فہد اشرف
محفلین
فضا میں خلفشار ہے زمانہ بیقرار ہے
نہ موسم بہار ہے نہ وقت سازگار ہے
نہ عیش کامگار ہے نہ غم پہ اختیار ہے
سکوں ذلیل وخوار ہے جنوں ہے انتشار ہے
مگر نہیں مگر نہیں مجھے تو کچھ خبر نہیں
مرا یہاں گزر نہیں، نظر مری نظر نہیں
اسیر بےخودی ہوں میں
رہین زندگی ہوں میں
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
یہ کون ہے چھپا ہوا مرے دل خراب میں
یہ کس کی آرزو ہے گم جہانِ اضطراب میں
یہ کس غم ہے رقص کن مسرتوں کے خواب میں
یہ کس کا عکس موجزن ہے ساغر شراب میں
سنے کوئی تو کچھ کہوں، مثال اشک غم رہوں
ستم سہوں جفا سہوں خموش کس لئے رہوں
مری خوشی مرا الم
سرور شوق کیوں ہو کم
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
رباب شوق میں ہے گم، شکست دل کی ہر صدا
دلیل ربط و ضبط ہے خیال ترک مدعا
دلِ حزیں میں حسرتیں نظر کو تیرا آسرا!
میری طرف بھی دیکھ لے کبھی تو میرے ساقیا
اٹھ جا چمن میں آ،گلوں کی انجمن میں آ
جنوں کے پیرہن میں آ، بہار کے وطن میں آ
بہار تک جیوں گا میں
پیوں گا میں پیوں گا میں
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
تصورات زندگی نگاہ کے اثر میں ہیں
وہ ابتدا کے مرحلے ابھی مری نظر میں ہیں
مگر یہ اشک آہ اب جو میرے چشم تر میں ہیں
نثار ان پہ دولتیں جو دست اہل زر میں ہیں
انہیں میں کوئی بات ہے یہی حریم ذات ہے
جہاں یہ کائنات ہے جدھر مری حیات ہے
میں سر وہیں جھکاؤں گا
میں وہیں حرم بناؤں گا
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
نہ موسم بہار ہے نہ وقت سازگار ہے
نہ عیش کامگار ہے نہ غم پہ اختیار ہے
سکوں ذلیل وخوار ہے جنوں ہے انتشار ہے
مگر نہیں مگر نہیں مجھے تو کچھ خبر نہیں
مرا یہاں گزر نہیں، نظر مری نظر نہیں
اسیر بےخودی ہوں میں
رہین زندگی ہوں میں
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
یہ کون ہے چھپا ہوا مرے دل خراب میں
یہ کس کی آرزو ہے گم جہانِ اضطراب میں
یہ کس غم ہے رقص کن مسرتوں کے خواب میں
یہ کس کا عکس موجزن ہے ساغر شراب میں
سنے کوئی تو کچھ کہوں، مثال اشک غم رہوں
ستم سہوں جفا سہوں خموش کس لئے رہوں
مری خوشی مرا الم
سرور شوق کیوں ہو کم
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
رباب شوق میں ہے گم، شکست دل کی ہر صدا
دلیل ربط و ضبط ہے خیال ترک مدعا
دلِ حزیں میں حسرتیں نظر کو تیرا آسرا!
میری طرف بھی دیکھ لے کبھی تو میرے ساقیا
اٹھ جا چمن میں آ،گلوں کی انجمن میں آ
جنوں کے پیرہن میں آ، بہار کے وطن میں آ
بہار تک جیوں گا میں
پیوں گا میں پیوں گا میں
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
تصورات زندگی نگاہ کے اثر میں ہیں
وہ ابتدا کے مرحلے ابھی مری نظر میں ہیں
مگر یہ اشک آہ اب جو میرے چشم تر میں ہیں
نثار ان پہ دولتیں جو دست اہل زر میں ہیں
انہیں میں کوئی بات ہے یہی حریم ذات ہے
جہاں یہ کائنات ہے جدھر مری حیات ہے
میں سر وہیں جھکاؤں گا
میں وہیں حرم بناؤں گا
مجھے کسی کا ڈر نہیں میں اپنی دھن میں مست ہوں
آخری تدوین: