بے ادب رکشے

یوسف سلطان

محفلین
ایک مرتبہ ہم ایوب چوک جسے جھنگ کا "لکشمی چوک" بھی کہہ سکتے ہیں ، کے پاس کھڑے مظلومیت کی تصویر بنے رکشہ کے منتظر تھے۔ نجانے کون سے کونے سے ایک رکشہ ہمارے قریب آ کر رکا۔ ہم انتہائی پھرتی سے اس میں داخل ہوئے مگر شاید اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ ہی ایک جلاد صفت مرد پانچ عدد بچوں کے ہمراہ باہر نکلا کیونکہ رکشہ انہیں اتارنے کے لئے رکا تھا، نہ کہ ہمیں چڑھانے کے لئے۔ ا س کے بعد ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ، اسی دوران ایک اور رکشہ ہمارے پاس سے ایسے گزرا جیسے کسی کتے کو اینٹ ماری گئی ہو اور وہ چینختا ہوا دوڑتا جائے۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔
"نہ چھیڑ ملنگاں نوں"
آخر کار ہماری رونی صورت دیکھ کر ایک خستہ حال رکشہ رکا۔ اس کی صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والا پہلا رکشہ یہی تھا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔
"سفر کرنے سے قبل پچھلے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو"
خیر ، ہم اس میں سوار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر عبارت "ابھی تو میں جوان ہوں" پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سفر شروع کیا ہی تھا کہ بیچ سڑک میں "عالی جاہ" نے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور کے کہنے پر ہمیں چارو ناچار دھکا لگانا پڑااور رکشے کی پشت پر "غوری" لکھا دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی۔ جونہی رکشہ سٹارٹ ہوا، ڈرائیور اسے انتہائی پھرتی سے چلانے بلکہ اڑانے لگا۔ رکشے کے اندر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خیالات قلم بند کئے ہوئے تھے۔ سیٹ پر یہ شعر لکھا تھا۔
"ابتدائے سفر ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا"
رکشہ پوری رفتار سے اپنی منزل یعنی ہماری منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ پیچھےسے آتے ہوئے ایک اور رکشہ نے اپنے "بزرگ" کو اوور ٹیک کیا۔ ڈرائیور نے سپیڈ بڑھا دی کیونکہ فقرہ " جلنے والے کا منہ کالا " دیکھ کر اسے غیرت آ گئی تھی۔ اب دونوں رکشوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی ہم اس رکشے کو اوور ٹیک کرنے لگے، ہماری عقابی نظریں اس کے پیچھے ایک کونےسے صرف یہ پڑھ سکیں۔
" تو لنگھ جا، ساڈی خیر اے"
کچھ رکشے کی نازک اندامی اور کچھ سڑک کی حالت زار کی وجہ سے ہمارا سر مسلسل رکشے کی چھت سے ٹکراتا رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے آدھا سفر سیٹ پر اور آدھا ہوا میں طے کیا یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہماری رفتار ذرا کم ہوئی تو ایک رکشہ ہمیں پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا۔ گو ہمارا رکشہ بوڑھا تھا مگر اس کے جذبات ابھی جوان تھے۔ رکشے کے پیچھے تحریر تھا۔
"ہم سا ہو تو سامنے آئے"
یہ عبارت پڑھ کر ڈرائیور کا ہاتھ خودبخود ریس گھماتا چلا گیا، سامنے سے ایک کوسٹر گزری جس پر لکھا تھا۔
"تیز چلو گے ، جلد مرو گے"
ڈرائیور اس سے بے پرواہ اپنی دھن میں مگن تھا البتہ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں "جنت کی ہوا" کے جھونکے آنے شروع ہو گئے تھے۔ آخر کار ڈرائیور کی کوششیں رنگ لائیں، ہم مدمقابل رکشہ کو اوور ٹیک کرنے لگے، اچانک اسی کشمکش میں سامنے سے ایک ٹرک نمودار ہوا جس کی پیشانی پر تحریر تھا۔ "سپرد خدا" ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف ٹرک سپرد خدا تھا، ہمارا رکشہ تو بظاہر سپرد ڈرائیور تھا۔ حسب توقع ٹرک سے ٹکر ہو گئی مگر ہم اس سے قبل ٹارزن کی سی چھلانگ لگا کر باہر کود گئے۔ ٹکر مارتے ہی ٹرک بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ٹکر مار کر ثواب دارین حاصل کریں اور بھاگ کر شکریہ کا موقع دیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ٹرک کا نمبر نوٹ کر لیں مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ٹرک کے پیچھےسلطان راہی مرحوم ہاتھ میں روایتی گنڈاسہ تھامے ہوئے تھے جس سے خون ٹپک رہا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
"اچھا ، دوست ! پھر ملیں گے۔"
پہلی بھیانک ملاقات سے ہی ہم ڈر گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ اس کے بعد تاحال رکشے میں بیٹھنے کی جرات نہ کی البتہ رکشے کی یاد میں یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اس طرح سے تجھ کو بھلاتا رہا ہوں میں
لکھ لکھ کے نام تیرا مٹاتا رہا ہوں میں


حافظ محمد ثناء اللہ بابو))
 

یاز

محفلین
عمدہ انتخاب ہے جناب۔ ہمیں خود بھی اسی مزاج کے رکشوں میں سفر اور suffer کرنے کا کثیر تجربہ حاصل ہے۔
 

یوسف سلطان

محفلین
عمدہ انتخاب ہے جناب۔
شکریہ پسند کرنے کے لئے
ہمیں خود بھی اسی مزاج کے رکشوں میں سفر اور suffer کرنے کا کثیر تجربہ حاصل ہے۔
یاز بھائی اگر کوئی یاد گار روداد ہو تو ضرور شئیر کریں :daydreaming:
ڈراتی دھمکاتی لیکن پر مزاح تحریر
شکریہ ، نوازش پسند کرنے کے لئے ۔
 

arifkarim

معطل
ہر جگہ شعر و شاعری لکھنے اور پڑھنے کا شوق شاید صرف پاک قوم کو ہی ہے۔ ادھر مغرب میں تو عوام ان لغویات میں نہیں پڑتی۔
 
آخری تدوین:
ایک مرتبہ ہم ایوب چوک جسے جھنگ کا "لکشمی چوک" بھی کہہ سکتے ہیں ، کے پاس کھڑے مظلومیت کی تصویر بنے رکشہ کے منتظر تھے۔ نجانے کون سے کونے سے ایک رکشہ ہمارے قریب آ کر رکا۔ ہم انتہائی پھرتی سے اس میں داخل ہوئے مگر شاید اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ ہی ایک جلاد صفت مرد پانچ عدد بچوں کے ہمراہ باہر نکلا کیونکہ رکشہ انہیں اتارنے کے لئے رکا تھا، نہ کہ ہمیں چڑھانے کے لئے۔ ا س کے بعد ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ، اسی دوران ایک اور رکشہ ہمارے پاس سے ایسے گزرا جیسے کسی کتے کو اینٹ ماری گئی ہو اور وہ چینختا ہوا دوڑتا جائے۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔
"نہ چھیڑ ملنگاں نوں"
آخر کار ہماری رونی صورت دیکھ کر ایک خستہ حال رکشہ رکا۔ اس کی صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والا پہلا رکشہ یہی تھا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔
"سفر کرنے سے قبل پچھلے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو"
خیر ، ہم اس میں سوار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر عبارت "ابھی تو میں جوان ہوں" پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سفر شروع کیا ہی تھا کہ بیچ سڑک میں "عالی جاہ" نے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور کے کہنے پر ہمیں چارو ناچار دھکا لگانا پڑااور رکشے کی پشت پر "غوری" لکھا دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی۔ جونہی رکشہ سٹارٹ ہوا، ڈرائیور اسے انتہائی پھرتی سے چلانے بلکہ اڑانے لگا۔ رکشے کے اندر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خیالات قلم بند کئے ہوئے تھے۔ سیٹ پر یہ شعر لکھا تھا۔
"ابتدائے سفر ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا"
رکشہ پوری رفتار سے اپنی منزل یعنی ہماری منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ پیچھےسے آتے ہوئے ایک اور رکشہ نے اپنے "بزرگ" کو اوور ٹیک کیا۔ ڈرائیور نے سپیڈ بڑھا دی کیونکہ فقرہ " جلنے والے کا منہ کالا " دیکھ کر اسے غیرت آ گئی تھی۔ اب دونوں رکشوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی ہم اس رکشے کو اوور ٹیک کرنے لگے، ہماری عقابی نظریں اس کے پیچھے ایک کونےسے صرف یہ پڑھ سکیں۔
" تو لنگھ جا، ساڈی خیر اے"
کچھ رکشے کی نازک اندامی اور کچھ سڑک کی حالت زار کی وجہ سے ہمارا سر مسلسل رکشے کی چھت سے ٹکراتا رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے آدھا سفر سیٹ پر اور آدھا ہوا میں طے کیا یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہماری رفتار ذرا کم ہوئی تو ایک رکشہ ہمیں پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا۔ گو ہمارا رکشہ بوڑھا تھا مگر اس کے جذبات ابھی جوان تھے۔ رکشے کے پیچھے تحریر تھا۔
"ہم سا ہو تو سامنے آئے"
یہ عبارت پڑھ کر ڈرائیور کا ہاتھ خودبخود ریس گھماتا چلا گیا، سامنے سے ایک کوسٹر گزری جس پر لکھا تھا۔
"تیز چلو گے ، جلد مرو گے"
ڈرائیور اس سے بے پرواہ اپنی دھن میں مگن تھا البتہ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں "جنت کی ہوا" کے جھونکے آنے شروع ہو گئے تھے۔ آخر کار ڈرائیور کی کوششیں رنگ لائیں، ہم مدمقابل رکشہ کو اوور ٹیک کرنے لگے، اچانک اسی کشمکش میں سامنے سے ایک ٹرک نمودار ہوا جس کی پیشانی پر تحریر تھا۔ "سپرد خدا" ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف ٹرک سپرد خدا تھا، ہمارا رکشہ تو بظاہر سپرد ڈرائیور تھا۔ حسب توقع ٹرک سے ٹکر ہو گئی مگر ہم اس سے قبل ٹارزن کی سی چھلانگ لگا کر باہر کود گئے۔ ٹکر مارتے ہی ٹرک بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ٹکر مار کر ثواب دارین حاصل کریں اور بھاگ کر شکریہ کا موقع دیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ٹرک کا نمبر نوٹ کر لیں مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ٹرک کے پیچھےسلطان راہی مرحوم ہاتھ میں روایتی گنڈاسہ تھامے ہوئے تھے جس سے خون ٹپک رہا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
"اچھا ، دوست ! پھر ملیں گے۔"
پہلی بھیانک ملاقات سے ہی ہم ڈر گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ اس کے بعد تاحال رکشے میں بیٹھنے کی جرات نہ کی البتہ رکشے کی یاد میں یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اس طرح سے تجھ کو بھلاتا رہا ہوں میں
لکھ لکھ کے نام تیرا مٹاتا رہا ہوں میں


حافظ محمد ثناء اللہ بابو))
برادرم یوسف سلطان کے روئیداد دلدوز کو پڑھ کرمابدولت متضاد جذبات کا شکار رہے۔کبھی اول العزم رکشہ ڈرائیور کی جراُ ت رندانہ پر دم بخود ،توکبھی برادرم یوسف سلطان کی بے بسی اور ناگفتہ بہ انجام سے قربت پر رنج والم سے ملول اور کبھی گاڑیوں کے پس وپشت انواع واقسام کے ذومعنی جملوں پر فلک شگاف قہقہہ مار کر مابدولت ہنس دیتے !تاہم حسن تحریر کی داد دئیے بنا مابدولت رہ نہ سکے۔:):)
 

اکمل زیدی

محفلین
ایک مرتبہ ہم ایوب چوک جسے جھنگ کا "لکشمی چوک" بھی کہہ سکتے ہیں ، کے پاس کھڑے مظلومیت کی تصویر بنے رکشہ کے منتظر تھے۔ نجانے کون سے کونے سے ایک رکشہ ہمارے قریب آ کر رکا۔ ہم انتہائی پھرتی سے اس میں داخل ہوئے مگر شاید اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ ہی ایک جلاد صفت مرد پانچ عدد بچوں کے ہمراہ باہر نکلا کیونکہ رکشہ انہیں اتارنے کے لئے رکا تھا، نہ کہ ہمیں چڑھانے کے لئے۔ ا س کے بعد ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ، اسی دوران ایک اور رکشہ ہمارے پاس سے ایسے گزرا جیسے کسی کتے کو اینٹ ماری گئی ہو اور وہ چینختا ہوا دوڑتا جائے۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔
"نہ چھیڑ ملنگاں نوں"
آخر کار ہماری رونی صورت دیکھ کر ایک خستہ حال رکشہ رکا۔ اس کی صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والا پہلا رکشہ یہی تھا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔
"سفر کرنے سے قبل پچھلے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو"
خیر ، ہم اس میں سوار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر عبارت "ابھی تو میں جوان ہوں" پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سفر شروع کیا ہی تھا کہ بیچ سڑک میں "عالی جاہ" نے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور کے کہنے پر ہمیں چارو ناچار دھکا لگانا پڑااور رکشے کی پشت پر "غوری" لکھا دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی۔ جونہی رکشہ سٹارٹ ہوا، ڈرائیور اسے انتہائی پھرتی سے چلانے بلکہ اڑانے لگا۔ رکشے کے اندر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خیالات قلم بند کئے ہوئے تھے۔ سیٹ پر یہ شعر لکھا تھا۔
"ابتدائے سفر ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا"
رکشہ پوری رفتار سے اپنی منزل یعنی ہماری منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ پیچھےسے آتے ہوئے ایک اور رکشہ نے اپنے "بزرگ" کو اوور ٹیک کیا۔ ڈرائیور نے سپیڈ بڑھا دی کیونکہ فقرہ " جلنے والے کا منہ کالا " دیکھ کر اسے غیرت آ گئی تھی۔ اب دونوں رکشوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی ہم اس رکشے کو اوور ٹیک کرنے لگے، ہماری عقابی نظریں اس کے پیچھے ایک کونےسے صرف یہ پڑھ سکیں۔
" تو لنگھ جا، ساڈی خیر اے"
کچھ رکشے کی نازک اندامی اور کچھ سڑک کی حالت زار کی وجہ سے ہمارا سر مسلسل رکشے کی چھت سے ٹکراتا رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے آدھا سفر سیٹ پر اور آدھا ہوا میں طے کیا یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہماری رفتار ذرا کم ہوئی تو ایک رکشہ ہمیں پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا۔ گو ہمارا رکشہ بوڑھا تھا مگر اس کے جذبات ابھی جوان تھے۔ رکشے کے پیچھے تحریر تھا۔
"ہم سا ہو تو سامنے آئے"
یہ عبارت پڑھ کر ڈرائیور کا ہاتھ خودبخود ریس گھماتا چلا گیا، سامنے سے ایک کوسٹر گزری جس پر لکھا تھا۔
"تیز چلو گے ، جلد مرو گے"
ڈرائیور اس سے بے پرواہ اپنی دھن میں مگن تھا البتہ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں "جنت کی ہوا" کے جھونکے آنے شروع ہو گئے تھے۔ آخر کار ڈرائیور کی کوششیں رنگ لائیں، ہم مدمقابل رکشہ کو اوور ٹیک کرنے لگے، اچانک اسی کشمکش میں سامنے سے ایک ٹرک نمودار ہوا جس کی پیشانی پر تحریر تھا۔ "سپرد خدا" ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف ٹرک سپرد خدا تھا، ہمارا رکشہ تو بظاہر سپرد ڈرائیور تھا۔ حسب توقع ٹرک سے ٹکر ہو گئی مگر ہم اس سے قبل ٹارزن کی سی چھلانگ لگا کر باہر کود گئے۔ ٹکر مارتے ہی ٹرک بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ٹکر مار کر ثواب دارین حاصل کریں اور بھاگ کر شکریہ کا موقع دیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ٹرک کا نمبر نوٹ کر لیں مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ٹرک کے پیچھےسلطان راہی مرحوم ہاتھ میں روایتی گنڈاسہ تھامے ہوئے تھے جس سے خون ٹپک رہا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
"اچھا ، دوست ! پھر ملیں گے۔"
پہلی بھیانک ملاقات سے ہی ہم ڈر گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ اس کے بعد تاحال رکشے میں بیٹھنے کی جرات نہ کی البتہ رکشے کی یاد میں یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اس طرح سے تجھ کو بھلاتا رہا ہوں میں
لکھ لکھ کے نام تیرا مٹاتا رہا ہوں میں


حافظ محمد ثناء اللہ بابو))
:laugh:
 

فہیم

لائبریرین
ہر جگہ شعر و شاعری لکھنے اور پڑھنے کا شوق شاید صرف پاک قوم کو ہی ہے۔ ادھر مغرب میں تو عوام ان لغویات میں نہیں پڑتی۔
بس مغرب کی ویک اینڈ کی راتوں میں عوام کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ان پر پورا دیوان کہا جاسکے :)
 

عبیر خان

محفلین
ایک مرتبہ ہم ایوب چوک جسے جھنگ کا "لکشمی چوک" بھی کہہ سکتے ہیں ، کے پاس کھڑے مظلومیت کی تصویر بنے رکشہ کے منتظر تھے۔ نجانے کون سے کونے سے ایک رکشہ ہمارے قریب آ کر رکا۔ ہم انتہائی پھرتی سے اس میں داخل ہوئے مگر شاید اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ ہی ایک جلاد صفت مرد پانچ عدد بچوں کے ہمراہ باہر نکلا کیونکہ رکشہ انہیں اتارنے کے لئے رکا تھا، نہ کہ ہمیں چڑھانے کے لئے۔ ا س کے بعد ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ، اسی دوران ایک اور رکشہ ہمارے پاس سے ایسے گزرا جیسے کسی کتے کو اینٹ ماری گئی ہو اور وہ چینختا ہوا دوڑتا جائے۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔
"نہ چھیڑ ملنگاں نوں"
آخر کار ہماری رونی صورت دیکھ کر ایک خستہ حال رکشہ رکا۔ اس کی صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والا پہلا رکشہ یہی تھا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔
"سفر کرنے سے قبل پچھلے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو"
خیر ، ہم اس میں سوار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر عبارت "ابھی تو میں جوان ہوں" پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سفر شروع کیا ہی تھا کہ بیچ سڑک میں "عالی جاہ" نے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور کے کہنے پر ہمیں چارو ناچار دھکا لگانا پڑااور رکشے کی پشت پر "غوری" لکھا دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی۔ جونہی رکشہ سٹارٹ ہوا، ڈرائیور اسے انتہائی پھرتی سے چلانے بلکہ اڑانے لگا۔ رکشے کے اندر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خیالات قلم بند کئے ہوئے تھے۔ سیٹ پر یہ شعر لکھا تھا۔
"ابتدائے سفر ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا"
رکشہ پوری رفتار سے اپنی منزل یعنی ہماری منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ پیچھےسے آتے ہوئے ایک اور رکشہ نے اپنے "بزرگ" کو اوور ٹیک کیا۔ ڈرائیور نے سپیڈ بڑھا دی کیونکہ فقرہ " جلنے والے کا منہ کالا " دیکھ کر اسے غیرت آ گئی تھی۔ اب دونوں رکشوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی ہم اس رکشے کو اوور ٹیک کرنے لگے، ہماری عقابی نظریں اس کے پیچھے ایک کونےسے صرف یہ پڑھ سکیں۔
" تو لنگھ جا، ساڈی خیر اے"
کچھ رکشے کی نازک اندامی اور کچھ سڑک کی حالت زار کی وجہ سے ہمارا سر مسلسل رکشے کی چھت سے ٹکراتا رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے آدھا سفر سیٹ پر اور آدھا ہوا میں طے کیا یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہماری رفتار ذرا کم ہوئی تو ایک رکشہ ہمیں پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا۔ گو ہمارا رکشہ بوڑھا تھا مگر اس کے جذبات ابھی جوان تھے۔ رکشے کے پیچھے تحریر تھا۔
"ہم سا ہو تو سامنے آئے"
یہ عبارت پڑھ کر ڈرائیور کا ہاتھ خودبخود ریس گھماتا چلا گیا، سامنے سے ایک کوسٹر گزری جس پر لکھا تھا۔
"تیز چلو گے ، جلد مرو گے"
ڈرائیور اس سے بے پرواہ اپنی دھن میں مگن تھا البتہ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں "جنت کی ہوا" کے جھونکے آنے شروع ہو گئے تھے۔ آخر کار ڈرائیور کی کوششیں رنگ لائیں، ہم مدمقابل رکشہ کو اوور ٹیک کرنے لگے، اچانک اسی کشمکش میں سامنے سے ایک ٹرک نمودار ہوا جس کی پیشانی پر تحریر تھا۔ "سپرد خدا" ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف ٹرک سپرد خدا تھا، ہمارا رکشہ تو بظاہر سپرد ڈرائیور تھا۔ حسب توقع ٹرک سے ٹکر ہو گئی مگر ہم اس سے قبل ٹارزن کی سی چھلانگ لگا کر باہر کود گئے۔ ٹکر مارتے ہی ٹرک بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ٹکر مار کر ثواب دارین حاصل کریں اور بھاگ کر شکریہ کا موقع دیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ٹرک کا نمبر نوٹ کر لیں مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ٹرک کے پیچھےسلطان راہی مرحوم ہاتھ میں روایتی گنڈاسہ تھامے ہوئے تھے جس سے خون ٹپک رہا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
"اچھا ، دوست ! پھر ملیں گے۔"
پہلی بھیانک ملاقات سے ہی ہم ڈر گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ اس کے بعد تاحال رکشے میں بیٹھنے کی جرات نہ کی البتہ رکشے کی یاد میں یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اس طرح سے تجھ کو بھلاتا رہا ہوں میں
لکھ لکھ کے نام تیرا مٹاتا رہا ہوں میں


حافظ محمد ثناء اللہ بابو))
ہاہا زبردست ب ہت ہی عمدہ کہانی تھی۔ :)
 

یوسف سلطان

محفلین
برادرم یوسف سلطان کے روئیداد دلدوز کو پڑھ کرمابدولت متضاد جذبات کا شکار رہے۔کبھی اول العزم رکشہ ڈرائیور کی جراُ ت رندانہ پر دم بخود ،توکبھی برادرم یوسف سلطان کی بے بسی اور ناگفتہ بہ انجام سے قربت پر رنج والم سے ملول اور کبھی گاڑیوں کے پس وپشت انواع واقسام کے ذومعنی جملوں پر فلک شگاف قہقہہ مار کر مابدولت ہنس دیتے !تاہم حسن تحریر کی داد دئیے بنا مابدولت رہ نہ سکے۔:):)
بس مغرب کی ویک اینڈ کی راتوں میں عوام کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ان پر پورا دیوان کہا جاسکے :)
ہاہا زبردست ب ہت ہی عمدہ کہانی تھی۔ :)
شکریہ آپ احباب کا انتخاب کو پسند کرنے کے لئے ۔
 
Top