تاریخ اسلام کا ایک حسین ورق

موجو

لائبریرین
تاریخ اسلام کا ایک حسین ورق
الطریف للادیب الظریف( عربی) ص 119 تا 121پر ایک حیرت انگیز بڑھیا کا واقعہ درج ہے ۔ یہ واقعہ حضرت اما م اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 150ھ کے شاگر اور بہت بڑے محدث وفقیہ عبادت گزار اور متقی صفت انسان حضرت عبد اللہ بن مبارک المتوفی 181ھ کے ساتھ پیش آیا ۔اس واقعہ کا ترجمہ قارئین کے خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں حج بیت اللہ اور نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کی غرض سے نکلا۔ میں راستے پر جارہا تھا کہ میں نے ایک سایہ دیکھا ۔غور کیا تو وہ ایک بڑھیا تھی جس نے اون کے کپڑے زیب تن کئیے ہوئے تھے (غالباً وہ راستہ بھٹک کر اپنے قافلہ سے بچھڑ گئی تھی ) حضرت عبد اللہ بن مبارک کےساتھ بڑھیا کی مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی وہ بڑھیا آپ کے ہر سوال کا جواب قرآ ن کی آیات سے دیتی تھی ۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا السّلامُ علَیُم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بڑھیا! سَلامٌ قولاً من ربِ رحیمٍ۔ (مطلب یہ کہ سلام کا جواب تو اللہ تعلی کی طرف سےہے)
عبد اللہ بن مبارک !میں نے پوچھا اللہ تجھ پر رحم کرے تو اس مقام میں کیا کررہی ہے؟
بڑھیا!مَن یضل اللہ فَلا ھَادی لَہ۔ جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے (مطلب یہ کہ میں راستہ بھول گئی ہوں )
عبد اللہ بن مبارک !مجھے پتہ چل گیا کہ وہ راستہ بھٹک گئی ہے میں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟
بڑھیانے کہا! سُبحَانَ الّذِی اَسۡسریٰ بِعبدِہلیلاً مِنَ المَسجِدِ الحَرَامِ اِلی المَسجِدِ الأقصیٰ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک(مجھے پتہ چل گیا کہ اس نے حج قضا کیا ہے اور بیت المقدس کا ارادہ رکھتی ہے)۔
عبد اللہ بن مبارک !نے پو چھا آپ کب سے یہاں ہیں؟
بڑھیانے کہا! ثَلَا ثَ لَیَالٍ سَوِیاً۔ برابر تین رات سے۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں تیرے پاس کھانے کے لئے کچھ نہین دیکھ رہا ( یعنی کھاتی کیا ہو؟)
بڑھیانے کہا! وَالّذی ھوَ یطعمنی ویسقین۔ اور جو کہ (اللہ تعالیٰ ) مجھے کھلاتا پلا تا ہے۔
عبد اللہ بن مبارک ! تم وضو کس کے ساتھ کرتی ہو؟
بڑھیا! فَلم تجدوا مآءً فتیمموا صعیداً طیباً۔ پھر تم پانی نہ پاؤتو پاک مٹی کا قصد کرو۔(یعنی پانی نہیں ہے تیمم کرتی ہوں)
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا کہ میرے پاس کھانا ہے کیا تم کھاؤگی؟
بڑھیا! ثم اتمواالصیام الی الّلیل ۔ پھر تم روزوں کو پورا کرو رات تک۔(یعنی میں روزہ سے ہوں )۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا یہ تو رمضان کا مہینہ نہیں ہے؟
بڑھیا! ومن تطوع خیراً فان اللہ شاکر علیمٌ۔پھر جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو بے شک اللہ تعالیٰ قدردان اور جاننے والا ہے۔ (یعنی میں نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے)۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا ہمارے لئےسفر میں افطار مباح ہے۔
بڑھیا! وأن تصومو خیرٌلکم ؕن کنتم تعلمون۔ اور روزہ رکھنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں نےکہا تو میرےجیسی گفتگو کیوں نہیں کرتی؟
بڑھیا! ما یلفظ من قولٍ الا لدیہ رقیبٌ عنیدٌ۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگہبا ن ضرور ہو تا ہے۔ (یعنی ہر انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے نگہبان ہوتے ہیں اس لئے میں کسی اور زبان میں بات نہیں کرتی بلکہ قرآن کی زبان میں بات کرتی ہوں)
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا تو کن لوگوں میں سے ہے؟
بڑھیا! ولا تقف ما لیس لک بہ علِمٌ ان السَمعَ والبصَرَ والفوادَ کلٌّ اولٓئکَ کان عنہ مسؤولاً۔ جو بات تمہیں معلوم نہ ہو اس کے دربے نہ ہو۔بے شک کان، آنکھ اور دل ہر ایک کی بابت اس سے باز پرس ہوگی(یعنی جس بات کا کوئی فائدہ نہیں اس کا مت پوچھو)
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی معاف کیجئے۔
بڑھیا! لا تَثرِیب عَلَیکُمُ الیَومۡ یغفِراللہ لکم۔آج تم پر کوئی ملامت نہٰں اور اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے(یعنی میں نےمعاف کیا )
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا کیا تمہیں رغبت ہےکہ میری اونٹنی پر سوار ہو کر اپنے قافلے سے جاملو؟
بڑھیا! وما تفعلوا من خیرٍیعلمہ اللہ ۔ اور جو تم نیکی کرتےہو اللہ اسے جانتا ہے (یعنی میرے ساتھ نیکی کروگے تو اجر پاؤگے)
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے اپنی اونٹنی بٹھا دی(تاکہ وہ خاتون اس پر سوا ر ہوجائے)
بڑھیا! قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم۔اور اہل ایمان سےکہہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگا ہیں نیچی رکھیں۔
فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھیں پھیر لیں اور میں نے کہا کہ تو سوار ہو جاجب وہ عورت سوار ہونے لگی تو اونٹنی بدک اٹھی جس سے اس خاتون کے کپڑے پھٹ گئے اور اس
بڑھیا! نے کہا وما اصابکم من مصیبۃٍ فبما کسبت ایدیکم تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہو ہاتھوں کی کمائی ہے (یعنی بڑھیا! نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو امداد کے لئے کہا جسے وہ بخوبی سمجھ گئے کہ وہ اونٹنی کو کنٹرول کریں تاکہ وہ خاتون آسانی سے اس پر سوا ر ہوجائے)
عبد اللہ بن مبارک ! نے کہا تو صبر کر تاکہ میں اونٹنی کا گھٹنا باندھوں(حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی ذھانت اور سمجھداری کی داد دیتے ہوئے)
بڑھیا! ففہمنا ھا سلیمان۔ ہم نے سلیمان کو وہ فیصلہ سمجھادیا(یعنی آپ بہت سمجھدار ہیں کہ بات سمجھ گئے ہیں)
عبد اللہ بن مبارک ! پھر میں نے اونٹنی کا پاؤں باندھا اور میں اسے کہا تو سوار ہوجا۔
بڑھیا! نے سوار ہوتے ہوئے یہ آیت پڑھی سُبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لئے مسخر کیا اور ہم اس کو قابو میں لانے والے نہ تھے اور بلا شبہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جا نے والے ہیں (یعنی سواری پر سوار ہونے کی دعا اس عورت نے پڑھی)
عبد اللہ بن مبارک ! نےکہا کہ میں نے اونٹنی کی مہار پکڑی اور تیزی سے چلنے لگا اور سیٹی مارنے لگا (یعنی اونٹ کو چلانے کے لئے جو آواز نکالی جاتی ہے)
بڑھیا! واقصد فی مشیک واغضض من صوتک ۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز دھیمی رکھو۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں آہست آہستہ چلنے لگا اور شعر پڑھنے شروع کئے۔
بڑھیا! فا قرؤوا ما تیسر من القرآن ۔ پس قرآن پڑھو قرآن میں سےجتنا آسان ہو(یعنی شعر وغیرہ کی بجائے قرآن پڑھو)
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا تجھے بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی ہے ۔
بڑھیا! وما یذکر الا اولو الألباب۔ اون نہیں نصیحت پکڑتے مگر عقل والے(یعنی آپ بھی بہت ذھین اور سمجھدار ہیں)
عبد اللہ بن مبارک ! میں تھوڑا سا آگے چلا تو میں نے اس سے پوچھا کیا تیرا خاوندہے؟
بڑھیا! یٰایھاالذین اٰمنوا لَا تسٔلوعَن اَشیاء اِن تبدلکم تسؤکم۔ائے ایمان والو ان اشیاء کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں تکلیف ہو(یعنی اس کا خاوند زندہ نہیں تھا)
عبد اللہ بن مبارک ! فرماتے ہیں کہ پھر میں خاموش ہو گیا یہاں تک کہ میں قافلہ کو پالیا تو میں نے اس عورت سے کہا کہ یہ قافلہ ہے۔ تیرا قافلے میں کوئی ہے؟
بڑھیا! اَلمَالُ والبنوُن زِینتُ الحیٰوۃ الدنیا۔مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں(یعنی قافلے میں میرے بیٹے اور مال ہے)
عبد اللہ بن مبارک ! فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوگیا کہ اس کے بیٹے ہیں تو میں نے پوچھا کہ ان کی پہچان کیا ہے؟
بڑھیا! وَعلاماتٍ وَبِالنجم ھم یہتدُونَ۔ اور کچھ اور نشانیاں اور ستاروں سے بھی راستہ معلوم کرے ہیں(یعنی وہ قافلہ کے رہبر یا گائیڈ ہیں)
عبد اللہ بن مبارک ! فرماتے ہیں کہ میں نے عمارات اور خیموں کا ارادہ کیا اور میں نے کہ ایہ خیمے ہیں ان میں کون ہیں۔(یعنی تیرے بیٹوں کے نام کیا ہیں؟تاکہ میں ان کو بلاؤں)
بڑھیا! وَاتّخذ اللہُ اِبراھیمَ خلیلاً۔وکلَّم اللہ موسٰی تکلیماً۔ یا یحیٰ خذِالکتاب بقوۃٍ۔ اللہ نے ابراہیم کو دوست بنایا اور اللہ نے موسٰیؑ سےکلام کیا۔ اے یحیٰ کتاب کو قوت سے پکڑو(یعنی اس کے بیٹوں کے نام ابراہیم،موسیٰ،یحیٰ)
عبد اللہ بن مبارک ! فرماتے ہیں کہ میں نے آواز دی اے ابراہیم! اے موسیٰ! اے یحی! پھر چاند کی طرح کے نوجوان برآمد ہوئے پھر جب بیٹھے تو ۔۔
بڑھیا نے کہا! فَابعثُو اَحَدَکُم بِوَرِقکم ھٰذہٖ اِلی المدِینَۃِ فَلینظر اَیہا اِزکٰی طعاماً فلیأتکم برزقٍ منہُ۔ اپنے میں ایک کو اپنا سکہ دے کر اس شہر بھیجو اور اسے چاہیے کہ وہ دیکھے کہ کونسا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔(یعنی بڑھیا نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو بہترین کھانا لانے کا حکم دیا)تو ان میں سے ایک لڑکا گیا اس نے کھانا خریدا اور وہ انہوں نے میرے سامنے پیش کیا۔
بڑھیا! کُلُوا وَاشربوا بما اَسلفتم فِی الاَیامِ الخالِیۃ۔ ہنسی خوشی کھاؤ اس کے کام بدلے میں جو تم نے گزشتہ ایام میں کیا (یعنی اس نے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کی)
عبد اللہ بن مبارک ! (اس بڑھیا کے لڑکوں سے فرمایا ) مجھ پر تمہارا کھانا اس وقت تک حرام ہے جب تک تم مجھے اپنے معاملے کی خبر نہ بتاؤ تو اس بڑھیا کے لڑکوں نے بتلایا کہ یہ ہماری والدہ ہے اور یہ چالیس سال قرآن کی زبان میں ہی گفتگو کرتی ہیں اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں مجھ سے کوئی غلط بات نہ نکل جائے جس سے اللہ تعالٰی ناراض ہو جائے ۔ پس پاک وہ ذات جو قادر ہے ہر چیز پر۔
عبد اللہ بن مبارک ! میں نے کہا ذٰلِک فضلُ اللہ یؤتی من یشآءُ واللہ ذُوالفضلِ العظیم۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسکو چاہے عطا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔
 

ماہ وش

محفلین
بھئی ماشا اللہ ، لیکن ذرا دھاگے کا نام تبدیل کر لیں‌، اس عنوان سے تو ایسا لگتا ہے گویا تاریخ‌اسلام کے غیر حسین اوراق بھی ہیں ۔ بہتر ہے کہ اس اشتباہ کو دور کرلیا جائے
 
Top