تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم معزز قائین !
آپ سب کی خدمت میں ایک نئے سلسلہ کہ آغاز کہ ساتھ حاضر ہوں کرنا یہ ہے کہ یہاں اس گوشہ میں تاریخ اور ادب کی روایت کو پروان چڑھانے کے لیے مسلم امہ سے لیکر تاریخ اقوام عالم اور عالمی ادب سے لیکر اسلامی علوم و فنون کہ مختلف زوایہ ہائے فکر کو بصورت اقتباسات کہ نقل کرنا ہے ۔
سو پہلا اقتباس درج ذیل میں ہماری طرف سے حاضر ہے
۔۔

جو لوگ اسلام کے حقیقی تصور تاریخ کی تفہیم سے قاصر تھے ۔ وہ اس مجوزہ تجربہ گاہ (پاکستان) کی تشکیل کے راستے میں حائل ہورہے تھے ۔ جن لوگوں نے تصور تاریخ کی حقیقی قدروں کو،فکری اور تہذیبی بنیادوں کو پوری کلیت کے ساتھ سمجھ لیا ،ان کے لیے پاکستان کہ قیام کی تحریک کو تسلیم کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا کار ثواب تھا ۔ یہ بات اپنی جگہ بڑی معنی خیز ہے پورے ہندوستان میں موجود اور مروج چاروں سلاسل تصوف (نقشبندیہ، سہروردیہ ، قادریہ اور چشتیہ ) کی کوئی ایک خانقاہ بھی ایسی نہ تھی کہ جس کہ موجود سجادہ نشین نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جہاں تاریخ کہ مکمل وجدان کی کارفرمائی موجود ہے اور وجدان ،تہذیبی معنویت کو جنم دے رہا ہے تو ایسی فکری اور بالخصوص متصوفانہ تحریک کو روکنا مشکل ہی نہیں ، نامکمن تھا۔ پھرجس تحریک کہ پیچھے علامہ اقبال جیسے نابغے کا فکر کام کررہا ہو ، وہ تحریک کسی کہ روکنے سے کب رکنے والی تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ تحریک پاکستان کی تفہیم کہ پس منظر میں کتاب " اقبال کا تصور تاریخ " سے اقتباس از آبی ٹوکول
 

آبی ٹوکول

محفلین
فرمایا ’’خودی کی تربیت میں پہلا مرحلہ اطاعت ہے۔ اسی لیے اسلام کے معنی ہیں احکام شرع کی بلا چون و چرا اطاعت کرنی۔ جب انسان احکام شرع کی اطاعت کرتا ہے تو اس میں اختیار کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے یعنی وہ صاحب اقتدار ہو جاتا ہے۔ حقیقی آزادی (حریت)احکام الٰہی کی تعمیل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔
کائنات پر نظر ڈالو۔ جو شے قیمتی اور معزز ہے وہ اطاعت ہی کی وجہ سے ہے ۔ ہوا جب پھول میں مقید ہوتی ہے تو خوشبودار بن جاتی ہے۔ اسی طرح مرد مومن، اطاعت سے مراتب عالیہ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو سختی، آئین کی شکایت کرنی زیبا نہیں ہے۔ اور نہ آئین میں تاویل کرنی چاہیے۔
اطاعت سے ضبط نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ انسان دو عناصر سے مرکب ہے‘ خوف اور محبت۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دنیا کی طرف مائل رہتا ہے اور یہ دنیا طلبی اسے فحشاء اور منکرات پر ابھارتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ اپنے دل میں راسخ کر لے کہ اللہ کے سوا اور کوئی ہستی مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ ’’لا الہ‘‘ کا عصا اس قدر طاقتور ہے کہ خوف اور محبت کے طلسم کو چشم زدن میں باطل کر دیتا ہے۔ دیکھ لو! حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند کے گلے پر چھری رکھ دی، کیوں؟ محض اس لیے کہ انہیں اللہ کے سوا اور کسی سے محبت نہیں تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو قیامت تک مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا کہ مومن وہ ہے جس کے دل میں خدا کے سوا اور کسی کی محبت نہ ہو۔ خالد جانباز کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب اسی چیز نے دلوایا کہ وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔


فرمان اقبال علیہ رحمہ ۔۔ یوسف سلیم چشتی کی یاداشتوں سے اقتباس
 

آبی ٹوکول

محفلین
السوال : صوٍفیاء کے نزدیک علم الیقین اس یقین سے عبارت ہے جو کہ اثر سے مؤثر پر استدلال سے حاصل ہو اور چونکہ یہ معنی اہل نظر اور اہل استدلال کو بھی میسر ہے تو صوفیاء کے علم الیقین میں کیا فرق ہوتا ہے اور صوفیاء کا علم الیقین کشف و شہود میں کیوں داخل ہوتا ہے اور علماء کا علم الیقین کس وجہ سے فکر و نظر کی تنگی سے باہر نہیں آتا ؟؟؟؟
الجواب :جاننا چاہیے کہ دونوں جماعتوں کے علم الیقین میں اثر کا شہود لازم ہے تاکہ اس جگہ سے مؤثر کا سراغ لگایا جاسکے جو کہ غیر مشھود ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ وہ تعلق جو کہ اثر اور مؤثر کہ درمیان حاصل ہے اور اثر کہ وجود سے مؤثر کہ وجود تک پہنچنے کا سبب ہے ۔ صوفیا کہ علم الیقین میں وہ تعلق بھیمشھود و مکشوف ہے ۔اور اہل استدلال کہ علم الیقین میں وہ واسطہ نظری ہے جو کہ فکر و دلیل کا محتاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔پس پہلی جماعت کا یقین کشف و شہود میں داخل ہوتا ہے اور دوسری جماعت کا یقین استدلال کی تنگی سے باہر نہیں آتا ۔اور صوفیاء کے علم الیقین میں استدلال کا اطلاق ظاہراور صورت پر مبنی ہے جو کہ اثر سے مؤثر تک انتقال کو متضمن ہے اور حقیقت میں کشف و شہود ہے۔
برخلاف علماء کے علم الیقین کے کہ وہ حقیقتا استدلالی ہے ۔اور چونکہ یہ باریک فرق اکثر لوگوں پر پوشیدہ رہا، تو ناچار وہ مرتبہ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نارسائی کیو جہ سے بعض بزرگوں پر اعتراض کی زبان دراز کرلی ہے ۔جنہوں نے صوفیاء کے علم الیقین میں اثر سے موثر پر استدلال سے تفسیر کی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان کو حقیقت الامر کی اطلاع نہیں ہے ۔ اور اللہ حق کو حق کرتا ہے اور وہی رستے کی راہنمائی کرتا ہے ۔
مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ حصہ ہشتم دفتر سوم
نوٹ : اسی بات کو مشھور دانشور و فلسفی احمد جاویدصاحب نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح سے بیان فرمایا کہ ۔۔۔۔۔پہلے اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ صوفی ایپسٹیم یعنی صوفیاء کا نظام العلم دین سے دین کی ترجمانی کرنے والے دیگر اسالیب علم سے مختلف ہے۔
ان دونوں اسالیب میں بنیادی بنائے اختلاف یہ ہے کہ صوفیا ء کے نزدیک معنی حضور کا نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی حضور پیدا کرے گا شعور میں،اور جو دوسرا اپیسٹیم ہے یعنی NON SUFI وہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرے گا ۔یعنی ایک بیان ایک شعور میں UNDERSTANDING پیدا کررہا ہے جبکہ وہی بیان ایک دوسرے شعور میں جو کہ صوفی ہے اس میں PRESENCE پیدا کررہا ہے ۔
اسکی مزید تشریح جاوید صاحب پھر یوں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔اندراسٹینڈنگ کہ عمل میں آدمی نامعلوم پے قانع ہوجاتا ہے یعنی اس بیان کے اندر موجود یا اس سے EXPRESS ہونے والی نامعلومیت پر UNDERSTANDING والا شعورقانع ہوجاتا ہے جبکہ جو صوفی شعور ہے یعنی PRESENCE OF MEANING والا شعور وہ نامعلوم پر قانع نہیں ہوتا ۔(جبتک کہ وہ نامعلوم کی کفیت مجہولہ کو اپنے شعور میں ہیئت وجود و ظہور کے اعتبار سے منزل شہود پر ملاحظہ نہ کرلے ۔ آبی ٹوکول ) ۔مطلب یہ لوگ یعنی صوفیاء غیب کو ان پرنسپل ملحوظ اور محفوظ رکھتے ہوئے اس کے غیاب میں بھی ایک قسم کی presence پیدا کرلیتے ہیں ۔اور اسے صوفیاء کی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں ۔اعتبار جو صوفیاء کی اصطلاح ہے اس کا ایک بہت بنیادی مطلب غیب میں presence پیدا کرلینا ہے ۔۔۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
شعور کا سب سے بڑا ملکہ اُن اہداف ومقاصد کے لیے یکسوئی کا ملکہ ہے، جن کو یا تو کبھی بدلنا نہیں ہے یا شعور انھیں کبھی بدلنے نہیں دیتا۔ یعنی تبدیلی کی تمام قسموں کو شعور قبول کرلیتا ہے، اچھے یا برے دونوں معنی میں، لیکن تبدیلی کی رو کو اس حد تک غالب نہیں آنے دیتا کہ وہ اسے اس کے مرکز سے ہٹا دے اور اس کے مستقل مقاصد کو ڈھانپ لے۔ بڑا شاعر، تقدیری معنی کا شاعر ہوتا ہے۔ تقدیری معانی وہ معانی ہیں جن کی طرف انسانی شعور ہمیشہ یکسو رہتا ہے۔ شعور کے زاویوں میں، اندازِ نظر میں تو تبدیلی آتی ہے، شعور کی استعداد میں یاشعور کی ساخت کے کچھ حصوں میں تو تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن اپنی تمام تر تبدیلیوں کے باوجود شعور کے کچھ داخلی موقف ہوتے ہیں جو بدلتے نہیں۔ اسی طرح شعور کے کچھ معروضی سانچے ہوتے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے۔ سو تقدیری معانی کا مطلب یہ ہوگا کہ شعور اپنے مستقل موقف پر کھڑا ہوکر اپنی تمام تر تبدیلیوں اور تغیرات کی قوت کو مثبت طور پر صَرف کرتے ہوئے، اپنے مستقل آدرش اور مقاصد کے ساتھ تعلق پیدا کیے ہوئے ہے۔ اس طرح شعور اس استقلال اور تغیر کو جمع کرکے اپنی فعلیت کو ایک تواتر میں رکھتا ہے۔ استقلال اور تبدیلی کے اس ہم آن عمل کا مطلب یہ ہے کہ شعور اپنے مادہ علم اور مستقل مقاصدِ علم کے درمیان نئی نئی نسبتیں پیدا یا دریافت کرتا رہتا ہے۔ یوں تبدیلی بھی ایک دھارے میں آجاتی ہے، تغیر بھی ضائع نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کا کوئی مجموعہ کلام اگر ان سب معیارات پر پورا اُترتا ہے، ان سب باتوں کا جامع ہے تو وہ ہے بالِ جبریل! اس میں مستقل حقائق کو جیسے جیسے نئے زاویے (angling) دیے گئے ہیں، جہاتِ نو دریافت کی گئی ہیں اور شعور کے مستقل مادّے کو جس طرح شعور کے تمام شعبوں میں، ان شعبوں کے لیے fulfilling بنایا گیا ہے، وہ ایک کمیاب چیز ہے۔۱؎ یہ اُردو شاعری ہی میں نہیں بلکہ بڑی شاعری کی پوری روایت میں بھی ایک نادر چیز ہے۔
اقبال نے اس کتاب میں بڑے معانی کی جمالیاتی تشکیل اعلیٰ ترین سطح ہنر پر کرکے دکھا دی ہے۔ یہ اس کے کمال کا ایک پہلو ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم کسی معنی کو اپنے ذہن و شعور کے لیے اس طور حاضر کردیں کہ اس کا حضورِ ذہنی ہمارے احساسات کو بھی متاثر کرنے لگے تو معانی کی جمالیاتی تشکیل بھی عمل میں آجاتی ہے۔ لیکن اقبال نے اس میں ایک اور کارنامہ بھی کرکے دکھایا ہے۔ عقل کے نظریات یا تو تصوراتی ہوتے ہیں یا منطقی۔ عقل اپنے نظریات سے جو تعلق رکھتی ہے اس میں ایسی شدت اور ہمہ گیری نہیں ہوتی کہ وہ شعور کے علاوہ عقلی و منطقی مطالبات اور تقاضوں کی تسکین کے لیے بھی کافی ہوجائیں۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے شعور کے جملہ مطالبات کو اس خوبی سے پورا کیا کہ ورائے طورِ عقل مطالبات کی تکمیل عقل کے لیے بھی قابلِ قبول بن گئی۔ عقلی مطالبات پورے کرتے ہوئے اُنھوں نے شعور کی بالاتر سطحوں، ورائے عقل درجاتِ شعور کی تسکین کا سامان بھی کردیا۔ یہ بالِ جبریل کا دوسرا نقطہ کمال ہے۔ اقبال جن محسوسات کو بیان کرتے ہیں وہ حسّیت کے ساتھ ساتھ یعنی محسوس ہونے کے علاوہ ایک گہری معنویت بھی رکھتے ہیں اور اقبال جن خیالات کو بیان کرتے ہیں وہ خیالات معنویت کے ساتھ گہری حسّیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ کمال جسے حاصل ہوگیا وہی بڑا شاعر ہوتا ہے۔
بڑی شاعری کے لیے ایک اور وصف درکار ہوتا ہے، اعلیٰ درجے کی فنکاری اور ہنرمندی۔ لفظوں کے درمیان فنی مناسبتیں اتنی گہرائی کے ساتھ پیدا کردینا کہ الفاظ کا فنی اور تکنیکی نظامِ تعلق بھی معانی کی تعمیر میں ایک بہت بنیادی کردار ادا کرنے لگے۔ بالِ جبریل میں آواز اور آہنگ کا بھی ایک نظام ہے جو معانی میں رُوح پھونک دیتا ہے، لفظوں کے درمیان تکنیکی رعایتیں اور مناسبتیں ہیں جو معانی کو زیادہ خوشگوار اور زیادہ غیرمحدود بنا دیتی ہیں۔ فنِ شعر کیا ہے؟ یہی کہ معنی کی ایک لازمی خصوصیت کو ختم کردیا جائے، معانی کا ایک جبر توڑ دیا جائے۔ وہ جبر یہ ہے کہ معانی محدود ہوئے بغیر معانی نہیں بنتے۔ لفظ معانی کے اظہار کا فعّال وسیلہ ہیں۔ لفظ، معنی کا ظرف تو ہے ہی، اس سے کچھ زیادہ بھی ہوتا ہے۔ الفاظ کے درمیان تکنیکی مناسبتیں، مشابہتیں، رعایتیں تحدیدِ معانی کا تاثر ختم کردیتی ہیں اور شاعر کو معانی پر ایک خلّاقانہ تصرف اور غلبہ دے دیتی ہیں۔ بالِ جبریل ان سب عناصر سے مملو ہے۔
بالِ جبریل کا عنوان بھی ایک ’’آمد‘‘ کے تحت رکھا گیا ہے، سوچ کر متعین نہیں کیا گیا۔ پیامِ مشرق کو چھوڑ کر، اقبال کے اکثر مجموعوں کے نام گویا پکار کر کہتے ہیں کہ ہمیں سوچا نہیں گیا، ’’وصول‘‘ کیا گیا ہے۔

اقتباس از : شرح بال جبریل: ایک سلسۂ گفتگو
شرح و بیان: احمد جاوید
تدوین: محمد سہیل عمر
 

آبی ٹوکول

محفلین
اسلام کے روحانی پہلو کا نام تصوف ہے، خواہ اسے احسان کا نام دیا جائے یا تزکیہ کا، خواہ اسے ذہد کہا جائے یا تصوف یا ان کے علاوہ کسی اور نام سے
یاد کیا جائے سب کا نتیجہ اور حاصل ایک ہی ہے اور سب کا مقصود یہ ہے کہ رب تعالٰی کے ساتھ بندے کا تعلق ،بہتر سے بہترین ہوجائے۔ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عہد میں ایمانیات ،فقہیات ،حدیثیات ،تفسریات اور تصوفات کے نام سے کوئی بھی فن مدون ہوا تھا اور نہ اس وقت اسکی ضرورت تھی ۔ بعد میں ضرورتوں کہ لحاظ سے مذہب اسلام کہ یہ مختلف پہلو فنون کی شکل میں مدون ہوگئے ،ابتدا میں یہ سارے ہی فنون بالکل سادہ اور تفصیلات والجھاو سے خالی تھے لیکن بعد کہ عہد میں ان سارے فنون میں تفصیلات آتی گئیں اور اسکی وجہ سے الجھاؤ بھی پیدا ہوتا گیا ۔ یہی معاملہ تصوف کہ ساتھ بھی رہا ،تصوف میں اسلام کے روحانی پہلو پر توجہ مرکوز کی گئی تھی ،اس کے بھی عہد آغاز میں سادگی تھی اور تفصیلات کا الجھاؤ نہ تھا لیکن، جیسے جیسے فن ترقی کرتا گیا اس کے مختلف ابواب پر گفتگو بڑھتی گئی ، جزئیات پر کلام کا سلسلہ زلف جاناں کی طرح دراز تر ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ اس میں بھی تعقید و الجھاؤ پیدا ہوگیا اور پھر چند ایسے مسائل سامنے آگئے جن پر خالص فلسفیانہ انداز میں بعض محققین صوفیا نے کلام کیا ، اسکا نتیجہ ایک طرف یہ نکلا کہ ان مسائل کی آڑ میں بعض ملحدین نے ان کا غلط مفھوم نکال کر اسلامی تصوف میں نقب زنی کی کوشش کی ، تو دوسری طرف مخالفین تصوف کو تنقید کا موقع ہاتھ آگیا ۔

بشکریہ مجلہ احسا ن الہ آباد انڈیا شمارہ نمبر دو مارچ دوہزار گیارہ
 

آبی ٹوکول

محفلین
اور حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لو گ آسان سمجھتے ہیں اِس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے ۔ اگر بڑھتا ہے تو اُلوہیت میں پہنچا جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص (یعنی شان میں کمی یا گستاخی)ہوتی ہے ۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اِس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے ۔غرض حمد میں ایک جانب اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حدبندی ہے۔
اقتباس از ۔ ۔ ۔ ۔ ملفوظات اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ رحمہ
 

آبی ٹوکول

محفلین
جذبہ نام ہے انسان کے اندر ودیعت کردہ ایسی قوت کا جو انسان کے اندر ایسی ترغیب پیدا کرتی ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کسی بھی شئے کی طرف فطری طور پر کھنچا چلا جاتا ہے، یہ کھچاؤ یا کشش انسان کے فطری و طبعی میلانات کا ہی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اور جہاں تک تعلق ہے جذبات کی محسوسات کا ، تو انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے محض اپنے اعصاب کی فطری اثر پذیری کے تحت، تمام قسم کے جذبات کو فکری سطح پر لائے بغیر بھی محض شعوری اعتبار سے جان سکتا ہے۔ چناچہ اس کے لیے کسی خاص تجربے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔
جہاں تک تعلق ہے محبت کا تو ہماری آجکل کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ جذبہ محبت کو فقط جنس(اصناف) کے تناظر میں دیکھنے کی عادی ہوگئی ہے لہذا محبت کے فقط اسی اعتبار سے اسکی شناسائی باقی رہ گئی ہے جبکہ محبت کے کئی اعتبارات ہیں اور ہر اعتبار اپنے اندر جدا جدا تقاضے بھی رکھتا ہے اس لیے ہمارے نزدیک محبت کو محض جنسی (اصنافی) تناظر میں نہیں تولا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی جذبہ محبت کو محض اسی اعتبار کہ حوالہ سے محصور کیا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانوں کے لیے محبت کا سب سے بڑا قرینہ ہی مجاز بن کر رہ گیا ہے۔ مجاز جو کہ اپنے اعتبار کی حیثیت سے یا پھر عناصر میں اپنی ترکیب کہ اعتبار سے فقط آثار پر انحصار کرتا ہے، سو یہی وجہ ہے کہ آجکل کے دور میں محبت محض آثاری ہوکر رہ گئی ہے لہذا آج کے دور میں محبت کا سفر فقط انہی آثار تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جو کہ قرینہ مجاز میں بطور عناصر ترکیبی کہ شامل ہیں ۔
اقتباس : ازافادات حضرت آبی ٹوکول مدظلہ العالی :p
 

سید زبیر

محفلین
قلندر بجز دو حرف لا الٰہٰ کچھ نہیں جانتا
فقیہہ شہر ہے قارون لغت ہائے حجازی کا
اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 

آبی ٹوکول

محفلین
دنیا کا کوئی بھی فلسفہ یا نظریہ ہو عوام الناس میں بعض ایسے طبقات ضرور ہوتے ہیں کہ جن میں وہ فلسفہ یا نظریہ بطور ایک عامیانہ ورژن کے رائج ہوتا ہے لیکن علمی میدان میں جب ان نظریات پر بات کی جاتی ہے تو اہل علم کا شیوہ یہ ہے کہ وہ ان نظریات کہ رد و اثبات پر انکے حقیقی (ایکچؤل) ماخذات کی روشنی میں گفتگو کے عادی ہوتے ہیں نہ کے عامیانہ ورژن سے نیز انہی ماخذات کی روشنی میں اہل علم اُس نظریہ کی شرعی حیثیت کا تعین بھی کیا کرتے ہیں لیکن اس کہ برعکس جیسا کہ عوام الناس میں کسی بھی نظریہ کے عامیانہ ورژنز کو اپنانے والے مل جاتے ہیں بالکل اسی طرح نام نہاد پڑھے لکھے طبقہ میں بھی ایسے افراد کی کثرت ہے جو کہ انتہائی سطحیت کا مظاہر کرتے ہوئے عوام الناس میں رائج ان فسلفوں کو انکے اصل ماخذ کی بجائے عوام کے عامیانہ ورژن کے حساب سے ڈسکس کرنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ انکو اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم نے یہ حربہ استعمال نہ کیا تو حقیقی ماخذات جو کہ صریحا ہمارے خلاف ہیں انکا دفاع قریبا ناممکن ہوجائے گا۔
لہذا وہ عوام کے تمام تر طبقات میں ظاہر پرستی کے مظاہر کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں " کیونکہ انسان پر ظاہریت اور مادیت کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے لہذا یہ عناصر انسان پر فی الفور اثر انداز ہوتے ہیں "ظاہریت کے حسن کی ایک ادنٰی اور سطحی سی جھلک انسان کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیتی ہے ، ایسے میں وہ کسی بھی تعمق کی وادی میں قدم رکھنے کی بجائے " سحرزدہ " ہوکر ظاہریت اور مادیت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور پھر اسے جتنے مرضی عقلی اور نقلی دلائل پیش کرو اسکے پاس اپنے فہم کے "سحرزدہ " ہونے کی وجہ سے سوائے فریق مخالف کی دلیل کو " منطق و فلسفہ یا تاویل " کہہ کر رد کرنے کہ دوسرا کوئی چارہ کار نہیں بچتا سو ایسے میں وہ بیچارہ معذور کہلائے گا
 

آبی ٹوکول

محفلین
جبر کا تیسرا سبب ان تاریخی عوامل کی ستم ظریفی ہے جنکی وجہ سے مسلمانوں کا سیاسی نظم درہم برہم ہوکر رہ گیا یا جن کی وجہ سے اسلامی صفوں میں انتشار پھیلا،تلوار چلی اور جاہلیت کی دبی ہوئی عصبیتیں پھرسے ابھر آئیں ، جسکا نتیجہ منطقی طور پر یہ نکلا کہ وہ مسلمان جن کو اسلام نے اخوت و الفت کے مضبوط رشتوں میں منسلک کررکھا تھا اب کئی گروہوں میں منقسم ہوگئے ۔ اس افراتفری کے عالم میں غیر شعوری طور پر قضاء قدر کی کار فرمائیوں پر یقین بڑھتا ہے اور کچھ اس طرح کہ خیالات کو فروغ پانے اور پنپنے کا خوامخواہ موقع ملتا ہے کہ اسلام ایسے کامل و جامع نظام حیات میں اس نوع شدید اختلافات کی گنجائش نہیں ہے اور اس طرح سے اس امت سے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا و رفاقت کا فخر حاصل ہے ۔ یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اتنی جلدی اسلام کے پیغام اتحاد و یگانگت کو یوں بھول جائے گی اور یوں آپس کی افسوسناک آویزشوں میں الجھ کے رہ جائے گی ۔
اقتباس: از کتاب عقلیات ابن تیمیہ
 

آبی ٹوکول

محفلین
سید جعفر شاہ پھلواری لکھتے ہیں:۔
جناب فاضل بریلوی علوم اسلامیہ تفسیر حدیث و فقہ پر عبور رکھتے تھے منطق فلسفے اور ریاضی میں بھی کمال حاصل تھا۔
عشق رسول کے ساتھ ادب رسول میں اتنے سرشار تھے کہ ذرا بھی بے ادبی برداشت نہ تھی، کسی بے ادبی کی معقول توجیہہ اور تاویل نہ ملتی، تو کسی اور رعایت کا خیال کئے بغیر اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی پرواہ کئے بغیر دھڑلے سے فتوٰی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں حُب رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) میں اتنی زیادہ فسطائیت حاصل تھی کہ غلو کا پیدا ہو جانا بعید نہ تھا۔ تقاضائے ادب نے انہیں بڑا احساس بنا دیا تھا اور اس احساس میں جب خاصی نزاکت پیدا ہو جائے تو مزاج میں سخت گیری کا پہلو بھی نمایاں ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں، اگر بعض بے ادبانہ کلمات کو جوش توحید پر محمول کیا جا سکتا ہے تو تکفیر کو بھی محبت و ادب کا تقاضا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو میں اس معاملے میں معذور سمجھتا ہوں لیکن یہ حق صرف اس کے لئے مخصوص جانتا ہوں جو فاضل موصوف (محدث بریلوی) کی طرح فنافی الحب والا ادب ہو۔
(بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116۔)
 

آبی ٹوکول

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مبارک ہو۔ اس زمانے میں یہ بڑی سعادت ہے ۔ دوسری رؤیا کا بھی یہی مفھوم ہے ۔ قرآن کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلب محمدی نسبت (صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرے) ،اس نسبت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تولید کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معانی بھی آتے ہوں۔ خلوص و محبت کہ ساتھ محض قرات کافی ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) زندہ ہیں۔ اور اس زمانے کے لوگ بھی ان سے اسی طرح سے مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) ہوا کرتے تھے ۔ لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کہ عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا ۔ اس واسطے خاموش رہتا ہوں ۔
مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خان مکتوب نمبر 54 سے اقتباس
 

آبی ٹوکول

محفلین
شعور مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہیے ۔ یہاں فکر استدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے ۔ صورت حال یوں ہے کہ ذات باری کے وجود کی ضرورت یوں قائم کی گئی ہے کہ انسان اپنے آپ سے اور دنیا کی جانب سے جو اس پر ظاہر ہوتی ہے عدم اطمینان کا شکار رہے ۔ اس کے کرب کا ازالہ ان دونوں سے نہیں ہوپاتا ۔ اس کی تمنا ہے کہ ایک ہستی ایسی ہو جو اسکی روح کی آرزؤں کے بر آنے میں اسکی مدد کرسکے ۔ اس سے لازم ٹھرا کہ انسان اور یہ کائنات دونوں ہی ذات باری سے اپنی ماہیت میں اساسی طور پر مختلف ہوں ، ایک کامل ہو دوسرا ناقص، اگر یہ نہ ہو تو خدا سے اور اسکی رحمت سے انسان کا واسطہ و تعلق اور دوسری طرف جزاء وسزائے خداواندی کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے ۔ مذہب کا تصور خدا مطلق آزادی ، اختیار اور قدرت کی صفات پیش کرتا ہے ۔ فلسفے کے رخ سے قائم ہونے والے تصور خدا میں صرف خارجی قیود سے آزادی ہے علامہ نے دونوں شقوں میں تطبیق پیدا کی ہے ۔
اقتباس: خطبات اقبال نئے تناظر میں ۔از محمد سہیل عمر
 
Top