فہیم ملک جوگی
محفلین
آرائیں کہاں سے آئے تھے؟
آرائیں ذات کے آباؤاجداد اریحائی فلسطینی عرب تھے، جو 712ء ميں دریائے اردن کے کنارے آباد شہر اريحا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ محمد بن قاسم کے ساتھ برصغير ميں داخل ہونے والی فوج کی تعداد 12,000 تھی، جس میں سے 6,000 اریحائی تھے۔ محمد بن قاسم تقریباً 4 سال تک سندھ میں رہے۔ اسی دوران گورنر عراق حجاج بن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا۔ خليفہ سلیمان بن عبدالملک نے تخت نشینی کے بعد حجاج بن یوسف کے خاندان پر سخت مظالم ڈھائے۔ اسی دوران اس نے محمد بن قاسم کو بھی حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد ہونے کے جرم میں گرفتار کرکے عرب واپس بلایا، جہاں وہ 7 ماہ قید میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔
خليفہ کی ان ظالمانہ کارروائيوں کی وجہ سے اریحائی فوجیوں نے اپنے آبائی وطن واپس نہ جانے اور برصغیر ہی میں ہی قيام کا فيصلہ کرليا۔ خلیفہ کے عتاب سے بچنے کیلئے انہوں نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی اور کھیتی باڑی کواپنا ذریعہ معاش بنا لیا۔ کچھ عشروں بعد وہ آہستہ آہستہ وسطی اور مشرقی پنجاب کی طرف چلے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اگلی نسلیں پورے برصغیر میں پھیل گئیں۔
اریحائی یا الراعی سے آرائیں
صدیوں تک غیرعرب علاقے میں رہنے اور مقامی آبادیوں کے ساتھ گھل مل جانے کی وجہ سے عرب اریحائی جہاں اپنی عربی زبان چھوڑ کر عجمی ہوگئے، وہاں انہوں نے برصغیر کی مقامی زبانوں پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی زبانوں میں بےشمار عربی الفاظ شامل ہوتے چلے گئے۔ مقامی لوگوں کیلئے عربی کے حرف ’ح‘ کا اصل تلفظ کرنا مشکل تھا اور لفظ اریحائی وقت کے ساتھ ساتھ ’’ارائی‘‘ پھر ’’ارائیں‘‘ اور پھر بالآخر آرائیں بن گیا۔
ایک دوسرے امکان کے مطابق پہلے اریحائی لفظ الراعی سے تبدیل ہوا، جو عربی کا ہی ایک لفظ ہے، جس کے معنی چرواہے کے ہیں۔ الراعی میں ’ر‘ حرف شمشی ہے، جب اس سے پہلے ’الف لام‘ لگتا ہے تو ’الف‘ بولا جاتا ہے اور ’ل‘ حذف ہوجاتا ہے، یوں ’الراعی‘ سے اراعی ہوگیا۔ عجم حرف ’ع‘ کی ادائیگی نہیں کرتے، اس لئے حرف ’ع‘ حرف ’ء‘ کے ساتھ تبدیل ہوگیا، یوں ارائی سے جمع کی صورت میں ارائیں ہوگیا۔
ایک اور ضیعف روایت کے مطابق یوں بھی بعض کتب میں لکھا ہے کہ آرائیں آریان تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں، جس کا پتہ ہڑپہ سے چلتا ہے، جہاں وہ لوگ تین ہزار قبل مسیح آباد تھے۔اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی موجود ہے کہ یہ لوگ وسط ایشیائی ریاستوں سے برصغیر آئے تھے۔
مذکورہ بالا ضعیف روایات کی تردید میں آج کی آرائیں ذات کو ماضی کے اریحائی ثابت کرنے والے کہتے ہیں کہ برصغیر میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کے برخلاف آرائیوں کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اگر یہ کسی آریان تہذیب کی نسل سے ہوتے تو دیگر نومسلم ذاتوں کی طرح ان کی اتنی کثیر آبادی کا بیس تیس فیصد حصہ یقیناً ہندو یا سکھوں پر مشتمل ہوتا۔
محمد بن قاسم کے لشکر سے آرائیں لفظ کی تشریح راجہ داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کی آواز پر لبیک کہنے والا بارہ ہزار عوام کا اسلامی لشکر چار حصوں پر مشتمل تھا پہلا حصہ کا نام مقدمتہ الجیش تھا جو کہ تھوڑے سے آدمیوں پر مشتمل تھا اور لشکر سے تین چار میل آگے سے راستہ کی راہنمائی کر رہا تھا ۔باقی دائیں طرف کا لشکر (میمنہ) اور بائیں طرف والا (میسرہ) اور درمیان والے لشکر کا نام( قلب )تھا ۔ ہر اسلامی لشکر کے پاس ایک جھنڈا ہوتا تھا جس کو فوج ہر صورت میں بلند رکھتی ہے ۔اور جنگ کے اختتام پر یہ مفتوحہ زمین پر گاڑ دیا جاتا ہے ۔اس جھنڈے کا ذکر نبی اکرم محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ) نے جو غزوات خود لڑے ان میں بھی ہے اور صحابہ اکرام (ر ضوان اللہ تعالی اجمعین )نے ان کو گرنے سے بچانے کے لیے شہادتیں نوش فرمائیں ہیں ۔ اس فتح کے نشان والے جھنڈے کا نام (الرائیہ) ہوتا تھا۔ فتح کے بعد اس شامی فوج کے سپاہی کو الرائیہ کی نسبت سے الرائیی کہا جانے لگا لفظ الرائیی عربی میں جب بولا جاتا ہے تو سننے میں آرائیں ہوتا ہے کیونکہ اسکے بعد ل بولی نہیں جاتی ۔الرائیی لفظ کو انگلش میں آرین کہتے ہیں۔
انگلش تاریخ دانوں نے جو یہ لکھا ہے کہ آرین نے یورپ سے آکر یہاں حملہ کیا اور آباد ہوئے بالکل ٹھیک لکھا ہے کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت شام میں اسلامی خلافت اور دنیا کی سپر پاور تھی اور اس سلطنت کے علاقے یورپ میں بھی تھے اس وقت جب یہ لشکر شام کے جس علاقے سے بھیجا گیا وہ آج بھی شامی علاقہ یورپ کی حدود میں واقعہ ہے.۔خلاصہ کلام یہ کہ آرائیں قوم برصغیر پاک وہند میں عرب سے محمد بن قاسم کی قیادت میں ہی آئی تھی۔جو بعد میں مستقل طور پریہاں رہائش پذیر ہوگئی۔ان میں زیادہ تر لوگ آج بھی کھیتی باڑی کے شعبے سے ہی منسلک ہیں۔ واللہ اعلم
۔______________
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺁﺩﻡ ﮐﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﻡ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺕ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺳﺐ ﭘﮩﭽﺎ ﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺮﮨﺰ ﮔﺎﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ
ﺣﻀﺮﺍﺕ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺌﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺮﺍﺩ ﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺼﺒﯿﺖ ﮐﺎ ﺟﺬ ﺑﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺳﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭ ﯼ ﺑﺮﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺮﻑ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﻮﻝ ﺧﺮﭼﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﻻﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺷﻌﻮﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﺳﮑﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﯿﺪ ﺍﮐﺮﺳﮑﯿﮟ ۔ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ،ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﯾﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﮐﺎﺭﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﻭ ﻓﻮﻗﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﺀ ﭘﺮ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﻣﻘﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﺴﺲ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻡ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﯽ ﺣﺸﯿﺖ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺴﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ۔ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻋﺮﺑﯽ ﺍﻧﺴﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺗﻤﺪﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰ ﺷﮩﺮ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﻤﻦ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺭﯾﺤﺎﺋﯽ ﮐﮩﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﺭﯾﺢ � ﺁ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﯿﻮﺍﻟﯽ ﺳﮍﮎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺩﻣﺸﻖ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻠﻮﻡ ﻭﻓﻨﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻌﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﺗﮭﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﻋﺰﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯﯼ ﺳﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺑﻨﻮ ﺍﻣﯿﮧ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻣﺸﻖ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﭼﮭﺎﺅﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﭙﺎﮦ ﮔﺮﻗﻮﻡ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﮬﻨﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﻈﯿﻢ ﻓﺎﺗﺢ ﻣﺤﻤﺪ ﻗﺎﺳﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺅﻧﯽ ﺳﮯ ﺟﻮ ﭼﮫ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﯾﻦ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﮭﮯ ﻗﺼﮧ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺳﻨﺪﮪ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺯﺍﺗﯽ ﺍﻧﺘﻘﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺟﻔﺎﮐﺶ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻨﺘﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺣﺪ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺁﺏ ﻭ ﮔﯿﺎ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺮﺳﺒﺰﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻏﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﭩﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻓﻮﺍ ﺝ ﮐﺎ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺣﺼﮧ ﺍﺭﺍﯾﺆﮞ ﮐﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ،ﺑﺎﺑﺮ ،ﺍﮐﺒﺮ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺯﯾﺐ ﺗﮏ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺎﺹ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ( ﺍﺭﯾﺤﺎ ) ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻋﺮﺏ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺮﺻﮕﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﮑﮭﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺍﻣﺘﺪﺍﺩ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ ﺍﺛﺮ ﺍﺭﯾﺤﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﻓﺎﺗﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﻨﺪﻭ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﺍ ﺩﺍﺩ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮ ﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻠﯿﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺍﺩﺏ ﺳﯿﺎﺳﺖ ،ﻣﻨﻔﻌﺖ ﺻﺤﺎﻓﺖ ،ﺯﺭﺍﻋﺖ ،ﺳﭙﮧ ﮔﺮﯼ ،ﻣﺬﮨﮩﺐ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﻣﻠﺖ ﮐﮯ ﻭﻗﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ۔ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻭﮌ ﺯ ﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺩﻭ ﮐﺮﻭﮌ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺍﻧﮉﯾﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺯﺍﺩ ﻗﺒﺎﺋﻞ ﻣﻊ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﯿﮟ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﻓﻼﺡ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺗﻨﻈﻤﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺪﺭ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺳﺮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﻓﺎﺗﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﻣﯿﻞ ﻣﻼﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﻤﻠﮧ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﻧﺮﺍﻟﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﺟﺬﺑﮧ ﻣﺤﻨﺖ ﺻﺒﺮﻭﺗﺤﻤﻞ ،ﺧﺪﺍ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﺑﺴﺘﮕﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺯﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻋﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮ ﺟﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﻻﺋﮯ ﮬﺘﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺭﺍﺋﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﺋﯿﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻧﮯ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺍﺏ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﻟﯿﭙﭩﯽ ﺟﺎﻧﯿﻮﺍﻟﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺌﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﺑﭽﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﮦ ﺍﺭﺽ ﭘﺮ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﺎﺯﮎ ﺗﺮﯾﻦ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻧﻮ ﮐﺮﯾﮟ ۔
ﺁﺧﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﻣﺎﺅﮞ ،ﺑﮩﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﻮ ﺍﻋﻠﯽ ٰ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﻟﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻨﺪﺍﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮ ﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺻﻼﻑ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﻧﮕﯿﺰﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮐﺮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻋﮩﺪﻭﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﻠﮑﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﮨﻦ ﺳﺎﺯﯼ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺍﮐﮭﭩﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﻨﺘﺸﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻣﻦ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺯﻟﺖ ﻭ ﺭﻭﺳﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﺟﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻣﺘﺮﺍﺩﻑ ۔ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺍﺻﻼﻑ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﺭﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﮔﻠﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺻﺪﺭ ﺟﻨﺮﻝ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺤﻖ ( ﻣﺮﺣﻮ ﻡ ) ﺟﻦ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﻻﺯﻭﺍﻝ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺭﺟﻤﻨﺪ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺍﻟﺤﻖ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮑﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻢ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺯﮨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﻓﺨﺮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﮐﻮ ﭼﺎﺋﯿﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﯿﺪ ﺍﮐﺮﯾﮟ ﺍﯾﮏ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻗﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻃﺒﻊ ﺍﻭﺭ ﺟﻔﺎﮐﺶ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺁﭘﮑﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
۔_____________
آرائیں قوم کی ایک تاریخ ھے. یہ عربی النسل ہیں ہمارے جد امجد اللہ تعالی کے ولی لوگ تھے جن کا ذکر (تذکرتہ اولیا) میں سلیم الراعی(رح)اور ابو سعیدالراعی(رح)کےنام سے آتاھے .سلیم الراعی( رح)امام شافعی(رح)کے مرشد تھے اور ابو سعید(رح)ایک صاحب کرامت بزرگ تھے سیلم الراعی(رح)عراق کے رہنے والے تھے یزیدی مظالم سے تنگ آ کر ملک شام کی طرف چلے گئے تھےاور دریاے فرآت کے کنارے قیام کرکے عربوں کا آبائ پیشہ گلہ بانی شروع کر رکھا تھا.آپ کا ایک بیٹا الشیخ حبیب الراعی(رح)ایک باکمال بزرگ تھے جن کا ذکر کشف المحجوب جو کہ حضرت علی ہجویری عرف داتا گنج بخش (رح)کی لکھی ہوی ھے میں بھی آتا ھے کہ الشیخ حبیب (رح)ابن سلیم الراعی(رح) دریاے فرآت کے کنارے بکریاں چرایا کرتےتھے الشیخ حبیب الراعی (رح)نے حضرت سلیمان فارسی(رح)سے فیض حاصل کیا تھا.آرائیں برادری میں اللہ تعالی کے بہت سے نیک بزرگ پیدا ھے ہیں جیسا کہ شاہ عنائت علی(رح)مہر اسمعیل(رح) عرف چپ شاہ (جالندھری)حضرت سائیں شادی شاہ قادری نوشاہی(رح)لاھور .حضرت حافظ فتح محمد اچھروی نقشبدی(رح) لاھور .عنائت علی شاہ (رح )کے بارے میں مشہور ھے کہ حضرت بلھے شاہ (رح)نے عنائت علی شاہ (رح)سے فیض حاصل کیا.بلکہ عنائت علی شاہ(رح)کےوصال1728ع 1141ھ کے بعد حضرت بلھے شاہ(رح)ہی آپ کے خلیفہ قرار پائے.بعد کی ایک لمبی داستان ھے.آرائیں قوم کی تاریخ بہت پرانی ھے.یہ ایک ذندہ دل قوم ھے. پاکستان بنانے میں آرائیں قوم کا سب سے زیادہ کردار ھے.1857ع کی تحریک آزادی میں پیلی بھیت. بریلی اور سرسہ کے آرائیں خاندان پیش پیش رھے ہیں.اس تحریک کے ایک نڈر اور مایہ ناز مجاہد مولانا محمد جعفر تھ نیسری آرائیں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور بعد میں کالا پانی بھیج دیا گیا.جہاں سے وہ 1908ع میں واپس وطن تشریف لاے.اس کے علاوہ تحریک آزادی میں آرائیں قوم کے افراد جناب میاں محمد حسین آرائیں.میاں عبدالباری آرائیں.اور سردار محمد شفیع آرائیں نےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اس کے بعد مجلس احرار کے صدر مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی آرائیں اور جیوش احرار ہند کے سالار سردار محمد شفیع آرائیں نے بھی آزادی کے لیے بڑی قربانیاں دیں. اس کے بعد جب مسلم لیگ نے پاکستان کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو اس وقت پنجاب حکومت میں آرائیں برادری کے معزز ارکان کی تعداد سب سے زیادہ تھی.یونینسٹ وزارت کو گرانے والے میاں افتخارالدین آرائیں نے خضر حیات وزیراعظم پنجاب کو شکست دی.علی گڑھ کی تحریک میں سر سید احمد خان کا ساتھ دینے والوں میں سردار جسٹس شاہ دین ہمایوں پیش پیش تھے.مارچ1908ع کو مسلم لیگ کا آئین منظور کرنے والے اجلاس کی صدارت میاں شاہ دین ہمایوں نےکی تھی.اس وقت بھی اس چیز کو پسند نہ کرنے والوں نے شرارت کی اور مسلم کچھ اختلافات کی وجہ سے دو گروہوں میں تقسیم ھو گئی.ایک گروہ سردار محمد شفیع آرائیں کے نام سے شفیع گروپ کہلایا جب کہ دوسرا گروپ قائداعظم محمد علی جناح کا جناح گروپ کہلایا اور جناح گروپ کانگرس میں شامل ھو گیا.اس کے بعد نہرو رپورٹ کے سامنے آنے پر قائداعظم محمد علی جناح (رح)کانگرس سے دل برداشتہ ھو گئے. اور پھر ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال(رح)اور ساتھیوں کی کوشش سے 1929ع میں مسلم لیگ کے دونوں گروپ آپس میں اکھٹے ھو گئے .اس طرح آرائیں قوم کے معززین نے تحریک آزادی پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لیا جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا.آرائیں اس وقت پاکستان اور دنیا کی سب سے بڑی برادری ھے. ۔
(یہ مضامین انٹرنیٹ سے لیے گئے ہیں اگر کوئی مہربان صاحبِ علم اس تاریخ کے بارے میں کوئی کتابی دلیل یا کسی حوالے کا علم رکھتا ہو تو ضرور شیئر کرے ۔شکریہ)
احبابِ گرامی!
‛‛لفظ ‛‛آرائیں ‛‛اور ‛‛ارائیں‛‛ کی بھی تصحیح فرما دیجیئے ۔شکریہ
آرائیں ذات کے آباؤاجداد اریحائی فلسطینی عرب تھے، جو 712ء ميں دریائے اردن کے کنارے آباد شہر اريحا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ محمد بن قاسم کے ساتھ برصغير ميں داخل ہونے والی فوج کی تعداد 12,000 تھی، جس میں سے 6,000 اریحائی تھے۔ محمد بن قاسم تقریباً 4 سال تک سندھ میں رہے۔ اسی دوران گورنر عراق حجاج بن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا۔ خليفہ سلیمان بن عبدالملک نے تخت نشینی کے بعد حجاج بن یوسف کے خاندان پر سخت مظالم ڈھائے۔ اسی دوران اس نے محمد بن قاسم کو بھی حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد ہونے کے جرم میں گرفتار کرکے عرب واپس بلایا، جہاں وہ 7 ماہ قید میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔
خليفہ کی ان ظالمانہ کارروائيوں کی وجہ سے اریحائی فوجیوں نے اپنے آبائی وطن واپس نہ جانے اور برصغیر ہی میں ہی قيام کا فيصلہ کرليا۔ خلیفہ کے عتاب سے بچنے کیلئے انہوں نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی اور کھیتی باڑی کواپنا ذریعہ معاش بنا لیا۔ کچھ عشروں بعد وہ آہستہ آہستہ وسطی اور مشرقی پنجاب کی طرف چلے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اگلی نسلیں پورے برصغیر میں پھیل گئیں۔
اریحائی یا الراعی سے آرائیں
صدیوں تک غیرعرب علاقے میں رہنے اور مقامی آبادیوں کے ساتھ گھل مل جانے کی وجہ سے عرب اریحائی جہاں اپنی عربی زبان چھوڑ کر عجمی ہوگئے، وہاں انہوں نے برصغیر کی مقامی زبانوں پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی زبانوں میں بےشمار عربی الفاظ شامل ہوتے چلے گئے۔ مقامی لوگوں کیلئے عربی کے حرف ’ح‘ کا اصل تلفظ کرنا مشکل تھا اور لفظ اریحائی وقت کے ساتھ ساتھ ’’ارائی‘‘ پھر ’’ارائیں‘‘ اور پھر بالآخر آرائیں بن گیا۔
ایک دوسرے امکان کے مطابق پہلے اریحائی لفظ الراعی سے تبدیل ہوا، جو عربی کا ہی ایک لفظ ہے، جس کے معنی چرواہے کے ہیں۔ الراعی میں ’ر‘ حرف شمشی ہے، جب اس سے پہلے ’الف لام‘ لگتا ہے تو ’الف‘ بولا جاتا ہے اور ’ل‘ حذف ہوجاتا ہے، یوں ’الراعی‘ سے اراعی ہوگیا۔ عجم حرف ’ع‘ کی ادائیگی نہیں کرتے، اس لئے حرف ’ع‘ حرف ’ء‘ کے ساتھ تبدیل ہوگیا، یوں ارائی سے جمع کی صورت میں ارائیں ہوگیا۔
ایک اور ضیعف روایت کے مطابق یوں بھی بعض کتب میں لکھا ہے کہ آرائیں آریان تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں، جس کا پتہ ہڑپہ سے چلتا ہے، جہاں وہ لوگ تین ہزار قبل مسیح آباد تھے۔اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی موجود ہے کہ یہ لوگ وسط ایشیائی ریاستوں سے برصغیر آئے تھے۔
مذکورہ بالا ضعیف روایات کی تردید میں آج کی آرائیں ذات کو ماضی کے اریحائی ثابت کرنے والے کہتے ہیں کہ برصغیر میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کے برخلاف آرائیوں کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اگر یہ کسی آریان تہذیب کی نسل سے ہوتے تو دیگر نومسلم ذاتوں کی طرح ان کی اتنی کثیر آبادی کا بیس تیس فیصد حصہ یقیناً ہندو یا سکھوں پر مشتمل ہوتا۔
محمد بن قاسم کے لشکر سے آرائیں لفظ کی تشریح راجہ داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کی آواز پر لبیک کہنے والا بارہ ہزار عوام کا اسلامی لشکر چار حصوں پر مشتمل تھا پہلا حصہ کا نام مقدمتہ الجیش تھا جو کہ تھوڑے سے آدمیوں پر مشتمل تھا اور لشکر سے تین چار میل آگے سے راستہ کی راہنمائی کر رہا تھا ۔باقی دائیں طرف کا لشکر (میمنہ) اور بائیں طرف والا (میسرہ) اور درمیان والے لشکر کا نام( قلب )تھا ۔ ہر اسلامی لشکر کے پاس ایک جھنڈا ہوتا تھا جس کو فوج ہر صورت میں بلند رکھتی ہے ۔اور جنگ کے اختتام پر یہ مفتوحہ زمین پر گاڑ دیا جاتا ہے ۔اس جھنڈے کا ذکر نبی اکرم محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ) نے جو غزوات خود لڑے ان میں بھی ہے اور صحابہ اکرام (ر ضوان اللہ تعالی اجمعین )نے ان کو گرنے سے بچانے کے لیے شہادتیں نوش فرمائیں ہیں ۔ اس فتح کے نشان والے جھنڈے کا نام (الرائیہ) ہوتا تھا۔ فتح کے بعد اس شامی فوج کے سپاہی کو الرائیہ کی نسبت سے الرائیی کہا جانے لگا لفظ الرائیی عربی میں جب بولا جاتا ہے تو سننے میں آرائیں ہوتا ہے کیونکہ اسکے بعد ل بولی نہیں جاتی ۔الرائیی لفظ کو انگلش میں آرین کہتے ہیں۔
انگلش تاریخ دانوں نے جو یہ لکھا ہے کہ آرین نے یورپ سے آکر یہاں حملہ کیا اور آباد ہوئے بالکل ٹھیک لکھا ہے کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت شام میں اسلامی خلافت اور دنیا کی سپر پاور تھی اور اس سلطنت کے علاقے یورپ میں بھی تھے اس وقت جب یہ لشکر شام کے جس علاقے سے بھیجا گیا وہ آج بھی شامی علاقہ یورپ کی حدود میں واقعہ ہے.۔خلاصہ کلام یہ کہ آرائیں قوم برصغیر پاک وہند میں عرب سے محمد بن قاسم کی قیادت میں ہی آئی تھی۔جو بعد میں مستقل طور پریہاں رہائش پذیر ہوگئی۔ان میں زیادہ تر لوگ آج بھی کھیتی باڑی کے شعبے سے ہی منسلک ہیں۔ واللہ اعلم
۔______________
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺁﺩﻡ ﮐﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﻡ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺕ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺳﺐ ﭘﮩﭽﺎ ﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺮﮨﺰ ﮔﺎﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ
ﺣﻀﺮﺍﺕ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺌﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺮﺍﺩ ﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺼﺒﯿﺖ ﮐﺎ ﺟﺬ ﺑﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺳﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭ ﯼ ﺑﺮﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺮﻑ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﻮﻝ ﺧﺮﭼﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﻻﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺷﻌﻮﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﺳﮑﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﯿﺪ ﺍﮐﺮﺳﮑﯿﮟ ۔ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ،ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﯾﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﮐﺎﺭﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﻭ ﻓﻮﻗﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﺀ ﭘﺮ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﻣﻘﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﺴﺲ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻡ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﯽ ﺣﺸﯿﺖ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺴﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ۔ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻋﺮﺑﯽ ﺍﻧﺴﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺗﻤﺪﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰ ﺷﮩﺮ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﻤﻦ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺭﯾﺤﺎﺋﯽ ﮐﮩﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﺭﯾﺢ � ﺁ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﯿﻮﺍﻟﯽ ﺳﮍﮎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺩﻣﺸﻖ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻠﻮﻡ ﻭﻓﻨﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻌﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﺗﮭﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﻋﺰﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯﯼ ﺳﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺑﻨﻮ ﺍﻣﯿﮧ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻣﺸﻖ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﭼﮭﺎﺅﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﭙﺎﮦ ﮔﺮﻗﻮﻡ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﮬﻨﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﻈﯿﻢ ﻓﺎﺗﺢ ﻣﺤﻤﺪ ﻗﺎﺳﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺭﯾﺤﺎ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺅﻧﯽ ﺳﮯ ﺟﻮ ﭼﮫ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﯾﻦ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﮭﮯ ﻗﺼﮧ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺳﻨﺪﮪ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺯﺍﺗﯽ ﺍﻧﺘﻘﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺟﻔﺎﮐﺶ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻨﺘﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺣﺪ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺁﺏ ﻭ ﮔﯿﺎ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺮﺳﺒﺰﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻏﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﭩﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻓﻮﺍ ﺝ ﮐﺎ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺣﺼﮧ ﺍﺭﺍﯾﺆﮞ ﮐﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ،ﺑﺎﺑﺮ ،ﺍﮐﺒﺮ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺯﯾﺐ ﺗﮏ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺎﺹ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ( ﺍﺭﯾﺤﺎ ) ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻋﺮﺏ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺮﺻﮕﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﮑﮭﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺍﻣﺘﺪﺍﺩ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ ﺍﺛﺮ ﺍﺭﯾﺤﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﻓﺎﺗﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﻨﺪﻭ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﺍ ﺩﺍﺩ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮ ﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻠﯿﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺍﺩﺏ ﺳﯿﺎﺳﺖ ،ﻣﻨﻔﻌﺖ ﺻﺤﺎﻓﺖ ،ﺯﺭﺍﻋﺖ ،ﺳﭙﮧ ﮔﺮﯼ ،ﻣﺬﮨﮩﺐ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﻣﻠﺖ ﮐﮯ ﻭﻗﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ۔ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻭﮌ ﺯ ﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺩﻭ ﮐﺮﻭﮌ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺍﻧﮉﯾﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺯﺍﺩ ﻗﺒﺎﺋﻞ ﻣﻊ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﯿﮟ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﻓﻼﺡ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺗﻨﻈﻤﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺪﺭ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺳﺮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﻓﺎﺗﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﻣﯿﻞ ﻣﻼﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﻤﻠﮧ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﻧﺮﺍﻟﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﺟﺬﺑﮧ ﻣﺤﻨﺖ ﺻﺒﺮﻭﺗﺤﻤﻞ ،ﺧﺪﺍ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﺑﺴﺘﮕﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺯﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻋﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮ ﺟﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﻻﺋﮯ ﮬﺘﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺭﺍﺋﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﺋﯿﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻧﮯ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺍﺏ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﻟﯿﭙﭩﯽ ﺟﺎﻧﯿﻮﺍﻟﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺌﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﺑﭽﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﮦ ﺍﺭﺽ ﭘﺮ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﺎﺯﮎ ﺗﺮﯾﻦ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻧﻮ ﮐﺮﯾﮟ ۔
ﺁﺧﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﻣﺎﺅﮞ ،ﺑﮩﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﻮ ﺍﻋﻠﯽ ٰ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﻟﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻨﺪﺍﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮ ﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺻﻼﻑ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﻧﮕﯿﺰﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮐﺮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻋﮩﺪﻭﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﻠﮑﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﮨﻦ ﺳﺎﺯﯼ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺍﮐﮭﭩﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﻨﺘﺸﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻣﻦ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺯﻟﺖ ﻭ ﺭﻭﺳﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﺟﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻣﺘﺮﺍﺩﻑ ۔ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺍﺻﻼﻑ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﺭﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﮔﻠﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺻﺪﺭ ﺟﻨﺮﻝ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺤﻖ ( ﻣﺮﺣﻮ ﻡ ) ﺟﻦ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﻻﺯﻭﺍﻝ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺭﺟﻤﻨﺪ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺍﻟﺤﻖ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮑﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻢ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺯﮨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﻓﺨﺮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﮐﻮ ﭼﺎﺋﯿﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﯿﺪ ﺍﮐﺮﯾﮟ ﺍﯾﮏ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻗﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻃﺒﻊ ﺍﻭﺭ ﺟﻔﺎﮐﺶ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺁﭘﮑﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
۔_____________
آرائیں قوم کی ایک تاریخ ھے. یہ عربی النسل ہیں ہمارے جد امجد اللہ تعالی کے ولی لوگ تھے جن کا ذکر (تذکرتہ اولیا) میں سلیم الراعی(رح)اور ابو سعیدالراعی(رح)کےنام سے آتاھے .سلیم الراعی( رح)امام شافعی(رح)کے مرشد تھے اور ابو سعید(رح)ایک صاحب کرامت بزرگ تھے سیلم الراعی(رح)عراق کے رہنے والے تھے یزیدی مظالم سے تنگ آ کر ملک شام کی طرف چلے گئے تھےاور دریاے فرآت کے کنارے قیام کرکے عربوں کا آبائ پیشہ گلہ بانی شروع کر رکھا تھا.آپ کا ایک بیٹا الشیخ حبیب الراعی(رح)ایک باکمال بزرگ تھے جن کا ذکر کشف المحجوب جو کہ حضرت علی ہجویری عرف داتا گنج بخش (رح)کی لکھی ہوی ھے میں بھی آتا ھے کہ الشیخ حبیب (رح)ابن سلیم الراعی(رح) دریاے فرآت کے کنارے بکریاں چرایا کرتےتھے الشیخ حبیب الراعی (رح)نے حضرت سلیمان فارسی(رح)سے فیض حاصل کیا تھا.آرائیں برادری میں اللہ تعالی کے بہت سے نیک بزرگ پیدا ھے ہیں جیسا کہ شاہ عنائت علی(رح)مہر اسمعیل(رح) عرف چپ شاہ (جالندھری)حضرت سائیں شادی شاہ قادری نوشاہی(رح)لاھور .حضرت حافظ فتح محمد اچھروی نقشبدی(رح) لاھور .عنائت علی شاہ (رح )کے بارے میں مشہور ھے کہ حضرت بلھے شاہ (رح)نے عنائت علی شاہ (رح)سے فیض حاصل کیا.بلکہ عنائت علی شاہ(رح)کےوصال1728ع 1141ھ کے بعد حضرت بلھے شاہ(رح)ہی آپ کے خلیفہ قرار پائے.بعد کی ایک لمبی داستان ھے.آرائیں قوم کی تاریخ بہت پرانی ھے.یہ ایک ذندہ دل قوم ھے. پاکستان بنانے میں آرائیں قوم کا سب سے زیادہ کردار ھے.1857ع کی تحریک آزادی میں پیلی بھیت. بریلی اور سرسہ کے آرائیں خاندان پیش پیش رھے ہیں.اس تحریک کے ایک نڈر اور مایہ ناز مجاہد مولانا محمد جعفر تھ نیسری آرائیں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور بعد میں کالا پانی بھیج دیا گیا.جہاں سے وہ 1908ع میں واپس وطن تشریف لاے.اس کے علاوہ تحریک آزادی میں آرائیں قوم کے افراد جناب میاں محمد حسین آرائیں.میاں عبدالباری آرائیں.اور سردار محمد شفیع آرائیں نےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اس کے بعد مجلس احرار کے صدر مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی آرائیں اور جیوش احرار ہند کے سالار سردار محمد شفیع آرائیں نے بھی آزادی کے لیے بڑی قربانیاں دیں. اس کے بعد جب مسلم لیگ نے پاکستان کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو اس وقت پنجاب حکومت میں آرائیں برادری کے معزز ارکان کی تعداد سب سے زیادہ تھی.یونینسٹ وزارت کو گرانے والے میاں افتخارالدین آرائیں نے خضر حیات وزیراعظم پنجاب کو شکست دی.علی گڑھ کی تحریک میں سر سید احمد خان کا ساتھ دینے والوں میں سردار جسٹس شاہ دین ہمایوں پیش پیش تھے.مارچ1908ع کو مسلم لیگ کا آئین منظور کرنے والے اجلاس کی صدارت میاں شاہ دین ہمایوں نےکی تھی.اس وقت بھی اس چیز کو پسند نہ کرنے والوں نے شرارت کی اور مسلم کچھ اختلافات کی وجہ سے دو گروہوں میں تقسیم ھو گئی.ایک گروہ سردار محمد شفیع آرائیں کے نام سے شفیع گروپ کہلایا جب کہ دوسرا گروپ قائداعظم محمد علی جناح کا جناح گروپ کہلایا اور جناح گروپ کانگرس میں شامل ھو گیا.اس کے بعد نہرو رپورٹ کے سامنے آنے پر قائداعظم محمد علی جناح (رح)کانگرس سے دل برداشتہ ھو گئے. اور پھر ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال(رح)اور ساتھیوں کی کوشش سے 1929ع میں مسلم لیگ کے دونوں گروپ آپس میں اکھٹے ھو گئے .اس طرح آرائیں قوم کے معززین نے تحریک آزادی پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لیا جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا.آرائیں اس وقت پاکستان اور دنیا کی سب سے بڑی برادری ھے. ۔
(یہ مضامین انٹرنیٹ سے لیے گئے ہیں اگر کوئی مہربان صاحبِ علم اس تاریخ کے بارے میں کوئی کتابی دلیل یا کسی حوالے کا علم رکھتا ہو تو ضرور شیئر کرے ۔شکریہ)
احبابِ گرامی!
‛‛لفظ ‛‛آرائیں ‛‛اور ‛‛ارائیں‛‛ کی بھی تصحیح فرما دیجیئے ۔شکریہ