فاخر
محفلین
تاج محل: حسن کافر شباب کا عالم
افتخاررحمانی ، نئی دہلی
سفرنامہ یا پھر’’روداد سفر‘‘ بہت ہی لکھے گئے اور آئندہ بھی لکھیں جائیں گے ،میری یہ کج مج تحریراس ذیل میں کوئی معنی نہیں رکھتی سوائے یہ کہ قاری کو میں ’’لذت کام و دہن‘‘ کے کام جویانہ ساماں فراہم کروں؛کیوں کہ’’ جویان شاہدوساغر‘‘سے تاریخی معلومات کی امید’’امید خراباں‘‘ ہی ہوگی اور پھر رند وخراب ’’شاہد و ساغر‘‘ کی ہی دعوت دے سکتے ہیں۔ تاج محل کے حسن و جمال سے لذت آشنا ہونے کی آرزو تو بچپن سے ہی تھی؛ لیکن جوں جوں’’شاہد و ساغر‘‘ کا اسیر ہوتا گیا اس آرزو میں دن بہ دن شدت بڑھتی ہی گئی۔ یوں بھی’’حسن و شراب‘‘ کی بد مستی رندوں کو خرابات کا عادی بنا دیتی ہے۔ بہرحال رفیق مکرم مولانا نازش ہما قاسمی رکن ممبئی اردو نیوز کے اصرار پرتاج محل کے دیدار عام کی آرزو ایک بار پھر ’’جواں ‘‘ ہوگئی۔ 18 جولائی2018 کی صبح کے چار بجے اپنی قیام گاہ سے بذریعہ آٹو حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن پہنچا اور5.50پر آگرہ کینٹ تک جانے والی ایک ٹرین پر بیٹھ گیا۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے بیس پچیس منٹ کی تاخیر سے آگرہ کینٹ پہنچی۔ راستہ میں’ پلول‘ اور’ بلبھ گڑھ‘ اسٹیشن بھی آیا، جوحافظ جنید کی جائے شہادت بھی ہے، ایک سال قبل جن کو شرپسند اور زرخرید’ ہجوم‘ نے بے خطا شہید کردیا تھا۔ جب گاڑی اسٹیشن پہنچی تو ایک لمحے کے لیے خون سرد ہوگیا۔ مرحوم حافظ جنید کے لیے استغفاراور بلندئ درجات کی دعا کی۔ جب ٹرین آگرہ کینٹ پہنچی تو میرے میزبان آگرہ شہر کے معروف صحافی جناب اظہر عمری صاحب ہمارے انتظار میں تھے ۔ نہایت ہی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا، پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے اپنا گرویدہ بنالیا،بہت ہی ملنسار اورخوش اخلاق واقع ہوئے۔ ان سے ملاقات کرکے آگرہ اور شہر شاہجہاں کی پرانی تاریخ و روایت تازہ ہوگئی۔ انہوں نے اولا(OLA) کیب کے ذریعہ اپنے دولت کدہ پر لے گئے ؛چوں کہ وہ موٹر سائیکل سے آئے تھے اور ہم دوافراد تھے۔ ان کا دولت کدہ یا پھر نانیہال معروف شاعر حضرت نظیر اکبرآبادی کے محلہ میں واقع ہے، یہیں حضرت نظیراکبر آبادی کا مزار بھی ہے۔ جناب اظہر عمری صاحب نوجوان صحافی ہیں، تازہ دم اور باہمت ہیں، ان کی تعلیم عصری اداروں میں ہوئی؛ لیکن اردو سے محبت دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ان کا خاندان کئی پشتوں سے آگرہ میں آباد ہے۔ وہ جزوقتی صحافت کے ساتھ ساتھ ایک تعلیمی ادارہ بھی چلاتے ہیں،جہاں غریب بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ بھی ہمارے لیے خوش نصیبی کی بات تھی کہ انہوں نے بتایا کہ وہ ایٹہ کے زمیندار پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں(واضح ہو کہ مجھے پٹھانوں سے یک گونہ قدرتی لگاؤ ہے) گویا کہ ہم دو قدیم تاریخ و روایت کے امین سے روبرو تھے اور ہماری خوش بختی یہ تھی کہ ہم ان کے مہمان تھے اوروہ ہمارے میزبان و کرم فرما تھے۔ ان کے بقول :ان ہی کی تگ و دو اورکدو کاوش سے روزنامہ’انقلاب‘ کے آگرہ ایڈیشن کی اشاعت ممکن ہوسکی ہے ،وہ محنتی اور دیانت دار صحافی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی خدمت لیتا رہے آمین۔ اپنے دولت کدہ واقع ملکو گلی،تاج گنج لے گئے۔ اپنے ناناجان الحاج حافظ ضمیر احمد خان سلیمیؔ ، سجادہ نشیں درگاہ حضرت سلیم اللہ شاہ نگلہ میواتی ، تاج گنج ، آگرہ سے ملاقات بھی کرائی ، ان کے نانا محترم پیرانہ سال ہیں ؛ لیکن بارعب چہرہ اور وقار و تمکنت کے شہنشاہ تھے ۔ وہ کم گو تھے ،مگران کا چہرہ وقار و سکینت کا آئینہ تھا۔ان کی شخصیت مسحور کن اور جاذب نظرتھی۔ ان کے دولت کدہ پر چائے ناشتہ سے فراغت ہوئی۔ ماشاءاللہ نہایت ہی اخلاص اور اخلاق سے انہوں نے ضیافت کا حق ادا کیا، گویا معلوم ہوتا تھا کہ قدیم آگرہ یا پھر اکبرآباد کی روایت ہماری نظروں کے سامنے رقصاں ہے اور ہم شاہجہانی دور میں آگئے ہیں۔ چائے ناشتہ سے جلد ہی فارغ ہوگئے؛ کیوں کہ ہمارے دلوں میں شاہجہاں کی محبت کی نشانی اور حسن کامل کی ’’دید‘‘ کا شوق فراواں تھا اور ہمارے پاس وقت کی قلت بھی تھی۔
نظیر اکبر آبادی کے مزار کی زیارت اور فاتحہ خوانی :
ہم اپنے میزبان اظہر عمری صاحب کی معیت میں ان کے دولت کدہ سے نکلے ، اولاً تو انہوں نے حضرت نظیر اکبرآبادی کے مزار کی زیارت کروائی، حضرت نظیر اکبر آباد ی کا مزار اسی محلہ ملکو گلی، تاج گنج میں واقع ہے۔ پہلے دیکھ کر یہ محسوس نہ ہوسکا کہ یہ مزار جو خستہ حال ہے صوفی منش، بے ریا، اور بے ضررشاعر دانا حضرت نظیر اکبرآبادی کا مزار اوراس کا احاطہ ہے۔ مزار کے اوپر ٹین کی ایک خستہ اور بوسیدہ چھت(شیڈ) ڈال دی گئی ہے۔عمری صاحب نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا کہ یہ نظیراکبرآبادی کا مزار ہے۔ یہ سن کر کچھ دیر کے لیے سکتہ سا طاری رہا کہ یہ نظیراکبرآبادی کا مزار اور اس کی یہ حالت ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ لپک کر ازراہ عقیدت مزار پرگیا، فاتحہ خوانی کی۔ حضرت نظیر اکبر آبادی کے مزار سے متصل اوربھی قبریں ہیں، میرے میزبان نے اس کے متعلق وضاحت نہیں کی کہ یہ صاحب قبر کون ہیں۔ تاہم گمان یہی ہے کہ یہ قبریں ان کے خاندان اورمتعلقین کی ہوں گی۔ مزار کی خستہ حالت دیکھ بہت مغموم ہوا کہ اللہ اللہ ! اتنا عظیم شاعر اوران کے مزار کی یہ حالت! مزار اپنی خستہ حالی کی خاموش زبان سے ان کی مشہور نظم ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ‘‘ کی مجسم تصویر تھا ۔ نظیر اکبر آبادی کی شہرہ آفاق نظم کا پہلا بند پھر پڑھ لیں، ممکن ہے کہ ان کے مزار کی خستہ حالی کا ادراک ہوسکے ؎
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ان کی یہ نظم ان کے مزار کی خستہ حالی بیان کررہی تھی، رنج تو بہت ہوا کہ اتنا عظیم شاعرکہ جن کا ہم پلہ ان کے دور کا کوئی شاعر نہیں تھا، ان کے مزار کی یہ حالت اردو والوں کے لیے تازیانہ ہے۔ مزار کی یہ خستہ حالی اپنوں کی بیزاری کی وجہ سے ہے ،ورنہ مخیرین آگرہ اور اہل ثروت اگر چاہیں تو کم از کم نظیر اکبرآبادی کی شایان شان مزار کی مرمت اور تزئین کاری ہوسکتی ہے۔ سب کچھ کے لیے ہم غیر کے اقتدارپربھروسہ نہیں کرسکتے۔ نظیراکبرآبادی صوفی منش شاعر تھے، دنیا سے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار بعدمرگ بھی ان کے مزار کی حالت زار سے ہوتا ہے کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ فاتحہ خوانی کے بعد تاج محل کی طرف بڑھ رہے تھے؛لیکن ہونٹ پر بار بار’’ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لا د چلے گا بنجارہ ‘‘مصرعہ گردش کررہا تھا۔
تاج محل کے احاطہ میں :
یوں تو تاج محل کی تصاویر اور ویڈیوکو ہر ایک ہندوستانی نے دیکھا ہو گا۔ کسی نے محبت کی نگاہوں سے دیکھا ہوگا تو کسی سیاہ رو نے نفرت کی نگاہوں سے بھی دیکھا ہوگا۔ الغرض اس کے حدود اربعہ یا متعلقہ دیگر تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاج محل جو بھی ہے، بس اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہم لوگ داخلی دروازے سے تاج محل کے احاطہ میں داخل ہوئے، چیکنگ کے مراحل بآسانی میزبان و کرم فرما اظہر عمری صاحب کے توسط سے پورے ہوئے ۔ میری پہلی نظر تاج محل کے اندرونی داخلی دروازے پر پڑی، ایک لمحہ کیلئے تصورات نے کئی جہان کی سیر کرلیے،کبھی شاہجہاں اور خرم شاہ کا وہ با رعب دربار نظر آیا جہاں رعیت کو دم مارنے کی بھی اجازت نہیں تھی، کبھی یہ محسوس ہوا کہ نگاہوں کے سامنے اسلامی فنون لطیفہ کا مکمل شاہکار محبت کی نگاہوں سے ہمارا استقبال کررہا ہے۔ حتیٰ کہ وجدان کی یہ بھی کیفیت رہی ہے کہ’’ نگار و خدائے حسن‘‘ خود یہاں آکر بانہیں پھیلائے مسکراتے ہوئے استقبال کررہا ہے۔ لیکن حقیقت حال تو یہ تھی کہ یہ دروازہ شکوہ اسلامی کا منھ بولتا گواہ تھا جس کو ہم نے اور برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی ابلہی، نادانی، جہل، غفلت اور حماقت کی وجہ سے اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ آج ہم ہیں اور ہماری یہ عظیم وراثتیں ہیں جو ہمارے لیے ’تازیانہ‘ ہیں۔ ہم ان کے لیے غیر ہیں تو یہ پرشکوہ عمارتیں اور آبائی وراثتیں بزبان حال ہمیں اپنا تسلیم کرکے بھی شرمسارہیں۔ خواہ وہ لال قلعہ ہودہلی کی جامع مسجد ہو، فتح پور سیکری کی عمارت ہی کیوں نہ ہو، یا پھر تاج محل کا بے مثال حسن و شباب ہی ہو، ہمارے لیے یہ سبھی تازیانے ہیں تو ہم بھی ان کے لیے ذلت و خواری کے سبب ہیں۔ اقبالؔ نے اسی غم میں مبتلاہو کر کہا تھا ’’ ثریا نے زمیں پر آسماں سے ہم کو دے مارا ‘‘۔ جس قوم کا ماضی فراموش کردیا جائے، وہ قوم ازخود ذلت و خواری کی موت مر جاتی ہے اور ہمارے ساتھ ہندوستان میں یہی سب کچھ ہورہا ہے، جس کے ہم خود ذم دار ہیں۔ چند ثانیے میں نہ جانے کس کس دنیا کی سیر کرنے لگا، اس کا احساس بھی نہ ہوسکا جب کہ ہمیں تو تاج محل کے حسن کا دیدارعام کرنا تھا۔ داخلی دروازے پر سورۃ التکویر خط ثلث میں کندہ تھی۔ جو اس کے حسن میں مزید اضافہ کررہا تھا۔ دروازہ کیا تھا یہ بس محسوس کیا جاسکتا ہے۔ فن اسلامی اور فنون لطیفہ کا عظیم شاہکار تھا۔ جوگردش ایام، اقتدار، عظمت رفتہ اور کئی صدیوں کے نشیب و فراز کا گواہ تھا۔ جاذبیت اور حسن تو اس کے ہر بن مو سے ٹپک رہا تھا؛ لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کررہا تھا کہ’’ تم میرے ہو کربھی اب غیر ہو گئے ہو‘‘ ۔ وہاں غیر ملکی سیاح بھی تھے، میں بھی تھا اورمیرے عزیز دوست نازش ہما قاسمی بھی تھے۔ نہ تو میرے پاس کو ئی جواب تھا اور نہ ہی اس دور میں کسی کے پاس کوئی جواب ہو سکتا ہے۔ بس ایک پراسرار خاموشی تھی اور یہی خاموشی بہت کچھ بیان کررہی تھی۔ اس کی بلندی کے سامنے ہماری گردنیں خم تھیں اور ہماری خم گردنیں خاموش سوال کا خاموش جواب تھیں۔ زبان گنگ تھی اور ہم اسی کیفیت وعالم میں سرجھکائے’ شرمسار‘ دروازے سے داخل ہوگئے اور تاج محل کا یہ داخلی دروازہ خاموش نظر محبت سے دیکھتا ہوا اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔
حسن کی شررخیزی اور ہم :
داخلی دروازے سے داخل ہوئے توچارسے پانچ صدی گزر جانے کے بعد بھی ہر طرف سے ادراک و احساس نے جاہ وسطوت ، شان وشوکت ، افتخار وعظمت اورعزت وجلالت کی جلوہ گری اور اس کا وجود محسوس کیا۔ قدم شرم اور ندامت سے بوجھل تھا ایک قدم اٹھاتا تو ندامت کے احساس سے دو قدم ازخود پیچھے ہٹ جاتا تھا؛ لیکن حسن تماشہ گرکی رستخیزی اور اس کی مستی بھی تھی جو ہمیں کھینچے لئے جارہی تھی ۔ شاہانہ سطوت کے مظہر سے دس سے پانچ قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ بس حسن کی شررخیزی،افتادگی اور تجلی و جلوہ گری نے ہماری نگاہوں کو خیرہ کرڈالا ۔ اللہ اللہ! یہی حسن ہے جس کا ہر شخص دیوانہ ہے۔ مبہوت ، دم بخود پلک جھپکائے اسے یوںدیکھ رہا تھا گویا کائنات کاتمام حسن اس میں سمٹ آیا ہو بقول حضرت جگر مرادآبادی ؎
حسن کافر شباب کا عالم
سر سے پا تک شراب کا عالم
عرق آلود چہرۂ تاباں
شبنم و آفتاب کا عالم
وہ مری عرض شوق بے حد پر
کچھ حیا کچھ عتاب کا عالم
اللہ اللہ وہ امتزاج لطیف
شوخیوں میں حجاب کا عالم
۔جمیل ملک نے بھی تاج محل کے حسن کی ناکام تشبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ؎
کتنے ہاتھوں نے تراشے یہ حسیں تاج محل
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے
کبھی گنبد و محراب کو تکتا تو کبھی اپنے دل میں نہاں اس بت کو محسوس کرتا کہ جس نے ’’شاہد و ساغر‘‘ کا اسیر بنا دیا تھا، خود سےسوال کرتا کہ’’ چہ تفاوت است دریں شاہکار خالق ومخلوق‘‘۔ ایک طرف تو حافظؔ ، مولاناؔاورسعدیؔ کی وارفتگی میں ڈوب کر کہی جانے والی غزلیات اور اس کی سرمستیاں تھیں،تصور میں ’خواجہ مہوش ، ترک شیرازی، خال مشکیں اور خدائے حسن ‘جیسی اصطلاحات جن کو خالق کی صناعی و قدرت پر فریفتہ ہوکروضع کی گئی تھیں، گردش کر رہی تھیں تو دوسری طرف ہندوستانی شاعروں کی شعرگوئی بھی تھی۔ حافظؔ و مولاناؔ کی قصیدہ خوانی اس تاج محل کے لیے تھی جو خالق کا شاہکار تھا؛ لیکن ہندوستانی شاعروں کی قصیدہ خوانی مخلوق کے شاہکار کی تعریف و ثناخوانی میں تھی ۔ تاج محل کا تصور یوں تو ایرانی حسن پرستی اور نفاست کا کرشمہ تھا ،جسے عیسیٰ آفندی نے مرتب کرکے ایران سے بھیجا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نقشہ خود شاہجہاں نے مرتب کیا تھا، اس میں کوئی بعید نہیں؛ کیوں کہ خود شاہجہاں بھی لطافت وحسن کا خوگراور دلدادہ تھا۔ ہم گنبد و محراب کی طرف بڑھ نہیں رہے تھے ؛ بلکہ تاج محل کا’ حسن کرشمہ ساز ‘ہمیں اپنے طرف کھینچ رہا تھا۔ تاج محل کے صحن میں جواب نئی اصطلاح میں’ لان ‘بن چکا ہے، میں ہم داخل ہوچکے تھے۔ اس میں حوض ہے اور فوارے بھی لگے ہیں یہ فوارے آج نہیں لگائے گئے؛ بلکہ شاہجہانی دور میں ہی لگائے گئے تھے۔ داخلی دروازہ پر کھڑے ہو کر تاج محل کے حسن کا دیداریوں لگتا ہے گویا خالق ازل کی بنائی ہوئی جنت کا کوئی ٹکرا اس زمین پر اتاردیا گیا ہو۔ فواروں میں ابلتے ہوئے پانی کے بلبلوں کے پس منظر میں مرمریں خدوخال کا تاج محل کیف و کم کی نئی دنیا آباد کرتا ہے۔ تاج محل کا پرکشش حسن ہی تھا کہ صحن میں بغیر قدم روکے اس کے قریب بالکل چلے گئے اور ان بلبلوں کو درخور اعتناء سمجھ بیٹھا؛ کیوں کے ان بلبلوں سے آگے حسن و جمال کی عظیم شاہکار ہمارے استقبال میں خاموش کھڑا تھا۔ گویا شاہد و نگاروصل کی کام جوئیوں کی دعوت دے رہا ہواورہم بھی اس کی جستجو میں تڑپ تڑپ کر جاں بلب ہوگئے ہوں۔ یہ حسن کی کشش ہی تھی کہ قرب گویا لمس و احساس کے لذت آگیں سرور سے ہم عنان ہوگئے۔
حافظؔ کی شاعری کا ادبیات فارسی میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ حافظؔ کی کرامت ہی تھی کہ ان کی غزلیں مے خانہ میں بھی پڑھی گئیں تو خانقاہوں میں بھی جھوم جھوم کر؛ بلکہ وجد کے عالم میں پڑھیں اورسنی بھی گئیں۔ ’’چو با حبیب نشینی و بادہ پیمائی ، بیاد دار محبان باد پیما را‘‘ کی تعبیرات کو نہ جانے رند و زہد نے کس کس انداز میں جھوم کر رقص کرکے پڑھاوہ الگ کہانی ہے۔ ترک شیرازی،خواجہ مہوش اور خال مشکیں کی اصطلاح نے نہ جانے کتنوں کے ایمان کو بگاڑا اور سنوارا یہ بھی طرفہ فسانہ ہے۔ جب تاج محل پر پہلی نظر پڑی تو وجدان نے یکلخت پکار کر کہا اگر حافظؔ نے تاج محل کادیدارکرلیا ہوتا تواپنے’خال مشکیں‘ پرسمرقند وبخارا نذرکرکے فرط عشق میں تاج محل کوبھی نذر کر بیٹھتے ۔ حافظؔ نے اپنے شاہد اور’ترک شیرازی‘ کو خطاب کرکے فرط محبت میں کہا تھا ؎
اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
یہ حافظؔ کی بیقراری ہی تھی شاہد وخواجہ (محبوب) کی گلیوں کی خاک بوسی کا بھی عزم کرلیا تھا ؎
اے شہنشاہِ بلنداختر خدا را ہمتے
تا ببوسم ہمچو اختر خاک ایوان شما
اب سال و ماہ کے ساتھ تاریخ کی ورق گردانی بھی کرنی پڑے گی کہ حافظؔ کی سماعت سے تاج محل کے حسن شرربار کے قصے ٹکرائے تھے یا نہیں؛ لیکن کچھ بعید نہیں کہ وہ تاج محل کو بھی اپنے ترک شیرازی پر نثار کربیٹھتے؛ کیوں کہ تاج محل ایران کی حسن شناس نظروں کا نتیجہ ہے ۔ میں تاج محل کے قریب کھڑا سوچوں میں گم تھا۔ کبھی حسن وغمزہ کی کیفیت حائل ہوجاتی تو کبھی وصل کی لذت آشنائی ہوتی ۔ وصل کی لذت آشنائی سے سرشار ہوکر بھی ہم تشنہ کام ہی رہیں کہ باربار یہی تمنا عود کرآتی کہ ’’از لبت صہبا و ساغر می خورم‘ ،لیکن یہ تصورات کی جلوہ فروشی ہی تھی۔ زینوں سے چڑھ کرہم بالائی منزل پر پہنچے تو وصل کی تمام حسیں اور تیقین کے تمام مزعومات یکلخت بیدا رہوگئے۔ کبھی ہم اپنے دل میں چھپے اس بت کو دیکھتے تو کبھی شاہکار حسن تاج محل کو تکتے ۔ کئی یادیں اور کئی چہرے تھے جو تصورات میں ’’وا‘‘ ہوگئے تھے ۔بقول جمیل ملک ؎
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے
جذب و کیف کے عالم میں تاج محل کے گنبد کا ’’طواف‘‘کررہا تھا کہ یکایک جمنا اور تاج محل کے گنبد سے متعلق وہ حسین اور لازوال منظر بھی سامنے آگیا، جہاں کے حسین اور دلفریب منظرکا نقشہ مولانا آزاد نے’’غبارخاطر‘‘ میں کھینچا ہے۔ عقب میں جمنا ہے اور پھر اس کے اوپر تاج محل کے حسیں گنبد کا مرمریں و بہشتی خدوخال کہ کیف و ساز اور تصور وگمان کی تمام سرحدیں سوا ہوجائیں۔ اس گنبد کے چاروں طرف سورہ یاسین خط ثلث میں مرصع کی گئی ہے۔ ایک بارمولانا آزاد چاندنی رات میں ہارمونیم کے ساتھ تاج محل کے مغربی حصہ کے اس مقام پر جا بیٹھے اورساز چھیڑدیا تھاجہاں سے جمنا کی اٹھلاتی ہوئی جوانی اور بل کھاتی موجیں رواں تھیں۔ نگاہوں کے سامنے تاج محل کا عریاں خدوخال چودھویں کے چاند میں رقصاں تھا، انگلیاں ساز بجانے میں تھیں اور زبان پر مچلتی ہوئی حافظ یا مولانا روم کی کوئی شوخ غزل وجد وعرفان کو عالم بالا کی سیرکرارہی تھی۔ کیف ووجدان کا عالم تھا کہ مولانا آزادؔ خود کو سنبھال نہ سکے اور پوری رات اسی ’’خرابی شب ‘‘ میں گزار دی تھی۔ میں بھی اس جگہ کھڑاہوکراس لذت خرابات کو محسوس بھی کیا۔ یہ صدقہ خواجہ ہی تھا کہ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بھی چاندنی رات کی ’شب کاری‘ اور مولانا آزاد کی’ نواسازی‘ محسوس کررہا تھا ورنہ تو تصور و تیقین اتنا قوی نہیں کہ صدیوں گزرے ان واقعات کو محسوس کیا جاسکے ۔اور پھر حافظؔ کی زبان میں اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے ؎
شاہد آں نیست کہ موئے و میانی دارد
بندہ طلعت آں باش کہ آنی دارد
اردو شاعروں سے شکوہ:
تقریباًاسی عالم کیف و وجد میں دیوانہ وار؛ بلکہ ایک عاشق زار کی طرح تاج محل سے چپکے رہیں۔ تاج محل یوں تو محبت کی نشانی ہے، حسن و غمزہ کا استعارہ ہے؛ لیکن اردو کے شاعروں کی بد ذوقی کہہ لیں کہ اس سے حسن و تابانی کے استعارے مستعار لینے کے بجائے اکثر نے طعنہ ہی د ینا مناسب سمجھا ہے۔ اس ذیل میں سچی بات تو یہی ہے کہ اردو کے شاعروں نے تاج محل کو ایک رقیب کی حاسدانہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔ جب کہ تاج محل کی یہ شان تھی ہی نہیں کہ اس کو رقبیانہ حسد سے دیکھا جائے۔ اس کے حسن کی پرستش اگر نہیں کی جاسکتی ہے تو پھر اسے مطعون بھی نہیں کیاجاسکتا۔ کئی شعراء بشمول سیماب اکبرآبادی نے اس ذیل میں اپنے اعلیٰ ذوق کا ثبوت پیش کیا ہے تو وہیں ساحرلدھیانوی نے ’’ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر- ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘‘ کہہ کر طعنہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اگر ایرانی جن کو حسن شناسی کی خاص صلاحیت خدا نے بخشی ہے، ان کے یہاں یہی تاج محل ہوتا توپھراس کے حسن وغمزہ کے ایسے ایسے استعارات تخلیق کئے جاتے اورایسی ایسی تشتبیہات وجود میں آتیں کہ خود تاج محل کو بھی اپنے حسن پر رشک آجاتا۔ دھوپ سر پر تھی، دن کے تقریبا دو بجنے والے تھے ہمیں دہلی بھی واپس آنا تھا، بڑی منت ولجاجت کے ساتھ نگاہوں ہی نگاہوں میں شاہکار حسن و خرابات سے اجازت لی اس وعدہ کے ساتھ کہ پھر وصل و قرب کی فرحت آگیں شامیں گزاری جائیں گی۔ میرے رفیق محترم اظہر عمری نے ایک ٹوٹکہ تاج محل سے لوٹتے ہوئے بتایا تھا۔ انہوں نے کہاکہ’ سنا ہے کہ جب واپس ہوتے ہوئے تاج محل پر ایک (محبت بھری الوداعی)نظرڈال لیتا ہے تو وہ پھر دوبارہ تاج محل کی زیارت کے لیے آتا ہے، گویا حسن کی خیرات ہوتی ہے اور وہ پھر تاج محل کو دیکھنے آتا ہے ۔ میں نے الوداعی نظر ڈالتے ہوئے اس کے وجود کو نگاہوں کے رستے دل میں اتار لیا اس امید موہوم کے ساتھ کہ مبادا پھر ہمیں اس کے حسن و اشارت اور غمزہ و تغافل کی دید کا موقعہ ملے گا۔ بقول شخصے ؎
تو نظر باز نہ ورنہ تغافل نگہہ است
تو سخن شناس نہ ورنہ خموشی سخن است
ہم لوگوں نے قریب کے ہی ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا اوراسٹیشن آگئے، محترم اظہر عمری صاحب کے ساتھ محترم نازش ہما قاسمی کے فیس بکی مداح بھی ہمیں چھوڑنے کے لیے اسٹیشن تک آئے ہوئے تھے۔ تقریبا ہماری ٹرین 3.30کے قریب آگرہ پہنچی، ٹرین پر بیٹھے اور دہلی تقریبا رات کے نو بجے کے قریب آگئے، تاج محل کو دیکھ تو آئے؛ لیکن تشنگی دل میں کہیں باقی رہ گئی ؛لیکن امید ہے کہ پھر جام و سبو، حسن و خرابات کے جرعہ حیات ایک ساتھ میسر ہوں گے۔ بقول حضرت جگر مرادآبادی ؎
دل مطرب سمجھ سکے شاید
اک شکستہ رباب کا عالم
افتخاررحمانی ، نئی دہلی
سفرنامہ یا پھر’’روداد سفر‘‘ بہت ہی لکھے گئے اور آئندہ بھی لکھیں جائیں گے ،میری یہ کج مج تحریراس ذیل میں کوئی معنی نہیں رکھتی سوائے یہ کہ قاری کو میں ’’لذت کام و دہن‘‘ کے کام جویانہ ساماں فراہم کروں؛کیوں کہ’’ جویان شاہدوساغر‘‘سے تاریخی معلومات کی امید’’امید خراباں‘‘ ہی ہوگی اور پھر رند وخراب ’’شاہد و ساغر‘‘ کی ہی دعوت دے سکتے ہیں۔ تاج محل کے حسن و جمال سے لذت آشنا ہونے کی آرزو تو بچپن سے ہی تھی؛ لیکن جوں جوں’’شاہد و ساغر‘‘ کا اسیر ہوتا گیا اس آرزو میں دن بہ دن شدت بڑھتی ہی گئی۔ یوں بھی’’حسن و شراب‘‘ کی بد مستی رندوں کو خرابات کا عادی بنا دیتی ہے۔ بہرحال رفیق مکرم مولانا نازش ہما قاسمی رکن ممبئی اردو نیوز کے اصرار پرتاج محل کے دیدار عام کی آرزو ایک بار پھر ’’جواں ‘‘ ہوگئی۔ 18 جولائی2018 کی صبح کے چار بجے اپنی قیام گاہ سے بذریعہ آٹو حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن پہنچا اور5.50پر آگرہ کینٹ تک جانے والی ایک ٹرین پر بیٹھ گیا۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے بیس پچیس منٹ کی تاخیر سے آگرہ کینٹ پہنچی۔ راستہ میں’ پلول‘ اور’ بلبھ گڑھ‘ اسٹیشن بھی آیا، جوحافظ جنید کی جائے شہادت بھی ہے، ایک سال قبل جن کو شرپسند اور زرخرید’ ہجوم‘ نے بے خطا شہید کردیا تھا۔ جب گاڑی اسٹیشن پہنچی تو ایک لمحے کے لیے خون سرد ہوگیا۔ مرحوم حافظ جنید کے لیے استغفاراور بلندئ درجات کی دعا کی۔ جب ٹرین آگرہ کینٹ پہنچی تو میرے میزبان آگرہ شہر کے معروف صحافی جناب اظہر عمری صاحب ہمارے انتظار میں تھے ۔ نہایت ہی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا، پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے اپنا گرویدہ بنالیا،بہت ہی ملنسار اورخوش اخلاق واقع ہوئے۔ ان سے ملاقات کرکے آگرہ اور شہر شاہجہاں کی پرانی تاریخ و روایت تازہ ہوگئی۔ انہوں نے اولا(OLA) کیب کے ذریعہ اپنے دولت کدہ پر لے گئے ؛چوں کہ وہ موٹر سائیکل سے آئے تھے اور ہم دوافراد تھے۔ ان کا دولت کدہ یا پھر نانیہال معروف شاعر حضرت نظیر اکبرآبادی کے محلہ میں واقع ہے، یہیں حضرت نظیراکبر آبادی کا مزار بھی ہے۔ جناب اظہر عمری صاحب نوجوان صحافی ہیں، تازہ دم اور باہمت ہیں، ان کی تعلیم عصری اداروں میں ہوئی؛ لیکن اردو سے محبت دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ان کا خاندان کئی پشتوں سے آگرہ میں آباد ہے۔ وہ جزوقتی صحافت کے ساتھ ساتھ ایک تعلیمی ادارہ بھی چلاتے ہیں،جہاں غریب بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ بھی ہمارے لیے خوش نصیبی کی بات تھی کہ انہوں نے بتایا کہ وہ ایٹہ کے زمیندار پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں(واضح ہو کہ مجھے پٹھانوں سے یک گونہ قدرتی لگاؤ ہے) گویا کہ ہم دو قدیم تاریخ و روایت کے امین سے روبرو تھے اور ہماری خوش بختی یہ تھی کہ ہم ان کے مہمان تھے اوروہ ہمارے میزبان و کرم فرما تھے۔ ان کے بقول :ان ہی کی تگ و دو اورکدو کاوش سے روزنامہ’انقلاب‘ کے آگرہ ایڈیشن کی اشاعت ممکن ہوسکی ہے ،وہ محنتی اور دیانت دار صحافی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی خدمت لیتا رہے آمین۔ اپنے دولت کدہ واقع ملکو گلی،تاج گنج لے گئے۔ اپنے ناناجان الحاج حافظ ضمیر احمد خان سلیمیؔ ، سجادہ نشیں درگاہ حضرت سلیم اللہ شاہ نگلہ میواتی ، تاج گنج ، آگرہ سے ملاقات بھی کرائی ، ان کے نانا محترم پیرانہ سال ہیں ؛ لیکن بارعب چہرہ اور وقار و تمکنت کے شہنشاہ تھے ۔ وہ کم گو تھے ،مگران کا چہرہ وقار و سکینت کا آئینہ تھا۔ان کی شخصیت مسحور کن اور جاذب نظرتھی۔ ان کے دولت کدہ پر چائے ناشتہ سے فراغت ہوئی۔ ماشاءاللہ نہایت ہی اخلاص اور اخلاق سے انہوں نے ضیافت کا حق ادا کیا، گویا معلوم ہوتا تھا کہ قدیم آگرہ یا پھر اکبرآباد کی روایت ہماری نظروں کے سامنے رقصاں ہے اور ہم شاہجہانی دور میں آگئے ہیں۔ چائے ناشتہ سے جلد ہی فارغ ہوگئے؛ کیوں کہ ہمارے دلوں میں شاہجہاں کی محبت کی نشانی اور حسن کامل کی ’’دید‘‘ کا شوق فراواں تھا اور ہمارے پاس وقت کی قلت بھی تھی۔
نظیر اکبر آبادی کے مزار کی زیارت اور فاتحہ خوانی :
ہم اپنے میزبان اظہر عمری صاحب کی معیت میں ان کے دولت کدہ سے نکلے ، اولاً تو انہوں نے حضرت نظیر اکبرآبادی کے مزار کی زیارت کروائی، حضرت نظیر اکبر آباد ی کا مزار اسی محلہ ملکو گلی، تاج گنج میں واقع ہے۔ پہلے دیکھ کر یہ محسوس نہ ہوسکا کہ یہ مزار جو خستہ حال ہے صوفی منش، بے ریا، اور بے ضررشاعر دانا حضرت نظیر اکبرآبادی کا مزار اوراس کا احاطہ ہے۔ مزار کے اوپر ٹین کی ایک خستہ اور بوسیدہ چھت(شیڈ) ڈال دی گئی ہے۔عمری صاحب نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا کہ یہ نظیراکبرآبادی کا مزار ہے۔ یہ سن کر کچھ دیر کے لیے سکتہ سا طاری رہا کہ یہ نظیراکبرآبادی کا مزار اور اس کی یہ حالت ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ لپک کر ازراہ عقیدت مزار پرگیا، فاتحہ خوانی کی۔ حضرت نظیر اکبر آبادی کے مزار سے متصل اوربھی قبریں ہیں، میرے میزبان نے اس کے متعلق وضاحت نہیں کی کہ یہ صاحب قبر کون ہیں۔ تاہم گمان یہی ہے کہ یہ قبریں ان کے خاندان اورمتعلقین کی ہوں گی۔ مزار کی خستہ حالت دیکھ بہت مغموم ہوا کہ اللہ اللہ ! اتنا عظیم شاعر اوران کے مزار کی یہ حالت! مزار اپنی خستہ حالی کی خاموش زبان سے ان کی مشہور نظم ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ‘‘ کی مجسم تصویر تھا ۔ نظیر اکبر آبادی کی شہرہ آفاق نظم کا پہلا بند پھر پڑھ لیں، ممکن ہے کہ ان کے مزار کی خستہ حالی کا ادراک ہوسکے ؎
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ان کی یہ نظم ان کے مزار کی خستہ حالی بیان کررہی تھی، رنج تو بہت ہوا کہ اتنا عظیم شاعرکہ جن کا ہم پلہ ان کے دور کا کوئی شاعر نہیں تھا، ان کے مزار کی یہ حالت اردو والوں کے لیے تازیانہ ہے۔ مزار کی یہ خستہ حالی اپنوں کی بیزاری کی وجہ سے ہے ،ورنہ مخیرین آگرہ اور اہل ثروت اگر چاہیں تو کم از کم نظیر اکبرآبادی کی شایان شان مزار کی مرمت اور تزئین کاری ہوسکتی ہے۔ سب کچھ کے لیے ہم غیر کے اقتدارپربھروسہ نہیں کرسکتے۔ نظیراکبرآبادی صوفی منش شاعر تھے، دنیا سے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار بعدمرگ بھی ان کے مزار کی حالت زار سے ہوتا ہے کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ فاتحہ خوانی کے بعد تاج محل کی طرف بڑھ رہے تھے؛لیکن ہونٹ پر بار بار’’ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لا د چلے گا بنجارہ ‘‘مصرعہ گردش کررہا تھا۔
تاج محل کے احاطہ میں :
یوں تو تاج محل کی تصاویر اور ویڈیوکو ہر ایک ہندوستانی نے دیکھا ہو گا۔ کسی نے محبت کی نگاہوں سے دیکھا ہوگا تو کسی سیاہ رو نے نفرت کی نگاہوں سے بھی دیکھا ہوگا۔ الغرض اس کے حدود اربعہ یا متعلقہ دیگر تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاج محل جو بھی ہے، بس اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہم لوگ داخلی دروازے سے تاج محل کے احاطہ میں داخل ہوئے، چیکنگ کے مراحل بآسانی میزبان و کرم فرما اظہر عمری صاحب کے توسط سے پورے ہوئے ۔ میری پہلی نظر تاج محل کے اندرونی داخلی دروازے پر پڑی، ایک لمحہ کیلئے تصورات نے کئی جہان کی سیر کرلیے،کبھی شاہجہاں اور خرم شاہ کا وہ با رعب دربار نظر آیا جہاں رعیت کو دم مارنے کی بھی اجازت نہیں تھی، کبھی یہ محسوس ہوا کہ نگاہوں کے سامنے اسلامی فنون لطیفہ کا مکمل شاہکار محبت کی نگاہوں سے ہمارا استقبال کررہا ہے۔ حتیٰ کہ وجدان کی یہ بھی کیفیت رہی ہے کہ’’ نگار و خدائے حسن‘‘ خود یہاں آکر بانہیں پھیلائے مسکراتے ہوئے استقبال کررہا ہے۔ لیکن حقیقت حال تو یہ تھی کہ یہ دروازہ شکوہ اسلامی کا منھ بولتا گواہ تھا جس کو ہم نے اور برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی ابلہی، نادانی، جہل، غفلت اور حماقت کی وجہ سے اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ آج ہم ہیں اور ہماری یہ عظیم وراثتیں ہیں جو ہمارے لیے ’تازیانہ‘ ہیں۔ ہم ان کے لیے غیر ہیں تو یہ پرشکوہ عمارتیں اور آبائی وراثتیں بزبان حال ہمیں اپنا تسلیم کرکے بھی شرمسارہیں۔ خواہ وہ لال قلعہ ہودہلی کی جامع مسجد ہو، فتح پور سیکری کی عمارت ہی کیوں نہ ہو، یا پھر تاج محل کا بے مثال حسن و شباب ہی ہو، ہمارے لیے یہ سبھی تازیانے ہیں تو ہم بھی ان کے لیے ذلت و خواری کے سبب ہیں۔ اقبالؔ نے اسی غم میں مبتلاہو کر کہا تھا ’’ ثریا نے زمیں پر آسماں سے ہم کو دے مارا ‘‘۔ جس قوم کا ماضی فراموش کردیا جائے، وہ قوم ازخود ذلت و خواری کی موت مر جاتی ہے اور ہمارے ساتھ ہندوستان میں یہی سب کچھ ہورہا ہے، جس کے ہم خود ذم دار ہیں۔ چند ثانیے میں نہ جانے کس کس دنیا کی سیر کرنے لگا، اس کا احساس بھی نہ ہوسکا جب کہ ہمیں تو تاج محل کے حسن کا دیدارعام کرنا تھا۔ داخلی دروازے پر سورۃ التکویر خط ثلث میں کندہ تھی۔ جو اس کے حسن میں مزید اضافہ کررہا تھا۔ دروازہ کیا تھا یہ بس محسوس کیا جاسکتا ہے۔ فن اسلامی اور فنون لطیفہ کا عظیم شاہکار تھا۔ جوگردش ایام، اقتدار، عظمت رفتہ اور کئی صدیوں کے نشیب و فراز کا گواہ تھا۔ جاذبیت اور حسن تو اس کے ہر بن مو سے ٹپک رہا تھا؛ لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کررہا تھا کہ’’ تم میرے ہو کربھی اب غیر ہو گئے ہو‘‘ ۔ وہاں غیر ملکی سیاح بھی تھے، میں بھی تھا اورمیرے عزیز دوست نازش ہما قاسمی بھی تھے۔ نہ تو میرے پاس کو ئی جواب تھا اور نہ ہی اس دور میں کسی کے پاس کوئی جواب ہو سکتا ہے۔ بس ایک پراسرار خاموشی تھی اور یہی خاموشی بہت کچھ بیان کررہی تھی۔ اس کی بلندی کے سامنے ہماری گردنیں خم تھیں اور ہماری خم گردنیں خاموش سوال کا خاموش جواب تھیں۔ زبان گنگ تھی اور ہم اسی کیفیت وعالم میں سرجھکائے’ شرمسار‘ دروازے سے داخل ہوگئے اور تاج محل کا یہ داخلی دروازہ خاموش نظر محبت سے دیکھتا ہوا اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔
حسن کی شررخیزی اور ہم :
داخلی دروازے سے داخل ہوئے توچارسے پانچ صدی گزر جانے کے بعد بھی ہر طرف سے ادراک و احساس نے جاہ وسطوت ، شان وشوکت ، افتخار وعظمت اورعزت وجلالت کی جلوہ گری اور اس کا وجود محسوس کیا۔ قدم شرم اور ندامت سے بوجھل تھا ایک قدم اٹھاتا تو ندامت کے احساس سے دو قدم ازخود پیچھے ہٹ جاتا تھا؛ لیکن حسن تماشہ گرکی رستخیزی اور اس کی مستی بھی تھی جو ہمیں کھینچے لئے جارہی تھی ۔ شاہانہ سطوت کے مظہر سے دس سے پانچ قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ بس حسن کی شررخیزی،افتادگی اور تجلی و جلوہ گری نے ہماری نگاہوں کو خیرہ کرڈالا ۔ اللہ اللہ! یہی حسن ہے جس کا ہر شخص دیوانہ ہے۔ مبہوت ، دم بخود پلک جھپکائے اسے یوںدیکھ رہا تھا گویا کائنات کاتمام حسن اس میں سمٹ آیا ہو بقول حضرت جگر مرادآبادی ؎
حسن کافر شباب کا عالم
سر سے پا تک شراب کا عالم
عرق آلود چہرۂ تاباں
شبنم و آفتاب کا عالم
وہ مری عرض شوق بے حد پر
کچھ حیا کچھ عتاب کا عالم
اللہ اللہ وہ امتزاج لطیف
شوخیوں میں حجاب کا عالم
۔جمیل ملک نے بھی تاج محل کے حسن کی ناکام تشبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ؎
کتنے ہاتھوں نے تراشے یہ حسیں تاج محل
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے
کبھی گنبد و محراب کو تکتا تو کبھی اپنے دل میں نہاں اس بت کو محسوس کرتا کہ جس نے ’’شاہد و ساغر‘‘ کا اسیر بنا دیا تھا، خود سےسوال کرتا کہ’’ چہ تفاوت است دریں شاہکار خالق ومخلوق‘‘۔ ایک طرف تو حافظؔ ، مولاناؔاورسعدیؔ کی وارفتگی میں ڈوب کر کہی جانے والی غزلیات اور اس کی سرمستیاں تھیں،تصور میں ’خواجہ مہوش ، ترک شیرازی، خال مشکیں اور خدائے حسن ‘جیسی اصطلاحات جن کو خالق کی صناعی و قدرت پر فریفتہ ہوکروضع کی گئی تھیں، گردش کر رہی تھیں تو دوسری طرف ہندوستانی شاعروں کی شعرگوئی بھی تھی۔ حافظؔ و مولاناؔ کی قصیدہ خوانی اس تاج محل کے لیے تھی جو خالق کا شاہکار تھا؛ لیکن ہندوستانی شاعروں کی قصیدہ خوانی مخلوق کے شاہکار کی تعریف و ثناخوانی میں تھی ۔ تاج محل کا تصور یوں تو ایرانی حسن پرستی اور نفاست کا کرشمہ تھا ،جسے عیسیٰ آفندی نے مرتب کرکے ایران سے بھیجا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نقشہ خود شاہجہاں نے مرتب کیا تھا، اس میں کوئی بعید نہیں؛ کیوں کہ خود شاہجہاں بھی لطافت وحسن کا خوگراور دلدادہ تھا۔ ہم گنبد و محراب کی طرف بڑھ نہیں رہے تھے ؛ بلکہ تاج محل کا’ حسن کرشمہ ساز ‘ہمیں اپنے طرف کھینچ رہا تھا۔ تاج محل کے صحن میں جواب نئی اصطلاح میں’ لان ‘بن چکا ہے، میں ہم داخل ہوچکے تھے۔ اس میں حوض ہے اور فوارے بھی لگے ہیں یہ فوارے آج نہیں لگائے گئے؛ بلکہ شاہجہانی دور میں ہی لگائے گئے تھے۔ داخلی دروازہ پر کھڑے ہو کر تاج محل کے حسن کا دیداریوں لگتا ہے گویا خالق ازل کی بنائی ہوئی جنت کا کوئی ٹکرا اس زمین پر اتاردیا گیا ہو۔ فواروں میں ابلتے ہوئے پانی کے بلبلوں کے پس منظر میں مرمریں خدوخال کا تاج محل کیف و کم کی نئی دنیا آباد کرتا ہے۔ تاج محل کا پرکشش حسن ہی تھا کہ صحن میں بغیر قدم روکے اس کے قریب بالکل چلے گئے اور ان بلبلوں کو درخور اعتناء سمجھ بیٹھا؛ کیوں کے ان بلبلوں سے آگے حسن و جمال کی عظیم شاہکار ہمارے استقبال میں خاموش کھڑا تھا۔ گویا شاہد و نگاروصل کی کام جوئیوں کی دعوت دے رہا ہواورہم بھی اس کی جستجو میں تڑپ تڑپ کر جاں بلب ہوگئے ہوں۔ یہ حسن کی کشش ہی تھی کہ قرب گویا لمس و احساس کے لذت آگیں سرور سے ہم عنان ہوگئے۔
حافظؔ کی شاعری کا ادبیات فارسی میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ حافظؔ کی کرامت ہی تھی کہ ان کی غزلیں مے خانہ میں بھی پڑھی گئیں تو خانقاہوں میں بھی جھوم جھوم کر؛ بلکہ وجد کے عالم میں پڑھیں اورسنی بھی گئیں۔ ’’چو با حبیب نشینی و بادہ پیمائی ، بیاد دار محبان باد پیما را‘‘ کی تعبیرات کو نہ جانے رند و زہد نے کس کس انداز میں جھوم کر رقص کرکے پڑھاوہ الگ کہانی ہے۔ ترک شیرازی،خواجہ مہوش اور خال مشکیں کی اصطلاح نے نہ جانے کتنوں کے ایمان کو بگاڑا اور سنوارا یہ بھی طرفہ فسانہ ہے۔ جب تاج محل پر پہلی نظر پڑی تو وجدان نے یکلخت پکار کر کہا اگر حافظؔ نے تاج محل کادیدارکرلیا ہوتا تواپنے’خال مشکیں‘ پرسمرقند وبخارا نذرکرکے فرط عشق میں تاج محل کوبھی نذر کر بیٹھتے ۔ حافظؔ نے اپنے شاہد اور’ترک شیرازی‘ کو خطاب کرکے فرط محبت میں کہا تھا ؎
اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
یہ حافظؔ کی بیقراری ہی تھی شاہد وخواجہ (محبوب) کی گلیوں کی خاک بوسی کا بھی عزم کرلیا تھا ؎
اے شہنشاہِ بلنداختر خدا را ہمتے
تا ببوسم ہمچو اختر خاک ایوان شما
اب سال و ماہ کے ساتھ تاریخ کی ورق گردانی بھی کرنی پڑے گی کہ حافظؔ کی سماعت سے تاج محل کے حسن شرربار کے قصے ٹکرائے تھے یا نہیں؛ لیکن کچھ بعید نہیں کہ وہ تاج محل کو بھی اپنے ترک شیرازی پر نثار کربیٹھتے؛ کیوں کہ تاج محل ایران کی حسن شناس نظروں کا نتیجہ ہے ۔ میں تاج محل کے قریب کھڑا سوچوں میں گم تھا۔ کبھی حسن وغمزہ کی کیفیت حائل ہوجاتی تو کبھی وصل کی لذت آشنائی ہوتی ۔ وصل کی لذت آشنائی سے سرشار ہوکر بھی ہم تشنہ کام ہی رہیں کہ باربار یہی تمنا عود کرآتی کہ ’’از لبت صہبا و ساغر می خورم‘ ،لیکن یہ تصورات کی جلوہ فروشی ہی تھی۔ زینوں سے چڑھ کرہم بالائی منزل پر پہنچے تو وصل کی تمام حسیں اور تیقین کے تمام مزعومات یکلخت بیدا رہوگئے۔ کبھی ہم اپنے دل میں چھپے اس بت کو دیکھتے تو کبھی شاہکار حسن تاج محل کو تکتے ۔ کئی یادیں اور کئی چہرے تھے جو تصورات میں ’’وا‘‘ ہوگئے تھے ۔بقول جمیل ملک ؎
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے
جذب و کیف کے عالم میں تاج محل کے گنبد کا ’’طواف‘‘کررہا تھا کہ یکایک جمنا اور تاج محل کے گنبد سے متعلق وہ حسین اور لازوال منظر بھی سامنے آگیا، جہاں کے حسین اور دلفریب منظرکا نقشہ مولانا آزاد نے’’غبارخاطر‘‘ میں کھینچا ہے۔ عقب میں جمنا ہے اور پھر اس کے اوپر تاج محل کے حسیں گنبد کا مرمریں و بہشتی خدوخال کہ کیف و ساز اور تصور وگمان کی تمام سرحدیں سوا ہوجائیں۔ اس گنبد کے چاروں طرف سورہ یاسین خط ثلث میں مرصع کی گئی ہے۔ ایک بارمولانا آزاد چاندنی رات میں ہارمونیم کے ساتھ تاج محل کے مغربی حصہ کے اس مقام پر جا بیٹھے اورساز چھیڑدیا تھاجہاں سے جمنا کی اٹھلاتی ہوئی جوانی اور بل کھاتی موجیں رواں تھیں۔ نگاہوں کے سامنے تاج محل کا عریاں خدوخال چودھویں کے چاند میں رقصاں تھا، انگلیاں ساز بجانے میں تھیں اور زبان پر مچلتی ہوئی حافظ یا مولانا روم کی کوئی شوخ غزل وجد وعرفان کو عالم بالا کی سیرکرارہی تھی۔ کیف ووجدان کا عالم تھا کہ مولانا آزادؔ خود کو سنبھال نہ سکے اور پوری رات اسی ’’خرابی شب ‘‘ میں گزار دی تھی۔ میں بھی اس جگہ کھڑاہوکراس لذت خرابات کو محسوس بھی کیا۔ یہ صدقہ خواجہ ہی تھا کہ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بھی چاندنی رات کی ’شب کاری‘ اور مولانا آزاد کی’ نواسازی‘ محسوس کررہا تھا ورنہ تو تصور و تیقین اتنا قوی نہیں کہ صدیوں گزرے ان واقعات کو محسوس کیا جاسکے ۔اور پھر حافظؔ کی زبان میں اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے ؎
شاہد آں نیست کہ موئے و میانی دارد
بندہ طلعت آں باش کہ آنی دارد
اردو شاعروں سے شکوہ:
تقریباًاسی عالم کیف و وجد میں دیوانہ وار؛ بلکہ ایک عاشق زار کی طرح تاج محل سے چپکے رہیں۔ تاج محل یوں تو محبت کی نشانی ہے، حسن و غمزہ کا استعارہ ہے؛ لیکن اردو کے شاعروں کی بد ذوقی کہہ لیں کہ اس سے حسن و تابانی کے استعارے مستعار لینے کے بجائے اکثر نے طعنہ ہی د ینا مناسب سمجھا ہے۔ اس ذیل میں سچی بات تو یہی ہے کہ اردو کے شاعروں نے تاج محل کو ایک رقیب کی حاسدانہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔ جب کہ تاج محل کی یہ شان تھی ہی نہیں کہ اس کو رقبیانہ حسد سے دیکھا جائے۔ اس کے حسن کی پرستش اگر نہیں کی جاسکتی ہے تو پھر اسے مطعون بھی نہیں کیاجاسکتا۔ کئی شعراء بشمول سیماب اکبرآبادی نے اس ذیل میں اپنے اعلیٰ ذوق کا ثبوت پیش کیا ہے تو وہیں ساحرلدھیانوی نے ’’ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر- ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘‘ کہہ کر طعنہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اگر ایرانی جن کو حسن شناسی کی خاص صلاحیت خدا نے بخشی ہے، ان کے یہاں یہی تاج محل ہوتا توپھراس کے حسن وغمزہ کے ایسے ایسے استعارات تخلیق کئے جاتے اورایسی ایسی تشتبیہات وجود میں آتیں کہ خود تاج محل کو بھی اپنے حسن پر رشک آجاتا۔ دھوپ سر پر تھی، دن کے تقریبا دو بجنے والے تھے ہمیں دہلی بھی واپس آنا تھا، بڑی منت ولجاجت کے ساتھ نگاہوں ہی نگاہوں میں شاہکار حسن و خرابات سے اجازت لی اس وعدہ کے ساتھ کہ پھر وصل و قرب کی فرحت آگیں شامیں گزاری جائیں گی۔ میرے رفیق محترم اظہر عمری نے ایک ٹوٹکہ تاج محل سے لوٹتے ہوئے بتایا تھا۔ انہوں نے کہاکہ’ سنا ہے کہ جب واپس ہوتے ہوئے تاج محل پر ایک (محبت بھری الوداعی)نظرڈال لیتا ہے تو وہ پھر دوبارہ تاج محل کی زیارت کے لیے آتا ہے، گویا حسن کی خیرات ہوتی ہے اور وہ پھر تاج محل کو دیکھنے آتا ہے ۔ میں نے الوداعی نظر ڈالتے ہوئے اس کے وجود کو نگاہوں کے رستے دل میں اتار لیا اس امید موہوم کے ساتھ کہ مبادا پھر ہمیں اس کے حسن و اشارت اور غمزہ و تغافل کی دید کا موقعہ ملے گا۔ بقول شخصے ؎
تو نظر باز نہ ورنہ تغافل نگہہ است
تو سخن شناس نہ ورنہ خموشی سخن است
ہم لوگوں نے قریب کے ہی ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا اوراسٹیشن آگئے، محترم اظہر عمری صاحب کے ساتھ محترم نازش ہما قاسمی کے فیس بکی مداح بھی ہمیں چھوڑنے کے لیے اسٹیشن تک آئے ہوئے تھے۔ تقریبا ہماری ٹرین 3.30کے قریب آگرہ پہنچی، ٹرین پر بیٹھے اور دہلی تقریبا رات کے نو بجے کے قریب آگئے، تاج محل کو دیکھ تو آئے؛ لیکن تشنگی دل میں کہیں باقی رہ گئی ؛لیکن امید ہے کہ پھر جام و سبو، حسن و خرابات کے جرعہ حیات ایک ساتھ میسر ہوں گے۔ بقول حضرت جگر مرادآبادی ؎
دل مطرب سمجھ سکے شاید
اک شکستہ رباب کا عالم