ابن سعید
خادم
بھئی یہ کلاسیکل اردو میں داستان گوئی کی کتابیں ہیں۔ اردو ویب کی لائبریری میں انہیں یہاں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ابھی طلسم ہوشربا تیاری کے مراحل میں ہے۔ ویسے اتنے پر دار سوال و جواب کی یہاں اجازت نہیں۔
بعد جاگنے کے از عرصہ طویل بیہوشی و غفلت کے۔ دیکھا تو رنگ سماں بدلا تھا۔ کہ ہر شے تھی چادر اجنبیت کا اوڑھے سوائے کچھ زنانہ خاکوں کے کہ جن کا لباس بے تار تھا اور شفاف منظر آر پار تھا۔ کہ آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ زبان اجنبی سبھی کے منھ میں تھی کہ لفظ مفہوم سے عاری تھے جو کہ لگاتار جاری تھے۔ ما سوا اشاروں کے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ تاریخ پوچھا تو سن عیسوی میں تین سیکڑے زیادہ تھے۔ عرصہ چند اجنبیت کے دور ہونے، فکر و فن سے آشنائی اور زبان سمونے میں لگے۔ دوست یار بنے تو داستان آگے بڑھی۔
القصہ بعد بہزار اصرار یاراں راضی بر شمولیت تقریب ہوئے کہ جشن سال نو تھا۔ بھیڑ مرد و زن کی جمع ایک نیچی چھت کے کمرے میں ہوئی لباس زریں زیب تن کئے ہوئے۔ ہر چہار جانب مخملیں قالین بچھے تھے اور مسندیں لگی تھیں کہ مکھن تازہ کی ملائمیت بھی ان پر شرمسار تھی۔ سالخوردہ مصوری کے نمونے زینت دیوار تھے۔ مومی شمعیں کمرے کے گوشوں میں جا بجا روشن تھیں کہ ملگجا سا اندھرا زخمی زخمی سا دکھتا تھا۔ موسیقی کی لہریں مدھم سروں میں محو رقص تھیں۔ مشروبات و نمکیات سے ضیافت جاری تھی بدست غلمان کے۔ پوچھا کہ یہ گوشہ بشاہانہ ناز ونعم ہے کیا؟ جواب اس اجنبی زبان میں کوئی پب یا بار تھا۔
القصہ ابھی حیران حیران سے کسی گوشے کی تلاش میں تھے کہ اچانک موسیقی اونچی ہونے لگی کہ بڑھ کر نا قبل برداشت ہو گئی۔ حاضر تمام پاؤں موسیقی کے ساتھ از خود ہم آہنگ ہو گئے۔ مسندوں پر ڈھر مرد و زن شکار بے خودی کے ہوئے کہ ان کے بدن تیرتے ہوئے یکجا خالی جگہ میں ہوئے۔ اور محو رقص بے ہنگم ہوئے۔
از بس کہ مصروف مشاہدہ تھا۔ ایک گوشے میں بیٹھا سب سے علیحدہ تھا۔
بوتل سبز رنگ و جام زرد رنگ کہ ان کا عرق آنکھوں میں رنگ سرخی بھرتا تھا کہ یہ رنگ باعث دلپسندی یار تھا۔ انسان کہ زیب تن لباس بے شکن لحظے بھر میں وحشی ہوتا تھا۔ حلق سوکھے تو شفاف پانی بھی مشکوک و مشتبہ ہو۔ دعوت و ترغیب کہ عالم یہ کہ گرنا تھک کر اور پھر سے کھینچا جانا کہ شریک ہنگامہ ہو۔ فرق شاہ و غلام، ادنیٰ و اولیٰ غرض مرد و زن تک سے مٹ چکا تھا۔ کہ خمار مشروبات و جنس مخالف دو چند تھا۔ بے ہنگم اچھل کود کہ ہم آہنگی جن کی مخزن تھی ہنگامے کی۔ اللہ، خدا، رام، رحیم، بھگوان، کرشنا، گاڈ کہ یہ الفاظ عاری از مفہوم تھے بجز لے، سر اور تال کی خانہ پری کے۔ آنا کئی زاویوں سے روشنی اور اندھیرے کے سایوں کا مسکراتے چہروں کو خبیث کر دیتا تھا۔ چیخ کہ دیواروں سے نکلتی تھی اور سکون ہوا کی پرتوں کا ہوتا تھا غارت کہ اس کی کراہ اس اجنبی زبان میں نام پاتی تھی میوزک کا۔
وقت نکلنے کے اس مقام نیم تاریک سے ایک کوندا بجلی کا وارد خیال ہوا کہ جس کی زبان بھی اجنبی تھی "آئی ایم ٹو اولڈ ٹو ڈانس"۔۔۔۔