تاریخ بروالہ سیدان صفحہ 29 تا 36

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 29
میں ایک جگہ لکھا تھا۔
"دوسری واحد وادی جس میں کوئی دریا پایا جاتاہے گھگھر کی وادی ہے۔ اس دریا میں بہت کچھ لکھا گیا ہے کیونکہ اسے اور مقدس دریا سرسوتی کو ایک ہی سمجھا جاتاہے۔ سرسوتی وہی دریا ہے جو ہندوستان کے ریگستان میں گم ہوجاتا ہے۔گھگھر ہمالیہ سے جمنا اور ستلج کے درمیان علاقہ سے نکلتاہے۔ ایک تیز پہاڑی نالے کی شکل میں میدان میں داخل ہوتاہے۔انبالہ کے قریب سے گزرتا ہے اور جنوب مغرب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قریباً ستر میل کا فاصلہ طے کرتا ہےجو زیادہ تر سکھ ریاست پٹیالہ کے علاقہ سے گزرتا ہے۔اس کے بعد مغرب کی جانب مڑکر حصار اور سرسہ کے ضلعوں سے گزرتا ہوا ریاست بیکانہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں آخر کار یہ ریت میں اپنے منبع سے 290 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد غائب ہوجاتا ہے۔ ضلع حصار کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ریاست پٹیالہ کی حدود میں اس کے ساتھ سرسوتی اور مارکنڈا ندیوں کا پانی آملتا ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ جمنا اور ستلج کے درمیان بہنے والے پہاڑی نالے جوانبالہ ضلع کی حدود آگے نکل آتے ہیں۔ ان سب کا پانی آخر کار گھگھر میں آشامل ہوتاہے۔یوں لگتاہے یہ دریا میدانی علاقہ میں داخل ہونے کے بعد مختلف ندی نالوں میں شامل ہونے کے بعد انہی کا راستہ اختیار کرتا رہتا ہے۔ لیکن ان تمامندی نالوں میں سے ایک ندی ایسی ہے جو دوسری تمام ندیوں سے مختلف ہے۔اور اس کا نام ہاکڑہ ہے۔ اس کے نام اس علاقہ میں ایک وادی بھی مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وادی اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ ضلع حصار میں ٹوہانہ سے شروع ہوکر فتح آباد،سرسہ،رانیہ،بھٹیز اور انوپ گڑھ سے گزرتی بہاولپور کے جنوب میں پنجند تک پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تازہ روایات کے مطابق گھگھر کا اصل دریا اس وادی کے پورے فاصلہ کے ساتھ ساتھ بہتاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاکڑہ کی وادی میں دریا کے ظاہری آثار کے ذریعے سے اور ان متعدد آثار سے جو اس کے خشک کناروں پر قصبوں اور آبادیوں کے بہاولپور تک موجود ہیں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی وقت اس دریا میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی تھی اور شائد اس میں تمام سال پانی جاری رہتا تھا۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ گھگھر اور ہاکڑہ بھی الگ الگ دریا نہیں تھے بلکہ ایک ہی دریا کے دو نام تھے بلکہ وہ وادی بھی ایک ہی ہے جسے گھگھر کی وادی کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی وادی ہاکڑہ کا نام دیا جاتا ہے۔اس کی تصدیق ان خبروں سے بھی ہوتی ہے جو اس علاقہ میںقدیم آثار کی تحقیق کے بارے میں وقتاً فوقتاً حاصل ہوتی رہتی ہیں۔
قدیم آثار کی تحقیق:۔
مثلاً 1975 میں "پاکستان ٹائمز" لاہور میں کراچی کی ڈیٹ لائن کے ساتھ یہ خبر چھپی تھی۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 30
"کراچی 13 دسمبر۔پاکستان کے ماہرین کے آثار قدیمہ نے بہاولپور کے علاقہ میں ایک نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کے تازہ انکشافات بہت دوررس نتائج کے حامل ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ قدیم زمانہ میں بہت پر رونق اور آباد تہذیبی مرکز تھا۔مگر بعد میں دریائے ہاکڑا کے خشک ہوجانے کے باعث شکل و صورت تبدیل ہوگئ"۔
"ماہرین آثار قدیمہ گذشتہ سال سے چوبستان میں کام کررہے تھے۔جسے روہی بھی کہا جاتاہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں قدیم زمانہ میں دریائے ہاکڑہ بہتا تھا۔جو اب خشک ہوچکا ہے۔ اس علاقہ میں تاریخی اہمیت کے بہت سے مقامات 1974ء اور 1975ء میں دریافت کئے گئے ہیں۔ ان مقامات کا زمانہ چار ہزار سال قبل مسیح سے اسلامی دور تک کا ہے۔ ہاکڑا وہی دریا ہے جسے ہندوستان میں گھگھر کہا جاتا ہے اور دیدول کے زمانہ کا سرسوتی دریا بھی یہی تھا"۔
"اس علاقہ میں جو قدیم ترین آثار ہوئے ہیں ان کا زمانہ چار ہزار سال قبل مسیح کے قریب کا ہے اور پانچ بستیوں کے مقامات پر مشتمل ہے۔یہاں سے ہاتھ کے بنے ہوئے مٹی کے برتن بالکل اسی شکل و صورت کے دستیاب ہوئے ہیں جیسے جلیل پور سے دستیاب ہوئے تھے۔ جلیل پور ضلع ملتان میں وہ مقام ہے جسے ماہرین آثار قدیمہ نے اس سے قبل دریافت کیا تھا۔کوٹ دیجی کے آثار اس کے بعد کے زمانہ کے ہیں۔کیونکہ ان کے زمانے کا تعین تین ہزار سال قبل دریافت کیا تھا۔کورٹ دیجی کے آثار اس کے بعد کے زمانہ کے ہیں۔کیونکہ ان کے زمانہ کا تعین تین ہزار سال قبل مسیح کیا گیا ہے"۔
اسی سلسلہ کی ایک خبر 1983 میں اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ جو یہ ہے۔
"دریائے ہاکڑہ کے خشک ہونے کے بعد چوبستان کے ریگزاروں میں ایک نئ تہزیب دریافت ہوئی ہے۔ یہ شہر ہڑپہ اور موہنجودڑو کے درمیان باون فٹ اونچے ایک ٹیلہ پر واقع ہے اور چاروں طرف پھیلا ہواہے۔یہاں سے کھدائی کے دوران جو ظروف،مٹی کے گیند،گولیاں،پانی کے مٹکے برآمد ہوئے ہیں ویہ اس تہذیب کے غماض ہیں۔ یہ شہر بھی اسی طرح مربع بازاروں گلیوں کی شکل میں ہے جس طرح ہڑپہ اور موہنجودڑو کے شہر ہیں۔خیال ہے کہ یہ جگہ پانچ ہزار سال قبل آباد پر رونق تھی۔ظروف میں جو نقش و نگار بنے ہوئے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں"۔
اس کے بعد ایک اور خبر 1984 کی ہے۔
"اس بات کے آثار پائے گئے ہیں کہ چوبستان کی وادی ہاکڑا چار ہزار سال قبل مسیح میں باقاعدہ آبد علاقہ تھا۔یہ بات ڈائریکٹر آثار قدیمہ ڈاکٹر رفیق مغل نے حلقہ ارباب چوبستان کے پہلے اجلاس کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خطاب کرتے ہوئے بتائی انہوں نے سلائڈوں اور چارٹوں کی مدد سے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 77۔1974 کے چار سال کے عرصہ کے دوران موہنجودڑو اور ہڑپہ کے درمیان گنوری کے مقام پر سروے کے نتیجے میں معلوم ہواہے کہ یہاں اپنے زمانہ
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 31
میں ایک ایسی تہذیبموجود تھی جو صنعتی طور پر ترقی یافتہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ قدیم آبادیوں کے آثار گومل،ذھوق،ہاکڑا اور نئے دریافت شدہ مقام جلیل پور میں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید بتایاکہ چوبستان کچھ زمانہ تک زلزلوں کا مرکز رہا ہے اور ہوسکتاہے کہ کسی شدید زلزلے کے نتیجہ میں ہاکڑا دریا کا راستہ تبدیل ہوگیا ہو اور اس کے بعد اس علاقہ کی بستیاں نابود ہوگئ ہوں اس مقام سے جو تصاویر لی گئ ہیں۔ان سے ظاہر ہوتاہے کہ ہاکڑہ دریا کا قدیم راستہ اب تک وہاں موجود ہے"۔
ان تاریخی جائزوں سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں ان سے ایک تو یہ مسئلہ حل ہوجاتاہے کہ سرسوتی،گھگھر اور ہاکڑہ وغیرہ ایک ہی دریا کے مختلف نام ہیں۔غالباً صورت یہ تھی کہ یہ دریا کسی مخصوص علاقہ کئ شاخوں میں تقسیم ہوکر بہتا تھا اور وہاں اس کی ہر شاخ کے لئے علیحدہ نام پڑگیاتھا۔مگر اس کے بعد یہ یکجا ہوکر ہی پنجند تک پہنچتا تھا۔اور بہت اہم دریا کی حیثیت اختیار کرلیتا تھا۔جب کہ ایک مؤرخ نے کہا ہے۔
"کسی زمانے میں دریائے گھگھر بہت زیادہ اہمیت کا حامل اور دریائے سندھ کا معاون دریا تھا۔یہ دریائے سندھ میں پانچ دریاؤں کے سنگھم،یعنی مٹھن کوٹ کے قریب پنجند سے بھی نیچے جاکر ملتا تھا۔اس دریا کے خشک راستے کے نشان اب تک بہاولپور کے علاقہ میں تلاش کئے جاسکتے ہیں"۔
اس دریا کے کئ شاخوں میں تقسیم ہوکر وسیع رقبہ کو سیراب کرنے کے باعث اس کی تمام شاخوں کے کناروں پر بڑی بڑی بستیاں آباد ہوگئ تھیں۔اسی لئےسید محمد بطیف نے یہ بات کہی ہے کہ آریاؤں نے پنجاب میں اپنی جو اولین آبادیاں قائم کیں ان میں سے ایک اہم آبادی سرسوتی اور دریشدوتی(گھگھر) کے درمیان تھی۔اس آبادی کی تمام بستیاں پر رونق اور خوشحال تھیں اور اس علاقہ کی زمین سرسبز و شاداب تھی۔قدیم بستیوں میں یہ بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ سب دریاؤں کے کناروں پر بسائی گئ تھیں۔ تاکہ انسانی استعمال اور زراعت کے لئے پانی کا حصول آسان رہے۔چنانچہ دریائے سرسوتی اور گھگھر کی تمام شاخوں کے کناروں پر بھی پررونق بستیاں آباد ہوگئیں۔انہی بستیوں میں سے ایک اہم بستی بروالہ سیدان کی بھی تھی۔یہ بستیاں ایک طویل عرصہ تک انتہائی پررونق اور آباد رہیں۔سرسبز و شاداب علاقہ کا مرکز بنی رہیں اور ایک خوشحالی تہزیب کی نشونما کا باعث بنیں۔لیکن بعد میں کسی قدرتی عمل کے نتیجہ میں اس دریا اور اس کی تمام شاخوں کے خشک ہوجانے کے باعث برباد ہوکر کھنڈرات اور ٹیلوں کی شکل اختیار کرگئیں۔اس طرح اجڑ جانے کے بعد ان قدیم آبادیوں میں سے بہت کم آبادیاں ایسی خوش قسمت تھیں۔جو دوبارہ آباد ہو سکیں۔ورنہ اکثر آبادیاں تو ویران علاقہ اور ریگستان میں ناپید ہوکر رہ گئیں اور ہزاروں سال گزرنے کے بعد ماہرین آثار قدیمہ ہی ان میں سے چند آبادیوں کا سراغ لگاسکے۔مگر بروالہ
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 32
سیدان کی آبادی ان خوش قسمت آبادیوں میں شامل ہے جو اجڑ جانے کے بعد پھر آباد ہوئی اور ہر قسم کے حادثات اور شدائد کو برداشت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے آپ کو برقرار رکھا۔
اس قدیم دریا کو خشک ہوئے جانے کتنی صدیاں گذرچکی ہیں۔مگر اس کے خشک ہونے کے بعد چونکہ اس سے سیراب ہونے والا تمام علاقہ ویران اور بنجر پڑا رہا ہے اس لئے اس دریا کی اکثر شاخوں کے پرانے راستے اپ تک اس حد تک موجود ہیں جس سال برسات کے موسم میں بارشیں بہتات سے ہؤں تو ان شاخوں میں ادھر ادھر کا پانی اکٹھا ہوکر بہہ نکلتا ہے اور آخر کسی مقام پر مل کر ایک دریائی صورت میں بہاولپور کے علاقہ چولستان تک پہنچتا ہے۔یہ علاقہ اس دریا کی قدیم گذرگاہ تھا۔اسی طرح کے ایک موسم میں بروالہ سیدان کے ساتھ بھی اس دریا کے تعلق کا ثبوت مہیا ہواہے۔ایک روایت کے مطابق 1886 مطابق 1943 میں برسات کے موسم میں کافی دنوں تک شدید بارشیں ہوتی رہیں۔اس کے نتیجہ میں تھانیسر کے جھیل میں،جو گھگھر سے متصل ہے۔
اس قدرپانی آگیا کہ کناروں سے نکل کر دور دور تک پھیل گیا۔ ساتھ ہی گھگھر میں ایسا سیلاب آیا کہ اس کا پانی بہتا ہوا بروالہ سیدان تک پہنچا۔سیلاب اس قدر شدید تھا کہ پانی کی بلندی پندرہ بیس فٹ تک بیان کی جاتی ہے۔ اس بیان کو اگر کسی قدر مبالغہ آمیز بھی خیال کرلیا جائے،تب بھی اس حقیقت میں شک نہیں کہ یہ سیلاب بہت شدید تھا جس کا پانی بروالہ سیدان جیسے خشک مقام تک پہنچا۔اس سال کو اب تک اس علاقہ کے بذرگ رؤ کا سال کہہ کر یاد کرتے تھے۔
بروالہ سیدان کی آبادی کا زمانہ:۔
گزشتہ صفحات میں جو طویل تاریخی جائزہ لیاگیاہے اس سے اس علاقہ کی قدیم تاریخ پوری واقفیت حاصل ہوجاتی ہے جہاں بروالہ سیدان واقع تھا اور یہ بھی پتہ چل جاتاہے کہ بروالہ سیدان ان بستیوں میں سے ایک تھا جو آریاؤں نے برصغیر میں پہنچنے کے بعد آباد کی تھیں۔مگر اس کے آباد ہونے کا زمانہ اب تک متعین نہیں ہوسکا ہے۔اس زمانہ کے تعین کے لئے اگر ہم آثار قدیمہ کے محکمہ کی طرف سے دی جانے والی ان خبروں پر بھروسہ کریں جن کی تفصیل گزشتہ صفحات میں دی جاچکی ہے تو یہ زمانہ تین چار ہزار سال قبل مسیح کا ہے۔مگر احتیاط کا پہلو پیش نظر رکھا جائے تو اس بیان کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔جس میں کہاگیا ہےکہ دراوڑی اقوام پر آریاؤں کا غلبہ 2000 قبل مسیح تک مکمل ہوچکاتھا۔ہوسکتاہے کہ اس غلبہ کو مکمل کرنے میں انہیں سینکڑوں ہزاروں سال لگے ہوں۔مگر اس غلبہ کی تکمیل کے بعد آریاؤں نے اس علاقہ میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور اپنی تہذیب کی نشونما پر توجہ دی اور طویل عرصہ تک اس علاقہ کو اپنا مرکز بناکر آگے بڑھنے سے احتراز کیا۔
گنگا اور جمنا کے زرخیز میدانوں پر پر قابض ہونے کا خیال انہیں 1500 قبل مسیح کے بعد آیا مگر اس کے بعد بھی سات دریاؤں کی سرزمین کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوئی۔اس پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور اس کی ترقی و خوشحالی کی طرف آریا پوری
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 33
طرح متوجہ رہے۔البتہ یہ ہوا کہ حکومت کی حدود وسیع ہوجانے اور تعداد میں اضافہ ہوجانے کے باعث اب آریاؤں کے اندر کئ گروہ پیدا ہوگئے۔ اور بالادستی کے حصول کی خاطر آپس میں کشمکش شروع ہوگئ۔ اس مقصد کے لئے بہت سی چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ضرور ہوئی ہونگی۔مگر سب سے اہم اور پہلی بڑی جنگ "مہابھارت" کے نام سے لڑی گئ۔اس لڑائی کےلئے بھی آریاؤں نے پنجاب کی حدود میں کوروکھیشتر کے اس میدان کو منتخب کیا جو مقدس سرسوتی اور گھگھر کے کنارے واقع تھا اور اس زمانہ میں انتہائی پر رونق اور سرسبز شاداب تھا۔سید محمد لطیف اس جنگ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"مشہور رزمیہ نظم"مہا بھارت " وہ واقعات بیان کرتی ہے جن کا زمانہ وقوع 1200 قبل مسیح کے قریب ہے۔اس کی تصنیف کو ایک بذرگ سے منسوب کی جاتاہے۔جن کا نام وسایا تھا اور جن کا زمانئہ حیات دوسری صدی قبل مسیح ہے۔ انہوں نے اپنی نظم میں اس عظیم جنگ کے واقعات بیان کئے ہیں جو پانڈوں یا سورج نسل کے لوگوں اور کروؤں یا چاند نسل کے لوگوں کے درمیان لڑی گئ۔اس وقت پانڈوؤں کا بادشاہ ید ہشٹر تھا اور ان کا دارالحکومت اندر پرست (دہلی) تھا جو جمنا کے کنارے پر ہے۔کروؤں کا بادشاہ دھرت راشٹر تھا اور ان کا دارالحکومت ہستناپور تھا جو گنگا کے کنارے پر واقع ہےید ہشٹر اس تمام علاقہ کا دعویدار تھا جو اس کے مخالفین کے قبضہ میں تھا۔چنانچہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے چاند نسل کے تمام سرداروں کو کوروکھیشتر کے میدان میں جمع کرلیا گیا۔یہ میدان دریشدوتی کے قریب ہے اور اس کا موجودہ نام تھا نیسر ہے۔ یہ وہ میدان جنگ ہے جس میں بعد کے زمانوں میں بھی بارہاہندوستان کی بادشاہت کے دعویداروں کے درمیان فیصلہ کیا ہے"۔
یہ جنگ اس زمانے میں لڑی گئ جب آریاؤں کا مرکز حکومت پنجاب کے بجائے گنگا اور جمنا کے میدانوں میں منتقل ہوچکا تھا۔مگر اس جنگ کے نتیجہ میں ان کی توجہ ایک بار پھر پوری طرح اس علاقے کے جانب منعطف ہوئی جو دریائے سرسوتی اور دریائے گھگھر کا علاقہ تھا۔چنانچہ اس زمانہ میں بھی یہاں نئ بستیاں بسائی گئ ہونگی۔ سو اگر یہ مانا جائے کہ بروالہ سیدان کو آریاؤؤں نے پنجاب میں اپنے قیام اور آگے بڑھنے سے قبل کے زمانہ میں آباد کیا تھا تو یہ ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح سے پہلے آباد ہوا تھا۔ اس زمانہ میں نہیں تب بھی یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اس بستی کی بنیاد مہا بھارت کی لڑائی کے فوراً بعد زمانے میں ڈالی گئ۔اور اس طرح بھی اس کی قدامت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔بہر حال یہ امر مسلم ہے کہ یہ بستی ایک ہزار سال قبل مسیح سے پہلے آباد کی گئ تھی۔اس طرح یہ قصبہ برصغیر کی ان قدیم ترین بستیوں میں شامل ہے جو برصغیر کی معلوم تاریخ کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کے آثار اس علاقہ کے ریگستان میں جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔جو ہریانہ سے شروع ہوکر چولستان تک پہنچتا ہے۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 34
وجہ تسمیہ:۔
بروالہ سیدان کے نام کے بارے میں اس قصبہ کے بزرگوں کی روایت ایک ہی ہے کہ یہ بستی راجہ بل نے آباد کی تھی۔اس کے نام پر اس کا نام بل والا رکھا گیا تھا۔جو بعد میں کثرت استعمال سے بگڑ کر بروالہ ہوگیا کچھ بذرگ اس روایت میں صرف اتنی ترمیم کرتے ہیں کہ اس علاقہ پر راجہ بل کی حکومت تھی اس نے اپنے نام پر یہ بستی آباد کی تو اس کا نام نل والا رکھا گیا۔بعد میں یہ نام بگڑ کر پہلے بل والا اور اس کے بعد بروالہ ہوگیا مفتی غلام سرور لاہوری نے بھی اس روایت پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے۔
"اول راجہ بل نے اس کو آباد کرکے بل والہ نام رکھا۔اب بسبب کثرت استعمال بلوالا کی جگہ بروالہ مشہور ہوگیا ہے"۔اس راجہ کے وجود کی تحقیق کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ آریاؤؤں کی ایک شاخ میں ایک راجہ ہدبل والا نامی ہوا ہے۔ "تاریخ راج پرستی" میں سورج ہنسی خاندان کے راجاؤں کا ایک شجرہ دیا گیا ہے۔اس کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ اس شجرہ کو پنڈت رام کرن جی نے بھاگوت گیتا اور کئ دوسری کتابوں سے مدد لے کر بہت صحیص کرلیا ہے۔ اس فہرست میں بانوے نمبر پر راجہ ہدبل کا نام ملتا ہے۔اس کے بارے میں بھی حاشیہ لکھا ہے کہ یہ راجہ مہا بھارت کی لڑائی میں اہمن کے ہاتھوں ماراگیا تھا۔اس کی لڑائی کا حال مہا بھارت کے ساتویں پربورڈن میں مفصل لکھا ہے۔بھاگوت کے مصنف نے برہدبل تک تو پچھلے راجہ لکھے تھے اور برہدبل کے بعد سومتر تک بطور پیشن گوئی کے ہونے والے راجہ لکھے تھے۔سو ہوگئے۔
اس بیان کے مطابق اگر بروالہ کو راجہ برہدبل کی بسائی ہوئی آبادی تسلیم کیا جائے تو گویا یہ مہا بھارت کی جنگ سے قبل آباد کی گئ تھی۔مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس خاندان کے کسی دوسرے راجہ نے مہا بھارت کے بعد یہ بستی آباد کی ہو اور اس کانام راجہ برہدبل کے نام پر رکھ دیا ہو۔یہ امکان دو وجوہ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔اول یہ ہے کہ مہا بھارت کی لڑائی اتنی عظیم جنگ تھی کہ برصغیر کے تمام قابل ذکر آریاراجاؤں اور حکمرانوں نے اس میں شرکت کی تھی۔اتنی عظیم جنگ میں شرکت کرنے والے راجہ بڑی اہمیت کا حامل رہا ہوگا۔پھر یہ کہ اس جنگ میں لڑتے ہوئے مارا جانا بہت ہی بہادرانہ کارنامہ تھا اس لئے اس کی یادگار کے طور پر بعد میں اس کے نام پر کسی بستی کا کیا جانا بعید از مکان نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ راجہ سورج ہسنی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔مہابھارت کی جنگ میں کورؤوں کو شکست ہوئی تھی جو چند ہنسی خاندان سے تھے۔ان کے تمام راجہ اور مشہور جنگجو بہادر قتل ہوگئے تھے اور حکومت کھلی طور پر ان کے خاندان کے ہاتھ سے نکل گئ تھی۔سورج ہنسی خاندان فاتح رہا تھا اس لئےقدرتی طور پر اس نے اپنے ان بہادروں کی یادگاریں قائم کی ہوں گی جو جنگ میں مارے گئے تھے۔چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ راجہ برہدبل کی یادگار کے طور پر یہ بستی آباد کی گئ ہواور اس کانام اس راجہ سے منسوب کیا گیا ہو۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 35
راجہ کرنل کا نام پیش نظر رکھ کر تحقیق کی جائے تو اس کا نام کا ایک راجہ بھی آریاؤں کے شجرہ میں مل جاتاہے۔یہ راجہ بھی سورج ہنسی خاندان کا ہے اور اس کا زمانہ مہا بھارت کے بعد کا ہے۔لیکن درست طور پر اس کے زمانہ کا تعین نہیں کیا جاسکاہے۔بہر حال یہ امکان پوری طرح موجود ہے کہ اس راجہ نے یہ بستی اپنے نام پر آباد کی ہو۔یا اس راجہ کے نام پر اس کے خاندان کے کسی حکمران نے اسے آباد کردیا ہو اور بعد میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام تبدیل ہوتے ہوتے بروالہ ہوگیا ہو۔
مزکورہ بالا دونوں امکانات یکساں طور پر موجود ہیں اور اس بستیکی آبادی کے اس زمانہ سے مطابقت رکھتے ہیں۔جس کے تعین کی گزشتہ صفحات میں کوشش کی گئ ہے۔ان دونوں میں سے کسی ایک امکان کو بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس بستی کی وجہ تسمیہ معلوم ہوجاتی ہے ۔اور یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ اپنے بھرپور رونق کے زمانہ میں یقیناً بڑی اہم بستی شمار ہوتی ہوگی کیونکہ ایک مشہور راجہ کے نام پر بسائی گئ تھی۔ بعد کے زمانہ میں اتنے طویل عرصہ کے دوران اس کا اپنے نام کو برقرار رکھنا بھی بڑی اہمیت رکھتاہے۔جب کہ یہ حقیقت اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ اس جگہ آباد اصل اور قدیم بستی تباہ ہوکر کھنڈر بن گئ تھی اور بعد میں نئ آبادی ان کھنڈرات کے ٹیلو پر بسائی گئ ہے۔یہ بھی پتہ نہیں کہ اصل بستی کے اجڑ جانے اور دوبارہ آباد ہونے کا درمیانی عرصہ کس قدر طویل ہے۔بلکہ مفتی غلام سرور کا تو خیال ہے کہ یہ بستی ایک دفعہ نہیں کئ دفعہ ویران ہوئی ہے۔
اس صورت حال میں اس کانام باقی رہ جانے کا ایک سبب تو یہ ہوسکتا ہے کہ جب یہ بستی اجڑی ہے تو اصل میں بستی کی تباہی کے باوجود چند نفوس یہاں باقی رہ گئے جو کہیں اور نہیں جاسکتے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طور یہاں گذر کرتے رہےاور اس بستی کانام انہوں نے باقی رکھا۔یہاں تک کہ یہ بستی پھر سے آباد ہوگئ۔دوسرا امکان یہ بھی ہوسکتا ہے جب اس علاقہ کے خشک اور ویران ہوجانے کے بعد یہ بستی تباہ ہوکر اجڑ گئ اور کھنڈرات کی شکل اختیار کرگئ تو کھنڈرات پر وقت گذرنے کے ساتھ مٹی کی تہیں چڑھتی رہیں اور بلند ٹیلوں کی شکل اختیار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک طویل عرصہ کے بعد اس بستی کی قسمت پھر جاگی اور ان ٹیلوں پر نئے گھر ان لوگوں نے بنائے جن کے بذرگ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایت کے ذریعہ اس کے نام سے واقف تھے۔
صورت کوئی بھی رہی ہو۔مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ بستی آریاؤں نے مہابھارت کے زمانہ کے آس پاس کے عرصے میں آباد کی تھی اور اپنے ایک راجا کے نام اس کانام رکھا تھا بار بار اجڑنے اور ویران ہو ہوکر آباد ہونے کے باوجود اس بستی نے حیران کن طور پر اپنا اصل نام برقرار رکھا۔اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بروالہ سیدان کے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 36
بذرگوں میں اس بستی کی آبادی اور نام کے بارے میں جو روایت زبانی کلامی منتقل ہوتی چلی آئی تھی وہ صدیاں گذرنے کے باوجود کسی قدر درست حالت میں باقی رہی۔
اب بات صرف اس نام کے املا کی باقی رہ جاتی ہے۔یہ نام مدت سے"بروالہ سیدان"لکھاجاتارہاہے۔بروالا کوبروالہ لکھنا فارسی طرز تحریر کے زیر اثر ہے۔مگر یہ تبدیلی غیر معمولی بات نہیں ہے۔مسلمانوں کے دور حکومت میں چونکہ ملک کی سرکاری،علمی،تعلیمی اور ادبی زبان فارسی رہی ہے۔اس کے اثر سے اس نام کا املا فارسی طرز تحریر کے مطابق ہوگیا اور بعد میں اسی طرح لکھا جاتا رہا۔ سادات کے خاندانوں نے اسے اپنا وطن بنالیا تو اسے بروالہ سیدان کہا جانے لگا۔نام کے ساتھ سیدان کالا حقہ لگانے کی دو وجوہ تھیں۔ایک تو یہ کہ اسی نام کی ایک اور بستی بھی ہریانہ کے علاقہ میں موجود تھی اس سے امتیاز پیدا مقصود تھا۔دوسرے یہ کہ تمام ضلع میں سادات خاندان سوائے اس بستی کے اور کہیں نہیں تھے اس کی نشاندہی کے لئے یہ لاحقہ کام آتا تھا۔
بروالہ کی اہمیت کا ثبوت:۔
بروالہ کو قدیم زمانہ میں جس قدر اہمیت حاصل تھی اس کا سلسلہ بعد کے زمانہ میں بھی جاری رہا ہے۔اس کا ثبوت ایک معتبر تاریخی حوالے سے ملتاہے۔ اصول یہ ہے کہ تاریخ نویس اور جغرافیہ نگار جب کسی علاقہ کا نقشہ مرتب کرتے ہیں تو صرف ان مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں جو انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔فوج کے لئے مرتب کردہ نقشوں میں بھی اسی اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے جرنل میں ایک بہت اہم مضمون شائع ہوا تھا۔اس مضمون کے نکات کی وضاحت کے لئے ایک نقشہ بھی مضمون کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ جس میں ہریانہ کے علاقہ کی حالت بھی دکھائی گئ تھی۔ اس میں انتہائی اہم مقامات میں سے ایک بروالہ ہے جس کی نشاندہی کی گئ ہے۔ یہ نقشہ سامنے کے صفحہ پر شامل کتاب ہے اس کے ساتھ ایک اور نقشہ شامل کیا گیا ہے۔ جس میں ان راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جو پرانے زمانے میں برصغیر کی شمالی سرحدوں سے لے کر دہلی تک سفر کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔
 
Top