بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ ایک تاریخی جرم

تاریخ: 29 اپریل 2013
از طرف: سید انور محمود
نوٹ: جو کچھ ہورہا ہے آپ سب جانتے ہیں ۔ الیکشن پاکستانی قوم کے گلے میں اٹکا ہوا ہے اور سوائے نگلنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ دہشت گردی کب کہاں ہوجائے معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے بعد پیپلز پارٹی بھی زد میں آگی ہے، دعا کریں یہ الیکشن مزید خون خرابے کے ہوجایں ۔ پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم اخبارات میں اشتہارات کے زریعے چلا رہی ہے۔ بلاول کہاں ہے کسی کو معلوم نہیں مگر آج کے اخبارات میں آدھے پیج کا ایک اشتہار چھپا ہے جس میں بلاول اور بے نظیر کی تصویروں کے ساتھ "بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام" کا احسان قوم پر لادا گیا ہے اور وعدہ بھی کیا ہے کہ ہم بھکاریوں میں اضافہ کرینگے۔ میں نے دسمبر 2012 میں اس سلسلے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ آپ بھی پڑھ لیں اور اپنی رائے ضرور دیں۔

بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ ایک تاریخی جرم
کرپش، کرپش، کرپش۔ جی ہاں کرپشن پاکستانی سیاستدانوں اورسرکاری اداروں کا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔ کرپشن ہمارے ملک میں کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ کرپشن کا کینسرنہ صرف ہمارے سیاستدانوں، سرکاری اداروں بلکہ عام لوگوں میں بھی سرایت کر چکا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ بحیثت قوم ہم میں تھوڑے یا زیادہ کرپشن کے جراثیئم ضرور پائے جاتے ہیں ۔ کرپشن کی بہت سی اقسام ہیں، مثلا سیاسی کرپشن ،معاشی کرپشن ، رشوت، اقربا پروری ،دھونس، دھاندلی، زمینوں پر قبضہ، سیاسی اور سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال ، یہ تمام کرپشن ہم روز دیکھتے یا سنتے ہیں۔مگر آج ایک نئے کرپشن پر بات ہوگی اور وہ ہے غریبوں سے ہمدردی کے بہانے لوٹ مار کا کرپشن۔ موجودہ حکومت کے دور میں اسطرح کے دو کرپشن ہمارئے سامنے آئے، ایک پنجاب میں "سستی روٹی اسکیم" جس میں کروڑوں روپیہ کی کرپشن ہوئی مگر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے بڑھتی ہوئی بدنامی سے بچنےکے لیے سستی روٹی ا سکیم ختم کر دی اور اعلان کیا کہ اس اسکیم کی رقم سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کی جائےگی، نہ پنجاب کے لوگوں کو سستی روٹی ملی اور نہ ہی سیلاب زدگان کو امداد، ہاں یہ ضرور ہوا کہ صوبہ کے حکمراں ٹولے کو لوٹ مار کرکے اپنے لیے روٹی اور سستی پڑنے لگی۔سستی روٹی ا سکیم کا کرپشن صرف صوبہ پنجاب تک محدود تھامگر دوسرا کرپشن جس کو "بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام" کہا جاتا ہے پورئے ملک میں 2008 سےجاری ہے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ویب سایٹ کے مطابق اس پروگرام کو 34 ارب روپے سے شروع کیا گیا جبکہ آج اسکا بجٹ 70 ارب روپے ہے۔ 2008-09 میں 35 لاکھ خاندان کی امداد کرنے والا یہ پروگرام 2012-13 میں 55 لاکھ خاندان یعنی پاکستان کی کل آبادی کے 18فیصد اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے 40 فیصدلوگوں کی امداد کادعوےدار ہے، اسی ویب سایٹ پر ایک وضاحتی خط میں کہا گیا کہ اس پروگرام سے 4 کروڑافرادکوفاہدہ پہنچ رہا ہے۔ویب سایٹ کے مطابق اس پروگرام کے تحت ہررجسٹرڈ خاندان کو 1000 روپےماہانہ کے حساب سے سال میں چار مرتبہ مالی امداد دی جاتی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن محترمہ فرزانہ راجہ کا کہنا ہے کہ "بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریب خاندانوں کو خودکفیل بنانے کیلئے اپنی کارکردگی اور سٹریٹجی مزید بہتر بنائے گا۔ اس پروگرام نے سماجی شعبہ میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے جس نے انتہائی غریب خاندانوں تک رسائی کرکے ان کے گزر بسر میں مدددی ۔اس پروگرام کے تحت شروع کئے گئے مختلف منصوبوں کی بدولت نہ صرف ملک سے غربت کے خاتمہ میں مدد مل رہی ہے بلکہ غریب اور بے سہارا افراد تعلیم، صحت اور روزگار سے بنیادی مسائل بھی حل ہورہے ہیں"۔محترمہ بے نظیر بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کےساتھ حکومت میں آئی تھیں۔ انکے پہلے دورِحکومت میں"پیپلز پروگرام" چلا جبکہ پیپلز پارٹی کے چوتھی حکومت کےاس دور میں ان کی جماعت کا "بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام" چل رہاہے۔ اس پروگرام کوشروع کرتے وقت چند شرائط بھی رکھی گئیں جن کے مطابق اس پروگرام سے غریب اور نادار افراد کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی مستفید ہو سکیں گے جن کی ماہانہ تنخواہ چھ ہزار روپے تک ہوگی جبکہ جو لوگ پنشن لے رہے ہیں یا بیت المال سے مستفید ہو رہے ہیں وہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔

پاکستان کی کل آبادی کے 18فیصدیا 4 کروڑ لوگ جن میں خواتین کی اکثریت ہے اس پروگرام سے کس طرح "مستفید" ہورہے ہیں اس کا اندازہ تو کسی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر کے اندر اور باہر کے مناظر دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے،جہاں سینکڑوں مردو خواتین تپتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں سرکاری ملازمین سےاپنی عزت کا جنازہ نکلواتے ہیں اور جہاں عورت ذات کے تقدس،پاکیزگی،نسوانیت اور حرمت کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ کیا تین ماہ بعد تین ہزار روپے سے ایک غریب خاندان کےگھرکا چولہاجل سکتاہے، کیا وہ بجلی کا بل ادا کرسکتا ہے؟ جس ملک میں اوسطِ پانچ افرادکے ایک متوسط کنبے کا کسی طورپر بھی اتنی مہنگائی کے عالم میں جس میں گھرکا راشن،بجلی،گیس،پانی کے بل، سفری اخراجات،تعلیم اور بیماری کے اخراجات، پھر پیدائش اور موت پچیس یاتیس ہزار روپے ماہانہ سےسے کم نہ ہواور جس میں حکومت کے مطابق 34فیصد اور ورلڈ بنک کے مطابق64فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہوں، بے روزگاری کی شرح حکومت کے مطابق 12فیصد اور حقیقی طور کئی گنا زیادہ ہو، وہاں غربت،افلاس اور پسماندگی کا حل روزگار کے وسائل پیدا کرنے سے ہوتا ہے، نام نہاد انکم سپورٹ پروگرام کے زریعےبھیک یا خیرات سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہاں کرپشن کرکےاپنے مفادات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ امداد ان ممالک میں لوگوں کو دی جاتی ہے جہاں ایک دو فیصد اسکے حقدارہوتے ہیں اور وہ محتاجی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

غیرملکی امداد سے چلنے والےاس نام نہاد انکم سپورٹ پروگرام میں کچھ لوگوں کی غربت کم ہوئی ہے اور یہ لوگ اس پروگرام کو چلانے والے ٹھیکے دار ہیں جن کو صرف فارم پرکرنے کی مد میں چار ارب روپے کی خطیر رقم مل چکی ہے، باقی معاوضہ علیحدہ سے ہے۔ اگر جعلی ناموں اور فرموں والے ان ٹھیکے داروں نے اتنا مال کمایا ہے تو پھر کرپشن میں ڈوبے ہوئے حکمراں ٹولےنے اس کرپشن کے دریا میں کتنا غسل کیا ہوگااس کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اس پروگرام سے کتنی غربت کم ہوئی اس کا اندازہ سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے، رپورٹ کے مطابق پچھلے چھ سال سے پاکستان میں مزید ایک کروڑ اسی لاکھ لوگ غربت کی لکیرسےنیچےجاچکے ہیں ۔آج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 70ارب روپے رکھےگے ہیں پھرکیا وجہ ہے ہر سال تیس لاکھ پاکستانی مزید غریب ہوجاتے ہیں۔ اگرمختلف سطحوں پر ہونے والی بدعنوانی اور اس ذلت کو فراموش کربھی دیا جائے جو اس پروگرام سے فائدہ ہونے والی مردوخواتین اور غریب لوگوں کا مقدر بن چکی ہےتب بھی ایک خاندان کو ملازمت یا روزگار کا موقع دینے کی بجائے ایک ہزار روپے ماہانہ دیکر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے غربت کم ہورہی ہے ایک احمقانہ سوچ ہے۔غربت میں کمی صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب غریبوں کےمفادات پر مبنی پالیسی بنائی جایں اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے مفادات کے لئے چلائے جانے والے نظام میں غریبوں کو صرف ذلت آمیز بھیک ہی دی جاسکتی ہے۔حکمران طبقہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لوگوں کی نفسیات کوبدلنا چاہتا ہے تاکہ لوگ ہاتھ پھیلانے،بے چارگی،خود ترسی اور خود کو لاچارو بے کار اوربھیکاری سمجھ کر دوسروں پر انحصار کریں ۔ بھیکاری اور کرپٹ حکمرانوں کی یہ پالیسی ایک تاریخی جرم ہے ،جس پراگر آج نہیں تو کل کا تاریخ داں ضروراسکوایک تاریخی جرم کے طورلکھےگا ۔

یہ مثال تو آپ نےسنی ہوگی، "مرئے پر سات درئے" بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے زریعے اس مثال پر پورا پورا عمل ہورہا ہے۔ جرایم پیشہ لوگ ان ضرروتمند غریبوں کو لوٹ رہے ہیں جو اس پروگرام شامل ہیں یا شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ پاک پتن کی چک 73 میں دو افراد نے مسجد میں اعلان کروایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم میں جن لوگوں کو رقم نہیں ملی فی کس 200 روپے رقم جمع کروایں، 50 لوگوں نے درخواستیں جمع کروائیں ، نوسرباز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر 10 ہزار روپے لے کر رفو چکر ہو گئے۔ خیبر پختونخوا میں صوبے اور قبائلی علاقوں کے لیے 72 ہزار لوگوں کے لیے امدادی رقم بھیجی جاتی ہے ۔ ہزاروں افراد تک یہ رقم نہیں پہنچتی، متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے نام پر کوئی اور رقم وصول کر لیتا ہے اور انہیں آج تک ایک روپیہ بھی نہیں ملا ،نیب حکام کے مطابق ابتدائی تحقیق میں کروڑوں روپے کے گھپلے ہوئے ہیں اس میں جی پی او جنرل پوسٹ آفس پشاور اور دوسرے پوسٹ آفسز کے عملے کی ملی بھگت سے یہ گھپلے ہو رہے ہیں ۔ کچھ افراد نے ڈسکہ و گردو نواح کےلوگوں کو بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم کے نام پر غلط میسج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں تحریر کیا ہو تا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ سروے کے تحت آپکو 25ہزار رو پے مبارک ہوں جس سے میسج پڑھنے والاخوشی سے پھولا نہیں سماتا اور جب یہ لوگ متعلقہ فون نمبر پر رابطہ کر تے ہیں تو دوسری جانب سے ایزی لوڈ کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے، ایزی لوڈ کی ڈیمانڈ پوری ہونے بعد یہ نمبر یا تو بندہوتے ہیں یا پھر جواب نہیں دیاجاتا جس پر لوگ مایوس ہو جاتے ہیں۔

اگر بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم کی جگہ صرف پچاس ارب روپے سالانہ کے حساب سے پاکستان میں مختلف صنعتیں لگائی جاتیں اورجن میں فزیکل انفراسٹرکچر بطور خاص بجلی کی فراہمی کے معاملے میں خرچ کرکے بحران سے نکلا جاسکتا تھا اور پانی کے ذریعے بہت ہی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی تھی جس سے مہنگائی کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا تھا۔ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی کی گنجائش اور 59ہزار میگاواٹ کے ادھورے منصوبوں کو پایہ تکمیل پہنچا کر نہ صرف صنعتوں کی ترقی میں رکاوٹ دور کی جاسکتی تھی بلکہ تیل کے اوپرخرچ ہونے والے بھاری زرمبادلہ میں کافی کمی کی جاسکتی تھی۔ہر سال کم از کم پچاس ہزار خاندانوں کو تاحیات عزت و آبرو والا روزگارمہیا کیا جاسکتا تھا جس سے انکا معیار زندگی بلند نہیں تو غربت کی لکیر سے اوپرآسکتا تھا۔اس معاشی پروگرام سے محض سالانہ پچاس ہزار افراد کو براہ راست روزگار ہی مہیا نہیں ہوتا بلکہ اس معاشی دائرے کی وسعت سے دیگرکروڑوں لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا۔ اگر بجلی 24گھنٹے مہیا ہو تو روزانہ پرائیویٹ جنریٹرز میں جلنے والے کروڑوں لٹر پیٹرول،ڈیزل اور اتنی ہی گیس کو بچایا جاسکتا ہے۔اس تمام عمل کا اثربہتر معیشت کی شکل میں ظاہرہوتا، بیرونی سرمایہ کاری بڑھتی اورملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ مگر جس پارٹی میں ایک بھی قابل معیشت دان نہ ہو، ایک بھی قوم سے ہمدردی رکھنے والا نہ ہووہاں اس قسم کی بات دیوانے کی بڑہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ اس پروگرام کی انچارج محترمہ فرزانہ راجہ جو اس بھاری رقم کو اس نام نہاد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے زریعے ضائع کررہی ہیں اُن کو ملک کااعلی اعزاز "ملک میں بھیکاریوں میں اضافہ" کی بنا پر دیتے تو بہتر ہوتا۔یہ پروگرام غربت کا مذا ق اڑانے کے متراد ف ہے اسے ختم کرکے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کیے جاتے تو بہتر ہوتا۔

2013 کوپاکستان میں الیکشن کا سال کہا جارہا ہے اور آج ہر سیاسی جماعت آپکا مقدر بدلنے کادعوی کررہی ہےاور ایساپہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے۔ آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی " بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام" کا کارڈ کھیلنے کا پروگرام بناچکی ہے اسلیے ہی آجکل اخبارات اور ٹی وی چینل پراشتہارات کے زریعے اسکا بہت چرچا کررہی ہے، مگرشایدیہ کامیاب نہ ہو۔ پاکستان میں کرپشن کی وجوہات میں کمزور سول سوسائٹی ، احتساب کا ناقص نظام، ایک مخصوص طبقہ کا سیاست پر حکمرانی ہو سکتی ہیں۔ترقی یافتہ ا قوام نےاپنے کرپشن زدہ مجرموں کو جو ملک کی ترقی میں رکاوٹ تھے دوسروں کے لئے عبرت کا ایک نشان بنا دیا۔ چین کی مثالیں موجود ہیں وہاں بڑے بڑے وزراکو صرف کرپشن کے الزام میں پھانسی پرلٹکادیا گیا، یہ ہی وجہ ہے کہ چین میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں عوام ابھی تک اپنے حقوق حاصل کرنےکے لیے تیارنہیں ہیں ۔ سرسیداحمد خان نے کہا تھا جو قومیں اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی معجزہ یا کسی بیرونی نجات دہندہ کا انتظار کر تی ہیں ہمیشہ ناکام و نامراد رہتی ہیں۔ پاکستان میں ایک ایسے نظام کی شدت سے ضرورت ہےجو کرپٹ حکمرانوں کاسخت احتساب کرسکے جنہوں نے پاکستان کومعاشی طور تباہ و برباد کرنے کاذمہ لے رکھا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ترقی یافتہ ممالک میں بھی سوشل سیکیورٹی سکیمز ہوتی ہیں، اور یہ سکیم بھی ایسی ہی ایک سکیم ہے۔ اس کو چلانے میں خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن اس سکیم میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
 
ترقی یافتہ ممالک میں بھی سوشل سیکیورٹی سکیمز ہوتی ہیں، اور یہ سکیم بھی ایسی ہی ایک سکیم ہے۔ اس کو چلانے میں خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن اس سکیم میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
اس اسکیم میں کوئی خرابی نہیں ہے :applause: جناب اعلیٰ ۔۔۔ اس اسکیم کے تحت غریبوں کو اےٹی ایم کارڈ بنا کر دیے گئے تھے سوچنے والی بات ہے جن بیچاروں لکھنا پڑھنا ہی سرے سے نا آتا ہو وہ اے ٹی ایم مشین کسطرح استعمال کر پائے گا؟ دوسری بات اے ٹی ایم مشینیں تو دور کی بات ان دور افتادہ علاقوں میں بینک کا ہونا مشکل ہے۔۔۔ اور پتا نہیں بیچارے کتنے لوگ اس پروگرام کے چکر میں اپنے بچی کھچی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے ھو نگے ۔۔۔
 
سوشل سکیورٹی پروگرام کے تحت دنیا بھر میں مفت تعلیم، علاج معالجہ، سستی رہائش اور فوڈ اسٹیمپس کی اسکیمیں چلائی جاتی ہیں۔۔۔ اسطرح پیسے بانٹے اور بٹورے نہیں جاتے۔۔۔ یہ سراسر قوم کا پیسہ برباد کرنے یا لوٹنے کی سازش تھی۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے اپنی بات کی تھوڑی وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ کراس ملنا شروع ہو گئے ہیں (;) )

ایک انگریزی کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے کہ "لوگوں کو کھانے کے لئے مچھلی نہ دو ان کو مچھلی پکڑنا سکھاو۔" کیونکہ آپ کی دی ہوئی مچھلی ایک دن کام آئے گی اور اس کے بعد وہ کیا کریں گے؟ لیکن اگر مچھلی پکڑنا سکھاو گے تو یہ ہنر ساری عمر کام آئے گا۔ صنعتیں اور کاروبار وغیرہ بھی مچھلی پکڑنے کے ہنر کے مترادف ہے۔ لیکن جتنی دیر میں صنعتیں لگنی ہونگی اتنی دیر میں غریب کہاں سے کھائیں گے؟ تو فوری طور پر ریلیف کے لئے بھی کوئی سکیم ہونی چاہیے، جو آپ کو مہینہ بھی میں کچھ پیسے مہیا کرے کہ گھر بار چلتا رہے۔ ہم لوگ تو مزے سے کمپیوٹر پر بیٹھ کر باتیں کر لیتے ہیں کہ صنعتیں لگاو، یہ کرو وہ کرو، لیکن پاکستان کی آدھی آبادی جن کے گھر میں روز 100 روپے سے بھی کم آتے ہیں اور جو فاقے کرتے ہیں، کیا ان کا معاشرے پر کوئی حق نہیں کہ ان کو فوری ریلیف دیا جائے؟
حکومت کے پاس ریسورسز ہوتے ہیں اور وہ ایک وقت میں بہت سارے کام کر سکتی ہے۔ تو یہ کہنا کہ ایک وقت میں یا وہ صرف صنعتیں لگا سکتی ہے یا پھر لوگوں کو کچھ پیسے مہیا کرسکتی ہے، درست نہیں ہو گا۔
 

سید ذیشان

محفلین
سوشل سکیورٹی پروگرام کے تحت دنیا بھر میں مفت تعلیم، علاج معالجہ، سستی رہائش اور فوڈ اسٹیمپس کی اسکیمیں چلائی جاتی ہیں۔۔۔ اسطرح پیسے بانٹے اور بٹورے نہیں جاتے۔۔۔ یہ سراسر قوم کا پیسہ برباد کرنے یا لوٹنے کی سازش تھی۔۔۔

جن کے پاس نوکریاں نہیں ہوتیں ان کو رقوم بھی فراہم کی جاتی ہیں- یہ دیکھیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
اس اسکیم میں کوئی خرابی نہیں ہے :applause: جناب اعلیٰ ۔۔۔ اس اسکیم کے تحت غریبوں کو اےٹی ایم کارڈ بنا کر دیے گئے تھے سوچنے والی بات ہے جن بیچاروں لکھنا پڑھنا ہی سرے سے نا آتا ہو وہ اے ٹی ایم مشین کسطرح استعمال کر پائے گا؟ دوسری بات اے ٹی ایم مشینیں تو دور کی بات ان دور افتادہ علاقوں میں بینک کا ہونا مشکل ہے۔۔۔ اور پتا نہیں بیچارے کتنے لوگ اس پروگرام کے چکر میں اپنے بچی کھچی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے ھو نگے ۔۔۔

میں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ "اس کو چلانے میں خرابیاں ہو سکتی ہیں" اور مجھے ان خرابیوں کا علم ہے جن کا آپ نے ذکر کیا، اور ان کو بہتر کرنا چاہیے، لیکن اس سکیم کے مقاصد میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
 
مجھے اپنی بات کی تھوڑی وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ کراس ملنا شروع ہو گئے ہیں (;) )

ایک انگریزی کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے کہ "لوگوں کو کھانے کے لئے مچھلی نہ دو ان کو مچھلی پکڑنا سکھاو۔" کیونکہ آپ کی دی ہوئی مچھلی ایک دن کام آئے گی اور اس کے بعد وہ کیا کریں گے؟ لیکن اگر مچھلی پکڑنا سکھاو گے تو یہ ہنر ساری عمر کام آئے گا۔ صنعتیں اور کاروبار وغیرہ بھی مچھلی پکڑنے کے ہنر کے مترادف ہے۔ لیکن جتنی دیر میں صنعتیں لگنی ہونگی اتنی دیر میں غریب کہاں سے کھائیں گے؟ تو فوری طور پر ریلیف کے لئے بھی کوئی سکیم ہونی چاہیے، جو آپ کو مہینہ بھی میں کچھ پیسے مہیا کرے کہ گھر بار چلتا رہے۔ ہم لوگ تو مزے سے کمپیوٹر پر بیٹھ کر باتیں کر لیتے ہیں کہ صنعتیں لگاو، یہ کرو وہ کرو، لیکن پاکستان کی آدھی آبادی جن کے گھر میں روز 100 روپے سے بھی کم آتے ہیں اور جو فاقے کرتے ہیں، کیا ان کا معاشرے پر کوئی حق نہیں کہ ان کو فوری ریلیف دیا جائے؟
حکومت کے پاس ریسورسز ہوتے ہیں اور وہ ایک وقت میں بہت سارے کام کر سکتی ہے۔ تو یہ کہنا کہ ایک وقت میں یا وہ صرف صنعتیں لگا سکتی ہے یا پھر لوگوں کو کچھ پیسے مہیا کرسکتی ہے، درست نہیں ہو گا۔
کیا 100 روپے روز انکی آمدنی میں بڑھا دینے سے انکے مسائل حل ہو جاینگے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ انہیں 100 روپے روز کی بھیک دینے کےبجائے اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم کرنے کی یا کم از کم کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جاتیں، توانائی اور زرعی پانی کے بحران حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی جاتیں؟ غریب کسانوں کو قرض حسنہ کے زریعے ٹریکٹر اور زرعی آلات اور اراضی دی جاتیں؟ ۔۔۔ انکم سپورٹ طرح کے کام تو بہت سی فلاحی تنظیمیں قلیل مالی امداد کے ساتھ کر رہی ہیں اور بہت احسن طریقے سے کر رہی ہیں۔۔ مفت راشن کی اسکیمیں بہت سی فلاحی تنظیمیں چلا رہی ہیں جو مفلوک الحال لوگوں کے گھر پر ماہانہ بنیادوں پر راشن پہنچاتی ہیں، کچھ تنظیمیں اجتمائی مفت دو وقت کھانے کا انتظام کرتی ہیں اور بعض روزگار کا بندوبست بھی کرتی ہیں، بعض مفت یا سستے علاج معالجہ کا انتظام کرتی ہیں ۔۔۔ سوچنے والی بات ہے کہ حکومت وقت کا اجتماعی اور کل وقتی زمہ داریوں سے ہٹ کر اسطرح گراس روٹ لیول کے جز وقتی کاموں میں اپنا وقت اور وسائل کو استعمال کرنا دانشمندی کہلائے گا؟۔
 

ساجد

محفلین
بے نظیر انکم سپورٹ میں بے ضابطگیاں تو ہیں ہی جیسا کہ ہمارے قومی سطح کے ہر کام میں ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے کسی بھی پروگرام ، عمارت یا قومی انفراسٹرکچر کے ڈھانچے کو کسی بھی سیاستدان کے نام معنون کرنے پر سخت اعتراض ہے۔ ہمارے علاقے کا ووٹوں کا بھکاری پرسوں ہمارے پاس آیا اور قریب ہی ایستادہ ایک گلی کی تکمیل کی افتتاحی تختی پر اپنی جماعت کا نام لکھا دکھا کر کہنے لگا کہ یہ ثبوت ہے کہ ہم نے آپ لوگوں کے لئے کام کیا۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں ، یہ تختی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی جماعت نے ہم عوام کے پیسوں کا اپنی جماعت کی مشہوری کے لئے غلط استعمال کیا۔ آپ کو کیا حق ہے کہ عوام کے پیسوں سے اپنی ذاتی یا جماعتی تشہیر کریں؟۔ جو بھی فلاح کا کام ہوتا ہے وہ عوام کے پیسے سے ہوتا ہے یا پھر اس قرض سے جس کو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اتاریں گی تو ان منصوبوں پر کسی جماعت یا فرد کا کیا حق ہے کہ اسے اپنے ، اپنی پارٹی ، اپنی بیوی ، اپنی ماں یا اپنے باپ کے نام معنون کرے؟۔
 

سید ذیشان

محفلین
کیا 100 روپے روز انکی آمدنی میں بڑھا دینے سے انکے مسائل حل ہو جاینگے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ انہیں 100 روپے روز کی بھیک دینے کےبجائے اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم کرنے کی یا کم از کم کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جاتیں، توانائی اور زرعی پانی کے بحران حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی جاتیں؟ غریب کسانوں کو قرض حسنہ کے زریعے ٹریکٹر اور زرعی آلات اور اراضی دی جاتیں؟ ۔۔۔ انکم سپورٹ طرح کے کام تو بہت سی فلاحی تنظیمیں قلیل مالی امداد کے ساتھ کر رہی ہیں اور بہت احسن طریقے سے کر رہی ہیں۔۔ مفت راشن کی اسکیمیں بہت سی فلاحی تنظیمیں چلا رہی ہیں جو مفلوک الحال لوگوں کے گھر پر ماہانہ بنیادوں پر راشن پہنچاتی ہیں، کچھ تنظیمیں اجتمائی مفت دو وقت کھانے کا انتظام کرتی ہیں اور بعض روزگار کا بندوبست بھی کرتی ہیں، بعض مفت یا سستے علاج معالجہ کا انتظام کرتی ہیں ۔۔۔ سوچنے والی بات ہے کہ حکومت وقت کا اجتماعی اور کل وقتی زمہ داریوں سے ہٹ کر اسطرح گراس روٹ لیول کے جز وقتی کاموں میں اپنا وقت اور وسائل کو استعمال کرنا دانشمندی کہلائے گا؟۔

یہ سب کام بھی ہونے چاہیے ہیں لیکن انکم سپورٹ کے ساتھ ساتھ نہ کہ اس کی بجائے!

مجھے حیرت ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کا نظام ہوتے ہوئے بھی پیسے دینے کو اتنا معیوب کہا جا رہا ہے؟ زکوٰۃ کی جگہ پر بھی ان پیسوں سے صنعتیں بنائیں!

تیل وغیرہ پاکستان سے تو نکلتا نہیں ہے اور اس کو درآمد کیا جاتا ہے، اس کی قیمت پاکستان کی حکومت متعین نہیں کرتی ہے۔ پاکستانی حکومت تیل پر سبسڈی دے سکتی ہے، اور اس سبسڈی سے تیل کی قیمت کم ہو سکتی ہے، لیکن تیل صرف اور صرف غریب لوگ تو استعمال نہیں کرتے، اس کو ہر طبقہ استعمال کرتا ہے۔ تو یہ ایسی چیز نہیں ہے جس سے صرف اور صرف غریبوں کو ہی فائدہ پہنچے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ایک خاندان کو ملازمت یا روزگار کا موقع دینے کی بجائے ایک ہزار روپے ماہانہ دیکر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے غربت کم ہورہی ہے ایک احمقانہ سوچ ہے۔غربت میں کمی صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب غریبوں کےمفادات پر مبنی پالیسی بنائی جایں اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے مفادات کے لئے چلائے جانے والے نظام میں غریبوں کو صرف ذلت آمیز بھیک ہی دی جاسکتی ہے۔
بہت خوب سیدی بہت خوب لکھا، آج ہی یہ اشتہار دیکھ کر میرے دل میں طیش کا ایک الاؤ روشن ہوا اور آپ نے اس الاؤ کو الفاظ دے دیئے:)
کس قدر احمق ہیں یہ لوگ، ان کے دلوں پر، ان کی آنکھوں پر بے حسی کے تالے لگے ہوئے ہیں۔ ہزار روپے ہاہاہا ایک ہزار روپے ہاہاہاہاہاہاہا میں پاگل ہو جاؤں ایک ہزار روپے ماہانہ۔۔۔ خدارا اس بھیانک مذاق پر انھیں موت کیوں نہیں آ جاتی۔۔۔۔۔۔! کیا انکو خبر نہیں کہ ایک ہزار روپے کی آج کے دور میں کیا وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔! کیا ایک ہزار روپے انکو دس ہزار کے برابر لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میری خوش امیدی دیکھیئے کہ خود کو اذیت سے بچانے کے لیے ایک ہزار کو اکثر دس ہزار پڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اور خود کو خوش امیدی کے محل میں براجمان رکھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ دس ہزار ایک ماہ کے لیے مل جاتے ہیں تو چلو باقی خرچوں کو چھوڑو۔۔۔۔ کرایہ، بل، علاج معالجہ۔۔۔۔ سب چھوڑو۔۔۔۔ چلو ایک دو سے 5 بچوں والا غریب اپنی فیملی کا پیٹ تو تین وقت بھر ہی سکتا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکثر خود کا سمجھاتا ہوں کہ یہ دس ہزار ہی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ہزار ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا اتنا بھیانک مذاق سر عام کیا جا سکتا ہے اور اس پر فخر کیا جا سکتا ہے؟؟؟؟؟ خدا کی لعنت ہو ایسا مذاق کرنے والوں پرکیا ایک ہزار لکھنے پر انھیں ہنسی نہیں آتی ہو گی کہ قوم سے کس قدر درد ناک مذاق کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔!
شاہ جی سوشل سپورٹ کی جانی چاہیے ضرور ہونی چاہیے آپکوی بات دل کو لگتی ہے کہ ایک عدد صنعت لگانے تک،غریب کو مچھلی پکڑنے کا سکھانے تک۔۔۔۔۔ اسکا پیٹ بھی بھرنا چاہیے۔۔۔۔۔ اسے بھوکا نہیں رکھنا چاہیے۔۔۔ مگر خدارا خود ہی انصاف کریں کہ ایک ہزار روپے سے آپ اسے کونسا من و سلٰوی کھلائیں گے۔۔۔۔! کیا ایک ہزار روپے سے ایک فیملی تو کیا ایک بندہ بھی پیٹ بھر کر ایک مہینہ، تین وقت کھانا کھا سکتا ہے۔۔۔۔۔!
ایسا کوئی زکٰوتی پروگرام شروع کرنا ہی تھا تو کم از کم پانچ ہزار سے دس ہزار فی کس کے حساب سے شروع کرتے، بھلے ستر لاکھ کے بجائے تیس لاکھ لوگ ہی مستفید ہوتے مگر ان کے پلے تو کچھ پڑتا، کچھ تو افادیت ہوتی اس پروگرام کی۔۔۔۔۔۔۔ باقی کے خرابات اگر نظر انداز کر بھی دیئے جائیں تو۔۔۔۔۔۔۔!

1101828693-1.jpg
 

S. H. Naqvi

محفلین
کتنی معصومانہ اور حماقت سے بھرپور مسکراہٹ ہے موصوف کے چہرے پر۔۔۔۔۔۔! گویا نیا جانور جنگل سے لا سرکس میں بٹھا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ تو اپنی تقریروں میں بھی ایک ہزارروپے کی بھیک کو ایک ہزار پونڈ سمجھ کرحلق کے بل چیختا ہو گا۔:rollingonthefloor: :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

S. H. Naqvi

محفلین
میں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ "اس کو چلانے میں خرابیاں ہو سکتی ہیں" اور مجھے ان خرابیوں کا علم ہے جن کا آپ نے ذکر کیا، اور ان کو بہتر کرنا چاہیے، لیکن اس سکیم کے مقاصد میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
سیدی غور کریں اس کے چلانے کے مقاصد میں ہی خرابی ہی خرابی ہے، ان لٹیروں کی نیت ٹھیک ہوتی تو ان کے الفاظ سے عیاں ہو جاتا۔۔۔ اشتہار غور سے پڑھیں یہ ایک ہزار روپے دے کر روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کر رہے ہیں :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
کسی اور ملک میں چلنے والے ویلفئیر پروگرام کا بتائیں جس میں اس ملک کی مہنگائی کے، روپے کی ویلیو کے حساب سے اتنے کم روپے دے کر اتنے بڑے وعدے پورے کیے جاتے ہوں؟؟؟؟ صاف لگتا ہے کہ ان کی نیت شروع سے ہی خراب ہے اور یہ عوام کو جانوروں کے ریوڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔۔۔۔۔!
 

عسکری

معطل
کتنی معصومانہ اور حماقت سے بھرپور مسکراہٹ ہے موصوف کے چہرے پر۔۔۔ ۔۔۔ ! گویا نیا جانور جنگل سے لا سرکس میں بٹھا دیا گیا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
یہ تو اپنی تقریروں میں بھی ایک ہزارروپے کی بھیک کو ایک ہزار پونڈ سمجھ کرحلق کے بل چیختا ہو گا۔:rollingonthefloor: :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
اسے اچھی طرح پتا ہے وہ جن سے تقریر کر رہا ہے سیمی ہیومنز ہیں ان کو کچھ بھی کہو وہ ووٹ ان کو ہی دیں گے
 

S. H. Naqvi

محفلین
بھکاری عوام کو بھیک چاہیے تھی جو ان کے اپنے دیے پیسوں سے زرداروں نے دی
واقعی بھیک ہی ہے، امداد تو کچھ اور ہوتی ہے، بالکل صیح کہا آپ نے۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہم لوگ کہ فقیروں کے لیے جیب سے ہمیشہ 2،5، روپے کے سکے ہی نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اوریہ ہزار روپے ایک فقیر کے 2 روپے کی بھیک مافق ہی ہیں مگر یہ فقیر پھر بھی اچھا ہوتا ہے کہ 2 ، 2 روپے کر کے ہزار روپے دن میں بنا ہی لیتا ہے مگر عوام تو ان کے نزدیک کسی نامعلوم درجے میں ہیں کہ پورا مہینہ اسی دو روپے میں گزار لیں اور ان کے لیے یہ بھی فخر کی بات ہے:atwitsend:
 
Top