مطیع الرحمٰن
محفلین
آج آفس میں داخل ہوتے ہی تھر کے رہائشی عبدالکریم نے جھٹ سے مجھے پکڑ لیا اور یوں گویا ہوا: مطیع بھائی آج ایک عجیب واقعہ دیکھا ہے ۔اور پھر وہ سنانا شروع ہوگیا:
نیپا چورنگی سے صفورا گوٹھ جانے والے روڈ پر ایک خاتون رکشے میں سوار تھیں۔رکشے والا رکشہ بھی بالکل درست چلا رہا تھا۔جیسے ہی رکشہ ثمامہ شاپنگ سینٹر کے سامنے پہنچا اچانک ایک تیز رفتار مزدا نے جو کہ ڈرائیور کے بس سے باہر ہوگئی تھی ،رکشے کو ذور دار ٹکر ماری اور رکشہ دو تین قلابازیاں کھا کر فوٹ پاتھ کے ساتھ جالگا۔
رکشہ ڈرائیور ایک جانب اوندھا گرا ہوا تھا تو دوسری طرف وہ خاتون بے حس و حرکت لیٹی تھی۔بے حس مزدا والے نے جب یہ دیکھا تو فوراً مزدا سے اتر کر ایک جانب گلیوں میں فرار ہوگیا۔
اتنے میں لوگ دونوں زخمیوں کی جانب دوڑے جو اب کچھ حواس سنبھال کر اپنے زخموں کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔
ایک نوجوان نے فوراً 15 پرفون ملا کر پولیس کو اطلاع دی ، کچھ لوگ پانی لے آئے ، کسی نے ایدھی اور چھیپا فون کیا تو جواب ملا کہ ابھی کوئی ایمبولینس موجود نہیں جیسے ہی آئے گی آپ کی طرف بھیج دیں گے۔
رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ خاتون اس کی بیوی ہے اور دونوں شاپنگ کرکے گھر جارہے تھے۔
ڈرائیور بے چارے کے کندھے کی ہڈی شاید ٹوٹ چکی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف محسوس کررہا تھا جبکہ خاتون کے دو دانت ٹوٹ کرگر گئے اور گھٹنے اور کمر سے خون رس رہا تھا۔
اتنی دیر بعد پولیس آئی اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے لگے ، میں اور کچھ نوجوان مزدا میں گھسےاور کاغذات ٹٹولنے لگے جو کہ ڈیش بورڈ سے برآمد ہوئے۔
میں وہ کاغذات لے کر اے ایس آئی کے پاس آیا جس نے کاغذات ہاتھ میں لیتے ہی اپنے ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ دیا اور موبائل میں بیٹھ کر جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔لوگوں نے اسے بہت لعنت ملامت کی مگر وہ بھی بےحس نکلا۔
اسی اثناء میں سیاہ رنگ کی ایک نئے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا جائے حادثہ کے قریب سے گزری اور پھر عودآئی۔کار میں سے 30-32 سال کا ایک خوش لباس نوجوان نمودار ہوا اور لوگوں کے مجمعے کو ہٹاتے ہوئے زخمیوں کے پاس جا پہنچا۔لوگوں نے اسے معززجان کر ساری صورت حال اس کو بتائی تو وہ طیش میں آگیا اور غصے میں پولیس موبائل جو کہ کچھ فاصلے پر ہی کھڑی تھی ، کی جانب بڑھا۔
موبائل کے قریب پہنچتے ہی اس نے موبائل کا دروازہ جھٹکے سے کھولا اور ای ایس آئی کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکال دیا اور ذور سے چلاّیا: نظر آرہے ہیں وہ زخمی تجھے، موبائل میں کیوں نہیں ڈالتا ان کو؟ یا ایمبولینس کیوں نہیں بلاتا تو؟
اے ایس آئی ادب سے بولا بھائی میرے پاس موبائل نہیں ہے تو نوجوان طیش میں آگیا اور اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرلیا پھر بولا اللہ کی قسم اگر تیرے چہرے پریہ داڑھی اور اس میں یہ سفید بال نہ ہوتے تو میں تیرا منہ توڑ دیتا۔
یہ سب باتیں سارے پولیس اہلکاروں نے سنیں مگر کوئی بھی آگے نہ آیا۔
نوجوان نے جیب سے موبائل نکالا اور چھیپا کے نیپا والے دفتر فون کیا اور چند ہی لمحوں میں ایمبولینس زخمیوں کو لے گئی۔
جائے حادثہ پر موجود سب لوگ بے بسی ،بے حسی اور طاقت کےاس منظر کو دیکھ کریقیناً حیران ہوئے ہوں گے ۔
عبدالکریم تو اس لڑکے کی طاقت سے بہت مرعوب ہوگیا مگر میں اسی سوچ میں پڑا رہا کہااگر وہ لڑکا نہ آتا اور وہ زخمی خدانخواستہ مر جاتے تو ان کے قتل کا ذمہ دار کون تھا۔۔۔مزدا والا؟ پولیس والے ؟ یا ایمبولینس والے؟؟؟
اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔ آمین
نیپا چورنگی سے صفورا گوٹھ جانے والے روڈ پر ایک خاتون رکشے میں سوار تھیں۔رکشے والا رکشہ بھی بالکل درست چلا رہا تھا۔جیسے ہی رکشہ ثمامہ شاپنگ سینٹر کے سامنے پہنچا اچانک ایک تیز رفتار مزدا نے جو کہ ڈرائیور کے بس سے باہر ہوگئی تھی ،رکشے کو ذور دار ٹکر ماری اور رکشہ دو تین قلابازیاں کھا کر فوٹ پاتھ کے ساتھ جالگا۔
رکشہ ڈرائیور ایک جانب اوندھا گرا ہوا تھا تو دوسری طرف وہ خاتون بے حس و حرکت لیٹی تھی۔بے حس مزدا والے نے جب یہ دیکھا تو فوراً مزدا سے اتر کر ایک جانب گلیوں میں فرار ہوگیا۔
اتنے میں لوگ دونوں زخمیوں کی جانب دوڑے جو اب کچھ حواس سنبھال کر اپنے زخموں کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔
ایک نوجوان نے فوراً 15 پرفون ملا کر پولیس کو اطلاع دی ، کچھ لوگ پانی لے آئے ، کسی نے ایدھی اور چھیپا فون کیا تو جواب ملا کہ ابھی کوئی ایمبولینس موجود نہیں جیسے ہی آئے گی آپ کی طرف بھیج دیں گے۔
رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ خاتون اس کی بیوی ہے اور دونوں شاپنگ کرکے گھر جارہے تھے۔
ڈرائیور بے چارے کے کندھے کی ہڈی شاید ٹوٹ چکی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف محسوس کررہا تھا جبکہ خاتون کے دو دانت ٹوٹ کرگر گئے اور گھٹنے اور کمر سے خون رس رہا تھا۔
اتنی دیر بعد پولیس آئی اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے لگے ، میں اور کچھ نوجوان مزدا میں گھسےاور کاغذات ٹٹولنے لگے جو کہ ڈیش بورڈ سے برآمد ہوئے۔
میں وہ کاغذات لے کر اے ایس آئی کے پاس آیا جس نے کاغذات ہاتھ میں لیتے ہی اپنے ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ دیا اور موبائل میں بیٹھ کر جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔لوگوں نے اسے بہت لعنت ملامت کی مگر وہ بھی بےحس نکلا۔
اسی اثناء میں سیاہ رنگ کی ایک نئے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا جائے حادثہ کے قریب سے گزری اور پھر عودآئی۔کار میں سے 30-32 سال کا ایک خوش لباس نوجوان نمودار ہوا اور لوگوں کے مجمعے کو ہٹاتے ہوئے زخمیوں کے پاس جا پہنچا۔لوگوں نے اسے معززجان کر ساری صورت حال اس کو بتائی تو وہ طیش میں آگیا اور غصے میں پولیس موبائل جو کہ کچھ فاصلے پر ہی کھڑی تھی ، کی جانب بڑھا۔
موبائل کے قریب پہنچتے ہی اس نے موبائل کا دروازہ جھٹکے سے کھولا اور ای ایس آئی کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکال دیا اور ذور سے چلاّیا: نظر آرہے ہیں وہ زخمی تجھے، موبائل میں کیوں نہیں ڈالتا ان کو؟ یا ایمبولینس کیوں نہیں بلاتا تو؟
اے ایس آئی ادب سے بولا بھائی میرے پاس موبائل نہیں ہے تو نوجوان طیش میں آگیا اور اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرلیا پھر بولا اللہ کی قسم اگر تیرے چہرے پریہ داڑھی اور اس میں یہ سفید بال نہ ہوتے تو میں تیرا منہ توڑ دیتا۔
یہ سب باتیں سارے پولیس اہلکاروں نے سنیں مگر کوئی بھی آگے نہ آیا۔
نوجوان نے جیب سے موبائل نکالا اور چھیپا کے نیپا والے دفتر فون کیا اور چند ہی لمحوں میں ایمبولینس زخمیوں کو لے گئی۔
جائے حادثہ پر موجود سب لوگ بے بسی ،بے حسی اور طاقت کےاس منظر کو دیکھ کریقیناً حیران ہوئے ہوں گے ۔
عبدالکریم تو اس لڑکے کی طاقت سے بہت مرعوب ہوگیا مگر میں اسی سوچ میں پڑا رہا کہااگر وہ لڑکا نہ آتا اور وہ زخمی خدانخواستہ مر جاتے تو ان کے قتل کا ذمہ دار کون تھا۔۔۔مزدا والا؟ پولیس والے ؟ یا ایمبولینس والے؟؟؟
اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔ آمین