ذوق عشق
محفلین
شاعر : مرزا اسد اللہ خان غالب
بے دماغی حیلہ جوے ترک تنہائی نہیں
ورنہ کیا موج نفس زنجیر رسوائی نہیں
وحشی خو کردۂ نظارہ ہے حیرت جسے
حلقۂ زنجیر جز چشم تماشائی نہیں
قطرے کو جوش عرق کرتا ہے دریا دستگاہ
جز حیا پیکار سعی بے سروپائی نہیں
چشم نرگس میں نمک بھرتی ہے شبنم سے بہار
فرصت نشوونما ساز شکیبائی نہیں
کس کو دوں یارب حساب سوزناکی ہائے دل
آمد و رفت نفس جز شعلہ پیمائی نہیں
مت رکھ اے انجام غافل ساز ہستی پر غرور
چیونٹی کے پر سر و برگ خود آرائی نہیں
سایۂ افتادگی بالین و بستر ہوں اسدؔ
جوں صنوبر دل سراپا قامت آرائی نہیں
بے دماغی حیلہ جوے ترک تنہائی نہیں
ورنہ کیا موج نفس زنجیر رسوائی نہیں
وحشی خو کردۂ نظارہ ہے حیرت جسے
حلقۂ زنجیر جز چشم تماشائی نہیں
قطرے کو جوش عرق کرتا ہے دریا دستگاہ
جز حیا پیکار سعی بے سروپائی نہیں
چشم نرگس میں نمک بھرتی ہے شبنم سے بہار
فرصت نشوونما ساز شکیبائی نہیں
کس کو دوں یارب حساب سوزناکی ہائے دل
آمد و رفت نفس جز شعلہ پیمائی نہیں
مت رکھ اے انجام غافل ساز ہستی پر غرور
چیونٹی کے پر سر و برگ خود آرائی نہیں
سایۂ افتادگی بالین و بستر ہوں اسدؔ
جوں صنوبر دل سراپا قامت آرائی نہیں