فاتح
لائبریرین
کچھ تین سو برس قبل دلیل و منطق کے دور نے یورپ کو تاریکی سے نکالا، اور جدید سائنس کو جدید سائنسی رویوں کے ساتھ باہم متعارف کرایا۔ یہ رویے فوراً ہی پوری دنیا میں پھیل گئے۔ مگر اب بے عقلی کا دور اپنے عروج پر ہے۔ شواہد پر انحصار، تحمل کے ساتھ جانچ و تحقیق، اور محتاط منطق اب بنجر دعوﺅں، اندھے عقائد اور مبالغہ آرائی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔
ہندوستان کے سپراسٹار وزیراعظم کی بات سنیں، جنہوں نے حال ہی میں نیویارک شہر میں اپنے بیس ہزار ہم وطنوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ ہندوستان کا مستقبل سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بدل دیں گے۔ چند ہفتوں قبل انہیں نے ممبئی میں ریلائنس فاؤنڈیشن ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ قدیم ہندوستان کے باسی ہزاروں سال قبل ہی کاسمیٹک سرجری اور تولیدی جینیات کے بارے میں جانتے تھے۔ اور یہ ان کا اپنے دعوے کے حق میں پیش کردہ ثبوت ہے۔
"ہم سب نے مہابھارت میں کَرنا کو پڑھا ہے، اگر ہم اس پر کچھ غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مہابھارت کے مطابق کرنا ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جینیاتی سائنس اس دور میں بھی ہندوستان میں موجود تھی، اور اسی وجہ سے کرنا کی ماں کے پیٹ سے باہر پیدائش ممکن ہوئی"۔ نریندرا مودی نے ہاتھی کے سر والے ہندو اوتار گنیش کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ "اس دور میں یقیناً کوئی پلاسٹک سرجن موجود تھا جس نے ایک ہاتھی کے سر کو ایک انسان کے جسم پر جڑ دیا، اور اس سے ہی پلاسٹک سرجری کا آغاز ہوا"۔
وہ اپنے ان الفاظ پر یقین کرتے ہیں یا نہیں، مگر مودی یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کام کریں گے۔ 1995 میں ہندوستان اس وقت جنون کا شکار ہوگیا تھا جب کسی نے یہ معلوم کیا کہ اگر گنیش کی سونڈ کے سامنے چمچ رکھا جائے، تو وہ دودھ پی سکتا ہے۔ جب تک اس کی سائنسی وجہ capillary action (جس کے تحت لیکویڈ چیزیں کششِ ثقل کو مات دے کر اوپر اٹھ سکتی ہیں) معلوم کی گئی، مندروں کی جانب جانے والے ہجوم کی وجہ سے نئی دہلی میں جگہ جگہ شدید ٹریفک جام ہوگیا تھا، جبکہ اس کے نتیجے میں دودھ کی فروخت میں تیس فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔
اب اپنے گھر کی بات کی جائے: پاکستانیوں کی بڑی تعداد، جن میں یونیورسٹیوں کے سائنس کے طالبعلم بھی شامل ہیں، کا ماننا ہے کہ کوانٹم مکینکس سے لے کر بلیک ہولز اور جینیات تک سب کچھ چودہ سو سال پہلے سمجھ لیا گیا تھا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بائیولوجی کے طالبعلم اور اساتذہ تک مسترد کردیتے ہیں۔ بلکہ یہ عام عقیدہ ہے کہ تمام جدید سائنس عربی پر مہارت حاصل کرنے اور قرآن مجید کے مفہوم کو ماہرانہ انداز میں بیان کرنے سے سیکھی جاسکتی ہیں۔ چالیس سال قبل جب میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی، تو انہی دنوں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک پرہیزگار شخص تھے، نے اس رفتار کا حساب لگایا تھا، جس رفتار سے جنت زمین سے دور جارہی ہے۔ انہوں نے یہ پایا کہ یہ رفتار روشنی کی رفتار سے ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ کم ہے۔ آج ٹی وی چینلز اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز نظریات پیش کررہے ہیں۔
ایک بار جب شواہد کی اہمیت نہ رہے، تو ہر چیز ممکن ہوجاتی ہے۔ پہلے سے قائم شدہ نظریات سے رہنمائی، بے ڈھنگے نتائج، اور کامن سینس پر حملے عام ہوگئے ہیں۔ اس سے سائنس کی پیشرفت تو متاثر ہورہی ہے مگر معاشرہ اور افراد اس کا اصل نقصان اٹھاتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ سوال کہ رام جنم بھومی کیا واقعی وشنو کے ساتویں اوتار رام کا حقیقی مقام پیدائش ہے؟ کیا یہ واقعی وہ جگہ ہے جہاں بادشاہ بابر نے اب منہدم بابری مسجد تعمیر کی تھی؟ اس حوالے سے کوئی بھی قائل کردینے والے آرکیالوجیکل شواہد موجود نہیں۔ درحقیقت یہ ناممکن ہے کہ رام کی زمین پر موجودگی کو ہی ثابت کیا جاسکے، چہ جائیکہ ان کا مقامِ پیدائش۔ مگر 6 دسمبر 1992 کا المناک سانحہ اسی عقیدے کا نتیجہ ہے۔ اور اس زخم کا بھرنا ابھی باقی ہے۔
دانستہ طور پر ڈالے گئے نفسیاتی زخم زیادہ تقریباً ناقابل علاج ہوسکتے ہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کے دہشت ناک تجربات اس لیے بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ بغیر سوچے سمجھے قبول کرلینے والے ذہن تیار کیے جاسکیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں 'موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا'، شامل تھی، جس میں مصنف کے زرخیر تخلیل نے خوفناک واقعات شامل کیے تھے۔ ماضی میں تخلیقی فکشن کا حصہ سمجھے جانے والے اس طرح کے موت کی بعد کی زندگی کے کام اب پاکستان کی مرکزی تعلیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور مبلغین کی پشت پناہی کے ذریعے ملک بھر کے کیمپسز میں نوجوانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
ستائیس اکتوبر کو انسٹیٹوٹ آف بزنس منیجمنٹ کراچی نے ایک بڑے ایونٹ ‘The last moments — an exclusive insight on the death of a man’ کا انعقاد کیا۔ اس ایونٹ کا بلیک اینڈ وائٹ پوسٹر ساٹھ کی دہائی کی ہالی وڈ کی کسی ڈراؤنی فلم سے متاثر تھا۔ آئی او بی ایم کی انتظامیہ نے باضابطہ طور پر ای میلز ارسال کر کے طالبعلموں کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ ایک سعودی سرٹیفائڈ پروفیسر نے سوالات جیسے "کیا زندگی ایک کھیل ہے؟ کیا آپ موت کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ موت کے لمحے میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ کیا اللہ آپ کی زندگی سے مطمئن ہے؟" کے جوابات دیے۔
اس طرح کے گہرے سوالات کو یقیناً اللہ پر چھوڑ دینا زیادہ بہتر ہے۔ ایک زندہ، سانس لیتا، چلتا پھرتا اور بولنے والا پروفیسر کسی بھی طرح کسی کی موت کے لمحات کے فزیکل شواہد پیش نہیں کرسکتا اور نا ہی وہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اللہ کسی فرد کی زندگی سے خوش ہے یا ناراض۔ وہ تو بس اپنی رائے ہی دے سکتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم اس پروفیسر نے ایونٹ کے شرکاء پر کیا اثرات مرتب کیے مگر اسلام آباد سے میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والا اس کا طالبعلم مجیب (حقیقی نام نہیں) کسی تبلیغی ویب سائٹ سے موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے فلم دیکھنے کے بعد کافی عجیب رویے کا مظاہرہ کررہا ہے۔ مجیب اب مسلسل خیالات میں گم رہتا ہے، اور وہ زندگی سے زیادہ موت کے خیال سے خوفزدہ رہتا ہے جبکہ اس نے اپنا کام بھی لگ بھگ روک دیا ہے۔
یہ صرف جنوبی ایشیا نہیں جہاں اس طرح کے بے دلیل و منطق رویے نمایاں ہورہے ہیں۔ امریکا جو سائنس کا مرکز ہے، وہ بھی اس طرح کی جعلی سائنسی اور سائنس مخالف تحریکوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہے، تاہم وہاں اس سب کے پرعزم مخالفین نے علم نجوم، اڑن طشتریوں، اور مقناطیسی تھراپی وغیرہ کو عام ہونے سے روکے رکھا ہے۔
ہندوستان میں وشوا ہندو پریشد اور بی جے پی کے نظریات کے خلاف جنگ مشکل ہوگی، مگر ہندوستان کا ماضی نہرو جیسے کرداروں پر مشتمل ہے، اور وہاں کے باشعور لوگوں نے ویدوں میں پائی جانے والی ریاضیات، علم کائنات، اور اسکولوں کے نصاب میں تبدیلی کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس کی ادا کی جانے والی قیمت کوئی چھوٹی نہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر نریندرا اچیوٹ ڈبھولکر کو ایک سال قبل پونے میں قتل کردیا گیا۔ انہوں نے انسدادِ جادو ٹونہ بل کی تیاری میں مدد کی تھی، جس کی بی جے پی اور شیو سینا جیسی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اس سے ہندو ثقافت اور رسوم و رواج پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔
مگر دنیا کے کسی بھی حصے میں اس طرح کے نامعقول رویوں کی شرح میں اتنی رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا جتنا پاکستان اور افغانستان میں ہورہا ہے۔ پولیو ورکرز کی زندگیاں میدان جنگ میں موجود فوجیوں سے چھوٹی ہوگئی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان ذہنوں کو بنانے کے بجائے تباہ کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے کام ہورہا ہے۔ اس رویے کے خلاف جنگ یقیناً بہت سخت ثابت ہوگی۔
حوالہ: http://www.dawnnews.tv/news/1012058
ہندوستان کے سپراسٹار وزیراعظم کی بات سنیں، جنہوں نے حال ہی میں نیویارک شہر میں اپنے بیس ہزار ہم وطنوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ ہندوستان کا مستقبل سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بدل دیں گے۔ چند ہفتوں قبل انہیں نے ممبئی میں ریلائنس فاؤنڈیشن ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ قدیم ہندوستان کے باسی ہزاروں سال قبل ہی کاسمیٹک سرجری اور تولیدی جینیات کے بارے میں جانتے تھے۔ اور یہ ان کا اپنے دعوے کے حق میں پیش کردہ ثبوت ہے۔
"ہم سب نے مہابھارت میں کَرنا کو پڑھا ہے، اگر ہم اس پر کچھ غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مہابھارت کے مطابق کرنا ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جینیاتی سائنس اس دور میں بھی ہندوستان میں موجود تھی، اور اسی وجہ سے کرنا کی ماں کے پیٹ سے باہر پیدائش ممکن ہوئی"۔ نریندرا مودی نے ہاتھی کے سر والے ہندو اوتار گنیش کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ "اس دور میں یقیناً کوئی پلاسٹک سرجن موجود تھا جس نے ایک ہاتھی کے سر کو ایک انسان کے جسم پر جڑ دیا، اور اس سے ہی پلاسٹک سرجری کا آغاز ہوا"۔
وہ اپنے ان الفاظ پر یقین کرتے ہیں یا نہیں، مگر مودی یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کام کریں گے۔ 1995 میں ہندوستان اس وقت جنون کا شکار ہوگیا تھا جب کسی نے یہ معلوم کیا کہ اگر گنیش کی سونڈ کے سامنے چمچ رکھا جائے، تو وہ دودھ پی سکتا ہے۔ جب تک اس کی سائنسی وجہ capillary action (جس کے تحت لیکویڈ چیزیں کششِ ثقل کو مات دے کر اوپر اٹھ سکتی ہیں) معلوم کی گئی، مندروں کی جانب جانے والے ہجوم کی وجہ سے نئی دہلی میں جگہ جگہ شدید ٹریفک جام ہوگیا تھا، جبکہ اس کے نتیجے میں دودھ کی فروخت میں تیس فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔
اب اپنے گھر کی بات کی جائے: پاکستانیوں کی بڑی تعداد، جن میں یونیورسٹیوں کے سائنس کے طالبعلم بھی شامل ہیں، کا ماننا ہے کہ کوانٹم مکینکس سے لے کر بلیک ہولز اور جینیات تک سب کچھ چودہ سو سال پہلے سمجھ لیا گیا تھا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بائیولوجی کے طالبعلم اور اساتذہ تک مسترد کردیتے ہیں۔ بلکہ یہ عام عقیدہ ہے کہ تمام جدید سائنس عربی پر مہارت حاصل کرنے اور قرآن مجید کے مفہوم کو ماہرانہ انداز میں بیان کرنے سے سیکھی جاسکتی ہیں۔ چالیس سال قبل جب میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی، تو انہی دنوں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک پرہیزگار شخص تھے، نے اس رفتار کا حساب لگایا تھا، جس رفتار سے جنت زمین سے دور جارہی ہے۔ انہوں نے یہ پایا کہ یہ رفتار روشنی کی رفتار سے ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ کم ہے۔ آج ٹی وی چینلز اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز نظریات پیش کررہے ہیں۔
ایک بار جب شواہد کی اہمیت نہ رہے، تو ہر چیز ممکن ہوجاتی ہے۔ پہلے سے قائم شدہ نظریات سے رہنمائی، بے ڈھنگے نتائج، اور کامن سینس پر حملے عام ہوگئے ہیں۔ اس سے سائنس کی پیشرفت تو متاثر ہورہی ہے مگر معاشرہ اور افراد اس کا اصل نقصان اٹھاتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ سوال کہ رام جنم بھومی کیا واقعی وشنو کے ساتویں اوتار رام کا حقیقی مقام پیدائش ہے؟ کیا یہ واقعی وہ جگہ ہے جہاں بادشاہ بابر نے اب منہدم بابری مسجد تعمیر کی تھی؟ اس حوالے سے کوئی بھی قائل کردینے والے آرکیالوجیکل شواہد موجود نہیں۔ درحقیقت یہ ناممکن ہے کہ رام کی زمین پر موجودگی کو ہی ثابت کیا جاسکے، چہ جائیکہ ان کا مقامِ پیدائش۔ مگر 6 دسمبر 1992 کا المناک سانحہ اسی عقیدے کا نتیجہ ہے۔ اور اس زخم کا بھرنا ابھی باقی ہے۔
دانستہ طور پر ڈالے گئے نفسیاتی زخم زیادہ تقریباً ناقابل علاج ہوسکتے ہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کے دہشت ناک تجربات اس لیے بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ بغیر سوچے سمجھے قبول کرلینے والے ذہن تیار کیے جاسکیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں 'موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا'، شامل تھی، جس میں مصنف کے زرخیر تخلیل نے خوفناک واقعات شامل کیے تھے۔ ماضی میں تخلیقی فکشن کا حصہ سمجھے جانے والے اس طرح کے موت کی بعد کی زندگی کے کام اب پاکستان کی مرکزی تعلیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور مبلغین کی پشت پناہی کے ذریعے ملک بھر کے کیمپسز میں نوجوانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
ستائیس اکتوبر کو انسٹیٹوٹ آف بزنس منیجمنٹ کراچی نے ایک بڑے ایونٹ ‘The last moments — an exclusive insight on the death of a man’ کا انعقاد کیا۔ اس ایونٹ کا بلیک اینڈ وائٹ پوسٹر ساٹھ کی دہائی کی ہالی وڈ کی کسی ڈراؤنی فلم سے متاثر تھا۔ آئی او بی ایم کی انتظامیہ نے باضابطہ طور پر ای میلز ارسال کر کے طالبعلموں کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ ایک سعودی سرٹیفائڈ پروفیسر نے سوالات جیسے "کیا زندگی ایک کھیل ہے؟ کیا آپ موت کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ موت کے لمحے میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ کیا اللہ آپ کی زندگی سے مطمئن ہے؟" کے جوابات دیے۔
اس طرح کے گہرے سوالات کو یقیناً اللہ پر چھوڑ دینا زیادہ بہتر ہے۔ ایک زندہ، سانس لیتا، چلتا پھرتا اور بولنے والا پروفیسر کسی بھی طرح کسی کی موت کے لمحات کے فزیکل شواہد پیش نہیں کرسکتا اور نا ہی وہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اللہ کسی فرد کی زندگی سے خوش ہے یا ناراض۔ وہ تو بس اپنی رائے ہی دے سکتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم اس پروفیسر نے ایونٹ کے شرکاء پر کیا اثرات مرتب کیے مگر اسلام آباد سے میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والا اس کا طالبعلم مجیب (حقیقی نام نہیں) کسی تبلیغی ویب سائٹ سے موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے فلم دیکھنے کے بعد کافی عجیب رویے کا مظاہرہ کررہا ہے۔ مجیب اب مسلسل خیالات میں گم رہتا ہے، اور وہ زندگی سے زیادہ موت کے خیال سے خوفزدہ رہتا ہے جبکہ اس نے اپنا کام بھی لگ بھگ روک دیا ہے۔
یہ صرف جنوبی ایشیا نہیں جہاں اس طرح کے بے دلیل و منطق رویے نمایاں ہورہے ہیں۔ امریکا جو سائنس کا مرکز ہے، وہ بھی اس طرح کی جعلی سائنسی اور سائنس مخالف تحریکوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہے، تاہم وہاں اس سب کے پرعزم مخالفین نے علم نجوم، اڑن طشتریوں، اور مقناطیسی تھراپی وغیرہ کو عام ہونے سے روکے رکھا ہے۔
ہندوستان میں وشوا ہندو پریشد اور بی جے پی کے نظریات کے خلاف جنگ مشکل ہوگی، مگر ہندوستان کا ماضی نہرو جیسے کرداروں پر مشتمل ہے، اور وہاں کے باشعور لوگوں نے ویدوں میں پائی جانے والی ریاضیات، علم کائنات، اور اسکولوں کے نصاب میں تبدیلی کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس کی ادا کی جانے والی قیمت کوئی چھوٹی نہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر نریندرا اچیوٹ ڈبھولکر کو ایک سال قبل پونے میں قتل کردیا گیا۔ انہوں نے انسدادِ جادو ٹونہ بل کی تیاری میں مدد کی تھی، جس کی بی جے پی اور شیو سینا جیسی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اس سے ہندو ثقافت اور رسوم و رواج پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔
مگر دنیا کے کسی بھی حصے میں اس طرح کے نامعقول رویوں کی شرح میں اتنی رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا جتنا پاکستان اور افغانستان میں ہورہا ہے۔ پولیو ورکرز کی زندگیاں میدان جنگ میں موجود فوجیوں سے چھوٹی ہوگئی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان ذہنوں کو بنانے کے بجائے تباہ کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے کام ہورہا ہے۔ اس رویے کے خلاف جنگ یقیناً بہت سخت ثابت ہوگی۔
حوالہ: http://www.dawnnews.tv/news/1012058