عمر سیف
محفلین
' بے یقینی سے یقین تک '
اس نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور دادو کے دعا ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ دادو نے دعا مکمل کرتے ہی اسے دعائیں دیں۔" جیتی رہ، سلامت رہ، رب سوہنا تجھے صدا خوش رکھے "۔ وہ دادو کے پاس تخت پر ہی بیٹھ گئی۔
" دادو! بابا جانی پھر نہیں آئے۔ انہیں کتنے ہی فون کئے مگر وہ یہی بولتے رہے۔ ابھی آرہا ہوں، ابھی آ رہا ہوں۔ میں ان کا انتظار ہی کرتی رہ گئی، مجھے انہیں اپنے دوستوں سے ملوانا تھا۔ لیکن وہ نہیں آئے "۔
وہ شکایات کا دفتر کھول کر بیٹھ گئی۔" اسے دفتر میں ضروری کام ہوگا اس لیے رُک گیا ہوگا"۔
" ایسا بھی کیا ضروری کام تھا۔ کیا میری سالگرہ سے بھی ضروری تھا۔ انہیں میرا ذرا بھی خیال نہیں، کتنی شرمندگی اٹھانا پڑی ناں، مجھے اپنے دوستوں کے سامنے"۔ نا معلوم اسے شرمندگی کا افسوس زیادہ تھا یا اپنے باباجان کے نا آنے کا۔
" تو تُو کسی اور دن بُلا لینا اپنے دوستوں کو اپنے باباجان سے ملوانے کے لئے"۔
" نہیں دادو، اب میں انہیں کبھی نہیں بلواؤں گی۔ اب روز روز تو شرمندہ نہیں ہونا مجھے ان کے سامنے۔ باباجانی کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے کام سے زیادہ کوئی اور چیز اہم لگتی ہی نہیں"۔
" تو وہ سب کس کے لیے کرتا ہے۔ ایک ہی تو لاڈو دھی ہے اس کی۔ وگرنہ گھر میں کون ہے، اس نے تیرے لیے ہی تو دوسری شادی نہیں کی کہ نامعلوم سوتیلی ماں کیسا سلوک کرے"۔
" دادو! میں بھی تو ان کا خیال رکھتی ہوں۔ کتنا پیار ہے مجھے ان سے، اُن کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتی ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کرتی ہوں اور ان کے کپڑے نکالتی ہوں اور وہ اس وقت بےخبر پڑے سو رہے ہوتے ہیں۔ رات دیر تک اُن کے دفتر سے آنے کا انتظار کرتی ہوں اور وہ ۔۔۔۔ وہ میری سالگرہ تک پر نہیں آ سکتے"۔
" جن سے محبت ہوتی ہے، جن سے پیار ہوتا ہے ان کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مجبوریوں سے بھی اتنا ہی پیار کیا جاتا ہے جتنا کہ خود اُن سے"۔
" پر دادو! اُن کو بھی تو خیال رکھنا چاہئے ناں، محبت کا پیار کا یہ مطلب تو نہیں کہ صرف ایک ہی قربانیاں دئیے جائے، محبتیں نچھاور کئے جائے اور دوسرا صرف اسی پر اکتفا کیے بیٹھا رہے کہ مجھے بھی محبت ہے اور کہیں بڑھ کے ہے"۔
" تو بڑی بےوساہی ہے، بڑی بےیقین ہے۔ ادھر آ میرے پاس"۔اُسے ساتھ لگا کر دلاسہ دیتے ہوئے بولیں۔" دھئیے! یہ جو بےیقینی ہوتی ہے یہ بڑی ظالم شے ہے، انسان کو کسی کم جوگا نہیں چھوڑتی، یہ شہرے سے بھرے پیالے میں سرکے کہ مانند ہوتی ہے جو ساری مٹھاس تباہ کر ڈالتی ہے۔ تجھے اگر اپنے باباجانی سے پیار ہے تو تجھے یقین ہونا چاہئے کہ تیرے بابا کو بھی تجھ سے پیار ہے۔ کم از کم اتنا تو ضرور کہ جتنا تجھے ہے"۔
" خود کو بےیقینی کی دلدل میں نہ پھنسا۔ یہ آہستہ آہستہ انسان کو نگل جاتی ہے۔ بے یقینی سے تو مانگی گئی دعا اور عبادت بھی قبول نہیں ہوتی۔ رب سوہنا فرماتا ہے کہ جب تجھے مجھ پر یقین ہی نہیں تھا تو مانگا کیوں اور سجدہ دیا کیوں؟"۔
" تو دادو اگر باباجان کو مجھے سے اتنا ہی پیار تھا تو آئے کیوں نہیں؟ اس سے پہلے میں نے کبھی ان سے ضد نہیں کی۔ بس آج ہی تو اتنا اسرار کیا تھا"۔
" پتہ نہیں اسے کیا مجبوری آن پڑی۔ خُدا خیر کرے۔ اس سے پہلے اس نے خود بھی تو ہر بات کا خیال رکھا ہے۔ نوبت ہی نہیں آئی"۔
اتنی دیر میں اس کے بابا کی گاڑی کی آواز آئی۔ وہ اس کے باوجود دادو کے پاس ہی بیٹھی رہی۔ سعید رحمان خود ہو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور آوازیں دیتے ماں کے کمرے تک چلے آئے۔
" فضہ بیٹا! بابا کی جان تم یہاں ہو اور میں نے سارا گھر چھان مارا"۔
ان کے ماتھے پر پٹی بندھی تھی اور ہاتھ میں اس کی سالگرہ کا تحفہ۔
" بابا! یہ آپ کے سر پر کیا ہوا؟"۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر تحفہ ایک طرف رکھتے ہوئے بابا کے سر پر بندھی پٹی کو چھوتے ہوئے بولی۔ وہ بڑی خوشدلی اور زندہ دلی سے مسکرائے۔
" بابا کی جان! آپ کے لیے تحفہ خرید کر واپس آتے ہوئے راستے میں ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔ میرا ڈیش بورڈ سے سر ٹکرا گیا، وہ تو اللہ کا کرم ہے کہ میرے آفس کے ساتھ میرے ساتھ تھے۔ وہی ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور ناجانے میں کب تک بےہوش رہا۔ گھر اطلاع نہیں کر سکا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ میری بیٹی کی سالگرہ ہے۔خوامخواہ میں بدمزگی ہوتی۔ اب جب ہوش آیا ہے تو وہی مجھے گھر چھوڑ کر واپس چلا گیا ہے"۔
وہ سٹپٹا گئی۔ بابا کے گلے لگ گئی۔" باباجانی! آپ کو کچھ ہوجاتا تو میں جیتے جی مر جاتی"۔ وہ روتے روتے دادو کو دیکھنے لگی، جو اس کی جانب ہی دیکھ رہی تھیں۔ جیسے کہہ رہی ہوں۔" دیکھا پُتر! میں نا کہتی تھی کہ بےوساہی، بے یقینی بڑی ظالم شے ہے، یہ انسان کو کسی کم جوگا نہیں چھوڑتی۔ پر اب تو تجھے یقین آجانا چاہئے"۔
سحرش کلثوم
اس نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور دادو کے دعا ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ دادو نے دعا مکمل کرتے ہی اسے دعائیں دیں۔" جیتی رہ، سلامت رہ، رب سوہنا تجھے صدا خوش رکھے "۔ وہ دادو کے پاس تخت پر ہی بیٹھ گئی۔
" دادو! بابا جانی پھر نہیں آئے۔ انہیں کتنے ہی فون کئے مگر وہ یہی بولتے رہے۔ ابھی آرہا ہوں، ابھی آ رہا ہوں۔ میں ان کا انتظار ہی کرتی رہ گئی، مجھے انہیں اپنے دوستوں سے ملوانا تھا۔ لیکن وہ نہیں آئے "۔
وہ شکایات کا دفتر کھول کر بیٹھ گئی۔" اسے دفتر میں ضروری کام ہوگا اس لیے رُک گیا ہوگا"۔
" ایسا بھی کیا ضروری کام تھا۔ کیا میری سالگرہ سے بھی ضروری تھا۔ انہیں میرا ذرا بھی خیال نہیں، کتنی شرمندگی اٹھانا پڑی ناں، مجھے اپنے دوستوں کے سامنے"۔ نا معلوم اسے شرمندگی کا افسوس زیادہ تھا یا اپنے باباجان کے نا آنے کا۔
" تو تُو کسی اور دن بُلا لینا اپنے دوستوں کو اپنے باباجان سے ملوانے کے لئے"۔
" نہیں دادو، اب میں انہیں کبھی نہیں بلواؤں گی۔ اب روز روز تو شرمندہ نہیں ہونا مجھے ان کے سامنے۔ باباجانی کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے کام سے زیادہ کوئی اور چیز اہم لگتی ہی نہیں"۔
" تو وہ سب کس کے لیے کرتا ہے۔ ایک ہی تو لاڈو دھی ہے اس کی۔ وگرنہ گھر میں کون ہے، اس نے تیرے لیے ہی تو دوسری شادی نہیں کی کہ نامعلوم سوتیلی ماں کیسا سلوک کرے"۔
" دادو! میں بھی تو ان کا خیال رکھتی ہوں۔ کتنا پیار ہے مجھے ان سے، اُن کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتی ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کرتی ہوں اور ان کے کپڑے نکالتی ہوں اور وہ اس وقت بےخبر پڑے سو رہے ہوتے ہیں۔ رات دیر تک اُن کے دفتر سے آنے کا انتظار کرتی ہوں اور وہ ۔۔۔۔ وہ میری سالگرہ تک پر نہیں آ سکتے"۔
" جن سے محبت ہوتی ہے، جن سے پیار ہوتا ہے ان کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مجبوریوں سے بھی اتنا ہی پیار کیا جاتا ہے جتنا کہ خود اُن سے"۔
" پر دادو! اُن کو بھی تو خیال رکھنا چاہئے ناں، محبت کا پیار کا یہ مطلب تو نہیں کہ صرف ایک ہی قربانیاں دئیے جائے، محبتیں نچھاور کئے جائے اور دوسرا صرف اسی پر اکتفا کیے بیٹھا رہے کہ مجھے بھی محبت ہے اور کہیں بڑھ کے ہے"۔
" تو بڑی بےوساہی ہے، بڑی بےیقین ہے۔ ادھر آ میرے پاس"۔اُسے ساتھ لگا کر دلاسہ دیتے ہوئے بولیں۔" دھئیے! یہ جو بےیقینی ہوتی ہے یہ بڑی ظالم شے ہے، انسان کو کسی کم جوگا نہیں چھوڑتی، یہ شہرے سے بھرے پیالے میں سرکے کہ مانند ہوتی ہے جو ساری مٹھاس تباہ کر ڈالتی ہے۔ تجھے اگر اپنے باباجانی سے پیار ہے تو تجھے یقین ہونا چاہئے کہ تیرے بابا کو بھی تجھ سے پیار ہے۔ کم از کم اتنا تو ضرور کہ جتنا تجھے ہے"۔
" خود کو بےیقینی کی دلدل میں نہ پھنسا۔ یہ آہستہ آہستہ انسان کو نگل جاتی ہے۔ بے یقینی سے تو مانگی گئی دعا اور عبادت بھی قبول نہیں ہوتی۔ رب سوہنا فرماتا ہے کہ جب تجھے مجھ پر یقین ہی نہیں تھا تو مانگا کیوں اور سجدہ دیا کیوں؟"۔
" تو دادو اگر باباجان کو مجھے سے اتنا ہی پیار تھا تو آئے کیوں نہیں؟ اس سے پہلے میں نے کبھی ان سے ضد نہیں کی۔ بس آج ہی تو اتنا اسرار کیا تھا"۔
" پتہ نہیں اسے کیا مجبوری آن پڑی۔ خُدا خیر کرے۔ اس سے پہلے اس نے خود بھی تو ہر بات کا خیال رکھا ہے۔ نوبت ہی نہیں آئی"۔
اتنی دیر میں اس کے بابا کی گاڑی کی آواز آئی۔ وہ اس کے باوجود دادو کے پاس ہی بیٹھی رہی۔ سعید رحمان خود ہو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور آوازیں دیتے ماں کے کمرے تک چلے آئے۔
" فضہ بیٹا! بابا کی جان تم یہاں ہو اور میں نے سارا گھر چھان مارا"۔
ان کے ماتھے پر پٹی بندھی تھی اور ہاتھ میں اس کی سالگرہ کا تحفہ۔
" بابا! یہ آپ کے سر پر کیا ہوا؟"۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر تحفہ ایک طرف رکھتے ہوئے بابا کے سر پر بندھی پٹی کو چھوتے ہوئے بولی۔ وہ بڑی خوشدلی اور زندہ دلی سے مسکرائے۔
" بابا کی جان! آپ کے لیے تحفہ خرید کر واپس آتے ہوئے راستے میں ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔ میرا ڈیش بورڈ سے سر ٹکرا گیا، وہ تو اللہ کا کرم ہے کہ میرے آفس کے ساتھ میرے ساتھ تھے۔ وہی ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور ناجانے میں کب تک بےہوش رہا۔ گھر اطلاع نہیں کر سکا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ میری بیٹی کی سالگرہ ہے۔خوامخواہ میں بدمزگی ہوتی۔ اب جب ہوش آیا ہے تو وہی مجھے گھر چھوڑ کر واپس چلا گیا ہے"۔
وہ سٹپٹا گئی۔ بابا کے گلے لگ گئی۔" باباجانی! آپ کو کچھ ہوجاتا تو میں جیتے جی مر جاتی"۔ وہ روتے روتے دادو کو دیکھنے لگی، جو اس کی جانب ہی دیکھ رہی تھیں۔ جیسے کہہ رہی ہوں۔" دیکھا پُتر! میں نا کہتی تھی کہ بےوساہی، بے یقینی بڑی ظالم شے ہے، یہ انسان کو کسی کم جوگا نہیں چھوڑتی۔ پر اب تو تجھے یقین آجانا چاہئے"۔
سحرش کلثوم