عبد الرحمن
لائبریرین
میٹرو شاپنگ مال کے باہر کھڑے اب پورے 15 منٹ ہو چکے تھے۔ لیکن بے زاری و بے قراری کا دور دور تک کوئی دخل نہیں تھا۔ اس اعلیٰ ظرفی کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ انتظار کی عادت کبھی کچھ خاص بری نہیں لگی۔ دوسرا یہ کہ انتظار کو میں کیتھارسس کا ایک بہترین ذریعہ سمجھتا ہوں۔ اس دوران اپنی بہت سی خامیوں کا ادراک ہوتا ہے، عجائباتِ کائنات پر تفکر کا موقع ملتا ہے اور غلطی سے اپنی کوئی خوبی ذہن کے پردے پر جلوہ افروز ہو جائے تو اسے مزید نکھارنے کا امکان روشن ہو جاتا ہے۔ تیسری مہمان خصوصی وجہ یہ تھی کہ آج موسم انتہائی مرغوب الطبع تھا۔ یوں لگ رہا تھا بارش بادلوں کا سینہ چیر کر ابھی پھوٹ پڑے گی۔ ایسی نشاط انگیز رت میں، میں مزید پندرہ منٹ بلا تامل کھڑا رہنے کے لیے تیار تھا۔
البتہ مجھے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ رمشا نے مجھے پورے تین بجے پہنچ جانے کی تاکید کی تھی اور اپنی عادت کے بر خلاف آج میں تین بج کر پانچ منٹ پر پہنچا تھا۔ خلافِ عادت کہنے سے مراد یہ نہیں کہ میں مطلوبہ مقام پر مقررہ وقت سے دس منٹ قبل پہنچنے کا عادی ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ طے شدہ وقت گزرنے کے آدھے گھنٹے بعد بھی میرا نزول ہو جائے تو سامنے والا دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان والے کا شکر ادا کرتا ہے۔
خیر میں نے بھی آج "برقت" پہنچ جانے پر اللہ میاں کا شکریہ ادا کیا اور رمشا کو کال پر اپنی آمد کی اطلاع دی۔ ساتھ تسلی بھی کہ آرام سے آئیے گا۔ مبادا ہڑا ہڑی میں کوئی ضروری چیز بھول بھال نہ جائیں۔
رمشا کے دو احکامات تھے۔ ایک تو یہ کہ میں پورے تین بجے پہنچوں۔ دوسرا یہ کہ پہنچتے ہی کال کروں تاکہ وہ پانچ منٹ کے اندر اندر وہاں آ جائے۔ میٹرو اس کے گھر سے پانچ منٹ کی مسافت پر تھا۔ لیکن جب پندرہ منٹ سے اوپر گزر گئے، جب اکیسواں منٹ شروع ہو گیا، اور جب سوچنے کے لیے کچھ باقی نہ رہا، تب میں ہماری گزشتہ رات کی چیٹ میں رمشا کی بے قراری کو یاد کرنے لگا۔
"آخر آپ کب ملیں گے؟ ایک مہینے سے ٹال مٹول کر رہے ہیں۔"
"میں دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہوں۔ آپ کو کیسے سمجھاؤں میں کس تکلیف سے گزر رہی ہوں۔"
"کل بہر صورت ملوں گا۔ اپنی تمام تر وعدہ خلافیوں پر میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے۔"
"یہ کل، کل ہی آئے گی یا کل ہوتے ہی کسی اور کل پر چلی جائے گی؟"
"کل کل ہی آئے گی اور کل آپ مجھے ضرور دیکھیں گی۔"
"دیکھتے ہیں۔"
ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ مناسب فاصلے پر ایک رکشہ رکا اور رمشا اس میں سے اترتی نظر آئی۔ گھڑی پر غیر محسوس انداز میں نظر دوڑائی تو چوبیس منٹ سے زائد ہو چلے تھے۔ میں احتراماً رمشا کے قریب چلا گیا۔ روڈ پر ہی بڑی گرم جوشی سے دعا سلام کے بعد وہ مجھے میٹرو کے اندر لے چلی۔ اور جب تک ہم مال کی بالائی منزل پر واقع ریسٹورنٹ کی ایک ٹیبل کرسی پر بیٹھ نہیں گئے، بے چین ہی رہے۔
رمشا میری کلاس فیلو، ایک مدت سے کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھی۔ چوں کہ مجھ سے اپنے دل کی ہر بات بے جھجھک کرتی تھی، مجھے اپنا مینٹور مانتی تھی، اس لیے ملنے پر مصر تھی۔
رمشا نے کرسی پر براجمان ہوتے ہی دنیا جہاں کا پٹارا کھول دیا۔ یونی ورسٹی کی دھوپ چھاؤں سے بھرپور یادیں، ساتھی طلبہ کے لیے میری خدمات، صنف نرم و نازک کی بیٹھکوں میں میرے چرچے، سینیئرز کا مجھ سے حسد، میری خوش گفتاری، خوب صورتی، خوب سیرتی، میرا کمزور سراپا، میری آدم بے زاری، کینٹین سے میری قطع تعلقی، میری سینس لیس ڈریسنگ، اساتذہ کا مجھ سے پیار، میرے چلنے کی رفتار، غرض پندرہ بیس منٹ میں بہت ساری باتیں جو میں اپنے بارے میں جانتا تھا اور جو نہیں جانتا تھا اس نے کہہ سنائیں۔
کہیں کہیں میں نے بھی احتراماً لقمہ دیا تھا، لیکن زیادہ تر میرا رویہ خاموشی کا تھا۔
آہستہ آہستہ ہم مدعے پر آ گئے۔ بلکہ سچ پوچھیے تو آئے نہیں تھے، کھینچ تان کر لانا پڑا تھا۔
"رمشا تیز رفتاری سے چلنے پر یاد آیا، آپ بتا رہی تھیں، آپ کو چلتے چلتے کچھ محسوس ہوتا ہے۔ اُس وقت سمجھ نہیں سکا تھا۔ اب بتائیے اطمینان سے۔
مونی (مونی نک نیم بہت کم لوگ جانتے تھے) آپ کو یاد ہوگا جب ہم پہلی بار کریٹیکل تھیوریز کی کلاس میں ملے تھے وہی وقت تھا جب میں نے اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کی تھیں۔ ایسا لگتا تھا ہر وقت کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب میں گھر میں صرف کچن تک جاتی ہوں تو مجھے اپنا تعاقب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
میں ہمہ تن گوش تھا جب رمشا نے زور سے "مونی کتا" کہا۔ میں یک دم ہڑبڑا گیا اور سوچنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے بنا بات کے رمشا کیوں مجھے گالی دے رہی ہے؟ اگلے لمحے جب محسوس ہوا کہ اس دشنام طرازی کا مخاطَب میں نہیں ہوں تو پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کہیں مال میں کوئی کتا تو نہیں گھس آیا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس سارے رد عمل سے بے نیاز رمشا گویا ہوئی۔
"لائبریری کے باہر آمنہ کے پیچھے کتنا بڑا کتا پڑ گیا تھا؟ ہنس ہنس کر ہم حال بے حال ہو گئے تھے۔ وہ دن ہے آج کا دن ہے آمنہ کتا دور سے بھی دیکھ لے تو حالت غیر ہو جاتی ہے۔"
رمشا مسلسل کھلکھلا رہی تھی۔
"ارے۔۔۔۔ آمنہ آپ کا پوچھ رہی تھی مونی۔ آپ کی بات نہیں ہوتی ہے کیا اس سے؟ اس نے سلام دیا ہے آپ کو۔"
"وعلیکم السلام!"
آمنہ سے چوں کہ عرصہ دراز سے رابطہ منقطع تھا اس لیے سلام کے ساتھ اپنی معذرت پہنچائی اور جلد ملنے کا وعدہ بھی بھیجا۔ اگلے دس منٹ مَیں آمنہ کی یاد میں سر جھکائے رمشا کی جانب سے آمنہ کو دیا گیا خراج عقیدت سنتا رہا۔
موقع مناسب پا کر میں نے پھر عرض کی:
"تو پہلی بار یہ کب محسوس ہوا تھا کہ کوئی آپ کا پیچھا کر رہا ہے؟"
سب سے پہلی بار یہ فرسٹ سمسٹر میں ہوا تھا۔ میں گھر پر تھی اور خالہ کے بچے آئے ہوئے تھے تیسرا والا لڑکا کلاس تھری میں ہے۔ بہت شرارتی ہے۔ میں خالہ کے لیے چائے بنانے کچن میں گئی تو دبے پاؤں میرے پیچھے ہو لیا۔ پانی ابالا۔ فریج سے دودھ نکالا۔ دودھ پتی ڈالی۔ دودھ پھر فریج میں رکھا۔ اس دوران میں وہ دبے پاؤں سائے کی طرح میرے ساتھ چلتا رہا اور جب میں چائے ٹرے پر رکھ کر کمرے میں جانے کے لیے مُڑی تب مجھے زور سے بہو کر کے ڈرا دیا۔ میری دل دوز چیخ نکلی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کب سے میرے پیچھے پیچھے ہی تھا۔
میں انتہائی سنجیدگی سے سارا واقعہ سن رہا تھا جب اچانک رمشا نے پوچھا:
"مونی برساتی مینڈک یاد ہے؟"
میں جو گہرے گہرے پر سکون سانس لیتا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ رمشا نے فون پر جتنا ڈرایا تھا حقیقت اس کی آدھی بھی نہیں ہے۔ محض معمولی سا فوبیا ہے جو تھوڑی سی تھراپی سے نمٹ سکتا ہے، چونکا اور خود کو حاضر کرتا ہوا استفہامیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"ارے بھئی وہی مینڈک جو بارش والے دن ماریہ کے بیگ سے نکلا تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے راستہ بنا کر اندر گھس گیا تھا۔ ماریہ کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے تھے۔"
"جی جی یاد آیا۔"
میں بھی ہنس پڑا۔ کیوں کہ اس دن کے بعد سے ماریہ اپنا بیگ کھولتے ہی اچھل کر ایک طرف ہو جاتی تھی اور اس کی یہ معصومانہ حرکت ہمیں لوٹ پوٹ کرتی تھی۔
ابھی میں نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ رمشا نے ماریہ کے بھائی کی منگنی کی خبر میرے گوش گزار کر دی۔
"مونی بتانا نہیں میں نے آپ کو بتا دیا ہے ورنہ مینڈک بن کر میرے پیچھے پڑ جائے گی۔"
"آپ سے تو بات ہوتی رہتی ہے اس کی۔ خود ہی بتادے گی آپ کو۔"
"لڑکی ہے بڑی پیاری۔ تصویر دکھائی تھی مجھے۔ آپ کو جب بتائے تو آپ بھی تصویر مانگ لیجے گا۔ یا میں ہی دے دوں گی آپ کو۔ چھوڑیں مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"سیدھی سادی سگھڑ سی لڑکی ہے۔ کوئی چالاکی نہیں ہے آج کل کی یونی ورسٹی کی لڑکیوں جیسی۔"
اس بات پر ابھی میں نے پورا سوچا بھی نہیں تھا کہ پوچھوں آپ مل چکی ہیں لڑکی سے۔ رمشا نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ تصویر سے تو ایسی ہی لگتی ہے۔ جب ملوں گی پھر صحیح پتہ چلے گا میرا اندازہ کتنا درست تھا۔ لیکن پیاری سی ہے۔ اچھے خاندان کی ہے۔ فیملی بھی چھوٹی ہے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق "چھوٹی فیملی" کو ڈھال بنا کر میں نے پھر خود کو اور رمشا کو کنارے پر لانے کی کوشش کی۔
"رمشا آپ کی فیملی میں اور بھی کسی کے ساتھ یہ مسئلہ رہا ہے؟"
"نہیں مونی میرے علاوہ کسی کو کچھ نہیں ہے۔ مجھے چھوڑ کر سب مست ہیں۔ ملنگ ہیں۔ میری طرح کوئی نہیں سوچتا۔ بلکہ ایسے خیالات اگر آئیں بھی تو مٹی کی طرح اپنے دل و دماغ سے جھاڑ دیتے ہیں۔"
تسلی بخش بات تھی یہ!
"میرا چھوٹا والا بھائی تو اتنا مولا دولا ہے کہ سنجیدہ باتوں کو بھی مذاق میں اڑا دیتا ہے۔ میں نے جب اس سے یہ مسئلہ شیئر کیا تو ہنس ہنس کر پیٹ پکڑ لیا۔ اب آتے جاتے میں مجھ پر فقرے کستا ہے۔"
"تمہارے پیچھے وہ کون ہے؟"
"ارے وہ کیا بھاگ رہا ہے تمہارے پیچھے؟"
اب ایف ایس سی میں آیا ہے۔ پڑھائی میں تیز ہے۔ لیکن موبائل کی لت لگا لی ہے۔ کالج کو بالکل سیریس نہیں لیتا۔ تھوڑے دنوں پہلے اسے بخار ہو گیا تھا۔ ہم سمجھے ایک دن میں اتر جائے گا۔ دوسرے دن بھی بخار تیز رہا۔ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے تین دن کی دوائی دی۔ بولا وائرل ہے۔
"اللہ صحت دے۔"
میں نے دل سے اظہار افسوس کیا۔ اور یہاں سے مجھے پھر اپنا منقطع سلسلہ کلام جوڑنے کا موقع مل گیا۔ ورنہ میں خود بھی بھول چکا تھا کہ مجھے کیا بولنا ہے۔
"ایک ڈاکٹر ہیں۔ ماہر نفسیات۔ زیادہ چونچلے نہیں کرتے۔ دو تین سیشنز میں ہی کیس حل کر دیتے ہیں اور بہت ہی لائٹ سی دوا دیتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹک وغیرہ میں نے انہیں تجویز کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے اُن سے بات بھی کر لی ہے۔ آپ میرا ریفرینس دیں گی تو فورا سمجھ جائیں گے۔"
اینٹی بائیوٹک نے اپنے منفی اثرات یہاں بھی چھوڑے۔
"اینٹی بائیوٹک نے تو نیند اڑا کر رکھ دی ہے۔ اب تک جتنے بھی ڈاکٹروں کو دکھا چکی ہوں سب نے بھر بھر کر اینٹی بائیوٹک کھلائی ہے۔ میرا وزن بھی اسی لیے بڑھ گیا ہے۔"
میں کہنا چاہتا تھا کہ مجھے اس بات کا احساس ہے اور غم بھی۔ اسی لیے ہلکا پھلکا سا ڈاکٹر ڈھونڈا ہے جو دوائیوں کی عادت لگوانے سے زیادہ بیماری کے جڑ سے خاتمے پر دھیان دے۔
لیکن رمشا کو اس بات سے بھی زیادہ ایک اہم بات یاد آ گئی۔
"مونی اپنا وزن کیوں نہیں بڑھاتے اب؟ ایم اے کے شروع سے ایسے ہی دیکھ رہی ہوں۔ روز صبح ناشتے میں ایک چمچ پنجیری کھایا کرو۔ ایک مہینے میں ڈبل ہو جاؤ گے۔"
"آج بھی آپ نے وہی ٹی شرٹ پہنی ہے جو پورا ایم اے میں دیکھتی رہی۔ آپ پر ابھی بھی فٹ ہے یہ۔"
"ویسے مونی میں بھی آپ کی طرح ہوں۔ زیادہ خرچہ نہیں کرتی۔ ایک سوٹ بہت سی جگہوں پر چلا لیتی ہوں۔"
"یہ دوپٹہ وہی ہے جو بزم میں پہنا تھا آپ کو یاد ہوگا؟
ابھی منہ سے "جی" بھی نہیں نکلا تھا کہ بزم میں ہوئی بدمزگی رمشا کو یاد آ گئی جب مائیک چلتے چلتے خراب ہو گیا تھا اور ہمارے صدر شعبہ نے جونیئر کلاس کے ٹیچرز کی اچھی خاصی کلاس لے لی تھی کہ انتظامات اتنے ناقص کیوں ہیں؟ پہلے سے ہر چیز کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟
"آپ کو معلوم ہوا صدر شعبہ اگلے مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ کون آئے گا اب، کچھ اندازہ ہے؟"
"میرے خیال میں تو اب ڈاکٹر عبد الرؤف بنیں گے۔ بہت 'پولائیٹ نیچر' کے ہیں۔"
ڈاکٹر کا سابقہ سنتے ہی اپنی پولائیٹ نیچر کو برقرار رکھتے ہوئے میں نے رمشا کو ڈاکٹر کا نمبر تھمایا اور بلا تاخیر کال کرنے کی تاکید کی۔ ورنہ میری دانست میں اب مرض بگڑ سکتا تھا۔
شام ڈھلے ہم نے ریسٹورنٹ چھوڑا۔
چلتے چلتے رمشا نے بڑی سختی سے مجھے اپنے آپ پر توجہ دینے کا کہا۔
"مونی اپنا خیال رکھا کرو۔ رنگت میں تو فرق نہیں آیا۔ لیکن کمر بالکل لڑکیوں جیسی ہو گئی ہے۔ جو تھوڑی بہت چربی تھی وہ بھی اتر گئی ہے۔ صبح نہار منہ دودھ کشمش، شام میں بھنے ہوئے چنے، رات میں ہلدی والا دودھ پابندی سے لیا کرو۔ اور جتنی جلدی ہو سکے جم جوائن کرو۔"
میں فرماں برداری سے اثبات میں سر ہلاتا ہوا "جی ہاں" "ہاں جی" " پکا وعدہ" بولتا رہا۔ رکشے میں بیٹھنے سے پہلے رمشا نے ایک اور وعدہ لیا۔ جلدی آنے کا وعدہ۔ تاکہ آج کی طرح کوئی بات رہ نہ جائے۔ اور یوں خدا خدا کر کے ہم رخصت ہوئے۔
رات میں جب تھکے ہارے مزدور کی مانند میں بستر پر لمبا لیٹ ہوا تو دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ تب پتہ چلا کہ دماغی تھکن بھی جسمانی تھکن کے ہم پلہ ہے۔
جب آنکھ لگنے کے بالکل قریب تھی تب میں سوچ رہا تھا کہ معلوم نہیں رمشا نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا ہوگا یا نہیں لیکن کل صبح اٹھتے ہی مجھے ڈاکٹر سے رابطے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ میرے مہربان کا تو نہیں معلوم، میرا مرض یقیناً بگڑ جاتا۔
البتہ مجھے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ رمشا نے مجھے پورے تین بجے پہنچ جانے کی تاکید کی تھی اور اپنی عادت کے بر خلاف آج میں تین بج کر پانچ منٹ پر پہنچا تھا۔ خلافِ عادت کہنے سے مراد یہ نہیں کہ میں مطلوبہ مقام پر مقررہ وقت سے دس منٹ قبل پہنچنے کا عادی ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ طے شدہ وقت گزرنے کے آدھے گھنٹے بعد بھی میرا نزول ہو جائے تو سامنے والا دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان والے کا شکر ادا کرتا ہے۔
خیر میں نے بھی آج "برقت" پہنچ جانے پر اللہ میاں کا شکریہ ادا کیا اور رمشا کو کال پر اپنی آمد کی اطلاع دی۔ ساتھ تسلی بھی کہ آرام سے آئیے گا۔ مبادا ہڑا ہڑی میں کوئی ضروری چیز بھول بھال نہ جائیں۔
رمشا کے دو احکامات تھے۔ ایک تو یہ کہ میں پورے تین بجے پہنچوں۔ دوسرا یہ کہ پہنچتے ہی کال کروں تاکہ وہ پانچ منٹ کے اندر اندر وہاں آ جائے۔ میٹرو اس کے گھر سے پانچ منٹ کی مسافت پر تھا۔ لیکن جب پندرہ منٹ سے اوپر گزر گئے، جب اکیسواں منٹ شروع ہو گیا، اور جب سوچنے کے لیے کچھ باقی نہ رہا، تب میں ہماری گزشتہ رات کی چیٹ میں رمشا کی بے قراری کو یاد کرنے لگا۔
"آخر آپ کب ملیں گے؟ ایک مہینے سے ٹال مٹول کر رہے ہیں۔"
"میں دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہوں۔ آپ کو کیسے سمجھاؤں میں کس تکلیف سے گزر رہی ہوں۔"
"کل بہر صورت ملوں گا۔ اپنی تمام تر وعدہ خلافیوں پر میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے۔"
"یہ کل، کل ہی آئے گی یا کل ہوتے ہی کسی اور کل پر چلی جائے گی؟"
"کل کل ہی آئے گی اور کل آپ مجھے ضرور دیکھیں گی۔"
"دیکھتے ہیں۔"
ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ مناسب فاصلے پر ایک رکشہ رکا اور رمشا اس میں سے اترتی نظر آئی۔ گھڑی پر غیر محسوس انداز میں نظر دوڑائی تو چوبیس منٹ سے زائد ہو چلے تھے۔ میں احتراماً رمشا کے قریب چلا گیا۔ روڈ پر ہی بڑی گرم جوشی سے دعا سلام کے بعد وہ مجھے میٹرو کے اندر لے چلی۔ اور جب تک ہم مال کی بالائی منزل پر واقع ریسٹورنٹ کی ایک ٹیبل کرسی پر بیٹھ نہیں گئے، بے چین ہی رہے۔
رمشا میری کلاس فیلو، ایک مدت سے کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھی۔ چوں کہ مجھ سے اپنے دل کی ہر بات بے جھجھک کرتی تھی، مجھے اپنا مینٹور مانتی تھی، اس لیے ملنے پر مصر تھی۔
رمشا نے کرسی پر براجمان ہوتے ہی دنیا جہاں کا پٹارا کھول دیا۔ یونی ورسٹی کی دھوپ چھاؤں سے بھرپور یادیں، ساتھی طلبہ کے لیے میری خدمات، صنف نرم و نازک کی بیٹھکوں میں میرے چرچے، سینیئرز کا مجھ سے حسد، میری خوش گفتاری، خوب صورتی، خوب سیرتی، میرا کمزور سراپا، میری آدم بے زاری، کینٹین سے میری قطع تعلقی، میری سینس لیس ڈریسنگ، اساتذہ کا مجھ سے پیار، میرے چلنے کی رفتار، غرض پندرہ بیس منٹ میں بہت ساری باتیں جو میں اپنے بارے میں جانتا تھا اور جو نہیں جانتا تھا اس نے کہہ سنائیں۔
کہیں کہیں میں نے بھی احتراماً لقمہ دیا تھا، لیکن زیادہ تر میرا رویہ خاموشی کا تھا۔
آہستہ آہستہ ہم مدعے پر آ گئے۔ بلکہ سچ پوچھیے تو آئے نہیں تھے، کھینچ تان کر لانا پڑا تھا۔
"رمشا تیز رفتاری سے چلنے پر یاد آیا، آپ بتا رہی تھیں، آپ کو چلتے چلتے کچھ محسوس ہوتا ہے۔ اُس وقت سمجھ نہیں سکا تھا۔ اب بتائیے اطمینان سے۔
مونی (مونی نک نیم بہت کم لوگ جانتے تھے) آپ کو یاد ہوگا جب ہم پہلی بار کریٹیکل تھیوریز کی کلاس میں ملے تھے وہی وقت تھا جب میں نے اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کی تھیں۔ ایسا لگتا تھا ہر وقت کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب میں گھر میں صرف کچن تک جاتی ہوں تو مجھے اپنا تعاقب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
میں ہمہ تن گوش تھا جب رمشا نے زور سے "مونی کتا" کہا۔ میں یک دم ہڑبڑا گیا اور سوچنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے بنا بات کے رمشا کیوں مجھے گالی دے رہی ہے؟ اگلے لمحے جب محسوس ہوا کہ اس دشنام طرازی کا مخاطَب میں نہیں ہوں تو پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کہیں مال میں کوئی کتا تو نہیں گھس آیا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس سارے رد عمل سے بے نیاز رمشا گویا ہوئی۔
"لائبریری کے باہر آمنہ کے پیچھے کتنا بڑا کتا پڑ گیا تھا؟ ہنس ہنس کر ہم حال بے حال ہو گئے تھے۔ وہ دن ہے آج کا دن ہے آمنہ کتا دور سے بھی دیکھ لے تو حالت غیر ہو جاتی ہے۔"
رمشا مسلسل کھلکھلا رہی تھی۔
"ارے۔۔۔۔ آمنہ آپ کا پوچھ رہی تھی مونی۔ آپ کی بات نہیں ہوتی ہے کیا اس سے؟ اس نے سلام دیا ہے آپ کو۔"
"وعلیکم السلام!"
آمنہ سے چوں کہ عرصہ دراز سے رابطہ منقطع تھا اس لیے سلام کے ساتھ اپنی معذرت پہنچائی اور جلد ملنے کا وعدہ بھی بھیجا۔ اگلے دس منٹ مَیں آمنہ کی یاد میں سر جھکائے رمشا کی جانب سے آمنہ کو دیا گیا خراج عقیدت سنتا رہا۔
موقع مناسب پا کر میں نے پھر عرض کی:
"تو پہلی بار یہ کب محسوس ہوا تھا کہ کوئی آپ کا پیچھا کر رہا ہے؟"
سب سے پہلی بار یہ فرسٹ سمسٹر میں ہوا تھا۔ میں گھر پر تھی اور خالہ کے بچے آئے ہوئے تھے تیسرا والا لڑکا کلاس تھری میں ہے۔ بہت شرارتی ہے۔ میں خالہ کے لیے چائے بنانے کچن میں گئی تو دبے پاؤں میرے پیچھے ہو لیا۔ پانی ابالا۔ فریج سے دودھ نکالا۔ دودھ پتی ڈالی۔ دودھ پھر فریج میں رکھا۔ اس دوران میں وہ دبے پاؤں سائے کی طرح میرے ساتھ چلتا رہا اور جب میں چائے ٹرے پر رکھ کر کمرے میں جانے کے لیے مُڑی تب مجھے زور سے بہو کر کے ڈرا دیا۔ میری دل دوز چیخ نکلی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کب سے میرے پیچھے پیچھے ہی تھا۔
میں انتہائی سنجیدگی سے سارا واقعہ سن رہا تھا جب اچانک رمشا نے پوچھا:
"مونی برساتی مینڈک یاد ہے؟"
میں جو گہرے گہرے پر سکون سانس لیتا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ رمشا نے فون پر جتنا ڈرایا تھا حقیقت اس کی آدھی بھی نہیں ہے۔ محض معمولی سا فوبیا ہے جو تھوڑی سی تھراپی سے نمٹ سکتا ہے، چونکا اور خود کو حاضر کرتا ہوا استفہامیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"ارے بھئی وہی مینڈک جو بارش والے دن ماریہ کے بیگ سے نکلا تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے راستہ بنا کر اندر گھس گیا تھا۔ ماریہ کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے تھے۔"
"جی جی یاد آیا۔"
میں بھی ہنس پڑا۔ کیوں کہ اس دن کے بعد سے ماریہ اپنا بیگ کھولتے ہی اچھل کر ایک طرف ہو جاتی تھی اور اس کی یہ معصومانہ حرکت ہمیں لوٹ پوٹ کرتی تھی۔
ابھی میں نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ رمشا نے ماریہ کے بھائی کی منگنی کی خبر میرے گوش گزار کر دی۔
"مونی بتانا نہیں میں نے آپ کو بتا دیا ہے ورنہ مینڈک بن کر میرے پیچھے پڑ جائے گی۔"
"آپ سے تو بات ہوتی رہتی ہے اس کی۔ خود ہی بتادے گی آپ کو۔"
"لڑکی ہے بڑی پیاری۔ تصویر دکھائی تھی مجھے۔ آپ کو جب بتائے تو آپ بھی تصویر مانگ لیجے گا۔ یا میں ہی دے دوں گی آپ کو۔ چھوڑیں مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"سیدھی سادی سگھڑ سی لڑکی ہے۔ کوئی چالاکی نہیں ہے آج کل کی یونی ورسٹی کی لڑکیوں جیسی۔"
اس بات پر ابھی میں نے پورا سوچا بھی نہیں تھا کہ پوچھوں آپ مل چکی ہیں لڑکی سے۔ رمشا نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ تصویر سے تو ایسی ہی لگتی ہے۔ جب ملوں گی پھر صحیح پتہ چلے گا میرا اندازہ کتنا درست تھا۔ لیکن پیاری سی ہے۔ اچھے خاندان کی ہے۔ فیملی بھی چھوٹی ہے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق "چھوٹی فیملی" کو ڈھال بنا کر میں نے پھر خود کو اور رمشا کو کنارے پر لانے کی کوشش کی۔
"رمشا آپ کی فیملی میں اور بھی کسی کے ساتھ یہ مسئلہ رہا ہے؟"
"نہیں مونی میرے علاوہ کسی کو کچھ نہیں ہے۔ مجھے چھوڑ کر سب مست ہیں۔ ملنگ ہیں۔ میری طرح کوئی نہیں سوچتا۔ بلکہ ایسے خیالات اگر آئیں بھی تو مٹی کی طرح اپنے دل و دماغ سے جھاڑ دیتے ہیں۔"
تسلی بخش بات تھی یہ!
"میرا چھوٹا والا بھائی تو اتنا مولا دولا ہے کہ سنجیدہ باتوں کو بھی مذاق میں اڑا دیتا ہے۔ میں نے جب اس سے یہ مسئلہ شیئر کیا تو ہنس ہنس کر پیٹ پکڑ لیا۔ اب آتے جاتے میں مجھ پر فقرے کستا ہے۔"
"تمہارے پیچھے وہ کون ہے؟"
"ارے وہ کیا بھاگ رہا ہے تمہارے پیچھے؟"
اب ایف ایس سی میں آیا ہے۔ پڑھائی میں تیز ہے۔ لیکن موبائل کی لت لگا لی ہے۔ کالج کو بالکل سیریس نہیں لیتا۔ تھوڑے دنوں پہلے اسے بخار ہو گیا تھا۔ ہم سمجھے ایک دن میں اتر جائے گا۔ دوسرے دن بھی بخار تیز رہا۔ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے تین دن کی دوائی دی۔ بولا وائرل ہے۔
"اللہ صحت دے۔"
میں نے دل سے اظہار افسوس کیا۔ اور یہاں سے مجھے پھر اپنا منقطع سلسلہ کلام جوڑنے کا موقع مل گیا۔ ورنہ میں خود بھی بھول چکا تھا کہ مجھے کیا بولنا ہے۔
"ایک ڈاکٹر ہیں۔ ماہر نفسیات۔ زیادہ چونچلے نہیں کرتے۔ دو تین سیشنز میں ہی کیس حل کر دیتے ہیں اور بہت ہی لائٹ سی دوا دیتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹک وغیرہ میں نے انہیں تجویز کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے اُن سے بات بھی کر لی ہے۔ آپ میرا ریفرینس دیں گی تو فورا سمجھ جائیں گے۔"
اینٹی بائیوٹک نے اپنے منفی اثرات یہاں بھی چھوڑے۔
"اینٹی بائیوٹک نے تو نیند اڑا کر رکھ دی ہے۔ اب تک جتنے بھی ڈاکٹروں کو دکھا چکی ہوں سب نے بھر بھر کر اینٹی بائیوٹک کھلائی ہے۔ میرا وزن بھی اسی لیے بڑھ گیا ہے۔"
میں کہنا چاہتا تھا کہ مجھے اس بات کا احساس ہے اور غم بھی۔ اسی لیے ہلکا پھلکا سا ڈاکٹر ڈھونڈا ہے جو دوائیوں کی عادت لگوانے سے زیادہ بیماری کے جڑ سے خاتمے پر دھیان دے۔
لیکن رمشا کو اس بات سے بھی زیادہ ایک اہم بات یاد آ گئی۔
"مونی اپنا وزن کیوں نہیں بڑھاتے اب؟ ایم اے کے شروع سے ایسے ہی دیکھ رہی ہوں۔ روز صبح ناشتے میں ایک چمچ پنجیری کھایا کرو۔ ایک مہینے میں ڈبل ہو جاؤ گے۔"
"آج بھی آپ نے وہی ٹی شرٹ پہنی ہے جو پورا ایم اے میں دیکھتی رہی۔ آپ پر ابھی بھی فٹ ہے یہ۔"
"ویسے مونی میں بھی آپ کی طرح ہوں۔ زیادہ خرچہ نہیں کرتی۔ ایک سوٹ بہت سی جگہوں پر چلا لیتی ہوں۔"
"یہ دوپٹہ وہی ہے جو بزم میں پہنا تھا آپ کو یاد ہوگا؟
ابھی منہ سے "جی" بھی نہیں نکلا تھا کہ بزم میں ہوئی بدمزگی رمشا کو یاد آ گئی جب مائیک چلتے چلتے خراب ہو گیا تھا اور ہمارے صدر شعبہ نے جونیئر کلاس کے ٹیچرز کی اچھی خاصی کلاس لے لی تھی کہ انتظامات اتنے ناقص کیوں ہیں؟ پہلے سے ہر چیز کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟
"آپ کو معلوم ہوا صدر شعبہ اگلے مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ کون آئے گا اب، کچھ اندازہ ہے؟"
"میرے خیال میں تو اب ڈاکٹر عبد الرؤف بنیں گے۔ بہت 'پولائیٹ نیچر' کے ہیں۔"
ڈاکٹر کا سابقہ سنتے ہی اپنی پولائیٹ نیچر کو برقرار رکھتے ہوئے میں نے رمشا کو ڈاکٹر کا نمبر تھمایا اور بلا تاخیر کال کرنے کی تاکید کی۔ ورنہ میری دانست میں اب مرض بگڑ سکتا تھا۔
شام ڈھلے ہم نے ریسٹورنٹ چھوڑا۔
چلتے چلتے رمشا نے بڑی سختی سے مجھے اپنے آپ پر توجہ دینے کا کہا۔
"مونی اپنا خیال رکھا کرو۔ رنگت میں تو فرق نہیں آیا۔ لیکن کمر بالکل لڑکیوں جیسی ہو گئی ہے۔ جو تھوڑی بہت چربی تھی وہ بھی اتر گئی ہے۔ صبح نہار منہ دودھ کشمش، شام میں بھنے ہوئے چنے، رات میں ہلدی والا دودھ پابندی سے لیا کرو۔ اور جتنی جلدی ہو سکے جم جوائن کرو۔"
میں فرماں برداری سے اثبات میں سر ہلاتا ہوا "جی ہاں" "ہاں جی" " پکا وعدہ" بولتا رہا۔ رکشے میں بیٹھنے سے پہلے رمشا نے ایک اور وعدہ لیا۔ جلدی آنے کا وعدہ۔ تاکہ آج کی طرح کوئی بات رہ نہ جائے۔ اور یوں خدا خدا کر کے ہم رخصت ہوئے۔
رات میں جب تھکے ہارے مزدور کی مانند میں بستر پر لمبا لیٹ ہوا تو دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ تب پتہ چلا کہ دماغی تھکن بھی جسمانی تھکن کے ہم پلہ ہے۔
جب آنکھ لگنے کے بالکل قریب تھی تب میں سوچ رہا تھا کہ معلوم نہیں رمشا نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا ہوگا یا نہیں لیکن کل صبح اٹھتے ہی مجھے ڈاکٹر سے رابطے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ میرے مہربان کا تو نہیں معلوم، میرا مرض یقیناً بگڑ جاتا۔