تاریخ قبل از اسلام (موت کا خیمہ)

خرم انصاری

محفلین
موت کا خیمہ
از شیخ محمد خرم شہزاد عطاری الانصاری
چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی سنگلاخ وادی اور اس کے دوسری جانب دُور دُور تک پھیلے ہوئے لق ودق صحرا جہاں سایہ دار درخت تو درکنار گھاس کا تنکا تک نہ تھا، اوپر سے سورج کی چلچلاتی ہوئی دھوپ جسم کا رواں رواں جھلسائے جا رہی تھی۔ اس جاں سوز گرمی اور تپش کی تاب نہ لاتے ہوئے جب ہر کوئی اپنے گھر کی راہ لیتا ہے ایسے میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جو اپنے گھر کی چھت کے آرام دہ سائے سے نکل کر ایک تپتے ہوئے ویران اور چٹیل میدان کی طرف بڑھ رہا ہے، ان کی آنکھوں سے زندگی کی کرنیں بالکل ختم ہو چکی ہے، چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہے، چال میں بھی لنگراہٹ ہے۔ جس سے ان کی ناگفتہ بہ حالت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ویران اور چٹیل میدان میں پہنچنے کے بعد انہوں نے وہاں ایک خیمہ نصب کیا اور پھر ایک ایک کر کے پورا خاندان اس کے اندر داخل ہو گیا۔ دراصل اس خاندان کے پاس اشیائے خورد ونوش بالکل ختم ہو چکی تھی۔ ایامِ حج بھی قریب نہ تھے کہ جس سے کچھ سامانِ ضرورت مہیا ہونے کی امید بندھتی، بےآب وگیاہ ریگستانوں اور چٹیل میدانوں کی وجہ سے کھیتی باڑی تو تھی ہی نہیں۔ لہٰذا اب ان کے پاس یہی ایک راستہ رہ گیا تھا کہ دستور کے مطابق اس میدان میں آ کر خیمہ زن ہو جاتے اور پھر رفتہ رفتہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتے چنانچہ یہاں آ کر خیمہ لگانے کے بعد یہ اپنی زندگی کی بقیہ سانسیں موت کا انتظار کرتے ہوئے پوری کر رہے ہیں۔ انہیں شدت سے اس کا انتظار ہے کہ وہ جلد از جلد آئے اور انہیں اپنی آغوش میں لے کر بھوک وپیاس کی آگ سے نکال لے جائے ...آخر کار...وہ آ ہی پہنچتی ہے اور انہیں زندگی کی قید سے رہائی دے کر سوئے راہِ بقا کرتی ہے۔

یہ محض ایک تصوراتی بات نہیں، حقیقت ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے دنیا میں جلوہ گر ہونے سے بھی بہت پہلے کی بات ہے جب مکہ شریف کے اردگرد کے علاقوں میں آباد قبیلہ قریش کے افراد وہ علاقے چھوڑ کر مکہ مکرمہ میں آ گئے اور یہاں مستقل طور پر سکونت اختیار کر لی تو ان کی گزر بسر صرف ان اشیاء پر محدود ہو کر رہ گئی جو ایامِ حج میں عرب کے گوشے گوشے سے آنے والے حاجی انہیں تحفے تحائف اور نذرانوں کی صورت میں پیش کیا کرتے تھے کیونکہ یہاں کھیتی باڑی کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش بھی موجود نہ تھا۔ ایسے میں جب کوئی خاندان مفلس وکنگال ہو جاتا، اشیائے خود ونوش اس کے پاس ختم ہو جاتی اور نوبت فاقہ کشی تک آ پہنچتی تو یہ ایک مقررہ جگہ پر جا کر خیمہ نصب کرتے اور اس کے اندر داخل ہو جاتے پھر رفتہ رفتہ موت انہیں اپنی آغوش میں چھپا لیتی۔ عرصہ دراز تک یہی ہوتا رہا، پتا نہیں کتنے ہی افراد اس بھوک کی آگ کا شکار ہو کر موت کی وادی میں داخل ہو گئے، خاندانوں کے خاندان ختم ہو گئے لیکن اس دوران قریش کو نہ تو مکہ چھوڑ کر کہیں اور جانا گوارا ہوا نہ انہیں کوئی ذریعہ معاش میسر آ سکا۔

حضورِ اقدس ﷺ کے پرداد جان حضرتِ عمرو بن عبد مناف رضی اللہ عنہما جو اپنی سخاوت وفیاضی کی وجہ سے ہاشم کے لقب سے مشہور ہوئے، ان کا ایک بیٹا اسد تھا۔ بنی مخزوم کے ایک لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی تھی، یہ دونوں اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ جب اس لڑکے کے خاندان کے پاس نان ونفقہ ختم ہو گیا اور انہوں نے حسب دستور مقررہ جگہ پر خیمہ زن ہو کر موت سے ہم آغوش ہونے کا فیصلہ کر لیا تو اس مخزومی لڑکے نے اپنے دوست کو بتایا۔ اسد کو یہ سن کر بہت صدمہ پہنچا۔ وہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا اور سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ ماں نے اس کے مخزومی دوست کے خاندان کے لئے کچھ چربی اور آٹا دیا۔ چند روز تک وہ اس پر گزر بسر کرتے رہے جب یہ اشیاء بھی ختم ہو گئی اور نوبت ایک بار پھر فاقہ کشی کو آ پہنچی تو انہوں نے دوبارہ مقررہ جگہ پر خیمہ زن ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ جب اسد کو اس بات کی خبر ہوئی تو وہ روتا ہوا اس بار اپنے والد حضرتِ ہاشم رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ہاشم رضی اللہ عنہ کو یہ جان کو بہت رنج ہوا۔ انہوں نے قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ایک ایسا طریقہ اختیار کر رکھا ہے جس سے تمہاری تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور دوسرے عرب قبائل کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم کمزور اور ذلیل ہو جاؤ گے اور دوسرے قبائل تم پر غلبہ پا لیں گے حالانکہ تم اللہ عزوجل کے حرم کے باشندے ہو اور اولادِ آدم میں سب سے زیادہ معزز ومحترم ہو، باقی تمام لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔ یہ موت کے خیمے میں داخلے کی رسم بہت جلد تمہیں فنا کر دے گی۔ لوگوں نے کہا: آپ حکم کریں ہم آپ کی اطاعت کریں گے۔ حضرتِ ہاشم رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے لوگوں کو اس مخزومی خاندان کی مدد کرنے کا کہا۔ چنانچہ سب نے مل کر اس کے لئے نان ونفقہ کا اہتمام کر دیا۔ پھر حضرتِ ہاشم رضی اللہ عنہ نے اونٹ اور بھیڑ بکریاں ذبح کیں اور ان کے شوربے سے ثرید تیار کر کے پوری قوم کو کھانا کھلایا۔ تب سے ان کا لقب ہاشم مشہور ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے ہر خاندان کو سال میں دو تجارتی سفر کرنے کا کہا، سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف۔ اس کاروبار اور تجارت سے جو نفع ہوتا اسے امیر وغریب میں برابر برابر تقسیم کر دیا جاتا۔ جس سے چند سالوں میں ہی قریش کی مالی حالت بہتر ہو گئی، سب امیر وغریب برابر ہو گئے حتی کہ دولت وثروت میں کوئی قبیلہ ان کے ہمسر و ہم پلہ نہ رہا اور قریش میں رواج پکڑی ہوئی موت کے خیمے کی رسم مٹ گئی۔ (ماخوذ من التفسیر القرطبی تحت السورۃ قریش)
 
آخری تدوین:

تجمل حسین

محفلین
محترم خرم انصاری صاحب!
اتنی قیمتی معلوماتی اشاعت کے لیے بہت بہت شکریہ!

اگر آپ ساتھ ہی اس کتاب کا حوالہ جس سے یہ اقباس لیا گیا ہے بھی تحریر کردیں تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ اس طرح جو مزید پڑھنا چاہے وہ اس کتاب سے بھی پڑھ سکے گا۔

کیا خیال ہے؟:sidefrown:
 

bilal260

محفلین
محترم جناب سب سے پہلا اپنا تعارف کروائے تعارف کے سیکشن میں ۔
اس تحریر کا حوالہ بھی لکھے کس کتاب سے کن مصنف کی لکھی ہوئی ہے۔
خرم انصاری
 

خرم انصاری

محفلین
محترم خرم انصاری صاحب!
اتنی قیمتی معلوماتی اشاعت کے لیے بہت بہت شکریہ!

اگر آپ ساتھ ہی اس کتاب کا حوالہ جس سے یہ اقباس لیا گیا ہے بھی تحریر کردیں تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ اس طرح جو مزید پڑھنا چاہے وہ اس کتاب سے بھی پڑھ سکے گا۔

کیا خیال ہے؟:sidefrown:

ہوں۔۔۔!! خیال تو اچھا ہے۔
یہ واقعہ تفسیر قرطبی میں سورۂ قریش کی تفسیر میں درج ہے اور اس عاجز وگنہگار نے بھی وہیں سے لے کر اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ مشہور نساب العرب زبیر بن بکار نے الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ کتاب الموفقیات میں بھی بیان کیا ہے۔[/QUOTE]
 
Top