نایاب
لائبریرین
بے سکونی جب ہی جنم لیتی ہے جب انسان کا ضمیر اسے پچھتاوؤں میں الجھا دے ۔ نفسانی خواہشات تشنہ تکمیل رہ جائیں ۔ انسان کا ضمیر اسی وقت پچھتاؤؤں کا شکار ہوتا ہے جب اس کے اعمال اس کا خلوص اس کا رویہ اس کا اخلاق خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لے ۔ اور آج کے اس تیز رفتار وقت میں خواہش نفس کے اپنی تکمیل کے لیئے اوڑھےلبادے اور نقاب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے ۔ ہمارا کسی کے ساتھ مخلص ہونا ہماری اپنی حد تک ہمارے اپنے بس میں ہے ۔ اور ہماری یہ حد ہمارے ضمیر کی عدالت میں ہر لمحہ جرح کا سامنا کرتی ہے ۔ اگر ہمارا خلوص ہماری محبت ہمارے ضمیر کی جرح کا صدق دلی سے سامنا کرتے ہمارے ضمیر کو مطمئن کر دے ۔ تو ہمیں یہ پرواہ کبھی نہیں ہوتی کہ ہمارے خلوص ہماری محبت کو زمانہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ خلوص محبت لگاؤ کے رشتے انسانی ہیں اور یہ کسی طور بھی خونی رشتوں کے دائروں میں قید نہیں ۔اگر ہم آج کے دور میں کسی کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں تو اگلا بندہ پریشان کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا اب ہمیں محبت اور خلوص راس ہی نہیں آتے یا پھر ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں رہی؟ کیا کسی کے ساتھ مخلص ہونے یا اپنا لگاؤ ظاہر کرنے کے لیے خونی رشتہ ہونا ضروری ہے؟
بلا شک " اعتبار و اعتماد" کسی بھی دھوکہ کی پہلی سیڑھی کہلاتی ہے ۔ اور اس اعتبار و اعتماد کو خلوص و محبت و لگاؤ کے سہاروں سے مضبوط کیا جاتا ہے ۔ کوئی بھی تو نہیں اس زمانے میں جسے " خلوص محبت و لگاؤ " کے جذبوں کی احتیاج نہ ہو ۔ اور ان جذبوں کے بنا اس کا گزارہ ممکن ہو ۔
کسی حد تک یہ جذبے " فطرت " سے منسلک ہوتے ہیں ۔ اور سب کی ہی فطرت ڈسنے کی نہیں ہوتی ۔