تاریخ پر حکمرانی

x boy

محفلین
Tareekh-Par-Hukmarani-By-Abdullah-Tariq-Sohail.jpg
 

x boy

محفلین
Soviet_empire_1960.png
روس کے خلاف افغانوں کا جہاد ، امریکا کا تعاون اور روس کی شکست ۔یہ موضوع اب شاید مزید اس قابل نہیں کہ اس پر بحث ومباحثہ کا میدان گرم رکھا جائے کیوں

کہ " اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا"۔ دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے حالات میں عالم اسلام کو اس وقت جن فکری اور نظریاتی چیلنجوں کا سامناہے ایسے حالات میں روس کی شکست کے پارینہ قصے دہرا نا ضیاع وقت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ تاریخ کے اس حساس عصر میں مسلمان اہل فکر وقلم کو آگے بڑھتے رہنا چاہیے اور مسلمانوں خصوصا نوجوان نسل کو جن فکری پیچیدگیوں کا سامنا ہے ان گتھیوں کو سلجھاتے رہنا چاہیے ۔ آج کی نشست میں روس کے خلاف افغانوں کی مزاحمت کا قصہ دہرانے کا مقصد ایک مغالطہ کا ازالہ کرنا ہے جو عموما ہمارے نوجوانوں کو ہمارے اہل قلم کی جانب سے دیا جاتا ہے ۔ ہمارے ایک دانشوراور کالم نگار صاحب نے گذشتہ دنوں ایک معروف روزنامے میں یہی مغالطہ دہرایا ۔ انہوں نے اس بات کا ایک بارپھر تکرار کیا کہ سوویت یونین کو شکست دراصل امریکا نے دی تھی اور افغان عوام اس جنگ کی بھٹی میں جلنے والے ایندھن کے طورپر استعمال کیے گئے ۔ وہ اس بات پر نالاں تھے کہ "روس کا سوشل ازم دنیا بھر میں یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں نقب لگا چکا تھا اور ہر میدان میں سرمایہ داریت کو چیلنج کررہا تھا ۔ سوویت یونین کے خاتمے سے امریکا کے لیے دنیا بھر میں میدان صاف ہو گیا اور وہ چند ارب ڈالر خرچ کرکے واحد سپر پاور بن بیٹھا ۔ اور مسلمان واحد سپر پاور کے پنجے میں آگئے "۔

مذکورہ کالم نگار صاحب نے یہ بات ذرا طویل الفاظ میں کی ہے ہم نے ان کا خلاصہ یہاں لکھا ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں ایک اچھا تجزیہ کار حقائق سے نظریں پھیرتا ہے؟ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک ہی جانب اور ایک ہی زاویے سے کیوں کسی معاملے کو دیکھتے ہیں ؟ معاملے کا ایک پہلو بے شک یہی ہے کہ امریکا اور روس ایک دوسرے کے بڑے حریف تھے ۔ اس میں بھی شک نہیں کہ امریکا اور روس دونوں اپنے ساتھ ایک خاص نظام بھی لیے ہوئے دنیا پر چھا جانے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ روس کی شکست امریکا کی فتح تھی اور امریکا کی شکست روس کی فتح ۔ کیوں کہ اس وقت دونوں ممالک اور دونوں نظام دو مقابل قطب بن کر دنیا کے افق پر کھڑے تھے ۔ گویا دونوں ترازو کے الگ الگ دوپلڑوں میں تھے ۔ ایک کا بھاری ہونا یقینی طورپر دوسرے کا ہلکاہونا تھا ۔ یہ ایک بدیہی معاملہ تھا جس سے کوئی مفر بھی نہ تھا ۔ اس زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو وہی بات کسی حد تک ٹھیک لگتی ہے جو مذکورہ صاحب نے کی مگر اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے ۔ اور یہی وہ پہلو ہے جس سے آج تک ہمارے مصنفین اور رائٹرز صرف نظر کرتے آرہے ہیں ۔ وہ یہ کہ اشتراکیت اور سرمایہ داریت کی جنگ کو افغانستان میں ایک افغان کی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کیا جائے ۔

1979 کو روس نے افغانستان پر حملہ کیا ۔ اس وقت افغانوں کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ روسی جارحیت کے مقابلے میں کیا کیا جائے ؟افغانوں میں کچھ تو وہ تھے جو روسی جارحیت سے قبل ہی اس کے اشتراکی نظریے کے حامی بن گئے تھے ۔ ایسے لوگوں کے لیے روس کا افغانستان پر قبضہ کسی نعمت عظمی سے کم نہ تھا ۔ کیوں کہ ایسے لوگوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ایک بہترین موقع ہاتھ آگیا تھا ۔ مسئلہ تو ان دیندار مسلمانوں کا تھا جنہوں نے کمیونزم کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ خلق وپرچم کے کمیونسٹوں کے علاوہ اکثر افغان عوام کے سامنے اب بس یہی سوال تھا کہ روسی جارحیت کے بعد کیا کیا جائے ؟ ان کے سامنے دو مسائل تھے جو بار بار انہیں اپنے آپ سے یہ سوال دہرانے پر مجبور کررہے تھے ۔ پہلا مسئلہ تھا روسیوں اور ان کے کٹھ پتلی کمیونسٹوں کے بے انتہا مظالم ۔ وحشیانہ مظالم کی یہ کہانیاں آج بھی لوگوں کو از بر ہیں ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جن لوگوں نے روسیوں کے مظالم سہے وہ نسلیں آج بھی زندہ ہیں ۔ ایسے حالات میں جب محض اسلام پسندی کی بناء پر ہی لوگوں کا قتل عام کیا جائے ، مال واملاک چھین لیے جائیں اور اشتراکی نظریے کے علاوہ کسی بھی عقیدے کا نام لینا جرم بن جائے ،انسان نما وحشی درندوں کے غول گھر کی دہلیز پار کرکے آپ کے حرم میں داخل ہوں ۔بیٹی ، بہن اور بیوی کی عزت محفوظ نہ ہو ۔ صبح اٹھیں تو شام تک یقین نہ ہو کہ کب یہ خون آشام درندے آئیں اور معصوم بیٹی کی عصمت کی چادر تار تار کرکے چلے جائیں ۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہوئے کہ روسی فوجی ہیلی کاپٹر میں آئے ، چھاپہ مارکرچلے گئے .جاتے جاتے گاؤں کی دوشیزاؤں کو ریوڑ کی شکل میں ہنکاکر لے گئے ۔ اور پھر جب ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوا تو ان کے کپڑے ہوا میں لہراتے ہوئے نیچے گرے اور صحراؤں اور ریگستانوں میں بکھر گئے ۔ قرآن کریم کی بے حرمتی ، مساجد کی تباہی ،کیا کیا مظالم ہیں جو میری مظلوم قوم نے نہ سہے ؟!! کتنے بے آسرا والدین کے جوان بیٹوں کی لاشیں ان کے کندھوں پر لادی گئیں ۔

افغانوں کا دوسرا مسئلہ فکری اور نظریاتی تھا ۔ دراصل اشتراکیت اور سرمایہ داریت کے نام سے دنیا میں جوجنگ چل رہی ہے جس میں روس کی شکست کے بعد آج بظاہر سرمایہ داریت ہی کا تسلط قائم ہے ، یہ جنگ دونظاموں کی نہیں تین نظاموں کی جنگ ہے ۔ یعنی اشتراکیت ، سرمایہ دارنہ نظام اور اسلام ۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ تو ظاہر ہے کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا کی دو طاقتور قوتیں ان نظاموں کے پشت پر ہیں اس لیے ان کی قوت سب کے سامنے ہے ۔ جبکہ تیسرا فریق اسلام اگرچہ بظاہر اس کا علمبردار کوئی مضبوط معاشی یا عسکری ملک نہیں جس کی وجہ سے دنیا میں سرمایہ داریت یا اشتراکیت کی طرح اسے بھی غلبہ ملے مگر روس اور امریکا دونوں اس راز سے واقف ہیں کہ اسلام دنیا میں ایک تیسرے مضبوط نظام کی حیثیت سے ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ابھرنے کی یہ صلاحیت اس کے بیرونی عوامل نے اسے نہیں بخشی بلکہ فی ذاتہ یہ ایک مکمل نظام ہے جو دنیا کی کامیاب رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس لیے بظاہر "رِنگ" میں نہ ہونے کے باوجود اشتراکیت اور سرمایہ داریت نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھا ۔ روس کی شکست کے بعد امریکیوں نے کہا تھا "اب ہمارے سامنے اسلام ہی واحد خطرہ ہے جو ہماری راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے " اور یہی بات روس کے لاشعور میں بھی کہیں موجود تھی یعنی وہ امریکا کے بعداسلام ہی کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔ اس لیے روس کا اشتراکی نظریہ امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے جتنا بڑا خطرہ تھا اپنے دوسرے حریف اسلام کو بھی وہ اتنا ہی بڑا دشمن سمجھتا تھا ۔ عام طور پر ہمارے دانشورسرمایہ دارانہ نظام کی دشمنی کی بات تو کرتے ہیں مگر روس کی اسلام دشمنی کو یکسر بھول ہی جاتے ہیں ۔ افغانستان آنے سے قبل روس نے وسطی ایشیائی ممالک پر قبضہ کیا تھا ۔ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ روس نے جو کیا اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ کاش ہمارے دانشور افغانستان پر تبصرہ کرنے سے پہلے وسطی ایشیائی ممالک میں ہونے والے روسی مظالم کی بھیانک تاریخ پڑھ لیں ۔ روس کی مزاحمت صرف افغانوں نے نہیں کی ، وسطی ایشائی ممالک قفقاز اور چیچنیا وغیرہ میں روس کے خلاف بڑی مزاحمتی تحریکیں چلیں ۔ قفقاز میں امام شامل اور چیچنیا میں شامل بسایوف نے بھی روس کے خلاف ہتھیار اٹھائے ۔ ان کی جنگیں بھی سالہا سال پر محیط رہیں ، مگر افسوس وہ کامیاب نہ ہوسکیں اور سوویت یونین کی شکست وریخت افغانوں کے ہاتھوں لکھی گئی تھی ۔افغانستان میں سوویت یونین کو اشتراکیت کے علاوہ اور کوئی نظریہ قبول ہی نہ تھا ۔ ماہنامہ شریعت میں شائع ہونے والے ہمارے ایک دوست کے مضمون کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جنہوں نے اس صورتحال کا بہت جامع الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :

"افغان اتنے پاگل تھے اور نہ اس حد تک زندگی ان پر بوجھ تھی کہ کسی لایعنی مقصد کے لیے دوملین بھائیوں اوربیٹوں کی قربانی دیتے۔ کمیونسٹ یلغار کے بعد افغانوں کو بڑے اندرونی وبیرونی دشمن کا سامنا تھا ۔ افغانوں کے وطن پر سیلاب بہہ نکلا تھا ،اور انہیں اپنے سب سے بڑے سرمائے یعنی اسلامی عقیدے کے خاتمے کا خطرہ درپیش تھا ۔ افغانستان کا شمالی طاقتور پڑوسی یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ طوعا وکرہا ہر افغان بچے ،بڑے، مرد اورعورت کے ذہن کومارکس ازم کے دہری عقیدے کا انجکش لگایا جائے ۔ نماز ،روزہ ، حج ، زکوۃ ، مسواک ، اذان ، مسجد ،قرآن ، اللہ ، رسول ، مذہب اور تمام عربی اصطلاحات کو عقیدے اورعمل سے نکال دیا جائے ۔ افغانوں کو روسی تعاون کے بدلے اپنا ڈیڑھ ہزارسالہ قبلہ لینن گراڈ کی جانب موڑلینا چاہیے ، کیوں کہ نئی مارکسسٹ معاشرے کا یہی تقاضہ ہے ۔ بریگ نوف نے کہا " کمیونزم کے پڑوسیوں کو صرف کمیونسٹ ہی ہونا چاہیے اور بس"۔ یہی واقعہ اور یہی یک طرفہ کفری یلغار تھا جس نے افغانوں کو دیوار سے لگادیا ۔ کسی طرح کا استثناء ،کوئی راستہ اور کوئی مصلحت افغان عوام کے لیے نہ چھوڑی گئی ۔ بریگ نوف نے حفیظ اللہ امین کی زبانی اعلان کیا کہ" دو کروڑ مخالفین کو قتل کردینا چاہیے تاکہ 61ہزار افراد پر مشتمل معاشرے کے لیے راہ ہموار ہوجائے "۔ افغان عوام مجبور تھے یا تو عقیدے کی موت قبول کریں اور یا جسمانی موت ۔ چونکہ جسمانی موت آسان ہے اور اس کا انجام بھی عقیدے کی موت کے بہ نسبت صرف ظاہری اور وقتی ہے اس لیے ڈیڑھ ملین افغانوں نے جسمانی موت کوگلے لگالیا تاکہ اپنی قوم کو عقیدے کی موت سے بچاسکیں" ۔

افغانوں نے جب اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھائے تو کوئی بھی امریکی ان کے درمیان موجود نہیں تھا جو انہیں یہ راستہ دکھا رہا تھا ۔ افغان حریت پسندوں نے اگر اس وقت ہتھیار اٹھائے تو وہ صرف روسی مظالم اور اسلام دشمنی تھی جس نے افغانوں کو لڑنے پر مجبور کردیا ۔ افغان مجاہد ین نے جہاد کا آغازسوکھے پیٹ اور پرانے ہتھیاروں سے کیا تھا ۔ وہ بوتل سے گرنیڈ بناکرروسی لشکر کا ٹینک اڑانے کی کوشش کررہےتھے۔ کلہاڑی ، بیلچہ اور پتھر لے کر وہ روسی ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہورہےتھے،کیوں کہ نہتے عوام کے پاس اب صرف یہی راستہ بچا تھا ۔

افغانوں کی مزاحمت کے آغاز کے بعد دنیا کے سامنے ایک نیا منظر نامہ بن رہاتھا ۔ ایک جنگ چھڑگئی تھی جس میں ایک جانب دنیا کی طاقت ور ترین قوت سوویت یونین اور دوسری طرف نہتے افغان عوام ۔ جہاں دیگر حقائق قابل تسلیم ہیں وہاں یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ دونوں فریق اپنی اپنی تاریخ ، مضافات و متعلقات ، دوست و دشمن ، اپنی اپنی ترجیحات اور اپنا اپنا بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں ۔ ظاہر ہے روس ایک عالمی سپر پاور تھا جس کی جنگ کے اثرات اس کے دوستوں اور دشمنوں سب پر پڑنے والے تھے ۔ ایک جانب وسطی ایشائی ممالک تھے جو براہ راست روسی جارحیت کا شکار تھے ۔ دوسری جانب پاکستان تھا جو افغانستان کے بعد روسی جارحیت کا شکار بننے والا تھا ۔ پاکستان کے بلوچستان اور کراچی کے ساحلوں سے ٹکرانے والے بحیرہ عرب کے اس پارعرب ممالک پھیلے ہوئے ہیں جن کا خیال تھا کہ روس کی استعماری جد وجہد کا اصل ہدف عرب ممالک ہی ہیں جہاں سوشل ازم کے بڑے حریف مذہب "اسلام" کے روحانی مرکز کے ساتھ ساتھ تیل کے وسیع ذخائر بھی ہیں ۔ دوسری طرف مغربی یورپی ممالک تھے جو سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے اور روس کو اپنا فطری حریف سمجھتے تھے ۔ادھرسوویت یونین تھا کہ پوری دنیا کو تاراج کرنے کا سودا سر میں لیے بے لگام ہوکر نکل پڑا تھا ۔

"دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے" اس لیے سوویت یونین کے ہر بدخواہ کی خواہش تھی کہ افغانوں کے ہاتھوں سوویت روس کی شکست ہوجائے ۔ مگر مشکل یہ تھی کہ روس کے عتاب اور قہر آلود نگاہوں کے سامنے کسی کا بس بھی نہ چلتا تھا ۔ اس لیے افغانوں کی جنگ شروع ہونے کے بعد ایک عرصہ تک دنیا دم بخود کھڑی دیکھتی رہی ۔ سوویت یونین کے رعب اور دبدبے کے سامنے کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ یوں علی الاعلان افغانوں کی مدد کے لیے آگے آتا ۔ افغان مجاہدین کو امداد پہلے دن ہی سے ملنا شروع نہیں ہوئی ۔ ساری دنیا اس انتظار میں تھی کہ یہ جنگ آگے جاکر کیا رخ اختیار کرے گی ؟ کسی کو یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ افغان اتنا مضبوط عزم لے کر اٹھے ہیں کہ روس اپنی تمام تردرندگی کے باوجود انہیں شکست نہیں دے سکے گا ۔ آخر یہ انہونی بھی ہونی ہوگئی ، دنیا کو یقین آگیا کہ افغانوں کی مزاحمت کوئی وقتی وبال یا دو روزہ جذبہ انتقام نہیں ۔ تب ہی افغانوں کی جانب عرب دنیا اور امریکا نے تعاون کا ہاتھ بڑھا یا ۔فکری اعتبار سے یہ تعاون تین دشمنوں میں سے ایک طاقتور دشمن کے خلاف دو کا آپس کا اتحاد تھا جس میں ایک نے اپنا سر پیش کیا کیوں کہ اس پا س اس کے سوا کچھ تھا ہی نہیں ، دوسرے نے اپنی ٹیکنالوجی پیش کی کیوں کہ سرجاتے ہوئے اس کی جان جاتی ہے ۔

یہ تھا وہ باعث جس نے افغانوں کو ہاتھوں میں ہتھیار تھمادیے ، شریف النفس افغانوں کے خلاف روس نے ہی سازشوں کے جال بنے تھے اور پھر خود ہی جارحیت ہی کی تھی اس کے باوجود بھی ہمارے دانشور وں کے پاس لعنت ملامت کے لیے افغان عوام ہی ہیں روس کی تو جیسے معصومیت قسم کھانے کے قابل ہو ۔ دنیا میں اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز یا ہتھیار اٹھائے تو ساری دنیا اس کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہے ۔ اس کو انصاف دلانے کی بات کی جاتی ہے ،مگر ہم افغانوں نے اپنی آزادی اور حق کے لیے ہتھیار اٹھاکر ایسا کونسابڑا گناہ کردیا کہ غیر تو غیر اپنے مسلمان بھی مسلسل کوستے چلے جارہے ہیں ۔ سرخ ریچھ کو موت کی گھاٹ اتارنا کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ بیس سال بعد بھی قابل معافی نہیں ؟ روس کی تباہی سے اگر امریکا کو فائدہ ہونا تھا تو یہ اس جنگ کا خود بخود حاصل ہونے والا ایک ناگزیر نتیجہ تھا ، افغانوں کی جنگ ہرگز اس مقصد کے لیے نہیں تھی ۔ افغانوں نے اس وقت بھی اسلام کے دفاع کی جنگ لڑی ، اس وقت بھی کافروں کو اسلام کا دشمن سمجھا ، آج بھی کفر کو اسلام کا سمجھتے ہیں ۔ آج ہم اس بات پر نالاں ہیں کہ امریکا کا کوئی حریف نہیں جو اسے نکیل ڈالے !؟تو کیا روس جیسا وحشی مقابل ہونے کی صورت ہم مسلمان محفوظ اور پر امن رہ جاتے؟ دو عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں ہماری کمزور اقوام کیا پامال نہ ہوجاتیں ؟ اسلام اور مسلمانوں کو آج جو پریشانیاں درپیش ہیں کیا اشتراکیت کے وجود سے وہ دوگنی نہ ہوتیں ؟

اوپر کے سطورکا مقصد صورت حال کی تھوڑی سے وضاحت تھی ۔ روس کے خلاف افغانوں کی جنگ میں افغانوں کو محض ایندھن یا مجاہدین رہنماؤں کو امریکی آلہ کار کہنے سے قبل اس جنگ کو ایک عام افغان کی نظر سے دیکھا جائے ، اور اس پہلو پر بھی سوچا جائے کہ اس وقت افغانوں کے پاس امریکا سے اسلحہ لے کر لڑنے کے سوا اور بچا بھی کونسا راستہ تھا ۔
 

arifkarim

معطل
مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ افغانوں نے روس کیخلاف آزادی کی جنگ اپنی علاقائی قومیت کی بنیاد پر لڑنے کی بجائے اسلامی جہادی بنیادوں پر لڑی اور اسکام کیلئے نظریاتی ایندھن وہابی سعودیہ اور مالیاتی امداد امریکی ردی ڈالروں کو بنایا۔ روس تو پہلے ہی سے کئی دہائیوں سے بہت سے مسلمان اکثریت ممالک جیسےترکمنستان، تاجکستان، ازبکستان، ازربائیجان وغیرہ پر قابض تھا۔ لیکن وہاں ہم نام نہاد امتیوں کو جہاد کے فضائل بھول گئے؟
البتہ جب اسی کمیونسٹ روس نے 80 کی دہائی میں افغانستان پر چڑھائی کی تو امریکہ کے کہنے پر ہمیں جہاد یاد آگیا اور پوری مسلم دنیا خاص کر عرب سے جہادی افغانستان میں روسیوں کیخلاف بھرتی کیئے گئے۔ جن میں نامور شیخ الاسلام امیر المؤمنین حضرت اسامہ بن لادن عرف سی آئی اے ایجنٹ Tim Osman بھی شامل تھے۔
http://whatreallyhappened.com/WRHARTICLES/bin_laden_osman.html
 

x boy

محفلین
مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ افغانوں نے روس کیخلاف آزادی کی جنگ قومیت پرستی کی بنیاد پر لڑنے کی بجائے اسلامی جہادی بنیادوں پر لڑی اور اسکام کیلئے ایندھن وہابی سعودیہ اور امریکی ردی ڈالروں کو بنایا۔ روس تو پہلے ہی سے کئی دہائیوں سے بہت سے مسلمان اکثریت ممالک جیسےترکمنستان، تاجکستان، ازبکستان، ازربائیجان وغیرہ پر قابض تھا۔ لیکن وہاں ہم نام نہاد امتیوں کو جہاد کے فضائل بھول گئے۔
البتہ جب اسی کمیونسٹ روس نے 80 کی دہائی میں افغانستان پر چڑھائی کی تو امریکہ کے کہنے پر ہمیں جہاد یاد آگیا اور پوری مسلم دنیا خاص کر عرب سے جہادی افغانستان میں روسیوں کیخلاف بھرتی کیئے گئے۔ جن میں نامور شیخ الاسلام امیر المؤمنین حضرت اسامہ بن لادن عرف سی آئی اے ایجنٹ Tim Osman بھی شامل تھے۔
http://whatreallyhappened.com/WRHARTICLES/bin_laden_osman.html
ہر بات پر انگلی کیوں چلتی ہے عقل چلنی چاہیے پہلے غور کریں پھر اپنے ذہن پر زور دیں ورنہ ادھر کا ادھر ہوجائے گا۔
 

x boy

محفلین
’ایک بات یاد رکھنا گناہ ہر صورت گناہ ہی رہتا ہے۔ اسے کسی بھی طرح نیکی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تب گناہ کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، جب تاویلیں پیش کر کے اسے درست قدم قرار دینے کی کوشش کی جائے۔ انسان گناہ کرے اور اس پر شرمسار ہو تو ممکن ہے اللہ اسے معاف فرما دے لیکن گناہ گار خود کو حق پر سمجھے، یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے۔۔

جب جب بھی نام اسلا م اور مسلمان آیا ہے ایک بد تہذیب اس کو الگ رنگ دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے ہم اس بیماری کے وائرس کا علاج نہیں کرسکتے۔۔۔
صرف اور صرف ،،، نعوذو باللہ منکم،،، پڑھ سکتے ہیں شیطان اور جنات کی عقل 10 سالا بچے کے عقل جتنی ہوتی ہے وہ صرف وسوسہ ڈال سکتا ہے
باقی انکے چیلے جیسا کہ کے اوپر ایک شخص ظاہر ہوا ہے انکا کام انجام دیتے ہیں
ثم نعوذو باللہ منکم
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
شیطان اور جنات کی عقل 10 سالا بچے کے عقل جتنی ہوتی ہے وہ صرف وسوسہ ڈال سکتا ہے
دس سالہ بچے کو بھی کم از کم اتنی عقل ہوتی ہے کہ مذہب کے نام پر خون، دنگا فساد کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کیا ان بڈھے ادھیڑ عمر افراد کو اتنی عقل و فراست بھی میسرنہیں جو عراق، شام، پاکستان جیسے اسلامی برادر ممالک میں قتال اور مسلمانوں کیخلاف دہشت گردی کرتے پھر تےہیں؟ آج اتنے بندے مار دئے، کل اتنے لوگوں کے گلے کاٹ دئے، پرسوں اتنے افراد کو ذبح کر دیا۔ یہ سب تو اب روز کا معمول کا بن گیا ہے ان اسلامی برادر ممالک میں۔
آپ تو اس فارم پر ایسے لکھتے ہیں جیسے ہمارا جنم آج ہی ہوا ہے۔ کیا ہم نے اپنی آنکھوں سے طالبان کو پاک مسلمان فوجیوں کے کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلتے نہیں دیکھا؟ کیا ہمنے انہیں بے گناہ مسلمانوں کو بے دردی سے سنگسار کرتے نہیں دیکھا؟ کیا ہمنے ملک شام میں اسی قسم کے وہابی القائدہ اسلامی جنگجوؤں کو دوسرے مسلمانوں کا کلیجا چباتے نہیں دیکھا؟ اگر آپ نے یہ سب نہیں دیکھا تو اسمیں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ ہم یہاں تمام حقائق اور دلائل کیساتھ بات کرتے ہیں جبکہ آپ محض من گھڑت مفروضوں کیساتھ۔
 

x boy

محفلین
وطنیت کا گلوبل بت
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

علامہ اقبال نے صحیح کہا تھا کہ تازہ بتوں میں سے سب سے بڑا بت وطنیت کا ہے۔ بلکہ آج دنیا کا سب سے بڑا بت اور سب سے زیادہ پوجا جانے والا بت یہی ہے۔ اسی لئے اس کو ’’گلوبل بت‘‘ کہا جائے تو بہتر ہو گا، کیونکہ اس سے پہلے دنیا میں جتنے بھی بت تھے ان کو صرف وہی بت پرست پوجتے تھے جو اس کے ماننے والے ہوتے تھے، لیکن وطنیت کے اس بت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے صرف بت پرست ہی نہیں پوجتے بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے اس کی پوجا کرتے ہیں، اس کی تعظیم کرتے ہیں اور اس پر اپنی جوان اولادوں کی بلیّ (قربانی) چڑھاتے ہیں۔

اس جدید بت کا عشق دیکھیے کہ اس نے ان کو بھی اپنا پجاری بنا لیا جو زبان سے لاالہٰ پڑھتے ہیں۔ جی ہاں! صرف ہندو، عیسائی اور بعدھ ہی اس کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اس کو مقدس ماننے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو محمد ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ حیران ہوئیے اور ہوتے جائیے کہ صرف جاہل اور دین سے بے بہرا ہی اس کے پجاری نہیں بلکہ دین کا پہاڑ جیسا علم رکھنے والے، چہروں پر داڑھیاں سجائے بعض حضرات بھی اس بت کے مجاور بنے ہوئے ہیں۔ ان کی شریعت نے اس بت کی اطاعت کو فرض اور اس سے بغاوت کو حرام قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک جو اس بت کی شریعت (آئین) کو نہ مانے وہ ملت سے خارج اور جو اس کے سامنے سر جھکا دے پھر اس کو کئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا، خواہ وہ کفر کرتا اور بکتا رہے۔

ان کے دلوں میں اس بت کی تعظیم اس درجہ ہے کہ اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو باغی کہہ کر بموں اور ٹینکوں سے تہس نہس کرنے کے فتوے دئیے جاتے ہیں ، اس کے آگے سجدہ نہ کرنے والوں کے لئے دنیا بھر میں نمرود کے آتش کدے تعمیر کیے گئے ہیں، جہاں ان باغیوں کے لئے آتش نمرود آج بھی اسی طرح بھڑک رہی ہے جیسے ان سے پہلے بتوں سے بغاوت کرنے والوں کے لئے بھڑکائی گئی تھی۔ اگر کچھ لوگ اس بت کو چھوڑ کر صرف اللہ کی حاکمیت کا مطالبہ کریں تو ان کو ’’سوات‘‘ بنانے کے لئے اس بت کی محافظ مسلح افواج فوراً حرکت میں آتی ہیں۔

آج کی دنیا میں جو چاہے نمازیں پڑھے، حج کرے، روزے رکھے، درس و تدریس کرے، بڑے بڑے اجتماعات کرے، ہر چیز کی آزادی ہے۔ لیکن ہر شہری کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بت کی شریعت پر ایمان لائے۔ اگر کسی نے اس کا انکار کر دیا اور صرف اللہ کے نطام کا نعرہ لگایا تو ان کی نماز بھی نہیں پڑھنے دی جائے گی ، نہ ان کے مدارس کو بخشا جائے گا، نہ وہ اجتماع کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس ’’دھرتی ماتا‘‘ پر جینے کا حق ہے۔

(مولانا عاصم عمر حفظہ اللہ کے مضمون سے اقتباس)
 
Top