دوران جنگ قتال میں حصہ نہ لینے والے کافروں اور مشرکوں کو قتل کرنا منع ہے۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال:وجدت امرأة مقتولة في بعض مغازي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل النساء والصبيان. (رواہ البخاری)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کسی جنگ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت قتل کی گئی دیکھی توعورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔
اسلام قبول کرنے کے لیے کفار یا مشرکین پر جبر کرنے کی اجازت نہیں۔
لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿256﴾
ترجمہ: دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے پھر جو شخص شیطان کو نہ مانے اور الله پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیاجو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 256
دوران جنگ اگر کوئی کافر یا مشرک اسلامی تعلیمات سمجھنا چاہے تو اسے پناہ دے کر دین کی تعلیمات سمجھانی چاہئیں اگر وہ ایمان نہ لائے تو اسے بحفاظت اس کے ٹھکانے کاحکم ہے۔
وَإِنْ أَحَدٌۭ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ٱسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُۥ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌۭ لَّا يَعْلَمُونَ ﴿6﴾
ترجمہ: اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ الله کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ بے سمجھ ہیں (سورۃ التوبہ،آیت 6)
دینی مفاد کے پیش نظر کافر یا مشرک کی عیادت کرنا جائز ہے۔
عن أنس رضي الله عنه: أن غلاماً ليهود، كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فمرض فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقال: (أسْلِمْ). فأسْلَمَ (رواہ البخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہو گیا تو نبی اکرم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے )عیادت کے بعد) اسے فرمایا "مسلمان ہو جا" اور وہ مسلمان ہو گیا۔
کافروں اور مشرکوں کی زندگی میں ان کے لیے ہدایت کی دعا کرنی جائز ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه: قدم الطفيل بن عمرو على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إن دوساً قد عصت وأبت فادع الله عليها، فظن الناس أنه يدعو عليهم، فقال: (اللهم اهد دوساً وأت بهم). (رواہ البخاری)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ (دوسی) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی "یا رسول اللہ ﷺ ! قبیلہ دوس نے (اللہ اور اس کے رسول ﷺ)کی نافرمانی کی اور (ایمان لانے سے)انکار کیا ان کے لیے بددعاء فرمائیں ۔" لوگ سمجھے کہ آپ ﷺ ان کے لیے واقعی بددعا فرمائیں گے لیکن آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "یا اللہ ! قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انہیں میرے پاس لے آ۔
وضاحت: آپ ﷺ کی دعا کے بعد قبیلہ دوس ایمان لے آیا اور رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضری دی۔
(دوستی اور دشمنی کتاب و سنت کی روشنی میں،از محمد اقبال کیلانی)