سید مہدی حسن
(شجرہ صفحہ 208 پر ہے)
سید حسن علی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔باقی تمام بہن بھائی ان سے بڑے تھے۔1904 میں پیدا ہوئے۔ابھی صرف ایک سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔والدہ اور بڑے بہن بھائیوں کے زیر سایہ پرورش پائی۔قدبت،ناک نقشہ اور شکل و صورت میں اپنے والد سے بہت مشابہ تھے۔افتاد طبع معاملات کی سمجھ بوجھ،اثر و رسوخ،شان و شوکت اور موقع کو گرفت میں لینے کی صلاحیت بھی اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔
انتہائی خوش طبع،خوش ذوق اور فنون لطیفہ کی دلدادہ تھے۔خوش ذوقی کا بیشتر اظہار رہن سہن کے اہتمام ،مجلس آرائی اور فنون لطیفہ سے لطف اندوزی کے سلیقہ سے ہوتا تھا۔بروالہ سیدان میں اپنی کوٹھی میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں اور اضافے کرانے والے تمام بھائیوں میں سے پہلے شخص تھے۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہ کو ایسی جدید شکل دے لی تھی کہ اس کے مقابلہ کا کوئی مکان بروالہ میں موجود نہیں تھا۔اس کے بعد اس کی آرائش میں اس قدر محنت کی تھی کہ ان کی خوشی ذوقی کی پوری طرح عکاسی ہوتی تھی۔ان کی محفل آراطبیعت دو چار اہم ذوق دوستوں کو ہمہ وقت اپنے گرد اکھٹا کئے رکھتی تھی۔زندگی سے اکتساب مسرت کا انہیں خاص سلیقہ عطا ہوا تھا۔اور اس میں وہ اپنے ہم نشینوں کے بغیر خود کو بےلطف محسوس کیا کرتے تھے۔فنون لطیفہ میں موسیقی سے خاص طور پر لطف اندوز ہوتے تھے اور اس فن کی باریکیوں کی پرکھ اور سمجھ میں بہت کم لوگ ان کی برابری کر سکتے تھے۔ اپنے اس ذوق کی تسکین کے لئے وہ دہلی تک کے ذرائع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ان کی پسندیدہ گلوکار دل کا ہر نیا ریکارڈ ان کے پاس پہنچ جاتا تھا۔
بروالہ سیدان میں ریڈیو سب سے پہلے انہوں نے منگوایا۔یہ ریڈیو بیٹری سے چلتا تھا اور ا947 کے ہنگاموں اور افراتفری کے دور میں ریڈیو کی اہمیت اور افادیت بے بہا تھی۔سید مہدی حسین نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا 1946 میں جب بروالہ میں مسلم لیگ کی باقاعدہ شاخ قائم کی گئ تو انہیں اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے دامے،ورمے،گدمے،سخنے ہر طرح سے مسلم لیگ کا عہدیدار ہونے کا حق ادا کیا۔ اس جماعت کا حلقہ اثر وسیع کرنے اور پاکستان کا پیغام عام کرنے کی ہر کوشش کی۔1947 کے آغاز میں تحریک سول نافرمانی کے جلسوں اور جلوسوں کی قیادت کرتے رہے اور اپنے دائرہ اثر میں مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی۔
ہجرت کے بعد پاکستان آجانے پر بورے والا میں آباد ہوئے۔ابتدا کے دس بارہ سال بڑی مشکلات،تکالیف،تنگی اور سختی کے تھے۔یہ عرصہ انہوں نے بڑی ہمت اور حوصلہ سے گذارا اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے،یہاں تک کہ حالات روبراہ ہوگئے وسائل مہیا ہوئےاور انہیں یہاں بھی اپنی پسند اور ذوق کے مطابق زندگی کی صورت آرائی کی سہولتیں میسر آئیں تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے رہائش گاہ کو اپنی مرضی کے مطابق بنایا۔ اپنی کوٹھی میں تبدیلیاں اور اضافے کرکے اسے اپنی پسند کی شکل دی اور جدید سہولتوں اور آسائشوں سے مزین کیا۔اس طرح ہر لحاظ سے خوبصورت اور پرآسائش طرز رہائش مہا کرنے کی کوشش کی۔
فنون لطیفہ میں انکی خصوصی دلچسپی غزلوں اور کلاسیکی گانوں کے سننے سے تھی۔چنانچہ سہگل،خورشید بیگم اور اختری بائی کے گائے ہوئے تمام گانوں اور غزلوں کی ریکارڈ ان کے ذخیرہ میں موجود تھے۔بعد میں ٹیپ ریکارڈ اور پھر وی۔سیآر کی سہولت نے ان کے اس شوق کی تکمیل میں
بڑی سہولت پیدا کردی تھی۔اب وہ اپنے پسندیدہ فن کاروں کو سننے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھی سکتے تھے۔ ان کا یہ شوق آخر عمر تک برقرار رہا اور اس کے تسکین کے لئے صرف پاکستان نہیں بلکہ بیرون ملک تک سے ان کی فرمائشیں پوری ہوا کرتی تھی۔
بہت محفل آرا اور خوش باش طبیعت کے مالک تھے۔خوش مزاج اور خوش مزاق تھے۔کسی نہ کسی بہانے ہم مزاق اور ہم مشروب ساتھیوں کو روزانہ اکھٹے کرلیتے تھے۔دعوتیں ہوتی تھی،من پسند کھانوں کے دور چلتے تھے،ہنسی مذاق ہوتا تھا اور خوش وقتی سے لطف اٹھایا جاتا تھا۔ایسی محفلوں کا مرکز بھی وہی ہوتے تھے اور رونق محفل بھی انہی کی ذات ہوتی تھی۔اس ماحول میں وہ بہت خوش رہتے تھے اس لئے اس جا اہتمام وہ کئے ہی رکھتے تھے ان کی یہ خوش مزاجی اور خوش مذاق آخر وقت تک پوری طرح قائم رہی۔
زندگی کو خوش ذوقی،خوش معیاری اور خوش طبعی سے بسر کرنے کے ساتھ انہیں اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلانے کی بڑی دھن تھی۔ہجرت کے بعد کٹھن حالات میں بھی انہوں نے اس بارے میں ذرا کوتاہی نہیں ہونے دی۔ہر دکھ،ہرتکلیف کو برداشت کیا مگر بچوں کو کسی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔اس کا صلہ اللہ تعالٰی نے انہیں دیا کہ ان کے تمام بچے اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔دونوں صاحبزادے ایم۔اے۔ایل۔ایل بی ہیں۔ بڑی صحبزادی نہ صرف ساوات بروالہ بلکہ تمام علاقہ میں ایم۔اے کرنے والی پہلی لڑکی ہے۔ان کے صاحبزادے سید شاہد مہدی نسیم پاکستان کے سیاسی زعما میں شامل ہیں اور مسلم لیگ کی اعلٰی سطح کی قیادت میں ان کا شمار ہے۔
اللہ تعالٰی نے دنیٰوی وجاہت،عزت،وقار اور سرفرازی کے اعزازات بڑی فراخی سے انہیں عطا فرامئے تھے۔انتقال سے صرف تیس دن قبل وزیراعظم پاکستان بنفس نفیس ان سے ملنے اور مزاج مرسی کے لئے ان کی کوٹھی پر پہن چے تھے۔
17 مارچ 1987 کو بورے والا میں ان کا انتقال ہوگیا۔
سید احسن شاہ
(شجرہ صفحہ 207 پر ہے)
سید احسن سادات بروالہ کے ممتاز اور سربرآور وہ لوگوں میں سے تھے۔وہ ایک طویل عرصہ تک اپنے ماحول پر اثرانداز رہے اور ان کی سرداری اور سربراہی کو تمام قصبہ بلکہ پورے علاقہ میں تسلیم کیا جاتا تھا۔لوگ اپنے کاموں کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے اور ان کا معاشرتی اور سیاسی اثر و رسوخ ایک زمانہ میں سادات بروالہ کی پہچان بن گیا تھا۔
سید محمد حسن علی کے سب سے بڑے صاحبزادے ہونے کی حیثیت سے بروالہ کے سادات کی سربراہی حآصل تھی۔ سرکار دربار میں ان کا اثر رسوخ تھا اور ان کی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ان پر فالج کا حملہ ہوا تو اس سے شفایاب ہونے کے باوجود ان کا چلنا پھرنا اور دیگر سرگرمیاں بہت محدود ہوگئیں۔ان کے بڑے صاحبزادے سید حسین نے ان کی جگہ سنبھالی اور اپنی اہلیت اور فعالیت سے خود کو اس جگہ کا اہل ثابت کیا۔ مگر 1940 میں دولت پور کے جاٹوں نے انہیں قتل کردیا۔اس کے بعد سید احسن آگے آئے۔اور وہ بہت وجیہہ،جامہ زیب اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔بات کرنے کا ڈھنگ جانتے تھے اور ملنے ملانے کے آداب سے واقف تھے۔ اس لئے ہر محفل میں اپنی جگہ بنالیتے تھے اور ہر قسم کے آدمی سے کام لینے کا طریقہ انہیں آتا تھا۔
بروالہ سیدان میں اپنے والد کی نمائندگی کرتے ہوئے سرکار دربار میں اور معاشرہ میں ہر جگہ انہوں نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا۔ہر شخص کے کام آنے کی کوشش کرتے تھے اور ہر شخص اپنے کام کے لئے ان سے رجوع کرتا تھا۔ تحریک پاکستان میں بھی انہوں نے پرجوش حصّہ لیا۔1946 میں بروالہ میں مسلم لیگ کی شاخ قائم کی گئی تو انہیں اس کا سیکرٹری منتخب کیا گیا۔اس حیثیت میں انہوں نے بڑی قابل قدر خدمات انجام دیں۔1947 کی تحریک سول نافرمانی میں انہوں نے پر جوش حصّہ لیا اور مسلم لیگ کے جلسوں اور جلوسوں کی قیادت میں شامل رہے۔
ہجرت کے بعد جب سادات سے بروالہ کو پورے والا میں کیمپ کی صورت میں رکھا گیا تو حکومت کی جانب سے سید حسن کو اس کیمپ کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔کیمپ میں مقیم لوگوں تک راشن اور دیگر ضرویات کی اہم رسائی، ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش،انہیں آباد ہونے میں مدد دینا اور دیگر کاموں کی تکمیل ان کی ذمہ داری تھی اور حکومت ان کے ذریعہ ہی اس کیمپ کے لئے اپنے منصوبہ پر عملدرآمد کرتی تھی۔
1948 میں کشمیر کے مسئلہ پر عوام کو حکومت کے مؤقف سے آگاہ کرنے اور اس سلسلہ میں بیداری پیدا کرنے کے لئے با اثر رسوخ لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں تو انہیں بھی افسر تعلقات عامہ برائے امور کشمیر مقرر کیا گیا۔اس حیثیتمیں وہ دو سال خدمات سرانجام دیتے رہے۔اسی دوران بورے والا مسلم لیگ کے نائب صدر منتخب ہوئے۔علاقہ میں انہیں ایک ممتاز سیاسی اور معاشرتی مقام حاصل تھا۔ اس علاقہ سے کامیاب ہونے کے خواہشمند ہر سیاسی نمائندہ کو ان کی مدد حاصٌ کرنا لازمی تھا۔سادات بروالہ کو پاکستان میں آکر باعزت مقام دلانے میں ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔
انہوں نے 13 اگست 1981 کو بورے والا میں انتقال کیا۔
صفحہ 241
محمد جمیل حسین نقوی
(شجرہ صفحہ 208 پر ہے)
خداوند قدوس بعض لوگوں کو کچھ ایسی غیر معمولی صلاحیتیں عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے جو ان کے ماحول کے تناظر میں بڑی اچھوتی اور حیرت خیز ہوتی ہے ان صلاحیتوں کا دائرہ اثر خواہ کسی قدر محدود ہو، لیکن اس دائرہ میں وہ اس قدر گہرا اثر چھوڑتی ہے کہ اس کو دیر تک محسوس کیا جاتا ہے اور اس حوالہ سے اس شخس کی یاد کو دہرانے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
کچھ ایسی ہی صلاحیتوں سے سرفراز ہوکر سید جمیل حسین نقوی دنیا میں آئے تھے۔ وہ سید ممتاز حسن نقوی کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے ان کی والدہ سید کرم دولت وہ خاتون تھیں جنہوں نے بروالہ میں جہالت کی تاریک روایت کو ختم کرکے علم کی روشن روایت کی ابتداء کی۔اپنی اولاد کے لئے بھی ان کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ علم کی دولت سے مالا مال ہوں۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی سی ہر ممکن کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئیں چنانچہ سید جمیل حسین نقوی نہ صرف سادات بروالہ بلکہ اس تمام علاقہ میں سب سے پہلے مسلمان نوجوان تھے جو تعلیم کے اعلٰی مدارج تک پہنچے۔
وہ اسلامیہ کالج لاہور میں بی۔اے سال اول کے طالب علم تھے جب تحریک پاکستان اپنے عروج پر پہنچی اور فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوئی چنانچہ انہیں اس تحریک میں بھرپور عملی حصّہ لینے کا موقع ملا۔پنجاب میں تحریک پاکستان ہر اول دستہ اسلامیہ کالج کے طلبہ ہی تھے۔خضر وزارت کے خلاف تحریک سول نافرمانی میں ان طلبہ نے جو کارنامے انجام دئے وہ ناقابل فراموش ہیں۔اس سلسلہ میں پنجاب کے دور دراز علاقوں میں پھیل جانے والے طلبہ میں سید جمیل حسین نقوی بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے آبائی قصبہ بروالہ سیدان میں اس تحریک کے لئے انتھک کام کیا۔ مسلم لیگ کے جلسوں کو منظّم کرنے اور پرجوش تقاریر کے ذریعہ پاکستان کے پیغام کو دلوں میں اتارنے کا بنیادی کام انہیں کا حصّہ تھا۔ ان کی قیادت میں نکلنے والے جلوسوں نے تحریک کو جذبہ اور فعالیت عطا کی۔ سادات بروالہ کی پرانی نسل میں تحریک پاکستان کو صرف انکا تقاریر اور جلسوں کے حوالہ سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔
ان کا یہ سارا کام قطعاً بے لوث قومی خدمت کے جذبہ کے تحت تھا۔ اس کا کوئی معاوضہ نہ انہوں نے کبھی طلب کیا اور نہ ایسا معاوضہ قبول کرنے والے کے بارے میں سوچا بلکہ اپنی جدوجہد کو تو انہوں نے کبھی حوالہ کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا حتٰی کہ انہوں نے بی۔اے کی وہ ڈگری بھی حاصل نہیں کی جو تحریک میں حصّہ لینے کے عوض انہیں مل سکتی تھی۔ بی۔اے سال اول سے ترقی دے کر کالج نے اپنے اصول کے مطابق اپریل 1947 میں انہیں دوسرے طلباء کے ساتھ آخری سال میں کردیا تھا۔ہجرت کے بعد تحریک پاکستان میں حصّہ لینے اور مہاجر کمپنیوں میں کام کرنے والے آخری سال کے طلبہ کو رعایت دی گئ تھی کہ وہ اپنی ان سرگرمیوں کا ثبوت مہیّا کردے تو انہیں ان کے امتحانوں میں کامیاب قرار دے کر سرٹیفیکیٹ اور ڈگریاں دے دی جائے گی۔اس رعائت سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔مگر سید جمیل حسین نے اپنے کام کا یہ معاوضہ لینا بھی گوارا نہیں کیا۔ہجرت کے بعد کے کٹھن حالات اور مشکلات کے باعث دو تین سال امتحان بھی نہیں دے سکے۔بعد میں اپنے طور پر باقاعدہ امتحان پاس کرکے ڈگری حاصل کی۔
ذہانت،قابلیت اور معاملہ ضہمی کا درست امتزاج کسی شخصیت کو وہ امتیاز عطا کردیتا ہے جو ہر جگہ اپنی غیر معمولی حیثیت کو منوالیتی ہے۔
صفحہ 242
یہ امتیاز اور اہلیت ان کے اندر بدرجہاتم موجود تھی۔وسیع المطالعہ تھے۔ہر قسم کے موضوعات پر پورا عبور اور پوری گرفت رکھتے تھے۔گفتگو کا سلیقہ حاصل تھا۔ اور دلائل کے ذریعہ دوسروں کو قائل کرلینے کا ہنر جانتے تھے۔تحریر کی قدرت اور مہارت کا تو یہ عالم تھا کہ اردو میں لکھنا پڑے یا انگریزی میں۔اور موضوع کوئی بھی ہو۔دونوں میں سے ہر زبان میں انتہائی خوبصورت اور بےتکان لکھتے ہیں۔حقیقتاً وہ بڑی غیر معمولی علمی صلاحیتوں کے حامل تھے اور ان کے قلم کو بڑی قوت اور روانی حاصل تھی۔ افسوس یہ کہ ان کی ان صلاحیتوں کو اظہار کا مناسب میدان نہیں مل سکا۔ ہجرت کے بعد کے مصائب مشکلات اور حالات کی سختی نے انہیں ایک ایسے محکمہ کی ملازمت میں پھنسا دیا جو ان کی تمام صلاحضیتوں کو برباد کرگیا۔حقیقت یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازمت کے آدمی ہی نہیں تھے۔ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو تو اپنے اظہار کے لئے ایک وسیع اور کھلی فضا کی ضرورت تھی۔مگر افسوس یہ کہ فضا انہیں میسر نہ آئی اور ان کے تمام غیر معمولی صلاحیتیں ملازمت کے فضول سے جھگڑوں میں ضائع ہوگئیں۔
ان کی شخصیت میں اس کمال کی وسعت اور فراخی تھی کہ اس کے بعض پہلو انتہائی حیرت خیز تھے۔ مثلاً یہ کہ زندگی کی ہر سطح کے لوگوں سے ان کے ایک جیسے بے تکلفانہ تعلقات بلکہ یارا نےتھے۔ ہر سطح کے لوگ انہیں اپنے میں سے ایک سمجھتے تھے۔ ابھی وہ ایف۔اے میں پڑھتے اور ہم جولیوں کے ساتھ انہی کے مشاغل میں حصّہ لیا کرتے تھے کہ بڑے لوگوں کی محفل میں بھی برابر کی سطح سے شامل ہوتے تھے اور بڑے بڑے معاملات پر ان کی گرفت اتنی مضبوط سمجھی جاتی تھی کہ اس سلسلہ میں ان سے مشورہ لیا جاتاتھا۔اس زمانہ میں بروالہ سیدان میں متعین رہنے والے سرکاری اہل کاران کے بذرگوں کے ساتھ ساتھ ان کے بھی برابر کے دوست تھے اور ان کی قابلیت اور ذہانت کے متعرف تھے۔ وہ انتہائی فاضل اور عالم آدمیوں کی محفل میں سنجیدہ علمی مسائل پر بڑے سلیقہ کی گفتگو کرتے تھے۔ تو انپڑھ جاہل لوگوں کی منڈلی میں بھی گل مل کر ان کے معیار کی گپ شپ کرسکتے تھےاس کا نتیجہ ےھا کہ پڑھے لکھے لوگوں سے ان کی بے تکلّف دوستی تھی تو بے شمار انپڑھ دیہاتی دوست بھی ان کی رفاقت کے دیوانے تھے۔بڑے بوڑھوں کی مجلس میں اسم معاملات پر وہ ایسی صائب اور جچی تلی رائے کا اظہار کرتے تھے کہ ہر موقعہ پر ان سے مشورہ ضروری خیال کیا جاتاتھا۔اس کے ساتھ ہی وہ بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا ایسے ذوق و شوق سے کھیلتے تھے کہ بچے انہیں اپنا ساتھی سمجھتے تھے۔خاندان کی تین نسلوں کے افراد کے ساتھ ان کے بے تکلفانہ تعلقات تھے بزرگ انہیں قابل اعتماد سمجھدار اور عقل و فہم کا ملک سمجھتے تھے۔اس لئے انہیں برابر کا درجہ دیتے تھے۔بھائی سب کے سب ان سے محبت کرتے تھے کیونکہ انکا سلوک ہر ایک کے ساتھ محبت کا تھا۔اپنے تمام بھتیجوں سے بھی ان کے روابط بے تکلفانہ تھے اور ان سے بھی ان کی گپ شپ چلتی تھی غرض یہ کہ سادات بروالہ میں سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص تھے۔ سادات سے لےکر دوسری فات کے لوگوں تک ہر شخص ان سے پیار کرتا تھا۔ اور ہر ایک کے ساتھ برابری کی سطح پر محبت کا تعلق رکھتے تھے۔خاندان کے جھگڑے جھیڑوں،مخالفت و مناقشت کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔مگر ان کی ذات ہمیشہ ان آرائشوں سے بلند رہی۔ کوئی جھگڑا ہو یا لڑائی،مخالفت ہو یا ناراضگی،انہوں نے کبھی خود کو ان باتوں میں ملوث نہیں کیا اور خاندان کا ہر فرد بھی انہیں ان باتوں سے برا سمجھتا تھا چنانچہ ہر قسم کے حالات و واقعات میں خاندان کے ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ ان کے روابط ہمیشہ جوں کے توں محبت اور خلوص کے رہے اور انہیں بھی ہر ایک نے وقعت عزت اور پیار دیا وہ واحد شخص تھے جن کی کبھی کسی سے ناراضگی نہیں ہوئی اور جو سب کے پیارے تھے۔گویا ان کی ذات پورے خاندان کے درمیان ایک رابطہ کا درجہ رکھتی تھی۔ محفل آرا شخص تھے اور محفلیں سجانے کے شائق تھے۔کسی نہ کسی بہانے کوئی محفل سجا لیتے اور لوگوں کے لئے مسرت کے چند گھڑیاں سمیٹنے کا ذریعہ بن
جاتے تھے۔شکار کے دیوانے تھے۔ان کی سالانہ شکار پارٹیوں کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے۔ اس بہانے کچھ لوگوں کو خوشی اور بےفکری کے چند دن میسر آجاتے تھے۔ہر تہوار کو بڑے جوش و خروش سے منانے کے عادی تھے۔خوش باش اور بے فکر طبیعت رکھتے تھے۔اسلئے خود بھی خوش رہنے کی کوشش کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کرتے تھے۔
انتہائی سادہ دل،نیک طبع اور محبت کرنے والے شخص تھے۔ ہر ایک سے محبت کرتے تھے۔ہر ایک کے کام آتے تھے اور ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ ہر ایک کے ہمدرد تھے اور ہر ایک کے دکھ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ان کی نیک طبعی اور سادہ دلی سے بعض لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھا تے تھے مگر انہیں فوراً معاف کعدیتے تھے۔ایسی باتوں کا کبھی ذکر تک نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص ان سے محبت کرتا تھا ہر شخص کے دل میں ان کی جگہ تھی اور ان کی مخالفت کسی فرد سے نہیں تھی۔غرض یہ کہ بہت بے مثال انسان تھے۔ ان جیسا شخص سادات بروالہ میں شائد ہی کوئی پیدا ہوا ہو۔
آخری عمر میں مذہب کی جانب رحجان کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا۔نماز روزہ کی سختی سے پابندی کرنے لگے تھے۔ تلاوت کا بہت ذوق ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ اردو وضائف کی جانب بڑھی رغبت ہوگئی تھی۔
21 مارچ 1983 کو بورے والا کے نزدیک سڑک کے ایک حادثہ میں انتقال ہوا۔
صفحہ 244
سید شاہد مہدی نسیم
(شجرہ صفحہ 208 پر ہے)
سادات بروالہ کا سب سے سربرآوردہ خاندان سید حسن علی کا خاندان تھا۔علم وآگہی،معاشرتی مرتبہ،سیاسی رہنامئی اور اثر رسوخ کے لحاظ سے اس خاندان کو ایک طویل عرصہ سے ایک خصوصی امتیاز حاصل رہا تھا۔اور اس خاندان مں جو شخصیت سب سے بلند مرتبہ،سب سے قدآور اور مضبوط تھی وہ خود سید حسن علی تھے۔انہوں گزشتہ صدی کے آخر اور موجودہ صدی کے آغاز تک اپنے زمانہ اور اپنے حالات کے مطابق اپنی صلاحیتوں کا اس طرح سے بھرپور اظہار کیا کہ سادات بروالہ کے لئے قابل فخر ہستی بن گئے۔ان کی بلند و بالا شخصیت نے اپنے زمانہ کے معاشرتی ماحول پر ایسے اثرات مرتب کئے کہ ان کی شہرت دوردور تک پہنچی۔ان کی زندگی اتنی بھپور اور فیض رساں تھی کہ اس کے واقعات نے داستانی رنگ اختیار کرلیا تھااور ان کے بعد بھی مدتوں تک یہ واقعات لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر قابض رہے۔
بروالہ سے ہجرت کرکے پاکستان میں آکر آباد ہوجانے کے بعد سید حسن علی کی ہی تیسری پشت میں پھر ایک ایسی بلند قامت شخصیت ابھری جو اپنے بلندد مرتبت دادا سے بھی زیادہ زوردار،ان سے بڑھ کر باصلاحیت اور ان سے بدرجہا زیادہ وسعت اور ہمہ گیری کی حامل ہے۔ یہ شخصیت سید شاہد مہدی نسیم کی ہے۔وہ اس وقت سادات بروالہ کے لئے نا صرف قابل فخر عزت کا نشان و آبرو بخش حیثیت رکھتے ہیں۔بلکہ پورے ملک میں سادات بروالہ کی شناخت وتشخیص کی علامت بھی ہے۔انہیں اللہ تعالٰی نے ایسی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ انہوں نے ملک کے بلندترین حلقہ میں اپنے لئے عزت اور احترام کی جگہ حاصل کی ہے۔ ان کے اس مقام اور مرتبہ کو ابھی مزید بلندیاں نصیب ہونگے اور بلندی و سرفرازی کی جانب انکا ہر قدم سادات بروالہ کی عزت و آبرو میں اضافہ کا باعث ہوگا۔
سید شاہد مہدی نسیم 1943 میں سید مہدی حسن کے گھر بروال سیدان میں پیدا ہوئے۔ صرف چار سال کے تھے کہ پاکستان قائم ہوا اور ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ان کے والد بزرگوار کو اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلانے کا اس ققدر خیال تھا کہ ہجرت کے بعد شدائد اور مصائب کو بھی انہوں نے کبھی اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کیا مگر بچوں کی تعلیم میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دیا۔ان کی اسی ہمہ وقت کوشش کا نتیجہ ہے کہ ان کے تمام بچے تعلیم کے اعلٰی منازل تک پہنچے۔چنانچہ سید شاہد مہدی نسیم نے بھی ایم۔اے۔ایل ایل۔بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔اسی کے بعد وہ اپنے طبعی رحجان کی بناپر سیاست کے میدان میں داخل ہوگئے۔
ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے نہ صرف یہ کہ خود من حیث المجموع تحریک پاکستان میں حصّہ لیا بلکہ اپنے علاقہ میں اس تحریک سربراہی کی۔پاکستان کے لئے اپنا تمام دنیٰوی مال و متاع قربان کیا۔اور اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان پہنچا۔ اس خاندان کے رک وپے میں تحریک پاکستان کا جذبہ اور مسلم لیگ کے ساتھ وابستگی رچی بسی ہے۔چنانچہ ان کی سیاست کا آغاز بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہوا۔اس پارٹی سے وابستگی ان کے لئے ایک فطری تعلق کا درجہ رکھتی ہے۔اور اس تعلق کی حیثیت ایسی ہے جسے تبدیل کرنے کی بات سوچنا بھی اچھا نہیں ہوتا۔
مقامی اور ضلعی سطح پر ا نکی سیاسی سرگرمیوں اور کارگزاری کی بنا پر 1974 مین انہیں پیجاب مسلم لیگ کو نسل کارکن نامزد کیاگیا۔1977 میں
صفحہ 245
وہ مسلم لیگ ضلع وہاڑی کے صدر منتخب ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلیم لیگ کی مرکزی کونسل کے بھی رکن بنائے گئے اور پیجاب مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے بھی رکن نامزد ہوئے۔اسی سال ملک کے عام انتخابات کے لئے انہیں قومی اتحاد کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا گیا۔مگر قومی اتحاد کے بائکاٹ کے باعث یہ انتخابات نہیں ہوسکے اور ملک میں انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چل پڑی جس کے بعد میں تحریک نظام مصطفٰے کی شکل اختیار کرلی۔ اس تحریک میں انہوں نے بھی گرفتاری پیش کی اور کچھ عرصہ ملتان جیل میں قید رہے۔ بعد میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کی بنا پر قیدیوں کو رہائی ملی تو انہیں بھی رہا کردیا گیا۔مگر یہ مزاکرات ناکام ہوگئے اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا تو ہرقسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگ گئ البتہ ہمت اور حوصلہ والے اشخاص کے لئے سماجی خدمت اور مقامی مسائل اور مشکلات کے حل کرنے میں لوگوں کے کام آنے کے درمیان کھلے تھے۔ سید شاہد مہدی نسیم بھی ان کی باہمت شخصیتوں میں سے ایک تھے جنہوں نے مارشل لاء کی پابندیوں کے باوجود اپنی سرگرمیوں کے راستے تلاش کرلئے۔
ان کی اس فعالیت نے کس قدر دور رس اثرات مرتب کئے۔اس کا اندازہ انہیں اس وقت ہوا جب 1979 میں مراشل لاء کے تحت بلدیاتی انتخاب کرائے گئے۔ان انتخابات میں پورے ضلع وہاڑی کے بلدیاتی اداروں میں اسی گروپکو بھاری اکثریت حاصل ہوئی جس کی سرپرستی سید شاہد مہدی نسیم کررہے تھے۔یہ گروپ "سیم شاہ گروپ"کے نام سے ضلع کی سیاست پر چھا گیا اور اس نے کئ بہت پرانے سیاسی خاندانوں کو راستے سے صاف کردیا اس کے بعد سے ان کی شخصیت کو روز بروز زیادہ ہمت اور اثر و رسوخ حاصل ہوتا چلاگیا۔یہاں تک کہ 1981 میں جب صدر مملکت جنرل ضیاءالحق صاحب نے ایک مجلش شورٰی تشکیل دی تو انہیں مرکزی مجلس شورٰی کارکن نامزد کیا گیا۔گویا اس وقت تک انہوں نے اپنے لئے وہ مقام پیدا کرلیا تھا کہ انہیں ملک کی سطح اعلٰی ترین ادارے کارکن بنایاگیا۔اسی حیثیت میں انہوں نے اپنے علاقہ کی بڑی خدمت کی اور بہت سے رفاہی اور اجتماعی منصوبے کرائے۔ساتھ ہی لوگوں کے انفرادی مسائل و مشکلات میں بھی ہمہ وقت ان کے ساتھ رہے۔
اس مسلسل خدمت،کارگردی اور عوام سے رابطہ کا نتیجہ تھا کہ 1985 کے انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے یہاں انہیں وزارت ریلوے اور پارلیمینٹری سیکرٹری نامزد کیا گیا۔اسی حیثیت میں انہون نے اہم خدمات انجام دیں۔ساتھ ہی اپنے حلقہ کے عوام کے ساتھ نزدیکی رابطہ برقرار رکھا اور ہمہ وقت انکی خدمت میں مصروف رہے۔وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کوشش سے ملک کو مارشل لاء سے نجات ملی اور سیاسی سرگرمیاں بے حال ہوئیں تو مسلم لیگ میں انکے وہ عہدے بھی بحلا ہوگئے جو 1977میں مارشل لاء کے نفاذ سے قبل ان کے پاس تھےجونیجو حکومت کارکن ہونے کی حیثیت سے انہوں نے متعدد غیر ممالک میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔جاپان ،مصر اور کئ دیگر ممالک میں وہ پارلیمانی وفود کے ہمراہ گئے اور یورپ اور امریکہ کے دورے میں وزیر اعظم انہیں اپنے ہمراہ لے کر گئے تھے۔
1986 میں مسلم لیگ کی مرکزی تنظیم نو کمیٹی کارکن بنایا گیا۔29 مئی 1988 کو جب مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں توڑدی گئیں اور وزارتیں برطرف کردی گئیں تو انتخابات کے انعقاد تک کے عرصہ کے لئے عبوری وزارتیں تشکیل دی گئیں۔سید شاہد مہدی نسیم کو پنجاب کی صوبائی وزارت میں شامل کیا گیا اور وہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔الیکشن نزدیک آیا تو انہیں مسلم لیگ کے صوبائی پارلیمانی بورڈ کا ممبر بھی نامزد کیا گیا۔16 نومبر 88 کو ہونیوالے عام انتخابات میں انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر ایک مسلم لیگی کی حیثیت سے حصّہ
لیا اور بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
سید شاہد نسیم کو یہ بلند مقام اور اعلٰی مراتب صرف اللہ کے فضل وکرم اور ان کی اپنی محنت،جزبئہ خدمت اور ان تھک جدوجہد سے حاصل ہوئے ہیں۔ان کا تعلق نہ تو ایسے سیاسی خآندان سے ہے جہاں اسمبلی کی رکنیت اور وزارت کسی ورثہ کے طور پر حاصٌ ہوجاتی ہےاور نہ وہ کسی جاگیردار گھرانے کے فرد ہیں۔جس کا سیاسی حلقہ محفوظ اور مخصوص ہوتا ہے۔ان کا تعلق درمیانہ طبقہ سے ہے۔وہ اپنے عوامی مزاج سیاسی سوجھ بوجھ، عوام سے قریبی رابطہ،مسلسل خدمت علاقہ کے اجتماعی اور انفرادی مسائل سے پوری واقفیت اور دلچسپی کے ذریعہ اپنے لئے وہ مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ حلقہ کے عوام ہر مرتبہ اپنی نمائندگی کے لئے انہی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔اور اسی اعتماد اور کرگردگی کے باعث انہیں مسلم لیگ اور حکومت کی اعلٰی صفوں میں باوقار مقام حاصل ہوا ہے۔
ان کے عوام مزاج کا اظہار اسی بات سے ہوتا ہے کہ کسی شخص کو کبھی یہ شکایت نہیں ہوئی کہ ان سے ملاقات میں کوئی رکاوٹ یا دقت پیش آئی ہے۔بورے والا میں اپنی کوٹھی پر ہمہ وقت ایک ہجوم میں گھرے بیٹھے ہوتے ہیں۔اس ہجوم میں ہر مزاج،ہرمرتبہ اور ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں یہاں ہر شخص بلاجھجک اور بلا تکلف آکر اپنی بات کہہ سکتا ہے اور ضرورت ہو تو ان کی مدد حاصل کرسکتا ہے۔ وزارت کے دنوں میں بھی ان کے اس معمول میں فرق نہیں آیا۔ان کا دفتر میلے کا سماں پیش کرتاتھا۔دفتر کے تمام دروازے کھلے ہونے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ دفتر میں موجود ہیں۔ دروازے بند ہونا ان کی غیر موجودگی کی علامت تھا۔ دفتر کے اندر ہجوم کے باعث تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔اس عالم میں بھی وہ ہر شخص کی سنتے تھے اور ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور سارے اذدحام کے باوصف اپنی خوش طبعی اور مخصوص مسکراہٹ کو قائم رکھتے تھے۔
سید شاہد مہدی نسیم گزشتہ نو سال سے مرکزی قانون ساز اور پارلیمانی ادارے میں اپنے علاقے کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران انہوں نے اپنے حلقہ اور علاقہ کی ترقی اور بہبود کے لئے ان گنت منصوبے مکمل کرائے ہیں۔ اس زمانہ میں علاقہ کے اجتماعی اور رفاہی کاموں کیم جانب جو توجہ دی گئی وہ گزشتہ چالیس سال کے دوران مثالی حیثیت رکھتی ہے۔خاص طور پر سڑکوں کی تعمیر بجلی کی فراہمی اور سکولوں کی سہولت مہیا کرنے پر زیادہ توجہ دی گئ۔ اس طرح بعض ایسے دوردراز دیہات تک بھی سڑک اور بجلی کی سہولتیں میسر آگئیں جہاں کے لوگوں نے کبھی ان سہولتوں کو اپنے لئے ممکن خیال نہیں کیا تھا۔ان رفاہی اور ترقیاتی منصوبوں نے علاقہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور عام آدمی کی زندگی پر اسکا بہت خوش گوار اثر رتب ہوا ہے۔
دیہاتی علاقہ کے علاوہ بورے والا شہر میں بھی کئ اہم ادارے سید شاہد مہدی نسیم کی کوشش سے قائم ہوئے ہیں۔ ان داروں کی شہر کو سخت ضرورت تھی ان کے قیام نے شہریوں کو اہم سہولت سے فیضیاب کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان اداروں میں پولی ٹیکنیک انسٹی چپوٹ اور ووکیشنل ایسٹی چپوٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے اول الذکر ادارے کے قیام کا اعلان جناب محمد خان جونیجو وزیراعظم پاکستان نے 1987 میں بذات خود کیا تھا۔جب وہ سید شاہد مہدی نسیم کی دعوت پر بورے والا آئے تھے ۔حال ہی میں وزیر اعلٰی پنجاب جناب نواز شریف نے بھی ان کی دعوت پر بورے والا کا دورہ کیا اور اس موقع پر ایک کروڑ روپیہ کی لاگت پر تعمیر ہونے والے بورے والا اسٹیڈیم کا بٹگ کا بنیاد رکھا۔ایسے رفاہی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی بہبود کے بہت سے دیگر اداروں کی سرپرستی قبول کر رکھی ہے جن میں سماجی،معاشرتی اور کھیلوں کے ادارے
صفحہ 247
اور تنظیمیں شامل ہیں۔
سید شاہد مہدی نسیم ہمہ وقت اور ہمہ تن اپنے علاقے اور حلقہ کی بہبود اور ترقی کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور ساتھ ہی لوگوں کے انفرادی کاموں پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں اور کارگردگی کے لئے مستقبل نے مزید اعلٰی اعزازات ان کے لئے محفوظ رکھے ہیں اور قدرت نے مزید اعلٰی مراتب ان کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں۔ان کے حلقہ اور علاقہ کو ان کی ذات سے بڑی تقعات وابستہ ہیں۔ سادات بروالہ کو بھی ان کی ذات کے حوالہ سے وہ عزت اور افتخار حاصل ہوا ہے جو دیر تک باقی رہنے والا ہے۔اس لئے وہ سب ان کی مزید ترقی اور عروج کے لئے ہمہ وقت دعا گو ہیں اور ان کی ذات پر نازاں ہیں۔
صفحہ 248
سید مقبول حسین نقوی
(شجرہ صفحہ 202 پر ہے)
سید مقبول حسین سادات بروالہ کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے وقت بہت کم عمر تھے اور جنہوں نے پاکستان میں آکر ہوش سنبھالا۔وہ گاما ٹھلہ میں سید جبردین کے گھرانے میں سید نجف علی کے ہاں یکم جنوری 1940 کو بروالہ سیدان میں پیدا ہوئے۔ اس طرح بروالہ سے ہجرت کے وقت ان کی عمر سات سال تھی۔پاکستان آنے کے بعد انکا گھرانہ اپنے خاندان کے دیگر گھرانوں کے ساتھ بورے والا کے نواح میں کوٹ رامچند کے موضع میں آباد ہوا۔اسی گاؤں کے سکول میں انہوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ایک نزدیکی دیہات کے ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم پائی۔والد کا انتقال 1954 میں ہوگیا تھا ۔یہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ اس لئے میٹرک کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا پڑا۔
سید مقبول حسین ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی اجتماعی بہبود کے کاموں کا جذبہ عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی اس طرح کے کاموں کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے کوٹ رامچند میں انجمن نوجوانان قائم کی۔اس انجمن کے مقاصد یہ تھے(1)کچی سڑک بنوانا جو گاؤں کو بورے والا اور وہاڑی سے ملائے۔(2) تعلیم بالغاں کا اہتمام۔اس اہتمام سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔کچھ عرصہ بعد انہوں نے انجمن نے کوشش کی اور بڑی کامیابی حاصل کی۔
1963 میں انہوں نے اپنے یونٹ دے کر آبادی دیہہ کے رقبہ کو غیر مسلموں سے اپنے نام منتقل کرایا اور اس کے بعد اہل دیہہ کے نام انتقال کرادیا۔یہ ان کی جانب سے صدقہ جاریہ ہے۔اس کے علاوہ گاؤں کے لئے قبرستان کی زمین کے وصول،نہر اور راجباہ پر پلوں کی تعمیر،سڑک کی تعمیر اور اسی قسم کے تمام اجتماعی کاموں میں انہوں نے سرگرم حصّہ لیا اور اب بھی ہر قسم کے عوامی فلاحی کاموں میں ان کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔کوٹ رامچند کا نام تبدیل کراکے "کوٹ سادات" رکھنے میں بھی سب سے زیادہ کوشش ان کی ہی رہی ہے۔
1970 میں اپنی والدہ کو حج کرایا۔والدہ کے انتقال کے بعد اپنی رہائش بورے والا شہر میں منتقل کرلی تاکہ بچوں کی تعلیم کے بہتر وسائل مہیا ہوسکیں۔بچوں کو تعلیم دلانے کا انہین بہت خیال ہے اور یہ بہت مبارک بات ہے۔
شجرہ نسب کی ترتیب اور حفاظت کا انہیں مدت سے شوق ہے۔ کالاپانہ کے شجر کی تفصیلات راقم کو ان سے ہی حاصل ہوئی ہیں۔ ان کے تعاون نے اسی کام کو راقم کے لئے بہت آسان بنادیا ہے۔