ماہا عطا
محفلین
مایوسی ، اداسی ، بے رونقی ، لا تعلقی، اور دنیا سے بے نیازی، یہ تمام لفظ تعمیر کرتے ہیں ایک ادھورے انسان کو ، کہ جس کو دنیا والوں نے، اپنوں نے ، کسی کمی کی وجہ سے ٹھکرا دیا ہو . جس کی آہیں اور دعایئں نا مراد ہو چکی ہوں. ایک ایسا انسان جو اپنے نہ کردہ گناہ کی خاطر دنیا والوں کے آگے جواب دہ ہے. ایک ایسا انسان کہ جس کو اسکا خالق بھی نا جانے آزما رہا ہوتا ہے, یا نہ جانے کس طرح دنیا کی زندگی سے گزار رہا ہوتا ہے، اس کو خالق مخلوق کی سزا کہنا تو سراسر خالق حقیقی کی گستاخی کرنا ہے، مگر زندگی اسے کوئی ایسا درد دے کہ جس کی نہ کوئی دوا ہے، دعا بے مراد .اور اس ایک درد کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ اسکی جھولی میں مزید درد ڈال دیں، چبھتی نظروں کے، دل چیرتے الفاظ کے، احساس کمتری کے . ایسے حالات میں ایک ایسا ہی انسان تو وجود میں آتا ہے، مایوس ، اداس، بے رونق، لا تعلق ، اوردنیا سے بے نیاز. ے.
اٹھاے ہوئے بوجھ سا دل پے کوئی ، بھٹکتے رہے شہر کی بھیڑ میں ہم
یہاں کون اپنا تھا، اپنے علاوہ، ظفر کس سے اظہار حالات کرتے
نہ ملتا اگر میکدہ تو بتاؤ کہاں زندگی سے ملاقات کرتے
گلی کوئی اپنی، نہ شہر اپنا کوئی ، کہاں دن بتاتے کہاں رات کرتے