یوسفی بے درو دیوار ناٹک گھر بنایا چاہیے ۔ مشتاق احمد یوسفی

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بے درو دیوار ناٹک گھر بنایا چاہیے
صحیح نام اور پتہ بتانے سے ہم قاصر ہیں ، اس لیے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ۔ سرِ دست اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اس تھیٹر کو اداکاروں کی ایک کوآپریٹو سوسائٹی نقصانِ باہمی کی بنیاد پر چلا رہی تھی۔ پہلی تاریخ کو بڑی پابندی سے مہینے بھر کا خسارہ تمام ممبران کو بحصہ مساوی بانٹ دیا جاتا تھا ۔ صرف ٹکٹ گھر پختہ تھا ، کہ اس پر کھیل کے بعد اکثر حملے ہوتے رہتے تھے ۔ ہال کی دیواریں اور چھت ٹاٹ کی تھیں ، جن میں خلافِ محاورہ پیوند بھی ٹاٹ ہی کے لگے تھے ۔ چھت قمری کیلینڈر کاکام دیتی تھی ۔ ٹاٹ کی قناتوں میں بھی جا بجا سر کے برابر سوراخ ہو گئے تھے۔ کھیل کے شروع میں ان میں سر گھسا کر باہر والے اندر کا تماش ادیکھتے ، آخر میں اندر والے گردن نکال کر باہر کی رونق دیکھ لیتے تھے۔ فرسٹ کلاس کا ٹکٹ پونے نو آنے کا ہوتا تھا ۔ اس میں صوفوں کا تکلف تھا ، جن کے فولادی اسپرنگ لباسِ مجاز پھاڑ کر چھ چھ انچ باہر نکل آئے تھے ۔ انہیں رانوں کے بیچ میں لے کر بیٹھنا پڑتا تھا ۔ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ چھ آنے کا تھا اس میں سرکنڈوں اورلوہے کی پتریوں کے مونڈھے مونجھ کی پیڑھیاں اور چنیوٹی کھٹولیاں پڑی تھیں۔
تیسرے درجے میں فرشی نشست کا اہتمام تھا ۔ فرشی سے ہماری مراد فرش خاکی ہے۔ اس کلاس میں جو ناظرین باتمکین زیادہ نک چڑھے واقع ہوئے تھے وہ گھر سے انگوچھے کے کونے میں ریزگاری باندھ کر لاتے ۔ کسی گانے یا ناز وادا پر طبیعت بہت بے قابو ہو جائے تو نیچے سے نکال کر گوپھن کی طرح گھماتے اور سٹیج پر داد کے انگھوچھے برساتے ۔چند "ماہواری ناظرین" نے کٹے پاؤں کی پیڑھیاں ڈال رکھی تھیں جن پر بیٹھ کر وہ مہینے بھر مزے سے مونگ پھلیاں اورپیچھے بیٹھنے والوں کی گالیاں کھاتے رہتے تھے۔ روا روی میں ہم یہ بتانا توبھول ہی گئے کہ پیچھے بیٹھنے والوں کی سہولت کیلئے ہال میں "نشستی" ڈھلان اس طرح پیدا کیا گیا تھا کہ اگلے یعنی اسٹیج سے ملحق حصے میں دو ڈھائی فٹ گہری زمین کھود کر ایک اکھاڑہ سا بنا دیا گیا تھا۔ اس میں فرسٹ کلاس والے خاک پھانکتے اور سیکنڈ کلاس والے لوٹیں لگاتے تھے۔ اکھاڑے کی دائیں بائیں منڈیر پر چند "خلیفے" پیر لٹکائے بیٹھے رہتے تھے۔ اسے گیلری سمجھ لیجئے
آرکسٹرا اور فرسٹ کلاس کے درمیان ہم نے ہمیشہ ایک پھاؤڑا پڑ ا دیکھا اور کبھی کبھار یہ بھی دیکھا کہ پیچھے بیٹھنے والے کسی"ناظرینِ باتمکین"(تماشائی کیلئے ہمیشہ یہی صیغہ جمع استعمال ہوتا تھا )کو کسی د وسرے "ناظرین"کی ٹوپی یا کلف دار طرہ نظر آنے لگے تو وہ انٹرول میں خود پھاؤڑے ایک دو بالشت اکھاڑا کھود کر سر کش صوفے کو مع سرِ پر غرور زمین میں دھنسا دیتا تھا ۔ اسی آلے کے پاس ایک ادھ کھدی قبر میں منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کی کھٹیا پڑی رہتی تھی ۔ ان کا صرف چہرہ اور مخمل کی چو گوشیہ ٹوپی پھدکتی نظر آتی تھی۔
یہ بزرگ جو ستر کے پیٹے میں ہوں گے ، اسی کھٹیا پر گاؤ تکیہ لگائے صاحبِ فراش رہتے تھے۔ ایک پاؤں قبر میں دوسرا اسٹیج پر ، سپید مید ہ رنگ جو جوانی میں ہی نہیں اب بھی شہابی تھا ۔ تیکھے تیکھے نقوش ، غلافی آنکھیں ، بے شکن پیشانی ، انہیں اس بڑھاپے میں بھی وجیہہ کہا جاسکتا تھا ۔ بر میں سپید ململ کا چنا ہوا کرتا ۔ کرتے پر کشیدے سے کڑھے ہوئے چنبیلی کے سپید پھول ، پھولوں میں تازہ پان کا رنگ بھرا ہوا ، پھنسا پھنسا چوڑی دار پاجامہ ۔ نڈھال نڈھال سے رہتے تھے۔ پاجامے کے علاوہ کسی چیز میں چستی نہیں پائی جاتی تھی (پہننے کے بعد پائنچے کس کر سیتے تھے)سرخ ریشمی ازار بند میں ترنک کی چابی جھولتی رہتی ۔ ازار بند بھی اتنا چھوٹا کہ اکڑوں بیٹھ کرتالاکھولنے سے پہلے خود اسے کھولنا پڑتا تھا ۔ گرمیوں میں ہلالی عینک کی چاندی کی کمانیاں جلنے لگتیں تو ان پر سائیکل کا والو ٹیوب چڑھا لیتے تھے۔ ھیٹر کے رسیا تھے ۔ چالیس برس پہلے انہوں نے موجودہ ہیروئن کی نانی کو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے اسٹیج پر پہلے پہل لکھنؤ میں دیکھا تو اپنی لکڑیوں کی ٹال (جس وہ ہمیشہ ہیزم سوختنی ہتے تھے) کو ٹھکانے لگا کے ، ایک مونڈھا منڈپ میں ڈال لیا جو مرورِ ایام اور اضمحلالِ قویٰ سے پسرتا پسرتا ریلوے ویٹنگ روم کی چھ فٹ لمبے ہتھے والی کرسی بنا اور جھلنگے کا روپ دھار چکا تھا۔ اگر نیچے نقشین مرزاد آبادی اگالدان نہ رکھا ہوتا تو ان کی کمر فرش(فرش سے یہاں بھی وہی مراد ہے)سے جا لگتی ۔ وہ مہ جبیں تو ایک مدت ہوئی اس بزم سے اٹھ گئی ، مگر یہ یہیں ے ہو رہے کہ آسودگی کی جان اسی انجمن میں تھی ۔ اس بی بی کے لب و رخسار اور آنکھوں کے گلابی ڈوروں کو یاد کر کے تو ہمیشہ آبدیدہ ہو ہی جاتے تھے لیکن آخر آکر میں اتنے رقیق القلب ہو گئے کہ اپنے مہوبے کے گلابی نسوں والے پان کی بھی یاد آجاتی تو تو گلا رندھ جاتا جسے کسی حسبِ حال شعر سے صاف کرتے ۔تھیٹریکل کمپنی نے انہیں روٹی کپڑے پر اداکاروں کا شین قاف درست کرنے کیلئے رکھ چھوڑا تھا ۔ اس کے علاوہ پہلی تاریخ کو سو ڈیڑھ سو روپے ماہوار گھاٹا ان کے نام کھاتے میں درج کر کے بھرپائی کے دستخط لے لئے جاتے تھے۔ یہ منشی دل کےمکالموں میں جہاں تہاں سوز وگداز کے پیوند لگاتے جو بس اوقات اصل سے بھی بڑے ہوتے تھے ۔ مصورِ درد کہلاتے تھے۔ ہمارے سر مین بھی ان کے مکالموں سے کئی دفعہ وہ ہوا جس کے یہ مصور کہلائے جاتے تھے ۔ کسی سین میں کوئی بول، بھاؤ یا اپنا ہی کوئی پیوندی فقرہ پسند آ جائے تو اچھل پڑتے گویا بجلی کا شاک لگا ہو۔ دو زانو ہو کر انہی اعضا کو زور زور سے پیٹتے ۔ کمالِ فن کے اعتراف میں اپنے دونوں کان پکڑتے اور زبان کو باہر نکال کر مصنوعی دانتوں تلے دبا لیتے ۔ گردن دائیں بائیں ہلا کر زبان نکالے نکالے گونگی داد دیتے ۔ آخر کے تئیں جب ناظرین کی نگاہین اسٹیج سے ہٹ کر ان پر مرکوز ہو جاتی ں تو کنکری پر ایک روپے کا نوٹ لپیٹ کر اسٹیج پر پھینک دیتے ۔ ان کی دیکھا دیکھی تماشائی بھی سونے کے دانت والی ہیروئن پر نوٹوں کی بوچھاڑ کر دیتے ۔ ایک دن کسی نے ہمیں بتایا کہ تھیٹر والے انہیں سوا پانچ روپے یومیہ دیتے ہیں جن میں ان کے پھینکے ہوئے پانچ روپے بھی شامل ہوتے ہیں ۔
اس تھیٹر میں کوئی کسی کا آقا یا ملازم نہیں تھا ۔ سب مل جل کر کام بگاڑتے اور ایک دوسرے کے سر درد اور مسائل میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔ مکالمے تو عموماً منشی دل کے ہوتے تھے ، لیکن ناظرین کی اکثریت اور ہال کے ماحول کے پیشِ نظر اداکار بھی ان میں فی البدیہہ تضمین اور اضافہ کرتے رہتے تھےمثلاً کسی دن ہال میں پٹھان ناظرین کی اکثریت ہو تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے منظر میں سر سے کفن باندھ کے گھمسان کا خٹک رقص ہوتا ورنہ ہم جیسوں کو تو کتھک ناچ پر ہی ٹرخا دیا جاتا تھا اور اگر کسی دن فرسٹ کلاس میں کائی بڑا کاٹھیاواڑی سیٹھ نظر آ جائے تو ماسٹر غفار یعنی فرہاد ، اپنا گنڈاسہ یعنی تیشہ کوہ ِ بے ستوں کے دامن میں پھینک دیتا اور گجراتی مناجات کے ذریعے غیبی طاقتوں سے فوری تعاون اور ہنگامی امداد طلب کرتا۔
سیٹ اور پردے بھی سب کی صلاح و مشورے سے بنائے جاتے تھےچنانچہ سینری کے ہر رنگ سے مشورہ ٹپکتا تھا ۔ ایک پردے پر گاؤں کا روح پرور منظر کچھ اس طرح دکھایا گیا تھا کہ ایک البیلی مٹیار آرزو اور تہذیب ، دونوں سے کمتر لاچا باندھے ، سر پر ایک چمپئی رنگ کا گول مٹکا رکھے ، بالکل اسی رنگ اور سائز کے دو کولہے مٹکاتی پنگھٹ جا رہی ہے ، جہاں حضرت امیر خسرو کے حلئے کے ایک بزرگ بغل میں ننگی تلوار دابے اوک سے پانی پی رہے ہیں ۔ سارا ڈول خالی ہو گیا مگر نظریں کہہ رہی ہیں کہ "گوری ! پردیسی کی پیاس نہیں بجھی اور!"دور پسِ منظر میں گاؤں کے جوہڑ میں ایک اسٹیمر کھڑا ہے جس کی چمنی کے دھوئیں سے آسمان پر "اللہ" رقم ہو گیا ہے ۔ سامنے گلابی گھاس پر ایک سبز رنگ کی گائے چر رہی ہے ۔ کونے میں گملا رکھا ہے جس میں گلاب کے پھول میں چنار کے پتے لگے ہیں ۔ دائیں جانب ایک کتا دم سے سولیہ نشان بنائے کھڑا ہے ۔ کھیل کے آخری سین سے پہل منیجرِ کمپنی ہذا اسٹیج کے کنارے پر کھڑے ہو کر اعلان کرتا کہ پبلک کے پرزور اصرار پر اور "کومپنی کی مشہوری کیلئے" کل بھی یہی کھیل نئی سین سینری کے ساتھ دکھایا جائے گا ۔سین سینری میں نیا پن اس طرح پیدا کیا جاتا تھا کہ انہی پردوں کی ترتیب الٹ دی جاتی تھی۔ مثلاً اسٹیج پر گھمسان کی لڑائی میں کسی کا دمِ واپسیں دکھایا جا رہا ہے تو پیچھے پنگھٹ والے پردے پر دو چمپئی مٹکے مٹک رہے ہیں ۔ سوالیہ دم پوچھ رہی ہے "کون سی چال ہے یہ آگ لگاتے نہ چلو" ایسے میں آنکھوں کا دم نکلے تو کیوں کر نکلے
 

نایاب

لائبریرین
زبردست غالب صغیر جی
کیا خوب حسب حال شراکت کی ہے
کمپنی کی مشہوری کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مہ جبین

محفلین
مشتاق احمد یوسفی صاحب کی مزاحیہ تحریروں میں بہت برجستگی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔

جملوں میں طنز و مزاح کا عنصر کبھی کبھی کچھ زیادہ ہو جاتا ہے جو بیزاری کی کیفیت طاری کردیتے ہیں ( کہیں کہیں )

مجموعی طور سے وہ ایک عمدہ مزاح نگار ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
کرنل محمد خان نے کہا تھا کہ ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
اور میں تو ویسے بھی سلسلہ یوسفیہ کا مرید ہوں۔
 

یوسف-2

محفلین
مشتاق احمد یوسفی صاحب کی مزاحیہ تحریروں میں بہت برجستگی ہے ۔۔۔ ۔۔ لیکن۔۔۔ ۔

جملوں میں طنز و مزاح کا عنصر کبھی کبھی کچھ زیادہ ہو جاتا ہے جو بیزاری کی کیفیت طاری کردیتے ہیں ( کہیں کہیں )

مجموعی طور سے وہ ایک عمدہ مزاح نگار ہیں
اگر ممکن ہو تو یوسفی صاحب کی ایسے دوچار جملے نقل کیجئے جن میں طنز و مزاح کا عنصر بھی زیادہ ہو اور وہ قاری میں بیزاری کی کیفیت بھی پیدا کردیتا ہو (یہ کوئی مشکل ٹاسک تو نہیں ہے نا :D )
 
Top