صفحہ 29
میں ایک جگہ لکھا تھا۔
"دوسری واحد وادی جس میں کوئی دریا پایا جاتاہے گھگھر کی وادی ہے۔ اس دریا میں بہت کچھ لکھا گیا ہے کیونکہ اسے اور مقدس دریا سرسوتی کو ایک ہی سمجھا جاتاہے۔ سرسوتی وہی دریا ہے جو ہندوستان کے ریگستان میں گم ہوجاتا ہے۔گھگھر ہمالیہ سے جمنا اور ستلج کے درمیان علاقہ سے نکلتاہے۔ ایک تیز پہاڑی نالے کی شکل میں میدان میں داخل ہوتاہے۔انبالہ کے قریب سے گزرتا ہے اور جنوب مغرب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قریباً ستر میل کا فاصلہ طے کرتا ہےجو زیادہ تر سکھ ریاست پٹیالہ کے علاقہ سے گزرتا ہے۔اس کے بعد مغرب کی جانب مڑکر حصار اور سرسہ کے ضلعوں سے گزرتا ہوا ریاست بیکانہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں آخر کار یہ ریت میں اپنے منبع سے 290 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد غائب ہوجاتا ہے۔ ضلع حصار کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ریاست پٹیالہ کی حدود میں اس کے ساتھ سرسوتی اور مارکنڈا ندیوں کا پانی آملتا ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ جمنا اور ستلج کے درمیان بہنے والے پہاڑی نالے جوانبالہ ضلع کی حدود آگے نکل آتے ہیں۔ ان سب کا پانی آخر کار گھگھر میں آشامل ہوتاہے۔یوں لگتاہے یہ دریا میدانی علاقہ میں داخل ہونے کے بعد مختلف ندی نالوں میں شامل ہونے کے بعد انہی کا راستہ اختیار کرتا رہتا ہے۔ لیکن ان تمامندی نالوں میں سے ایک ندی ایسی ہے جو دوسری تمام ندیوں سے مختلف ہے۔اور اس کا نام ہاکڑہ ہے۔ اس کے نام اس علاقہ میں ایک وادی بھی مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وادی اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ ضلع حصار میں ٹوہانہ سے شروع ہوکر فتح آباد،سرسہ،رانیہ،بھٹیز اور انوپ گڑھ سے گزرتی بہاولپور کے جنوب میں پنجند تک پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تازہ روایات کے مطابق گھگھر کا اصل دریا اس وادی کے پورے فاصلہ کے ساتھ ساتھ بہتاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاکڑہ کی وادی میں دریا کے ظاہری آثار کے ذریعے سے اور ان متعدد آثار سے جو اس کے خشک کناروں پر قصبوں اور آبادیوں کے بہاولپور تک موجود ہیں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی وقت اس دریا میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی تھی اور شائد اس میں تمام سال پانی جاری رہتا تھا۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ گھگھر اور ہاکڑہ بھی الگ الگ دریا نہیں تھے بلکہ ایک ہی دریا کے دو نام تھے بلکہ وہ وادی بھی ایک ہی ہے جسے گھگھر کی وادی کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی وادی ہاکڑہ کا نام دیا جاتا ہے۔اس کی تصدیق ان خبروں سے بھی ہوتی ہے جو اس علاقہ میںقدیم آثار کی تحقیق کے بارے میں وقتاً فوقتاً حاصل ہوتی رہتی ہیں۔
قدیم آثار کی تحقیق:۔
مثلاً 1975 میں "پاکستان ٹائمز" لاہور میں کراچی کی ڈیٹ لائن کے ساتھ یہ خبر چھپی تھی۔
میں ایک جگہ لکھا تھا۔
"دوسری واحد وادی جس میں کوئی دریا پایا جاتاہے گھگھر کی وادی ہے۔ اس دریا میں بہت کچھ لکھا گیا ہے کیونکہ اسے اور مقدس دریا سرسوتی کو ایک ہی سمجھا جاتاہے۔ سرسوتی وہی دریا ہے جو ہندوستان کے ریگستان میں گم ہوجاتا ہے۔گھگھر ہمالیہ سے جمنا اور ستلج کے درمیان علاقہ سے نکلتاہے۔ ایک تیز پہاڑی نالے کی شکل میں میدان میں داخل ہوتاہے۔انبالہ کے قریب سے گزرتا ہے اور جنوب مغرب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قریباً ستر میل کا فاصلہ طے کرتا ہےجو زیادہ تر سکھ ریاست پٹیالہ کے علاقہ سے گزرتا ہے۔اس کے بعد مغرب کی جانب مڑکر حصار اور سرسہ کے ضلعوں سے گزرتا ہوا ریاست بیکانہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں آخر کار یہ ریت میں اپنے منبع سے 290 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد غائب ہوجاتا ہے۔ ضلع حصار کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ریاست پٹیالہ کی حدود میں اس کے ساتھ سرسوتی اور مارکنڈا ندیوں کا پانی آملتا ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ جمنا اور ستلج کے درمیان بہنے والے پہاڑی نالے جوانبالہ ضلع کی حدود آگے نکل آتے ہیں۔ ان سب کا پانی آخر کار گھگھر میں آشامل ہوتاہے۔یوں لگتاہے یہ دریا میدانی علاقہ میں داخل ہونے کے بعد مختلف ندی نالوں میں شامل ہونے کے بعد انہی کا راستہ اختیار کرتا رہتا ہے۔ لیکن ان تمامندی نالوں میں سے ایک ندی ایسی ہے جو دوسری تمام ندیوں سے مختلف ہے۔اور اس کا نام ہاکڑہ ہے۔ اس کے نام اس علاقہ میں ایک وادی بھی مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وادی اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ ضلع حصار میں ٹوہانہ سے شروع ہوکر فتح آباد،سرسہ،رانیہ،بھٹیز اور انوپ گڑھ سے گزرتی بہاولپور کے جنوب میں پنجند تک پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تازہ روایات کے مطابق گھگھر کا اصل دریا اس وادی کے پورے فاصلہ کے ساتھ ساتھ بہتاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاکڑہ کی وادی میں دریا کے ظاہری آثار کے ذریعے سے اور ان متعدد آثار سے جو اس کے خشک کناروں پر قصبوں اور آبادیوں کے بہاولپور تک موجود ہیں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی وقت اس دریا میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی تھی اور شائد اس میں تمام سال پانی جاری رہتا تھا۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ گھگھر اور ہاکڑہ بھی الگ الگ دریا نہیں تھے بلکہ ایک ہی دریا کے دو نام تھے بلکہ وہ وادی بھی ایک ہی ہے جسے گھگھر کی وادی کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی وادی ہاکڑہ کا نام دیا جاتا ہے۔اس کی تصدیق ان خبروں سے بھی ہوتی ہے جو اس علاقہ میںقدیم آثار کی تحقیق کے بارے میں وقتاً فوقتاً حاصل ہوتی رہتی ہیں۔
قدیم آثار کی تحقیق:۔
مثلاً 1975 میں "پاکستان ٹائمز" لاہور میں کراچی کی ڈیٹ لائن کے ساتھ یہ خبر چھپی تھی۔