حضرت عثمان رضی اللہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم
حضرت عثمان رض اللہ کے جمع قرآن کو متنازع کہنا سمجھ میں نہ آیا ، اگر کسی ناقابل اعتناء گروہ کے نزدیک یہ متنازع ہے بھی تو کہنے اور لکھنے کی حد تک ، عملا آج اس پر امت متفق ہے ، اور دلیل ؟ اگر یہ متنازع ہوتا، تو وجہ نزاع ہوتی ، اور وجہ نزاع کوئی ہے تو اس کا تدارک آج تک ہوا ہوتا ، جیسا کہ بہت سے متنازع چیزوں کا ہر ایک نے بزعم کود تدارک کرکے اس کو کامل کیا ہے ، قرآن صدیوں سے اسی طرح چلا آنا فیصلہ خداوندی ہے، اور اس کے صحیح ہونے کی علامت ہے ، کیا خدا آج تک اپنی کتاب کو متنازع چلاتا آرہا ہے ؟ جب کہ عملا اس کتاب کی حکمرانی بھی مقصود ہے ۔ قرآن کو متنازع سمجھنا احکام قرآنی پر دیر سویر اعتماد اٹھنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ الحذر !!!حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا پروری کا اعتراض کتنا درست ہے ؟ محل نظر ہے ؟ اگر اقرباء کو عہدے دیے تھے تو اس میں واقعتا کوئی بے دیانتی ( اقربا کے اہل نہ ہونے یا ذاتی مفاد وغیرہ کی ) تھی یا نہیں یہ تاریخ کے صفحات میں ، خصوصا ان کی سیرت کی کتابوں میں اور مہوش کی ذکر کردہ جسٹس تقی عثمانی کی کتاب میں مذکور ہے ۔ اگر اس وقت کے سیاسی حالات جیسا کہ سب کو اعتراف ہے کہ سازشیں تیز تر تھیں اگر نظام حکومت مستحکم رکھنے اور خلافت کو بچانے کی خاطر اپنے معتمدوں کو کچھ کلیدی ذمہ داریاں دی جائے تو اس میں کون سی برائی ہے ؟ ہاں اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حضرت عثمان کا یہ فعل ان کے لیے سیاسی اعتبار سے مزید نقصان دہ ثابت ہوا ، اس اعتبار سے کہ اس سے سازشیوں کو ایک قوی بہانہ مل گیا ۔
تعجب ہے کہ حضرت عثمان کے قتل کے بارے میں سبائیوں اور دیگر فتنہ پروریوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور یہ بھی سب کو مسلم ہے کہ انہوں نے ان کا تختہ الٹنے کے لیے اس الزم کو بہانہ بنایا ، دوسری طرف ہم اس قتل کو اور ان کی بغاوت کا سبب اقربا پروری قرار دیتے ہیں ۔ ذرا یہ منطق دیکھیں :
یورش کا سبب اقربا پروری ۔
اقربا پروری یورش کا بہانہ ۔ کیا بہانہ اور سبب دونوں ایک چیز ہے ؟
اگر یہ کہا جائے کہ دیگر اسباب کے ساتھ یہ بھی ایک سبب ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ کون سا سبب اصل ہے ؟ اگر یہ الزام نہ ہوتا تو قتل عثمان نہ ہوتا ؟ یقینا سبائی دوسرا بہانہ تراشتے !!!
یہاں پہنچ کر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک تجزیہ چاہوں گا ۔
ہماری اب تک بحث میں اور اوپر اب تکی پوسٹس میں حضرت عثمان رضی اللہ کے دو خاص کاموں کا تذکرہ ہوا۔
(١) جمع قرآن ۔یہ کام امت کے تقریبا تمام لوگوں نے بنظر استحسان دیکھا ، سراہا ، اور اس میں بہت کم ، بلکہ اتنا بے وقعت نزاع ہے کہ اس کا اعتبار نہیں ۔ اسی متفق علیہ اور اتفاقی فعل ہونے کی وجہ سے یہ کام سب کے نزدیک قابل قبول ہے اور ہونا چاہیے ۔
(٢) دوسرا کام ( جسے میں بے جا الزام یا بہانہ کہتا ہوں ) اقربا پروری یا انہیں عہدے نوازنا تھا۔ اس الزام یا فعل کے صحیح ہونے اور نہ ہونے اور درست ہونے کی صورت میں اس میں کوئی غلطی یا بددیانتی ہونے میں بہت زیادہ نزاع ہے ، اور کئی حضرات اس کو تسلیم نہیں کرتے ، جیسا کہ اس کا مختلف فیہ اور متنازع ہونے کا تذکرہ سب ہی کرتے ہیں ۔
اب ان دو کاموں میں سے جس کام کی نسبت ان کی جانب درست مان کر اس میں سب کے اتفاق کی وجہ سے اس کو قبول کیا گیا اور سراہا گیا تو جس کام کی نسبت میں بہت زیادہ نزاع اختلاف ہے ، اسے کیوں کر حضرت عثمان کا فعل مانا جا رہا ہے ؟
ایک کام کے کسی کرنے اور درست کرنے پر سب کا اتفاق ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اس کو مانیں اور پسند کریں ۔ اور جس کام کے کسی کے کرنے نہ کرنے کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہو تو اور بہت زیادہ اختلاف ہو تو کیوں ہم یہ مان رہے ہیں کہ یہ کام اس نے کیا ہی ہے ؟ جب کہ اس جانب میں اور جو خرابیاں ہیں ، وہ سب پر عیاں ہیں ۔
ایک دوست “ محترم وہاب صاحب “ نے یہ بھی لکھا کہ “ لیکن حضرت عثمان اس غلطی کے مرتکب ہوئے جس کا نتیجہ ان کے خلاف بغاوت کی صورت میں نکلا۔ اور اس طرح اسی حوالے سے ان کی شہادت کے بعد امت مسملہ آپس کی خانہ جنگی میں گرفتار ہوئی۔ “
میرا سوال یہ ہے کہ اقربا کو عہدے پر بٹھانہ حالات خراب ہونے کے بعد تھا یا اس سے پہلے کہ یہی چیز بغاوت کا سبب بنی ؟ جو چیز حالات کو قابو میں لانے اور مستحکم کرنے کے لیے بعد میں کی گئی تھی اسے ہم حالات کے بگاڑ کا سبب سمجھتے ہیں ۔ اگر مناسب ذمہ داریوں پر اقربا کو متعین کرنے سے حالات قابو میں آجاتے اور سازشی حضرات دن جاتے تو حضرت عثمان رضی اللہ کے اس کام کی ہم تعریف کرتے نہ تھکتے ۔
رہی بات صحابہ کے معصوم نہ ہونے کی !
جمہور مسلمانوں کے دو عقیدے ہیں :
(١) فقط انبیاء ہی معصوم عن الخطا ہوتے ہیں ۔
(٢) صحابہ نبی نہیں ،لہذا معصوم نہیں ۔ان سے گناہ کے صدور کا امکان ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کے کسی فعل کو گناہ کون قرار دے ؟ اگر ان کا فعل صریح کتاب و سنت کے خلاف ہو تو بات ظاہر ہے ۔ مگر کسی ایسے فعل کو جس کو بالدلیل صحیح کہا جا سکتا ہو، “گناہ“ اور (کم سے کم ) “غلط“ کہنے کی ضرورت ہمیں کیوں پیش آئی، اوراس فیصلہ کے لیے علمی لیاقت ہماری کتنی ہے ؟
یہاں دوسری بات یہ ہے کہ اگر صحابی سے کوئی خطا ہوئی ہو تو اللہ تعالی نے ان ہی صحابہ کے بارے میں قرآن میں یہ کہ دیا ہے کہ “رضی اللہ عنہم و رضو عنہ “ یعنی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے، گویا یہ ان کی خطاوں کے معافی کا اعلان ہے۔
“معصوم عن الخطا “ نہ ہونے اور انسان ہونے کے عقیدہ بیان کرکے ہم جس بات کو صحابی رسول کی طرف منسوب کرتے ہیں ، کیا وہ یقینا غلطی یا گناہ ہے ؟ یہ بجائے خود ایک سوال ہے ۔
ہماری مذکورہ بالا پوستوں میں ایک دوست نے مولانا مودودی صاحب کے تجزیہ تاریخ اور تنقید اور تحقیق کو اجتہاد اور ایک جدید اور درست راہ قائم کرنے کا نام دیا ہے ، ان کے اپنے الفاظ میں “ دراصل یہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صدیوں کی منجمد سوچ کو توڑنے کی کوشش کی۔ اور اجتہاد پر زور دیا۔ اور میرے خیال میں یہی تین لوگ تھے جو بڑھتی ہوئی مادی دنیا میں روح اور مادے دونوں کا امتزاج چاہتے تھے۔ “
گور کریں ، مولانا مودودی کو اب تک کے علماء کا نطریہ جو تعدیل صحابہ اور صحابہ کے بارے میں لب کشائی نہ کرنے پر مبنی تھا ، درست نہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس بارے میں جراءت سے کام لے کر یہ کارنامہ انجام دیا اور اس سے بہت سارے تاریخی ، تحقیقی اور سبق آموز نتائج اخذ کیے ، اگر یہ کام ہماری نطر میں اجتہاد اور جراءت ہے اور موجودہ دور کی ضرورت ہے تو کیا حضرت معاویہ اس بات کے مستحق نہیں کہ خلافت کو ترک کے ملوکیت اپنانے میں ان کو بھی مجتہد اور ضرورت اور وقت کے تقاضوں پر عمل کرنے والا ، پر عزم ، باہمت قائد قرار دیا جائے ۔ اگر اگلوں کی روش سے اختلاف کا نام اجتہاد ہے ( چاہے وہ بالدلیل ہو ) تو پھر حضرت معاویہ کا خلافت ترک کر کے ملوکیت اپنانا بہت بڑا اور مردانہ اور ہمت والا اقدام ہے ۔ اور یاد رکھیے مولانا مودودی صاحب نے اسی نقطے پر پوری کتاب “خلافت و ملوکیت “ لکھی ہے ۔ ان کی نظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ غلط تھا، اور اب تک کے علماء کا ان کے بارے میں خاموش رہنا غلط تھا اور اپنا کام اجتہاد اور نئی راہ قائم کرنا تھا تو کیوں جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فعل کو اجتہاد اور جدت کا نام نہیں دیتے ؟
اور غور کیا ؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کتنے صحابہ حیات تھے ؟ اور ان میں سے کس نے اختلاف کیا ؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خود خلافت انہیں سونپ دی، حضرت حسین رضی اللہ زندہ تھے، انہوں نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں کی ، اور یزید کی مخالفت کی تو اس کے نا اہل ہونے کی وجہ سے ، خلافت کے ترکے کرنے اور ملوکیت اپنانے پر نہیں ۔حجاج بن یوسف سے ظالم کے سامنے آوازہ حق بلند کرنے والے صحابہ اور تابعین کا دور تو بعد میں آیا ، اس وقت تو اس سے زیادہ صحابہ موجود تھے۔ کتنوں کی مخالفت تاریخ میں درج ہے ؟ اور جناب مولانا مودودی کے اجتہاد کی کتنوں نے مخالفت کی ،اور موافقت کی ؟ تاریخ خود جواب دیتی ہے ۔ خلافت چھوڑ ملوکیت اپنانے کا امیر معاویہ رضی اللہ کا فیصلہ درست تھا یا تعدیل صحابہ کا نظریہ چھوڑ تنقید اور تجزیہ کا راستہ اپنانے کا مولانا مودودی کا فیصلہ درست ہے ؟
اس بارے میں اور کچھ خیالات ہیں وہ انشاء اللہ آئندہ کل !!!
ایک بات دوستان محفل کے نام :
کسی بات کے حق ہونے کا اس وقت آخری پیمانہ قوت دلیل ہے، میں چاہوں گا کہ کوئی دوست اپنے کم مطالعہ کے باوجود محض خود اعتمادی سے اخذ کردہ نظریہ پر اصرار نہ کرے، اسی طرح کسی سے اپنی عقیدت اور خوش اعتقادی اور اعتمادی کی بنیاد پر بھی اس کی بات پر اڑا نہ رہے ، میں نے جہاں تک ہو سکے اب تک بحث میں آنے والے واقعات کو پیش کرے اس کا تجزیہ کیا ہے ، دوستوں سے گذارش ہے کہ محض اصولی بات نہ کرے تائید میں کوئی واقعہ پیش کرے اور اسے مدلل کریں۔ یہ چیلینج نہیں ، بلکہ نتیجہ اخذ کرنے کا لازمہ ہے ۔
آئندہ بحث میں مذکورہ باتوں ہی کی روشنی میں دو چیزیں پیش کروں گا ۔
قائد کا کام اور مصنف کا کام ؟
حق کس جانب ہے ؟
فرید احمد