جاویداقبال
محفلین
عہدسلاطین سے قبل کے حالات
قدیم ہندوعہد:- اس علاقہ میں جہاں دریائے سرسوتی،دریائے گھگھرواوران کی شاخوں کے کناروں پرآریاؤں نے اپنی اولین بستیاں بسائی تھیں۔ہانسی اوربروالہ کی دوبستیاں ایسی بھی تھیں جوبعدمیں اس علاقہ کے بنجربن جانے اوراکثربستیوں کے نیست ونابودہوجانے کے بعدبھی اورقائم رہیں مگرتاریخی ذرائع سے نہ تویہ پتہ چلتاہےکہ یہ بستیاں کب آبادہوئیں اورنہ یہ معلوم ہوتاہے کہ کب اس علاقہ پرویرانی کی آفت نازل ہوئی۔حدتویہ ہے کہ ہانسی جیسے اہم قلعہ کی عہدبعہدتاریخ کاکوئی سراغ نہیں ملتا۔صرف اتناپتہ چلتاہے کہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں یہ قلعہ کشن خاندان کے حکمرانوں کے قبضہ میں تھااوران کااہم فوجی مرکزتھا۔اس کے علاوہ کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتامعلوم ہوتاہے کہ ہندوحکمرانوں کویہ شعورہی نہیں تھاکہ تاریخ نویسی بھی علم کاکوئی شعبہ ہےاوراپنے زمانہ کی تاریخ کومحفوظ کرنابھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔قدیم ہندودانشوربھی اس فکرسے عاری نظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندؤں کے عہدکی تاریخ کاکوئی سراہاتھ۔ نہیں آتا۔اگرکچھ۔ ہے توصرف قصے کہانیاں ہیں۔بقول مولاناوقارانبالوی کے۔
"ہندوؤں کے ہاں تاریخ لکھنےکارواج ہی نہیں تھا۔یہاں تک کہ بھارت میں جودوزمانے بھارتیوں کےعقیدہ کے مطابق مقدس زمانے گزرے ہیں۔یعنی رام چندرجی اورکرشن جی کے زمانے،ان کاتاریخی تعین بھی آج تک نہیں ہوسکاہے(وقارانبالوی کالم،سرراہے،روزنامہ نوائے وقت لاہور25نومبر1984)
اس سلسلہ میں ایک ہندوعالم اوردانشوربھی اعتراف کرتاہے کہ،
سنسکرت میں تاریخی تحریریں بہت نایاب ہیں(سندھیاکرتاندی،راماچترا،مرتبہ مہاماہورپاددھیاہراپرشادشاستری ایم اے میموٹرزآف ایشیاٹک سوسائٹی بنگال جلد3ص 56)
یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے عہدکے حالات معلوم کرنے کے ہمارے پاس کوئی ذرائع نہیں ہیں اوراس طویل عہدکے متعلق ہمیں سوائے چندروایات کے اورکچ۔ھ۔ حاصل نہیں ہوتا۔
تنواریاتومارخاندان:-ان روایات کے مطابق پہلی یادوسری صدی عیسوی کے کشن خاندان کے بعداس علاقہ کے جس سب سے پہلے حمکران خاندان کاپتہ چلتاہےاس کانام دوطرح سے لکھاگیاہےکچھ۔ مصنف اسے،تنوار(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)،لکھتے ہیں اورکچھ۔ نے،تومار((ecylopeadia of islam 1979P.225لکھاہے اس بات پرالبتہ سب متفق ہیں کہ یہ راجپوت خاندان تھا۔راجپوتوں کے اس خاندان نے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخرمیں دہلی میں اپنی حکومت قائم کی۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)اسکاسب سے پہلاحمکران اننگپال اول تھا۔دہلی میں حکومت قائم کرنے کے بعدآس پاس کے علاقوں کازیرنگین کرنے کاکام شروع ہوا۔چنانچہ اننگپال اول کے بھائی بجیے پال کی سرکردگی میں ہریانہ کے علاقہ کی تسخیرکے لیے ایک مہم بھیجی گئی۔اس نے اس علاقہ کوزیرنگین کرلیااوریہاں قیام کے دوران علاقہ کی ترقی اوربہبودکے لیے بھی کچھ۔ کام کیے۔یہاں تک کہ کچھ۔ نئی بستیاں بھی اس نے اس علاقہ میں آبادکیں۔ان بستیوں میں سے زیادہ مشہوربھونہ کاقصبہ ہے۔اس کافاصلہ بروالہ سیدان سے بارہ کوس ہے اوربروالہ سیدان کے بعدیہ قصبہ اس علاقہ میں باقی رہ جانے والی قدیم بستیوں میں شمارہوتاہے۔
چوہان راجپوت خاندان:-برصغیرکے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سوائے دوتین مختصروقفوں کے یہ کبھی متحداورواحدحکمران کےتحت نہیں رہا۔خاص طورپرمسلمانوں کے قبضہ سے قبل توصرف شمال برصغیرمیں ہی بے شمارچھوٹی چھوٹی خودمختارریاستیں قائم تھیں اوران میں سے اکثرپرراجپوتوں کے مختلف خاندان حکمران تھے ان میں سے جوحکمران طاقت حاصل کرلیتاتھاوہ اپنی پڑوسی ریاستوں کواپناباجگذاربنانے کی کوشش کرتاتھا۔اس طرح ان حکمرانوں کاآپس میں کھانڈاکھڑکتاہی رہتاتھا۔چنانچہ انہی دنوں جب دہلی پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔اجمیراورسانبھرکے علاقہ پرچوہان راجپوت حکمران تھے(ایضا)اس خاندان کے بارے میں کہاجاتاہےکہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میںاجے پال تاروایک راجہ نےاجمیرپراپنی حکومت قائم کی اوریہی شخص چوہان راجپوتوں کامورث اعلی تھا۔اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس سلطنت کوقائم رکھابلکہ اسے مضبوط بنایااوراسکی حدودمیں وسعت پیداکرتے رہے۔یہاں تک کہ 1785(ایضا)میں راجہ مانک رائے چوہان اجمیر
اورسانبھرکے اردگردوسیع علاقہ کاحکمران تھا۔اس راجہ کوچوہان خاندان کے راجاؤں میں بہت مقام حاصل ہےکہاجاتاہے کہ یہی وہ سال ہے جب اجمیرپرمسلمانوں نے سب سے پہلاحملہ کیااوراس علاقہ کومانک رائے سے چھین لیا۔مگرمانک رائے نے ہمت نہیں ہاری۔اپنی قوت کونئی سرے سے مجمع کیااورفوراہی اپناعلاقہ واپس لے لیا۔اس طرح چوہان خاندان کی حکومت اس علاقہ میں قائم رہی۔
1000تک چوہان راجپوتوں کی اس حکومت نے اتنی قوت حاصل کرلی تھی اوراپنی سلطنت کواس قدروسیع کرلیاتھاکہ دہلی کے حکمران تنوارخاندان بھی اس کے باجگذاروں میں شامل تھی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904) اس زمانہ میں اس سلطنت کاحکمران بسالدیوتھااورشمال برصغیرکےتمام راجپوت حکمرانوں میں اس بزرگی اورعزت کامقام حاصل تھا۔ہریانہ کاعلاقہ خاص طورپرہانسی کاقلعہ اوراس کے نواحی مقامات اس چوہان سلطنت کے سرحدی مراکزتھےاوران پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔چنانچہ کرنل ٹاڈکی روایت کے مطابق 1000 میں ہانسی کاسرحدی قلعہ بسالدیوکے بیٹے انوراج کوجاگیرکے طورپردیاگیااوراس علاقہ کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے سپردکی گئی۔(ایضا)
مسلمانوں کاپہلاحملہ:-اس علاقہ کی مستندتاریخ کاآغازمسلمانوں کے پہلے حملہ کے ساتھ۔ ہوتاہےمسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے اس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوفتح کرنے کی کوشش محمودغزنوی کے بیٹے مسعودغزنوی نے کی ۔ اس نے بڑی زبردست تیاری کے ساتھ۔ ہانسی پرحملہ کیا۔مگراس علاقہ کےراجپوت حکمران کےلیے یہ زندگی اورموت کاسوال تھا۔اس لیے انہوں نے متحدہوکراس قلعہ کی حفاظت کےلیے اپناسب کچھ۔ داؤپرلگادیااورانتہائی بے جگری کے ساتھ۔ لڑے۔مسعودکواس جنگ میں شکست ہوئی اورزبردست جانی ومالی نقصان اٹھاکریہاں سے واپس ہوااس جنگ کے بارے میں بیان کیاجاتاہےاس میں ڈیڑھ لاکھ۔ مسلمان شہیدہوئے۔ہانسیشہرسے تین میل کے فاصلہ پرایک اونچاٹیلہ ہے۔جس پرایک مسجدبھی بنی ہوئی تھی۔اس ٹیلہ کوشہیدگنج یاگنج شہیداں اسی لیے کہاجاتاتھاکہ اس جنگ میں شہیدہونے مسلمانوں کے مزارات یہاں تھےایک مصنف نے اس ٹیلہ کوپرانی آبادی کے آثارمیں بھی شمارکیاہےاورلکھاہے۔
"موجودہ آبادی کے شمال مشرق میں ایک وسیع ٹیلہ ہےجس کے اندرتہہ بہ تہہ کئی تہذیبوں کے نشانات دفن ہیں(Enclocaedia of Islam London 1979 P 16
مسلمانوں کادوسراحملہ اورہانسی کی فتح:- مسعودغزنوی نے ہانسی پرجوپہلاحملہ کیااورجس میں اسے شکست ہوئی تھی۔اس کاسن اکثرمورخین نےنہیں لکھا۔البتہ اس کے دوسرے حملے اورہانسی کے فتح کاحال تقریباتمام مورخین نے متعین کیاہےبعض مورخین نے یہ ضروربتایاہےکہ دوسراحملہ پہلے حملے کے تین سال بعدہوا(ایضا)ہانسی کے قلعہ کے بارے میں ہندوؤں کاعقیدہ تھاکہ یہ ناقابل تسخیرہے۔اس عقیدہ کی وجوہ یہ تھیں کہ اولایہ بہت مضبوط فوجی مرکزتھااورتمام ہندوراجوں نے متحدہوکراس کے دفاع کاعہدکیاہواتھا۔ثانیاکوئی غیرملکی حکمران اب تک اسے فتح نہیں کرسکاتھا۔اورہندوؤں کے عقیدہ کویہ روایات بہت مضبوط کردیتی تھیں کہ علاقہ کے اس قدیم ترین قلعہ کی حفاظت دیوتاکرتے ہیں۔ثالثامسعودغزنوی پہلے حملہ میں اسے فتح نہیں کرسکااوراسے شکست ہوئی تویہ عقیدہ اوربھی زیادہ مستحکم ہوگیا۔اورہندوؤں کویقین ہوگیاکہ ہانسی کوفتح کرناتودورکی بات ہے اب تواس طرف مسلمان رخ بھی ہیں کرسکیں گے۔مگرمسعودغزنوی نے حوصلہ نہ ہارا۔اس نے اپنی ضائع شدہ قوت کاازالہ کیا۔نئے سرے سے تیاری کی اورہانسی کی تسخیرکواپناایک اہم مقصدقراردے دیا۔دراصل ہانسی پرقبضہ اس کی سلطنت کی حفاظت کےلیے ضروری تھا۔اس کے زمانہ میں لاہوراورملتان غزنی کی سلطنت کے صوبے تھے اوران کی سرحدوں کومحفوظ کرنے کے لیے ہانسی کے قلعہ کی تسخیرضروری خیال کی گئی تھی۔اس لیےاس نے پوری تیاری کے بعدپھرسے ہانسی کی جانب رخ کیا۔
ہندوراجوں کی اس قلعہ کی مضبوطی اوراسکے ناقابل تسخیرہونے پرپہلے ہی پورابھروسہ تھا۔اس موقع پربرہمنوں اورجوتشیوں نے اپنے یوتھیوں سےحساب کتاب کرکے انہیں پورایقین دلادیاکہ اس قلعہ پرمسلمانوں کاقبضہ کبھی نہیں ہوسکتا۔اس کانتجہ یہ ہواکہ بہت سے ہندوراجوں نےاپناسب مال وخزانہ لاکراس قلعہ میں محفوظ کردیا(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877میں ص59)اوراپنی فوجیں لےکرمسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے۔مگراس دفعہ جنگ کانتیجہ ہندوؤں کی توقعات کے برعکس نکلا۔مفتی غلام سرورلاہوری کے بقول۔
"مگرمسعودنے چھ۔ دن کے عرصہ میں اس کوفتح کیااورمسلمان فوج دیواروں میں میخیں گاڑکردیوارپرچڑھ گئے(ایضا)اسطرح قلعہ فتح ہوگیااورہندوراجوں نے وہاں پرجومال ودولت اورخزانے جمع کیے تھے۔وہ سب گنج ہےتخت ورنج مسعودنے لےلیا(ایضا)
اسی مصنف نے ایک اورجگہ لکھاہے۔
"سلطان مسعودابن محمودغزنوی نے اپنے باپ کی سنت کوجاری فرمایا۔ہندپرچڑھ آیا۔ہانسی وسونین پت وغیرہ قلعوں کوفتح کرکے بےشماردولت غزنین کولے گیا۔(مفتی غلام سرورلاہور۔تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877ص12،14)
کہتے ہیں کہ لڑائی کے ذریعہ اس قلعہ پرقبضہ کرنےوالااولین شخص مسعودتھا۔اس قبضہ کے سن کے بارے میں مورخین کےدرمیان تھوڑاسااختلاف ہے۔ایک دومورخین نےاسے 1036لکھامثلا:
تین سال بعد1036میں مسعودنےایک بارپھرہندوستان پرحملہ کیااورپنجاب کےقریب ہانسی کےمقام پرلشکراندازہواقلعہ ہانسی کے بارےمیں خیال کیاجاتاتھاکہ یہ ناقابل تسخیرقلعہ ہے۔لیکن مسعودکےحملوں کےسامنےاس قلعہ کی تمام مضبوطی پانی کے بلبلے کی مانندتھی(سیداصغرعلی شاہ تاریخ پنجاب۔لاہورص49)
427ھ۔ مطابق 1036میں ایک نیامحل تعمیرہواجس میں جواہرات سے مرصع تخت نصب کیاگیاتھااس پرایک مرصع تاج بھی آویزاں تھا۔سلطان مسعوداس تخت پرجلوہ افروزہوا۔سرپروہی تاج پہنااوررعایاکوباریابی بخشی اسی سال اس نے اپنے فرزندامیرمودودکوطبل وعلم کے اعزازکے ساتھ۔ بلخ بھیجااورخودہندوستان کے جانب روانہ ہوا۔سب سےپہلے قلعہ ہانسی فتح کیا۔(ملاعبدالقادرملوک شاہ یدجوانی۔منتخب التواریخ اردوترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور1962ص42)
فرشتہ نے بھی نئےمحل تعمیراوراس میں سلطان مسعودکی جلوہ افروزی کےمتعلق اس سارے بیان کی حرف بحرف تائیدکرتے ہوئےکہاہے۔
اس سال مسعودنےاپنے بیٹے مودودکوصاحب طبل وعلم کیااورقلعہ ہانسی کوفتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔طبقات ناصری کے مؤلف کابیان ہےکہ اس زمانہ میں ہانسی سوالک کادرالسلطنت تھا۔ہانسی کاقلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔اسکی بابت ہندویہ عقیدہ رکھتےتھےکہ اسے کوئی مسلمان فرمانرواتسخیرنہیں کرسکتا۔امیرمسعودنےہانسی پہنچ کراس قلعہ کامحاصرہ کرلیااورچھ۔ روزکی محنت کے بعداسے فتح کرلیا(محمدقاسم فرشتہ،تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974جلداول ص166)
مگراکثرجدیدمورخین نے ہانسی کی فتح کاسن 1037لکھاہےاوریہی درست معلوم ہوتاہے۔مثلا:
1030میں مسعودنے ہانسی کوفتح کرلیا(Bukhsh singh Nijar Punjab Under the sultan Lahore 1979P23)
1037میں اپنی مغربی سرحدوں پرسلجوقوں کے خطرہ کے باوجوداس نے ہانسی پرحملہ کیااوراس پرقبضہ کرلیا(J.C.Power Pric A History of India London 1955 P5)
بلکہ ایک مستندکتاب میں ہجری سن بھوتھوڑاسامختلف لکھاہےاوراسکے ساتھ۔ ساتھ۔ حملہ کے وقت کاتعین بھی کیاہے۔
محمودغزنوی کےبیٹے مسعودنے جب 429ھ۔ کے موسم سرمامیں ہانسی پرحملہ کیا(Enclopaedia of Islam London 1979 P 167)
غرض اس سال میں مسعودغزنوی نے اپنے دوسرے حملہ میں سخت مقابلہ کے بعدہانسی پرقبضہ کرلیااورایک بیان کے مطابق:
اس کے بعدہانسی کوغزنوی سلطنت کے ہندوستانی صوبہ کے سرحدی قلعہ کی حیثیت سے بہت اہم پوزیشن حاصل ہوگئی۔چنانچہ مسعودکے دوسرے بیٹے مجدوکواس صوبہ کاگورنرمقررکیاگیا۔اوراس نے 432ب۔ کاموسم سرماہانسی کے مقام پربیٹھ۔ کراس انتظارمیں گزاراکہ اسے دہلی پرحملہ کرنے کاموقع مل سکے(ایضا)
ہراخاندان:-مسلمانوں نے جب ہانسی پرقبضہ کیاتووہاں کاحکمران چوہان خاندان کاراجہ تیشت پال تھاوہ انودن کابیٹاتھا۔اسے جب ہانسی سے نکلناپڑاتواپنےخاندان اورساتھیوں سمیت بونڈی کےمقام پرچلاگیااوروہاں ہراخاندان کے نام سے ریاست قائم کرلی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصارولوہاروسٹیٹ1904)یہاں ہراکالفظ چوہان خاندان کی ایک شاخ کے طورپراستعمال ہواہےیہ شبہ ہوسکتاہےکہ اسی لفظ سے ہریانہ کانام بناہو۔مگریہ شبہ اسی وقت تسلیم ہوسکتاہےجب کہ یہ تسلیم کرلیاجائے کہ اس علاقہ کانام قدیم زمانہ سے ہریانہ نہیں تھا۔حالانکہ اسے قدیم تاریخوں میں بھی اسی نام سے لکھاگیاہےدوسرے یہ کہ ہراخاندان کی ریاست بہت چھوٹی سی تھی اوروہ ایک وسیع علاقہ کی وجہ تسمیہ نہیں بن سکتی تھی۔اس لیے یہ شبہ قطعادرست نہیں ہےکہ اس ہراخاندان کے باعث اس علاقہ کانام ہریانہ رکھاگیاہے۔
غزنویوں کانظام مملکت:-ہانسی کاقلعہ اوراس کے اردگردکاعلاقہ تقریبادس سال تک غزنویوں کے قبضہ میں رہا۔اورلاہوراورملتان توغزنوی سلطنت کاصوبہ طویل عرصہ تک رہے۔ان کی
حکومت نے ہانسی کوجومقام دیاتھااس کااندازہ کرنے کے لیے ان کے نظام ممکت پرایک سرسری نظرڈالنی ضروری ہےاس سلسلہ میں ڈاکٹربخشیش سنگھ۔ بخارکی کتاب سےیہی بڑی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں انہوں نے لکھاکہ سلطان مسعودغزنوی پہلامسلمان بادشاہ تھاجس نے پنجاب میں حکومت قائم کی۔اس حکومت کاانتظامی ڈھانچہ اس کے اپنے ملک میں رائج نظام کے نمونہ پرتشکیل دیاگیاتھا۔یہ نظام غزنویوں نے امویوں،بازنقینوں اورایرانیوں سے حاصل کیاتھااس کیمابق پنجاب کی اقطاعات میں تقسیم کردیاگیاتھا۔ایک اقطاع میں ایک شہراوراس کے ساتھ۔ کچھ۔ دیہات پرمشتمل علاقہ ہوتاتھا۔ایک اقطاع کوصوبہ کی حیثیت حاصل ہوتی تھی اوراس کے گورنرکووالی یا مفتی کہاجاتاتھا۔ہانسی کوغزنوی دورحکومت میں ایک اقطاع کی حیثیت حاصل تھی(Bakhsh Singh Nigar Punjab under the Sultan Lahore 1979 P 99-100)اوراس اقطاع میں ظاہرہے کہ بروالہ سیدان ایک اہم قصبہ اورانتظامی مرکزتھا۔
ہانسی پرہندوؤں کادوبارہ قبضہ:- غزنویوں کے عہدمیں ہانسی کاعلاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آنے کے بعدزیادہ عرصہ ان کے تسلط میں نہیں رہ سکا۔شمالی ہندکی راجپوت حکومتوں کےلیے اس قلعہ کی اتنی اہمیت تھی کہ اس پرقبضہ کے بغیروہ خودکوبالکل غیرمحفوظ سمجھتے تھے۔یہ قلعہ دہلی پرحملہ کے لیے ابتدائی ٹھکانے کے طورپراستعمال ہوسکتاتھا۔کیونکہ خراسان سے براستہ ملتان اورجنوبی پنجاب ،دہلی تک پہنچنے والے راستے پریہ قلعہ ایک انتہائی اہم فوجی مرکزتھا۔(شمالی پنجاب کاراستہ سرہندسےہوکرگزرتاتھا)اس لیےراجپوت حکمران اس قلعہ کومسلمانوں سے واپس لینے کے لیے مسلسل تیاری اورکوشش میں مصروف رہے۔اورزیادہ عرصہ گزرنے سے قبل ہی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے۔فرشتہ کے بیان کے مطابق 435 ،1043 میں دہلی اورشمالی ہندکے دیگرہندوراجاؤں نے مل کرہانسی اورتھانیسرکے علاقوں پرقبضہ کرلیا۔(محمدقاسم فرشتہ تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974 جلداول ص175)اس قبضہ کے بعدہانسی کودہلی کے راجہ کی حکومت میں شامل کردیاگیاجوچوہانوں کے باجگذارتنوارخاندان سے تھا۔اوراس کے بعدیہ قلعہ ایک صدی سے زائدعرصہ تک اسی خاندی کے قبضہ میں رہا۔آخر 1173میں چوہان اورراجہ پرتھوی راج نے اس خاندان کےآخری راجہ (ننگ پال دوم کوتخت سے محروم کرکے خوداس پرقبضہ کرلیااوراس طرح ہانسی کاعلاقہ بھی پرتھی راج کی حکومت میں شامل ہوگیا۔اس کے زمانہ میں ہریانہ پردہلی حکومت کی گرفت کوزیادہ مضبوط کردیاگیا۔ہانسی کے قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیااوراسے بہت مضبوط بناکراتنہائی مستحکم فوجی مرکزمیں تبدیل کردیاگیا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)
انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نے بھی ہانسی کے دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے سن اورواقعات کی تصدیق کی ہے اورلکھاہےاس علاقہ پردوبارہ قبضہ کے وقت دہلی پرحکمران راجہ کانام مہی پال تھااورہانسی کواسی کی سلطنت میں شامل کیاگیاتھا۔اس کے بعدتمام ہندوحکمراں اس قلعہ کی مضبوطی میں اضافہ کی جانب توجہ دیتے رہےکیونکہ یہ قلعہ ان کی سلطنت کی حفاظت کےلیے انتہائی اہم مقام کاحامل تھا۔یہاں تک کہ اگلی صدی کے آخرمیںپرتھوی راج نے اس قلعہ کی وسعت میں بھی اضافہ کیااوراسے اس قدرمضبوط بنادیاکہ غوری افواج کے مقابلے میں اس پر پوری طرح بھروسہ کیاجاسکے۔(Encylopadia of Islam London 1979 P 167)
بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہانسی پرغزنویوں کے قبضہ اوران کے دس سالہ دورحکومت کی بیشترتفصیلات سن اورتاریخ کے حوالوں سمیت مہیاہوجاتی ہیں۔مگردوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں چلے جانے کے بعداس علاقہ کی تاریخ کی تفصیلات پرپھرتاریکی کاپردہ پڑجاتاہے۔اس قریباڈیڑھ صدی کےعرصہ کے صرف ایک دوحکمرانوں کے نام ملتے ہیں اوربس باقی کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتا۔ البتہ بارھویں صدی عیسوی کےآخرمیں پرتھوی راج کے دورحکومت کی کچھ۔ تفیصلات میسرآجاتی ہیںوہ بھی شایداس لیے کے وہ اس علاقہ کاآخری ہندوحکمران تھااوراس کے بعدیہاں حکومت ہزارہاسال کے لیے مسلمانوں کومنتقل ہوگئی تھی۔
انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نےایک جگہ تویہی لکھاہے کچھ۔ کتبوں سے یہ پتہ چلتاہےکہ ہانسی پرتنواراورچوہان راجپوت قابض رہے۔اورہندوؤں کایہ قبضہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں کشن عہدسے جاری تھا(ایضا)لیکن دوسری جگہ غیاث الدین بلبن کےزمانے کے کچھ۔ سنسکرت کے کتبوں کے حوالہ سے لکھاہے۔
"ہریانکا پرتومارراجپوت حکمران رہے اس کے بعدچوہان خاندان کی حکومت آئی۔اسکے بعدساکاخاندان کے بادشاہ آئے(ایضا)لیکن اس بات کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتاکہ یہ ساکاخاندان کون ساخاندان تھا۔صرف دوہی خاندانوں کانام ملتاہے۔ایک توماریاتنوارخاندان ہےاوردوسراچوہان خاندان ہے غزنویوں نے جب اس علاقہ پرقبضہ کیاتواس پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے بعدبھی یہ علاقہ اسی خاندان کی حکومت میں شامل ہوا۔اورایک صدی سے زائد عرصہ کےبعداسی خاندان کےآخری راجہ کوحکومت سے محروم کرکےپرتھی راج نےاس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنی حکومت کاحصہ بنالیاتھا۔اس تمام عرصہ میں ساکاخاندان کانام کہیں نہیں ملتاہےاوراس کتبہ کی اس تحریرکی اورکسی ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے۔
عہ۔۔۔۔دسلاطین
شہاب الدین محمدغوری کاپہلاحملہ:- جیساکہ گذشتہ باب میں بیان کیاجاچکاہے1173 میں چوہان خاندان کے راجہ پرتھی راج نےہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنے قبضہ میں لےلیاتھااوراس نے اس نےاس قلعہ کوایک انتہائی اہم فوجی مرکزکی حیثیت دے کراسے مستحکم بنانے میں بڑی دلچسپی لی۔چنانچہ اس کے زمانہ میں اس قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیا۔شہرکووسیع کردیاگیااوراسے اسے ایک ایسے فوجی مستقرکی حیثیت دےدی گئی کہ ایک سرحدی قلعہ کی حیثیت سےہرقسم کےبیرونی حملہ کے مقابلہ میں اس پربھروسہ کیاجاسکے۔اس علاقہ کوپرتھی راج نے براہ راست اپنے قبضہ میں لیابھی اسی غرض سے تھاکہ ہانسی کے قلعہ کواپنی مرضی کے مطابق مضبوط بناسکےورنہ اس سے قبل اس علاقہ پرحکمران تنوارخاندان بھی اس کاباجگذارہی تھا۔دراصل پرتھی راج کی خواہش تھی کہ اس علاقہ میں استحکام پیداکرکے اورہندوراجاؤں کوایک متحدقوت بناکرپنجاب کے ان علاقوں کوبھی مسلمانوں سے واپس لے لے جوابتک ان کے قبضہ میں تھے۔
ادھرشہاب الدین غوری بھی راجپوتوں کی اس مجتمع ہوتی ہوئی قوت کودیکھ۔ کرخطرہ محسوس کررہاتھااوراس کے توڑکی تدابیرمیں مصروف تھا۔اورانہی تدابیرمیں سے ایک تدبیریہ تھی کہ 591(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)میں اس نے راجپوتوں کی قوت سے پہلی ٹکرلینے کافیصلہ کیاوہ اپنالشکرلےکرآگے بڑھاتوراجپوتوں نے اسے دریائے سرسوتی کے کنارے ترائن کے مقام پرروکا۔یہاں بہت زورکامعرکہ پڑا۔اس معرکہ میں راجپوتوں کاپلہ بھاری رہاغوری کوشکست ہوئی اوروہ زخمی ہونے کےبعدبمشکل جان بچاکرمیدان سے نکلنے میں کامیاب ہوسکا۔اوراپنے بچے کچے لشکرکولے کرواپس غزنی چلاگیا۔
ہانسی کی فتح:- اس شکست کوغوری نے اپنی جان کاروگ بنالیااوراپنی تمام صلاحیتوں کواسکابدلہ چکانے کی تیاری میں صرف کردیا۔اورایک سال بعدہی وہ پھرراجپوتوں سےمقابلہ کےلیےآموجودہوا۔دوسری جانب راجپوتوں نےبھی وقت کوضائع نہیں کیاتھا۔پرتھی راج کواندازہ تھاکہ غوری اس شکست کوخاموش بیٹھ۔ کربرداشت کرنےکےلیےتیارنہیں ہوگاچنانچہ اس نےشمالی ہندکےتمام ہندوراجوں کایکجاکرکےمسلمانوں کامقابلہ کرنےکی تیاری کرلی تھی۔تمام راجاؤں نے
اپنی فوجی قوت سمیت خودکوپرتھی راج کے سپردکردیاتھا۔چنانچہ اس دفعہ کامعرکہ گذشتہ سال کی نسبت زیادہ پرزورتھااس دفعہ بھی دونوں فوجوں کاآمناسامناگذشتہ سال والے مقام پرترائن میں ہوا۔گھمسان کارن پڑا۔اس دفعہ مسلمان اس بے جگری سے لڑےکےراجپوت فوجوں کوتہس نہس کرکےرکھ۔ دیا۔پرتھی راج شکست کھاکرمیدان سےبھاگ نکلا۔مگرسرسہ کےقریب پکڑاگیااورقتل کردیاگیا۔اس وقت ہانسی پرچوہان خاندان حکمران ہمیرنامی تھا۔وہ بھی جنگ میں قتل ہوگیا۔(ڈسٹرکٹ گزیٹیرزپنجاب 1904)یہ1192،588ھ کاہے۔اس واقعہ کومنہاج سراج نے بیان کرتے ہوئے لکھاہے۔
"رائےپتھوراہاتھی پرسوارتھا۔اترکرگھوڑےپربیٹھا۔بھاگ کردریائے سرستی پرپہنچاتوپکڑاگیااوراسےجہنم رسیدکیاگیااوررائے میدان جنگ میں ماراگیا۔سلطان نے خوداس کاسرپہنچان لیا۔کیونکہ دواگلے دانٹ ٹوٹے ہوئےتھے۔اجمیرکامرکزحکومت سوالک کے سواتمام حصے مثلاہانسی سرستی اوردوسرے علاقےفتح ہوگئے(منہاج سراج۔طبقات ناصری ترجمہ غلام رسول مہر۔لاہور1975 جلداول ص712)
صاحب منتخب التواریخ نے اس واقعہ کویوں بیان کیاہے
588ھ۔۔ میں سلطان شہاب الدین غوری چالیس ہزارنامورسواروں کےساتھ۔ پھرہندوستان آیا۔اس نے اپنی فوج کودوحصوں میں تقسیم کیا۔اورموضع تبرہندہ کےنواح میں جنگ کی اوراسے فتح کرلیا۔رائے پتھوراگرفتارہوااورکھنڈرائے ماراگیااوراس کےبعدسلطان نےہانسی اورسرستی کےقلعوں پرچڑھائی کی اورانہیں بھی فتح کرلیا۔(منتخب التواریخ۔ملاعبدالقادربدیوانی ترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور۔1962ص16)
گویاترائن یاتروڑی کےمقام پرراجپوتوں کوشکست ہونے کےبعدسرستی کاقلعہ توظاہرہےکہ مسلمانوں کےقبضہ میں آہی گیاتھا۔اس کے بعدمسلمانوں نےجس علاقہ کوقبضہ میں لینے کی کوشش کی وہ ہانسی کاقلعہ تھا۔کیونکہ یہ قلعہ انتہائی اہم تھااوراس پرقبضہ کیے بغیراس علاقہ پرمسلمانوں کاقبضہ مکمل نہیں ہوسکتاتھا۔اس قعلہ پرقبضہ کےبعدشہاب الدین غوری کواطمینان ہوگیاکہ اب یہ علاقہ پوری طرح اسکے تصرف میں آگیاہے۔اس قلعہ پراس نے نصرت الدین کوحاکم مقررکیا۔
راجپوتوں کی آخری ناکام کوشش:-راجپوتوں کی قوت اگرچہ ترادڑی کی دوسری جنگ میں پاش پاش ہوچکی تھی مگراس جنگ کے بعدجلدہی انہوں نے سنبھالالینے کی آخری کوشش کی۔انہوںنے اپنی بچی کھچی قوت کواکٹھاکیااورچندماہ بعدہی 1192 کے اختتام پرہریانہ پرحملہ آورہوئےاورہانسی کے گورنرنصرت الدین کوقلعہ میں محصورہونے پرمجبورکردیا۔مگرسلطان شہاب الدین اس جانب سے غافل نہیں تھا۔اس نےقطب الدین ایبک کوفورالشکردے کربھیجا۔اس نے نہ صرف ہریانہ میں راجپوتوں کوشکست دی بلکہ آگے بڑھ کردہلی اوراجمیرپرقبضہ کر
قدیم ہندوعہد:- اس علاقہ میں جہاں دریائے سرسوتی،دریائے گھگھرواوران کی شاخوں کے کناروں پرآریاؤں نے اپنی اولین بستیاں بسائی تھیں۔ہانسی اوربروالہ کی دوبستیاں ایسی بھی تھیں جوبعدمیں اس علاقہ کے بنجربن جانے اوراکثربستیوں کے نیست ونابودہوجانے کے بعدبھی اورقائم رہیں مگرتاریخی ذرائع سے نہ تویہ پتہ چلتاہےکہ یہ بستیاں کب آبادہوئیں اورنہ یہ معلوم ہوتاہے کہ کب اس علاقہ پرویرانی کی آفت نازل ہوئی۔حدتویہ ہے کہ ہانسی جیسے اہم قلعہ کی عہدبعہدتاریخ کاکوئی سراغ نہیں ملتا۔صرف اتناپتہ چلتاہے کہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں یہ قلعہ کشن خاندان کے حکمرانوں کے قبضہ میں تھااوران کااہم فوجی مرکزتھا۔اس کے علاوہ کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتامعلوم ہوتاہے کہ ہندوحکمرانوں کویہ شعورہی نہیں تھاکہ تاریخ نویسی بھی علم کاکوئی شعبہ ہےاوراپنے زمانہ کی تاریخ کومحفوظ کرنابھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔قدیم ہندودانشوربھی اس فکرسے عاری نظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندؤں کے عہدکی تاریخ کاکوئی سراہاتھ۔ نہیں آتا۔اگرکچھ۔ ہے توصرف قصے کہانیاں ہیں۔بقول مولاناوقارانبالوی کے۔
"ہندوؤں کے ہاں تاریخ لکھنےکارواج ہی نہیں تھا۔یہاں تک کہ بھارت میں جودوزمانے بھارتیوں کےعقیدہ کے مطابق مقدس زمانے گزرے ہیں۔یعنی رام چندرجی اورکرشن جی کے زمانے،ان کاتاریخی تعین بھی آج تک نہیں ہوسکاہے(وقارانبالوی کالم،سرراہے،روزنامہ نوائے وقت لاہور25نومبر1984)
اس سلسلہ میں ایک ہندوعالم اوردانشوربھی اعتراف کرتاہے کہ،
سنسکرت میں تاریخی تحریریں بہت نایاب ہیں(سندھیاکرتاندی،راماچترا،مرتبہ مہاماہورپاددھیاہراپرشادشاستری ایم اے میموٹرزآف ایشیاٹک سوسائٹی بنگال جلد3ص 56)
یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے عہدکے حالات معلوم کرنے کے ہمارے پاس کوئی ذرائع نہیں ہیں اوراس طویل عہدکے متعلق ہمیں سوائے چندروایات کے اورکچ۔ھ۔ حاصل نہیں ہوتا۔
تنواریاتومارخاندان:-ان روایات کے مطابق پہلی یادوسری صدی عیسوی کے کشن خاندان کے بعداس علاقہ کے جس سب سے پہلے حمکران خاندان کاپتہ چلتاہےاس کانام دوطرح سے لکھاگیاہےکچھ۔ مصنف اسے،تنوار(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)،لکھتے ہیں اورکچھ۔ نے،تومار((ecylopeadia of islam 1979P.225لکھاہے اس بات پرالبتہ سب متفق ہیں کہ یہ راجپوت خاندان تھا۔راجپوتوں کے اس خاندان نے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخرمیں دہلی میں اپنی حکومت قائم کی۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)اسکاسب سے پہلاحمکران اننگپال اول تھا۔دہلی میں حکومت قائم کرنے کے بعدآس پاس کے علاقوں کازیرنگین کرنے کاکام شروع ہوا۔چنانچہ اننگپال اول کے بھائی بجیے پال کی سرکردگی میں ہریانہ کے علاقہ کی تسخیرکے لیے ایک مہم بھیجی گئی۔اس نے اس علاقہ کوزیرنگین کرلیااوریہاں قیام کے دوران علاقہ کی ترقی اوربہبودکے لیے بھی کچھ۔ کام کیے۔یہاں تک کہ کچھ۔ نئی بستیاں بھی اس نے اس علاقہ میں آبادکیں۔ان بستیوں میں سے زیادہ مشہوربھونہ کاقصبہ ہے۔اس کافاصلہ بروالہ سیدان سے بارہ کوس ہے اوربروالہ سیدان کے بعدیہ قصبہ اس علاقہ میں باقی رہ جانے والی قدیم بستیوں میں شمارہوتاہے۔
چوہان راجپوت خاندان:-برصغیرکے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سوائے دوتین مختصروقفوں کے یہ کبھی متحداورواحدحکمران کےتحت نہیں رہا۔خاص طورپرمسلمانوں کے قبضہ سے قبل توصرف شمال برصغیرمیں ہی بے شمارچھوٹی چھوٹی خودمختارریاستیں قائم تھیں اوران میں سے اکثرپرراجپوتوں کے مختلف خاندان حکمران تھے ان میں سے جوحکمران طاقت حاصل کرلیتاتھاوہ اپنی پڑوسی ریاستوں کواپناباجگذاربنانے کی کوشش کرتاتھا۔اس طرح ان حکمرانوں کاآپس میں کھانڈاکھڑکتاہی رہتاتھا۔چنانچہ انہی دنوں جب دہلی پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔اجمیراورسانبھرکے علاقہ پرچوہان راجپوت حکمران تھے(ایضا)اس خاندان کے بارے میں کہاجاتاہےکہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میںاجے پال تاروایک راجہ نےاجمیرپراپنی حکومت قائم کی اوریہی شخص چوہان راجپوتوں کامورث اعلی تھا۔اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس سلطنت کوقائم رکھابلکہ اسے مضبوط بنایااوراسکی حدودمیں وسعت پیداکرتے رہے۔یہاں تک کہ 1785(ایضا)میں راجہ مانک رائے چوہان اجمیر
اورسانبھرکے اردگردوسیع علاقہ کاحکمران تھا۔اس راجہ کوچوہان خاندان کے راجاؤں میں بہت مقام حاصل ہےکہاجاتاہے کہ یہی وہ سال ہے جب اجمیرپرمسلمانوں نے سب سے پہلاحملہ کیااوراس علاقہ کومانک رائے سے چھین لیا۔مگرمانک رائے نے ہمت نہیں ہاری۔اپنی قوت کونئی سرے سے مجمع کیااورفوراہی اپناعلاقہ واپس لے لیا۔اس طرح چوہان خاندان کی حکومت اس علاقہ میں قائم رہی۔
1000تک چوہان راجپوتوں کی اس حکومت نے اتنی قوت حاصل کرلی تھی اوراپنی سلطنت کواس قدروسیع کرلیاتھاکہ دہلی کے حکمران تنوارخاندان بھی اس کے باجگذاروں میں شامل تھی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904) اس زمانہ میں اس سلطنت کاحکمران بسالدیوتھااورشمال برصغیرکےتمام راجپوت حکمرانوں میں اس بزرگی اورعزت کامقام حاصل تھا۔ہریانہ کاعلاقہ خاص طورپرہانسی کاقلعہ اوراس کے نواحی مقامات اس چوہان سلطنت کے سرحدی مراکزتھےاوران پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔چنانچہ کرنل ٹاڈکی روایت کے مطابق 1000 میں ہانسی کاسرحدی قلعہ بسالدیوکے بیٹے انوراج کوجاگیرکے طورپردیاگیااوراس علاقہ کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے سپردکی گئی۔(ایضا)
مسلمانوں کاپہلاحملہ:-اس علاقہ کی مستندتاریخ کاآغازمسلمانوں کے پہلے حملہ کے ساتھ۔ ہوتاہےمسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے اس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوفتح کرنے کی کوشش محمودغزنوی کے بیٹے مسعودغزنوی نے کی ۔ اس نے بڑی زبردست تیاری کے ساتھ۔ ہانسی پرحملہ کیا۔مگراس علاقہ کےراجپوت حکمران کےلیے یہ زندگی اورموت کاسوال تھا۔اس لیے انہوں نے متحدہوکراس قلعہ کی حفاظت کےلیے اپناسب کچھ۔ داؤپرلگادیااورانتہائی بے جگری کے ساتھ۔ لڑے۔مسعودکواس جنگ میں شکست ہوئی اورزبردست جانی ومالی نقصان اٹھاکریہاں سے واپس ہوااس جنگ کے بارے میں بیان کیاجاتاہےاس میں ڈیڑھ لاکھ۔ مسلمان شہیدہوئے۔ہانسیشہرسے تین میل کے فاصلہ پرایک اونچاٹیلہ ہے۔جس پرایک مسجدبھی بنی ہوئی تھی۔اس ٹیلہ کوشہیدگنج یاگنج شہیداں اسی لیے کہاجاتاتھاکہ اس جنگ میں شہیدہونے مسلمانوں کے مزارات یہاں تھےایک مصنف نے اس ٹیلہ کوپرانی آبادی کے آثارمیں بھی شمارکیاہےاورلکھاہے۔
"موجودہ آبادی کے شمال مشرق میں ایک وسیع ٹیلہ ہےجس کے اندرتہہ بہ تہہ کئی تہذیبوں کے نشانات دفن ہیں(Enclocaedia of Islam London 1979 P 16
مسلمانوں کادوسراحملہ اورہانسی کی فتح:- مسعودغزنوی نے ہانسی پرجوپہلاحملہ کیااورجس میں اسے شکست ہوئی تھی۔اس کاسن اکثرمورخین نےنہیں لکھا۔البتہ اس کے دوسرے حملے اورہانسی کے فتح کاحال تقریباتمام مورخین نے متعین کیاہےبعض مورخین نے یہ ضروربتایاہےکہ دوسراحملہ پہلے حملے کے تین سال بعدہوا(ایضا)ہانسی کے قلعہ کے بارے میں ہندوؤں کاعقیدہ تھاکہ یہ ناقابل تسخیرہے۔اس عقیدہ کی وجوہ یہ تھیں کہ اولایہ بہت مضبوط فوجی مرکزتھااورتمام ہندوراجوں نے متحدہوکراس کے دفاع کاعہدکیاہواتھا۔ثانیاکوئی غیرملکی حکمران اب تک اسے فتح نہیں کرسکاتھا۔اورہندوؤں کے عقیدہ کویہ روایات بہت مضبوط کردیتی تھیں کہ علاقہ کے اس قدیم ترین قلعہ کی حفاظت دیوتاکرتے ہیں۔ثالثامسعودغزنوی پہلے حملہ میں اسے فتح نہیں کرسکااوراسے شکست ہوئی تویہ عقیدہ اوربھی زیادہ مستحکم ہوگیا۔اورہندوؤں کویقین ہوگیاکہ ہانسی کوفتح کرناتودورکی بات ہے اب تواس طرف مسلمان رخ بھی ہیں کرسکیں گے۔مگرمسعودغزنوی نے حوصلہ نہ ہارا۔اس نے اپنی ضائع شدہ قوت کاازالہ کیا۔نئے سرے سے تیاری کی اورہانسی کی تسخیرکواپناایک اہم مقصدقراردے دیا۔دراصل ہانسی پرقبضہ اس کی سلطنت کی حفاظت کےلیے ضروری تھا۔اس کے زمانہ میں لاہوراورملتان غزنی کی سلطنت کے صوبے تھے اوران کی سرحدوں کومحفوظ کرنے کے لیے ہانسی کے قلعہ کی تسخیرضروری خیال کی گئی تھی۔اس لیےاس نے پوری تیاری کے بعدپھرسے ہانسی کی جانب رخ کیا۔
ہندوراجوں کی اس قلعہ کی مضبوطی اوراسکے ناقابل تسخیرہونے پرپہلے ہی پورابھروسہ تھا۔اس موقع پربرہمنوں اورجوتشیوں نے اپنے یوتھیوں سےحساب کتاب کرکے انہیں پورایقین دلادیاکہ اس قلعہ پرمسلمانوں کاقبضہ کبھی نہیں ہوسکتا۔اس کانتجہ یہ ہواکہ بہت سے ہندوراجوں نےاپناسب مال وخزانہ لاکراس قلعہ میں محفوظ کردیا(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877میں ص59)اوراپنی فوجیں لےکرمسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے۔مگراس دفعہ جنگ کانتیجہ ہندوؤں کی توقعات کے برعکس نکلا۔مفتی غلام سرورلاہوری کے بقول۔
"مگرمسعودنے چھ۔ دن کے عرصہ میں اس کوفتح کیااورمسلمان فوج دیواروں میں میخیں گاڑکردیوارپرچڑھ گئے(ایضا)اسطرح قلعہ فتح ہوگیااورہندوراجوں نے وہاں پرجومال ودولت اورخزانے جمع کیے تھے۔وہ سب گنج ہےتخت ورنج مسعودنے لےلیا(ایضا)
اسی مصنف نے ایک اورجگہ لکھاہے۔
"سلطان مسعودابن محمودغزنوی نے اپنے باپ کی سنت کوجاری فرمایا۔ہندپرچڑھ آیا۔ہانسی وسونین پت وغیرہ قلعوں کوفتح کرکے بےشماردولت غزنین کولے گیا۔(مفتی غلام سرورلاہور۔تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877ص12،14)
کہتے ہیں کہ لڑائی کے ذریعہ اس قلعہ پرقبضہ کرنےوالااولین شخص مسعودتھا۔اس قبضہ کے سن کے بارے میں مورخین کےدرمیان تھوڑاسااختلاف ہے۔ایک دومورخین نےاسے 1036لکھامثلا:
تین سال بعد1036میں مسعودنےایک بارپھرہندوستان پرحملہ کیااورپنجاب کےقریب ہانسی کےمقام پرلشکراندازہواقلعہ ہانسی کے بارےمیں خیال کیاجاتاتھاکہ یہ ناقابل تسخیرقلعہ ہے۔لیکن مسعودکےحملوں کےسامنےاس قلعہ کی تمام مضبوطی پانی کے بلبلے کی مانندتھی(سیداصغرعلی شاہ تاریخ پنجاب۔لاہورص49)
427ھ۔ مطابق 1036میں ایک نیامحل تعمیرہواجس میں جواہرات سے مرصع تخت نصب کیاگیاتھااس پرایک مرصع تاج بھی آویزاں تھا۔سلطان مسعوداس تخت پرجلوہ افروزہوا۔سرپروہی تاج پہنااوررعایاکوباریابی بخشی اسی سال اس نے اپنے فرزندامیرمودودکوطبل وعلم کے اعزازکے ساتھ۔ بلخ بھیجااورخودہندوستان کے جانب روانہ ہوا۔سب سےپہلے قلعہ ہانسی فتح کیا۔(ملاعبدالقادرملوک شاہ یدجوانی۔منتخب التواریخ اردوترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور1962ص42)
فرشتہ نے بھی نئےمحل تعمیراوراس میں سلطان مسعودکی جلوہ افروزی کےمتعلق اس سارے بیان کی حرف بحرف تائیدکرتے ہوئےکہاہے۔
اس سال مسعودنےاپنے بیٹے مودودکوصاحب طبل وعلم کیااورقلعہ ہانسی کوفتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔طبقات ناصری کے مؤلف کابیان ہےکہ اس زمانہ میں ہانسی سوالک کادرالسلطنت تھا۔ہانسی کاقلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔اسکی بابت ہندویہ عقیدہ رکھتےتھےکہ اسے کوئی مسلمان فرمانرواتسخیرنہیں کرسکتا۔امیرمسعودنےہانسی پہنچ کراس قلعہ کامحاصرہ کرلیااورچھ۔ روزکی محنت کے بعداسے فتح کرلیا(محمدقاسم فرشتہ،تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974جلداول ص166)
مگراکثرجدیدمورخین نے ہانسی کی فتح کاسن 1037لکھاہےاوریہی درست معلوم ہوتاہے۔مثلا:
1030میں مسعودنے ہانسی کوفتح کرلیا(Bukhsh singh Nijar Punjab Under the sultan Lahore 1979P23)
1037میں اپنی مغربی سرحدوں پرسلجوقوں کے خطرہ کے باوجوداس نے ہانسی پرحملہ کیااوراس پرقبضہ کرلیا(J.C.Power Pric A History of India London 1955 P5)
بلکہ ایک مستندکتاب میں ہجری سن بھوتھوڑاسامختلف لکھاہےاوراسکے ساتھ۔ ساتھ۔ حملہ کے وقت کاتعین بھی کیاہے۔
محمودغزنوی کےبیٹے مسعودنے جب 429ھ۔ کے موسم سرمامیں ہانسی پرحملہ کیا(Enclopaedia of Islam London 1979 P 167)
غرض اس سال میں مسعودغزنوی نے اپنے دوسرے حملہ میں سخت مقابلہ کے بعدہانسی پرقبضہ کرلیااورایک بیان کے مطابق:
اس کے بعدہانسی کوغزنوی سلطنت کے ہندوستانی صوبہ کے سرحدی قلعہ کی حیثیت سے بہت اہم پوزیشن حاصل ہوگئی۔چنانچہ مسعودکے دوسرے بیٹے مجدوکواس صوبہ کاگورنرمقررکیاگیا۔اوراس نے 432ب۔ کاموسم سرماہانسی کے مقام پربیٹھ۔ کراس انتظارمیں گزاراکہ اسے دہلی پرحملہ کرنے کاموقع مل سکے(ایضا)
ہراخاندان:-مسلمانوں نے جب ہانسی پرقبضہ کیاتووہاں کاحکمران چوہان خاندان کاراجہ تیشت پال تھاوہ انودن کابیٹاتھا۔اسے جب ہانسی سے نکلناپڑاتواپنےخاندان اورساتھیوں سمیت بونڈی کےمقام پرچلاگیااوروہاں ہراخاندان کے نام سے ریاست قائم کرلی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصارولوہاروسٹیٹ1904)یہاں ہراکالفظ چوہان خاندان کی ایک شاخ کے طورپراستعمال ہواہےیہ شبہ ہوسکتاہےکہ اسی لفظ سے ہریانہ کانام بناہو۔مگریہ شبہ اسی وقت تسلیم ہوسکتاہےجب کہ یہ تسلیم کرلیاجائے کہ اس علاقہ کانام قدیم زمانہ سے ہریانہ نہیں تھا۔حالانکہ اسے قدیم تاریخوں میں بھی اسی نام سے لکھاگیاہےدوسرے یہ کہ ہراخاندان کی ریاست بہت چھوٹی سی تھی اوروہ ایک وسیع علاقہ کی وجہ تسمیہ نہیں بن سکتی تھی۔اس لیے یہ شبہ قطعادرست نہیں ہےکہ اس ہراخاندان کے باعث اس علاقہ کانام ہریانہ رکھاگیاہے۔
غزنویوں کانظام مملکت:-ہانسی کاقلعہ اوراس کے اردگردکاعلاقہ تقریبادس سال تک غزنویوں کے قبضہ میں رہا۔اورلاہوراورملتان توغزنوی سلطنت کاصوبہ طویل عرصہ تک رہے۔ان کی
حکومت نے ہانسی کوجومقام دیاتھااس کااندازہ کرنے کے لیے ان کے نظام ممکت پرایک سرسری نظرڈالنی ضروری ہےاس سلسلہ میں ڈاکٹربخشیش سنگھ۔ بخارکی کتاب سےیہی بڑی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں انہوں نے لکھاکہ سلطان مسعودغزنوی پہلامسلمان بادشاہ تھاجس نے پنجاب میں حکومت قائم کی۔اس حکومت کاانتظامی ڈھانچہ اس کے اپنے ملک میں رائج نظام کے نمونہ پرتشکیل دیاگیاتھا۔یہ نظام غزنویوں نے امویوں،بازنقینوں اورایرانیوں سے حاصل کیاتھااس کیمابق پنجاب کی اقطاعات میں تقسیم کردیاگیاتھا۔ایک اقطاع میں ایک شہراوراس کے ساتھ۔ کچھ۔ دیہات پرمشتمل علاقہ ہوتاتھا۔ایک اقطاع کوصوبہ کی حیثیت حاصل ہوتی تھی اوراس کے گورنرکووالی یا مفتی کہاجاتاتھا۔ہانسی کوغزنوی دورحکومت میں ایک اقطاع کی حیثیت حاصل تھی(Bakhsh Singh Nigar Punjab under the Sultan Lahore 1979 P 99-100)اوراس اقطاع میں ظاہرہے کہ بروالہ سیدان ایک اہم قصبہ اورانتظامی مرکزتھا۔
ہانسی پرہندوؤں کادوبارہ قبضہ:- غزنویوں کے عہدمیں ہانسی کاعلاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آنے کے بعدزیادہ عرصہ ان کے تسلط میں نہیں رہ سکا۔شمالی ہندکی راجپوت حکومتوں کےلیے اس قلعہ کی اتنی اہمیت تھی کہ اس پرقبضہ کے بغیروہ خودکوبالکل غیرمحفوظ سمجھتے تھے۔یہ قلعہ دہلی پرحملہ کے لیے ابتدائی ٹھکانے کے طورپراستعمال ہوسکتاتھا۔کیونکہ خراسان سے براستہ ملتان اورجنوبی پنجاب ،دہلی تک پہنچنے والے راستے پریہ قلعہ ایک انتہائی اہم فوجی مرکزتھا۔(شمالی پنجاب کاراستہ سرہندسےہوکرگزرتاتھا)اس لیےراجپوت حکمران اس قلعہ کومسلمانوں سے واپس لینے کے لیے مسلسل تیاری اورکوشش میں مصروف رہے۔اورزیادہ عرصہ گزرنے سے قبل ہی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے۔فرشتہ کے بیان کے مطابق 435 ،1043 میں دہلی اورشمالی ہندکے دیگرہندوراجاؤں نے مل کرہانسی اورتھانیسرکے علاقوں پرقبضہ کرلیا۔(محمدقاسم فرشتہ تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974 جلداول ص175)اس قبضہ کے بعدہانسی کودہلی کے راجہ کی حکومت میں شامل کردیاگیاجوچوہانوں کے باجگذارتنوارخاندان سے تھا۔اوراس کے بعدیہ قلعہ ایک صدی سے زائدعرصہ تک اسی خاندی کے قبضہ میں رہا۔آخر 1173میں چوہان اورراجہ پرتھوی راج نے اس خاندان کےآخری راجہ (ننگ پال دوم کوتخت سے محروم کرکے خوداس پرقبضہ کرلیااوراس طرح ہانسی کاعلاقہ بھی پرتھی راج کی حکومت میں شامل ہوگیا۔اس کے زمانہ میں ہریانہ پردہلی حکومت کی گرفت کوزیادہ مضبوط کردیاگیا۔ہانسی کے قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیااوراسے بہت مضبوط بناکراتنہائی مستحکم فوجی مرکزمیں تبدیل کردیاگیا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)
انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نے بھی ہانسی کے دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے سن اورواقعات کی تصدیق کی ہے اورلکھاہےاس علاقہ پردوبارہ قبضہ کے وقت دہلی پرحکمران راجہ کانام مہی پال تھااورہانسی کواسی کی سلطنت میں شامل کیاگیاتھا۔اس کے بعدتمام ہندوحکمراں اس قلعہ کی مضبوطی میں اضافہ کی جانب توجہ دیتے رہےکیونکہ یہ قلعہ ان کی سلطنت کی حفاظت کےلیے انتہائی اہم مقام کاحامل تھا۔یہاں تک کہ اگلی صدی کے آخرمیںپرتھوی راج نے اس قلعہ کی وسعت میں بھی اضافہ کیااوراسے اس قدرمضبوط بنادیاکہ غوری افواج کے مقابلے میں اس پر پوری طرح بھروسہ کیاجاسکے۔(Encylopadia of Islam London 1979 P 167)
بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہانسی پرغزنویوں کے قبضہ اوران کے دس سالہ دورحکومت کی بیشترتفصیلات سن اورتاریخ کے حوالوں سمیت مہیاہوجاتی ہیں۔مگردوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں چلے جانے کے بعداس علاقہ کی تاریخ کی تفصیلات پرپھرتاریکی کاپردہ پڑجاتاہے۔اس قریباڈیڑھ صدی کےعرصہ کے صرف ایک دوحکمرانوں کے نام ملتے ہیں اوربس باقی کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتا۔ البتہ بارھویں صدی عیسوی کےآخرمیں پرتھوی راج کے دورحکومت کی کچھ۔ تفیصلات میسرآجاتی ہیںوہ بھی شایداس لیے کے وہ اس علاقہ کاآخری ہندوحکمران تھااوراس کے بعدیہاں حکومت ہزارہاسال کے لیے مسلمانوں کومنتقل ہوگئی تھی۔
انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نےایک جگہ تویہی لکھاہے کچھ۔ کتبوں سے یہ پتہ چلتاہےکہ ہانسی پرتنواراورچوہان راجپوت قابض رہے۔اورہندوؤں کایہ قبضہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں کشن عہدسے جاری تھا(ایضا)لیکن دوسری جگہ غیاث الدین بلبن کےزمانے کے کچھ۔ سنسکرت کے کتبوں کے حوالہ سے لکھاہے۔
"ہریانکا پرتومارراجپوت حکمران رہے اس کے بعدچوہان خاندان کی حکومت آئی۔اسکے بعدساکاخاندان کے بادشاہ آئے(ایضا)لیکن اس بات کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتاکہ یہ ساکاخاندان کون ساخاندان تھا۔صرف دوہی خاندانوں کانام ملتاہے۔ایک توماریاتنوارخاندان ہےاوردوسراچوہان خاندان ہے غزنویوں نے جب اس علاقہ پرقبضہ کیاتواس پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے بعدبھی یہ علاقہ اسی خاندان کی حکومت میں شامل ہوا۔اورایک صدی سے زائد عرصہ کےبعداسی خاندان کےآخری راجہ کوحکومت سے محروم کرکےپرتھی راج نےاس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنی حکومت کاحصہ بنالیاتھا۔اس تمام عرصہ میں ساکاخاندان کانام کہیں نہیں ملتاہےاوراس کتبہ کی اس تحریرکی اورکسی ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے۔
عہ۔۔۔۔دسلاطین
شہاب الدین محمدغوری کاپہلاحملہ:- جیساکہ گذشتہ باب میں بیان کیاجاچکاہے1173 میں چوہان خاندان کے راجہ پرتھی راج نےہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنے قبضہ میں لےلیاتھااوراس نے اس نےاس قلعہ کوایک انتہائی اہم فوجی مرکزکی حیثیت دے کراسے مستحکم بنانے میں بڑی دلچسپی لی۔چنانچہ اس کے زمانہ میں اس قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیا۔شہرکووسیع کردیاگیااوراسے اسے ایک ایسے فوجی مستقرکی حیثیت دےدی گئی کہ ایک سرحدی قلعہ کی حیثیت سےہرقسم کےبیرونی حملہ کے مقابلہ میں اس پربھروسہ کیاجاسکے۔اس علاقہ کوپرتھی راج نے براہ راست اپنے قبضہ میں لیابھی اسی غرض سے تھاکہ ہانسی کے قلعہ کواپنی مرضی کے مطابق مضبوط بناسکےورنہ اس سے قبل اس علاقہ پرحکمران تنوارخاندان بھی اس کاباجگذارہی تھا۔دراصل پرتھی راج کی خواہش تھی کہ اس علاقہ میں استحکام پیداکرکے اورہندوراجاؤں کوایک متحدقوت بناکرپنجاب کے ان علاقوں کوبھی مسلمانوں سے واپس لے لے جوابتک ان کے قبضہ میں تھے۔
ادھرشہاب الدین غوری بھی راجپوتوں کی اس مجتمع ہوتی ہوئی قوت کودیکھ۔ کرخطرہ محسوس کررہاتھااوراس کے توڑکی تدابیرمیں مصروف تھا۔اورانہی تدابیرمیں سے ایک تدبیریہ تھی کہ 591(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)میں اس نے راجپوتوں کی قوت سے پہلی ٹکرلینے کافیصلہ کیاوہ اپنالشکرلےکرآگے بڑھاتوراجپوتوں نے اسے دریائے سرسوتی کے کنارے ترائن کے مقام پرروکا۔یہاں بہت زورکامعرکہ پڑا۔اس معرکہ میں راجپوتوں کاپلہ بھاری رہاغوری کوشکست ہوئی اوروہ زخمی ہونے کےبعدبمشکل جان بچاکرمیدان سے نکلنے میں کامیاب ہوسکا۔اوراپنے بچے کچے لشکرکولے کرواپس غزنی چلاگیا۔
ہانسی کی فتح:- اس شکست کوغوری نے اپنی جان کاروگ بنالیااوراپنی تمام صلاحیتوں کواسکابدلہ چکانے کی تیاری میں صرف کردیا۔اورایک سال بعدہی وہ پھرراجپوتوں سےمقابلہ کےلیےآموجودہوا۔دوسری جانب راجپوتوں نےبھی وقت کوضائع نہیں کیاتھا۔پرتھی راج کواندازہ تھاکہ غوری اس شکست کوخاموش بیٹھ۔ کربرداشت کرنےکےلیےتیارنہیں ہوگاچنانچہ اس نےشمالی ہندکےتمام ہندوراجوں کایکجاکرکےمسلمانوں کامقابلہ کرنےکی تیاری کرلی تھی۔تمام راجاؤں نے
اپنی فوجی قوت سمیت خودکوپرتھی راج کے سپردکردیاتھا۔چنانچہ اس دفعہ کامعرکہ گذشتہ سال کی نسبت زیادہ پرزورتھااس دفعہ بھی دونوں فوجوں کاآمناسامناگذشتہ سال والے مقام پرترائن میں ہوا۔گھمسان کارن پڑا۔اس دفعہ مسلمان اس بے جگری سے لڑےکےراجپوت فوجوں کوتہس نہس کرکےرکھ۔ دیا۔پرتھی راج شکست کھاکرمیدان سےبھاگ نکلا۔مگرسرسہ کےقریب پکڑاگیااورقتل کردیاگیا۔اس وقت ہانسی پرچوہان خاندان حکمران ہمیرنامی تھا۔وہ بھی جنگ میں قتل ہوگیا۔(ڈسٹرکٹ گزیٹیرزپنجاب 1904)یہ1192،588ھ کاہے۔اس واقعہ کومنہاج سراج نے بیان کرتے ہوئے لکھاہے۔
"رائےپتھوراہاتھی پرسوارتھا۔اترکرگھوڑےپربیٹھا۔بھاگ کردریائے سرستی پرپہنچاتوپکڑاگیااوراسےجہنم رسیدکیاگیااوررائے میدان جنگ میں ماراگیا۔سلطان نے خوداس کاسرپہنچان لیا۔کیونکہ دواگلے دانٹ ٹوٹے ہوئےتھے۔اجمیرکامرکزحکومت سوالک کے سواتمام حصے مثلاہانسی سرستی اوردوسرے علاقےفتح ہوگئے(منہاج سراج۔طبقات ناصری ترجمہ غلام رسول مہر۔لاہور1975 جلداول ص712)
صاحب منتخب التواریخ نے اس واقعہ کویوں بیان کیاہے
588ھ۔۔ میں سلطان شہاب الدین غوری چالیس ہزارنامورسواروں کےساتھ۔ پھرہندوستان آیا۔اس نے اپنی فوج کودوحصوں میں تقسیم کیا۔اورموضع تبرہندہ کےنواح میں جنگ کی اوراسے فتح کرلیا۔رائے پتھوراگرفتارہوااورکھنڈرائے ماراگیااوراس کےبعدسلطان نےہانسی اورسرستی کےقلعوں پرچڑھائی کی اورانہیں بھی فتح کرلیا۔(منتخب التواریخ۔ملاعبدالقادربدیوانی ترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور۔1962ص16)
گویاترائن یاتروڑی کےمقام پرراجپوتوں کوشکست ہونے کےبعدسرستی کاقلعہ توظاہرہےکہ مسلمانوں کےقبضہ میں آہی گیاتھا۔اس کے بعدمسلمانوں نےجس علاقہ کوقبضہ میں لینے کی کوشش کی وہ ہانسی کاقلعہ تھا۔کیونکہ یہ قلعہ انتہائی اہم تھااوراس پرقبضہ کیے بغیراس علاقہ پرمسلمانوں کاقبضہ مکمل نہیں ہوسکتاتھا۔اس قعلہ پرقبضہ کےبعدشہاب الدین غوری کواطمینان ہوگیاکہ اب یہ علاقہ پوری طرح اسکے تصرف میں آگیاہے۔اس قلعہ پراس نے نصرت الدین کوحاکم مقررکیا۔
راجپوتوں کی آخری ناکام کوشش:-راجپوتوں کی قوت اگرچہ ترادڑی کی دوسری جنگ میں پاش پاش ہوچکی تھی مگراس جنگ کے بعدجلدہی انہوں نے سنبھالالینے کی آخری کوشش کی۔انہوںنے اپنی بچی کھچی قوت کواکٹھاکیااورچندماہ بعدہی 1192 کے اختتام پرہریانہ پرحملہ آورہوئےاورہانسی کے گورنرنصرت الدین کوقلعہ میں محصورہونے پرمجبورکردیا۔مگرسلطان شہاب الدین اس جانب سے غافل نہیں تھا۔اس نےقطب الدین ایبک کوفورالشکردے کربھیجا۔اس نے نہ صرف ہریانہ میں راجپوتوں کوشکست دی بلکہ آگے بڑھ کردہلی اوراجمیرپرقبضہ کر