بے گناہ پاکستانی پر برطانوی اور امریکی فوج کا 10برس تک خوفناک تشدد
نیویارک(نیوزڈیسک)یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ مغرب میں انسانوں کیا بلکہ جانوروں کے بھی بہت زیادہ حقوق ہیں لیکن اگر بات مسلمانوں یا پاکستانیوں کے ساتھ رویے کی کی جائے تو مغرب کا معیار دوہرا ہے ۔حال ہی میں ایک پاکستانی یونس رحمت اللہ نے امریکی اوربرطانوی حکومتوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا ہے اور ہرجانے کی درخواست بھی دائر کردی ہے۔ یونس کو برطانوی حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور کچھ عرصہ بعد اسے امریکی حکام کے حوالے کردیا تھا۔وہ دس سال تک قید وبندکی صعوبتیں برداشت کرتا رہا اور بالآخر اسے بے گناہ قرار دینے کے بعدرہا کردیا گیا ہے۔ رہائی کے بعد اس نے اپنی ان تکالیف کا ذکر کیا ہے جو اسے غیر قانونی قید کے دوران برداشت کرنی پڑی تھیں ۔اپنے 62صفحات پر مشتمل بیان میں اس نے ان تمام باتوں کا ذکر کیا ہے جس کا سامنا اسے کرنا پڑا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ برطانوی حکام نے پکڑتے ہی اسے تشدد کا نشانہ بنایا، زمین پر گھسیٹااور اسے ایک ایسے کنٹینر میں رکھا گیا جہاں اس کے ساتھ کتے بھی ہوتے تھے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی خصوصی فورسز اس کے کھانے پر سگریٹ کا گل چھڑکتے تھے اور اسے یہ کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔اس کا مزید کہنا تھا کہ اسے ایک ایسے یخ بستہ کنٹینر میں رکھا جاتا تھا جہاں اس پر ٹھنڈا پانی بھی ڈالا جاتا تھا۔
بھارتی حکومت کو اپنے ہی فوجیوں سے خطرہ ! تفصیلات جاننے کیلئے وزٹ کریں
برطانوی حکومت نے ہائی کورٹ کو اپیل کی تھی کہ اس درخواست کو نہ سنا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں لیکن عدالت نے یہ استدعا رد کردی۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں برطانوی فورسز پر لگائے جانے والے الزامات میں یہ سنگین ترین ہیں۔
یونس قطر میں پلا بڑھا تھااورپھر چاول کے کاروبار کے سلسلے میں 2004ءمیں عراق چلا گیا جہاں ایک دم اس کے اپارٹمنٹ پر ریڈ کی گئی اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بے ہوش ہوگیا اور جب اسے ہوش آیاتو وہ خون میں لت پت نامعلوم مقام پر متعدد لاشوں کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جہاں فوجیوں کے یونیفارم پر برطانوی جھنڈے لگے ہوئے تھے،فوجی اس سے انتہائی برا سلوک کرتے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اسے شدید تشدد کا نشانہ بناتے اور اسے بلاوجہ ہراساں کرتے۔کبھی اس کے ہاتھ باندھ کر گاڑی کے پیچھے بھگایا جاتا اور وہ گر جاتا لیکن پھر بھی گاڑی نہ روکی جاتی اور اس دوران وہ لہولہان ہوجاتالیکن برطانوی فورسز کو کبھی بھی رحم نہ آتا۔یونس کا مزید کہنا ہے کہ اسے کھانا بھی بہت کم دیا جاتا تھا اور جو فوجی کھانا لے کر آتا تھا وہ اس پر سگریٹ کا گل بھی چھڑک دیتا تھا اور ساتھ ہنستا رہتا تھا،پھر یہ کھانا یونس کو کھانا پڑتا تھا۔کچھ عرصے بعد یونس کو بتایا گیا کہ وہ فورسز کے ساتھ تعاون نہیں کررہا لہذا اسے عراق کے ابوغریب جیل بھیجا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ ابوغریب وہی جیل ہے جہاں پر امریکی فورسز کی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی تصاویر سامنے آچکی ہیں۔
یہاں بھی اسکے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا، کبھی اس پر ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا اور کبھی اس کے چہرے پر پیشاب ڈال دیا جاتا تھا۔ایک بار ایک خاتون کوٹھری میں داخل ہوئی اور ایک رسی کے ساتھ اس کا گلا اتنا زور سے باندھ دیا کہ ایسے لگنے لگا کہ وہ مرجائے گااور اس کے بعد ظالم عورت نے اسے زمین پر گھسیٹنا شروع کردیا۔کچھ عرصے بعد اسے افغانستان کی بٹگرام جیل میں منتقل کردیا گیاجہاں سے وہ رہا ہوااور اب برطانوی اور امریکی فورسز کی ظلم کی کہانیاں بتا رہا ہے۔
نیویارک(نیوزڈیسک)یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ مغرب میں انسانوں کیا بلکہ جانوروں کے بھی بہت زیادہ حقوق ہیں لیکن اگر بات مسلمانوں یا پاکستانیوں کے ساتھ رویے کی کی جائے تو مغرب کا معیار دوہرا ہے ۔حال ہی میں ایک پاکستانی یونس رحمت اللہ نے امریکی اوربرطانوی حکومتوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا ہے اور ہرجانے کی درخواست بھی دائر کردی ہے۔ یونس کو برطانوی حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور کچھ عرصہ بعد اسے امریکی حکام کے حوالے کردیا تھا۔وہ دس سال تک قید وبندکی صعوبتیں برداشت کرتا رہا اور بالآخر اسے بے گناہ قرار دینے کے بعدرہا کردیا گیا ہے۔ رہائی کے بعد اس نے اپنی ان تکالیف کا ذکر کیا ہے جو اسے غیر قانونی قید کے دوران برداشت کرنی پڑی تھیں ۔اپنے 62صفحات پر مشتمل بیان میں اس نے ان تمام باتوں کا ذکر کیا ہے جس کا سامنا اسے کرنا پڑا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ برطانوی حکام نے پکڑتے ہی اسے تشدد کا نشانہ بنایا، زمین پر گھسیٹااور اسے ایک ایسے کنٹینر میں رکھا گیا جہاں اس کے ساتھ کتے بھی ہوتے تھے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی خصوصی فورسز اس کے کھانے پر سگریٹ کا گل چھڑکتے تھے اور اسے یہ کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔اس کا مزید کہنا تھا کہ اسے ایک ایسے یخ بستہ کنٹینر میں رکھا جاتا تھا جہاں اس پر ٹھنڈا پانی بھی ڈالا جاتا تھا۔
بھارتی حکومت کو اپنے ہی فوجیوں سے خطرہ ! تفصیلات جاننے کیلئے وزٹ کریں
برطانوی حکومت نے ہائی کورٹ کو اپیل کی تھی کہ اس درخواست کو نہ سنا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں لیکن عدالت نے یہ استدعا رد کردی۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں برطانوی فورسز پر لگائے جانے والے الزامات میں یہ سنگین ترین ہیں۔
یونس قطر میں پلا بڑھا تھااورپھر چاول کے کاروبار کے سلسلے میں 2004ءمیں عراق چلا گیا جہاں ایک دم اس کے اپارٹمنٹ پر ریڈ کی گئی اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بے ہوش ہوگیا اور جب اسے ہوش آیاتو وہ خون میں لت پت نامعلوم مقام پر متعدد لاشوں کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جہاں فوجیوں کے یونیفارم پر برطانوی جھنڈے لگے ہوئے تھے،فوجی اس سے انتہائی برا سلوک کرتے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اسے شدید تشدد کا نشانہ بناتے اور اسے بلاوجہ ہراساں کرتے۔کبھی اس کے ہاتھ باندھ کر گاڑی کے پیچھے بھگایا جاتا اور وہ گر جاتا لیکن پھر بھی گاڑی نہ روکی جاتی اور اس دوران وہ لہولہان ہوجاتالیکن برطانوی فورسز کو کبھی بھی رحم نہ آتا۔یونس کا مزید کہنا ہے کہ اسے کھانا بھی بہت کم دیا جاتا تھا اور جو فوجی کھانا لے کر آتا تھا وہ اس پر سگریٹ کا گل بھی چھڑک دیتا تھا اور ساتھ ہنستا رہتا تھا،پھر یہ کھانا یونس کو کھانا پڑتا تھا۔کچھ عرصے بعد یونس کو بتایا گیا کہ وہ فورسز کے ساتھ تعاون نہیں کررہا لہذا اسے عراق کے ابوغریب جیل بھیجا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ ابوغریب وہی جیل ہے جہاں پر امریکی فورسز کی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی تصاویر سامنے آچکی ہیں۔
یہاں بھی اسکے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا، کبھی اس پر ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا اور کبھی اس کے چہرے پر پیشاب ڈال دیا جاتا تھا۔ایک بار ایک خاتون کوٹھری میں داخل ہوئی اور ایک رسی کے ساتھ اس کا گلا اتنا زور سے باندھ دیا کہ ایسے لگنے لگا کہ وہ مرجائے گااور اس کے بعد ظالم عورت نے اسے زمین پر گھسیٹنا شروع کردیا۔کچھ عرصے بعد اسے افغانستان کی بٹگرام جیل میں منتقل کردیا گیاجہاں سے وہ رہا ہوااور اب برطانوی اور امریکی فورسز کی ظلم کی کہانیاں بتا رہا ہے۔