السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ بخیر ہوں گے۔ شکریہ!!! آپ کی یہ حوصلہ افزائی میرے لیے
اکسیر اعظم ہے ۔نثر میں الحمدللہ!!! آپ کی نیک دعاؤں سے ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ ہوں ۔ میری تحریر دہلی سے شائع ہونے والے کئی اخبارات میں شائع بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہ تحریر عموماً سیاسی موضوعات پر ہی ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھار دینی اور اخلاقی موضوعات پر بھی لکھے جاتے ہیں؛ لیکن ادھر چند ماہ سے شاعری بھی سیکھنے کا ’’بھوت‘‘ سوار ہوگیا ہے
۔آوارہ فکر کا ہجوم بھی رہا کرتا ہے؛اس لیے سوچا کہ کیوں نہ ان آوارہ فکروں کو شاعری اور بحر و اوزان کے لبادہ میں ڈھال دیا جائے۔اور پھر میرے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ سیاسی موضوع پر لکھی گئی تحریر کی عمر زیادہ نہیں ہوتی ہے،جب کہ شاعری کی زندگی ہوتی ہے اگر فکر صالح ہو تو پھر انسان کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتی ہے جیسے میر تقی میرؔ ، مرزا غالبؔ، مولانا حالیؔ ، اقبالؔ ، احمد فرازؔ ، وغیرہ ۔ سیاسی موضوع کی حقیقت یہ ہے کہ جب تک عوام کسی واقعہ سے دوچار رہتے ہیں، اس کی گونج سنی جاتی ہے اور پھر جب کوئی وہ مسئلہ ختم ہوجائے ، تحریر بھی بے معنی ہوجاتی ہے ۔(الہلال و البلاغ اس سے مستثنیٰ ہیں)۔ میں تقریبا چار سال سے سیاسی موضوع پر لکھ رہا ہوں ؛لیکن ابھی تک مجھے کوئی اس کا فائدہ سمجھ میں نہیں آیا، البتہ یہ کہ کچھ پڑھے لکھے لوگ جاننے لگ گئے کہ کوئی افتخاررحمانی بھی ہے۔ اب شاعری کی طرف توجہ ہے تاہم میرے لیے عروض کا مسئلہ ہے ۔
آپ کا انٹرویو میں نے اردو دنیا میں پڑھا تھا کہ آپ نے صغر سنی میں ہی والدمحترم کی تربیت میں بحروعروض پر دسترس حاصل کرلی تھی یہ بھی اپنی جگہ کمال اور کم از کم میرے لیے
معجزہ ہے۔ خیر دعا کے ساتھ خصوصی توجہ کی بھی گزارش ہے کہ آپ لوگوں کی تربیت میں عروض و بحر کی کچھ شد بد ہوجائے۔ آمین ۔