کوئی بھی روڈ میپ اختیار کریں منزل استعفی ہی ہے
یہ تو آج آپ نے اصل بات کہ دی
انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کا اصل مقصد نواز کا استعفی ہی تھا۔
نا ان کا مقصد انقلاب تھا اور نا ان کا مقصد انتخابی دھاندلی کی تحقیقات تھا۔
انقلاب کے نعرے اور دھاندلی تحقیقات کے مطالبے دراصل محض بہانہ تھے۔
اگر واقعی آئین کی ان شقوں پر عمل درآمد کرانا ہوتا جن پر حکومتی ادارے عمل نہیں کر رہے تو سارا زور اس بات پر ہوتا اور اس کے نتیجے میں شاید حکومت دباؤ میں آکر عمل بھی شروع کر دیتی اور عوام کا بھی کچھ بھلا ہوجاتا
لیکن سارا زور نواز کے استعفی پر ڈال کر اپوزیشن کو بھی مارشل لاء کا خوف دلا کر حکومت کے ساتھ کھڑا کر دیا اور نتیجتاً نا ان کو استعفی ملا اور نا عوام کو کچھ فائدہ۔
دوسری طرف اگر کپتان سارا زور انتخابی اصلاحات کی طرف رکھتا تو شاید اب تک انتخابی اصلاحات بھی ہوجاتیں مگر یہ اصل مقاصد ہی نا تھے۔
اصل مقصد نواز سے استعفی لینا تھا۔ جو ان کو مل نا سکا۔
اب بھی اگر 30 نومبر کے جلسے میں انہوں نے ہنگامہ آرائی اور سرکاری عمارتوں پر حملے کی پالیسی اپنائی اور سیکیورٹی اداروں کو جلسے کے شرکاء سے الجھنے پر مجبور کیا جس سے خون خرابہ ہوا تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا جس کا امکان بہت کم ہے کہ مارشل لاء آجائے ۔ مگر اس کے بعد کسی کو بھی کچھ نہیں ملے گا نا عمران وزیر اعظم بن سکے گا اور نا طاہر القادری قائد انقلاب۔
طاہرالقادری تو پھر کینیڈا سدھار جائیں گے اور عمران صاحب اگلا الیکشن جتنے کے امکان سے محرورم ہو جائیں گے۔ کیونکہ الیکشن جیتنے کے لئے الیکشن کا ہونا ضروری ہے۔