کوئی ایسا بہانہ ایسا خیال جو اسکے ذہن سے یہ بوجھ اتار پھینکے۔ مگر ذہن کسی بھی قسم کا مناسب جواب تراشنے سے قاصر تھا جو اس کی سوچوں کے اس دھارے کے آگے بندھ باندھ سکے۔ جو اسکو تسلی دے سکے۔ کہ اگر اس نے توجہ نہیں دی۔ تو کوئی وجہ ہوگی۔ اگر وہ ہنکارہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ تو کوئی رمز پوشیدہ ہوگی۔
یکلخت اسے احساس ہوا کہ بے دھیانی میں چلتے ہوئے سامنے سے آنے والی کوئی گاڑی اس کے سر پر پہنچ چکی ہے۔ اس نے گھبرا کر چیخ ماری اور اس کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنے بستر پر لیٹا تھا، جسم پسینے میں شرابور تھا اور گھڑی صبح کے سات بجا رہی تھی۔ اچھا تو یہ سب خواب تھا۔ کچھ خواب کتنے ہولناک ہوتے ہیں۔اس نے تھوڑی دیر بیٹھ کر سانسیں برابر کیں۔ پھر سر کو جھٹکا دے کر کپڑے اٹھائے تا کہ دفتر جانے کی تیاری کر سکے۔ مگر نکلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ گیٹ کے پاس پڑے کاغذ کے ٹکڑے پر ویسی ہی کوئی خبر تھی جو رات خواب میں دیکھی۔ اس کو زمین اپنے پاؤں کے نیچے سے سرکتی محسوس ہونے لگی۔