اللہ اللہ علم اور نوادرات کے ساتھ یہ رویہ پڑھ کر میں حیرت زدہ ہوں ۔آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔یہ کیا ہو گیا ہے مسلم قوم کو۔اس قدر لاپرواہی !!۔۔۔۔۔مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں اس پر کیا تبصرہ کروں ۔ماتم کرنے کا مقام ہے ۔انگریز کو ہم کتنی بھی گالیاں دے لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ علم دوستی اور اس کی قدر دانی انھیں کے یہاں ہے ۔ابھی ابھی کچھ دن قبل میرا ایک دوست انکر شکلا جو کہ دہلی کی معیشت پر ریسرچ کر رہا ہے تاریخ سے ۔وہ بتا رہا تھا علم اللہ بھائی1947سے پہلے کی ساری چیزیں ،ایک ایک دستاویز محفوظ ہے ۔لیکن اس کے بعد کی چیزیں تو ملتی ہی نہیں ۔بھائی ہم اپنی ہی چیزوں کو محفوظ نہیں رکھ سکے ۔انگریز چاہے انھوں نے کتنوں ہی ظلم کیا ہو لیکن اس معاملہ میں کم از کم وہ ہم سے بہت اچھے تھے اور ہیں ۔یہ کس قدر ہمارے لئے ذلت کی بات ہے کہ ہم اپنے بر صغیر پاک و ہند پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی ہی چیزوں کا حوالہ غیروں کی لائبریری سے دیتے ہیں ۔کیا یہ ہمارے لئے شرم کی بات نہیں ہے کہ ہماری چیزیں برٹش لائبریری آف لندن ،لائبریری آف کانگریس امریکہ،ڈینش رویال لائبریری میں دستیاب ہوتی ہیں ۔ جن معاشروں میں علم کی ایسی ناقدری ہو تو پھر جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوییاں نہیں ماریں گے تو اور کیا کریں گے۔